محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,783
- پوائنٹ
- 1,069
امت مسلمہ ، اسرائیل اور فلسطین ۔۔۔
(اول )
طاقت اور سازش کے اس کھیل کو طاقت اور جذبے سے ہی شکست دی جا سکتی تھی لیکن افسوس امت دونوں سے محروم رہی ۔۔۔اسرائیل کہ کبھی دنیا کے نقشے پر محض اک نقطہ تھا ، آج بڑھتے بڑھتے گریٹر اسرائیل کی باتیں کر رہا ہے ۔۔امارات نے اگلے روز اسے تسلیم کیا تو حسب معمول شدید بحث شروع ہو گئی ۔۔
لیکن کوئی اس مسلسل ذلت کی بنیادی وجہ پر غور نہیں کرتا ۔۔اس کی بنیادی وجہ داخلی کمزوری ہے ، تفرقوں میں بٹا عالم اسلام اور تباہ حال عالم عرب ہے ۔۔۔
اس بات پر کوئی غور نہیں کرتا کہ مغرب نے کیونکر دنیا پر حاکمیت حاصل کی اور کیونکر اس نے عالم عرب کے بیچ میں اسرائیل کو لا آباد کیا ؟؟
میں سمجھتا ہوں اس کی بنیادی وجہ طاقت کے توازن میں فرق ہے ۔۔۔بھلے آپ ہزار فلسفے بگھاریں لیکن سب سے بڑی حقیقت اسلحے کی طاقت ہوتی ہے ۔۔۔اور اس کے ساتھ مضبوط معیشت ۔۔۔عالم عرب کے پاس مضبوط معیشت تو تھی لیکن حقیقی طاقت سے محروم اور کمزور قیادت اور قوم ۔۔۔
یہ طاقت کیوں نہ حاصل ہو پائی ؟
اصل سوال یہ ہے ۔۔۔۔۔اس کا جواب ہے کمزور اور خوابوں میں رہنے والی کمزور قیادتیں ۔۔۔
مسلمانوں کا عمومی مزاج بھی تاریخ میں زندہ رہنے کا بن چکا ہے ۔۔پدرم سلطان بود ۔۔۔نے ہر طرح سے تباہی مچا رکھی ہے ۔
دوسرا حال کو نظر انداز کر کے کسی جغادری اور ہیرو کے انتظار میں رہنے کے مزاج نے بھی امت کو تباہی کنارے لا کھڑا کیا ہے ۔۔ایسے ہی خلافت کے خوابوں نے بھی بہت نقصان پہنچایا ہے ۔۔کوئی نہیں پوچھتا کہ اگر خلافت کا قیام ہی عظمت رفتہ کے حصول کی ضمانت ہوتا تو عثمانی خلافت کے ہاتھوں القدس کیوں نکلتا ۔۔۔
بلکہ کہا تو یہ جائے گا کہ اصلی نااہل وہ تھے جن نے القدس پر اپنی نااہلی کے سبب قبضہ کروا دیا ۔۔مجھے تو بسا اوقات حیرت ہوتی ہے کہ آخری دور کے نااہل عثمانی حکمرانوں کو بھی لوگ ہیرو سمجھتے ہیں ۔۔۔۔جو القدس کو نہ بچا سکے آپ ان کی رجعت ثانیہ کے خواب دیکھتے ہیں ۔۔۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اسرائیل نے اپنی وسعت ،عرب سرزمین پر قبضہ ، اور استحکام اسلحے اور طاقت کے زور پر حاصل کیا ہے ۔۔۔
اس کا مقابلہ عالم اسلام اس سے بڑھی ہوئی طاقت سے ہی کر سکتا ہے ۔۔اگر آپ کے پاس یہ مطلوبہ طاقت نہیں تو کیونکر آپ اسے شکست دینے کا خواب دیکھ سکتے ہیں ؟ ۔۔۔۔
اور امت کی بدقسمتی صرف قوت و طاقت کی کمزوری ہی نہیں بلکہ داخلی انتشار بھی ہے ۔۔۔ایسا انتشار جس نے امت کی ہوا اکھاڑ کے رکھ دی ہے ۔۔۔ایک طرف ترکی ہے جو سعودی عرب کے مقابلے میں نیا بلاک بنانے کی کوشش میں ہے ۔۔دوسری طرف اپنی بقا کی جدوجہد کرتا سعودی عرب ہے کہ جس کی حالت ہر گزرتے دن کے ساتھ کمزور ہو رہی ہے ۔۔
سعودی عرب داخلی کمزوریوں کے سبب ڈھلوان کے سفر پر ہے ۔۔ترکی بظاہر اوپر جا رہا ہے لیکن تاریخ کے اوراق سے ہم نے جو سیکھا ہے وہ یہ ہے کہ افتراق کی بنیاد پر جو عمارت بنائی جائے گی وہ موسم کی پہلی بارش سے ڈھے جائے گی ۔۔۔
عالم اسلام کی بقا باہمی اتحاد میں ہی ہے ۔۔۔ہم جانتے ہیں کہ ترک اور عرب اب کبھی اکٹھے نہیں ہو سکتے ۔۔۔اور یہ بھی نوشتہ دیوار ہے کہ کم از کم عربوں کی موجودہ قیادت ، ترک ، مصری اور دیگر مل کے بھی اسرائیل کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔۔۔۔۔۔کیوں ؟
میں اتنے یقین سے کیوں کہہ رہا ہوں ۔۔۔۔اگلی تحریر میں عرض کرتا ہوں