یزید کے بارے میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اس کی حکومت ایک صالح نظام حکومت تھی اور چند سبائیوں نے اس حکومت کے خلاف سازشیں کی اور بعد میں تاریخی روایات گھڑ کر اس کو ظالم اور عیاش حکمران بنا دیا کیا واقعی حقیقت ایسی ہی ہے جو لوگ اس بات کو غلط مانتے ہیں یزید نہ عیاش تھا اور نہ شرابی اور نہ اس کی حکومت جبر و ظلم کی حکومت تھی وہ خود بھی اس کو نیک ثابت کرنے کے لئے انہی تاریخی روایات کا سہارا لیتے ہے میری نظر میں یہ منصفانہ موقف نہیں کیونکہ اپ جس کو یہ کہہ کر جھٹلا رہے ہیں یہ سبائی روایات ہیں پھر اسی سبائیوں کی گھڑی ہوئی تاریخ کی طرف دوڑ کر اس میں سے اپنے مطلب کی وہ روایات لے لیتے ہیں جو اس کے حق میں ہیں جبکہ ان روایات کا حال من گھڑت نہ ہو مگر کمزور ہے جس سے استدلال صرف وہی لوگ کرتے ہیں جو یزید کے حق میں ہے ورنہ ان روایات کا حال بھی زیادہ قابل اعتماد نہیں ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ پھر کیا کیا جائے اس مسئلہ کو کیسے سمجھا جائے کہ آیا یزید ظالم تھا یا نیک تھا کیا وہ ایک صالح نظام حکومت چلا رہا تھا جس کو کسی درجہ میں خلافت راشدہ سے تعبیر کیا جا سکتا ہےیا اس کی حکومت ایک ظالم کی حکومت تھی جس میں دین کو الٹ پلٹ کے رکھ دیا گیا اور ایسا خوف تھا کہ کوئی بھی اپنی زبان کھولنے سے قاصر تھا اور لوگوں کو اس قدر بے بس کردیا گیا تھا کہ صبر ہی کو لازم سمجھ لیا گیا تھا۔
اس کو سمجھنے کے لیے ان تاریخی روایات کی کوئی ضرورت نہیں ہے الحمداللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان اور کتب احادیث میں موجود روایات اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال کافی ہیں جو انشاء اللہ جلد بیان کروں گا وتوفیق باللہ۔
میری امت کی ہلاکت قریش کے بیوقف چھوکروں کے ہاتھوں
قرآن میں اللہ نے ایک واضح اصول بیان کیا ہے
فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا(سورہ مریم 58)
اس میں واضح ہے کہ انبیاء کے خلفاء کے بعد ایسے لوگ پیدا ہوتے ہیں جو نماز ضائع کرتے ہیں اور خواہشات کی پیروی کرتے ہیں اور اس امت میں یہ لوگ کب پیدا ہوئے
یہ حدیث میں موجود ہے۔
يَكُونُ خَلْفٌ مِنْ بَعْدِ سِتِّينَ سَنَةً أَضَاعُوا الصَّلَاةَ، وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ، فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا(مسند احمد رقم11340)
ساٹھ سال بعد نمازیں ضائع ہوں گی اور خواہشات کی پیروی ہو گی۔
بعض لوگ اس پر یہ کہتے ہیں کہ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ہجری تاریخ نہیں تھی اس لئے یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وفات کے بعد کی بات ہے خاص طور پر یہ موقف شیخ سنابلی صاحب نے دیا ہے جو قطعی غلط ہے کیونکہ اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا "من بعدی" صرف یہ فرمایا کہ ساٹھ سال بعد اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کم از کم حجرت والے سال ایمان لائے ہیں چنانچہ بخاری میں موجود ہے کہ
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ مُخْتَارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ الحَذَّاءُ، عَنْ عِكْرِمَةَ، قَالَ لِي ابْنُ عَبَّاسٍ وَلِابْنِهِ عَلِيٍّ: انْطَلِقَا إِلَى أَبِي سَعِيدٍ فَاسْمَعَا مِنْ حَدِيثِهِ، فَانْطَلَقْنَا فَإِذَا هُوَ فِي حَائِطٍ يُصْلِحُهُ، فَأَخَذَ رِدَاءَهُ فَاحْتَبَى، ثُمَّ أَنْشَأَ يُحَدِّثُنَا حَتَّى أَتَى ذِكْرُ بِنَاءِ المَسْجِدِ، فَقَالَ: كُنَّا نَحْمِلُ لَبِنَةً لَبِنَةً وَعَمَّارٌ لَبِنَتَيْنِ لَبِنَتَيْنِ، فَرَآهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَنْفُضُ التُّرَابَ عَنْهُ، وَيَقُولُ: «وَيْحَ عَمَّارٍ، تَقْتُلُهُ الفِئَةُ البَاغِيَةُ، يَدْعُوهُمْ إِلَى الجَنَّةِ، وَيَدْعُونَهُ إِلَى النَّارِ» قَالَ: يَقُولُ عَمَّارٌ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الفِتَنِ "
(صحیح بخاری کتاب الصلاہ باب التعاون فی بناء المسجد رقم448)
تو اس روایت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ حدیث ھجرت کے بعد سنی ہو گی اور اس کے مطابق 60 سال وہی بنتے ہیں جب یزید نے اپنی امارت سنبھالی تھی اور اس کے قرائن بھی موجود ہیں کہ نمازیں کیسی ضائع ہوئی ہیں چنانچہ صحیح مسلم میں موجود ہے کہ
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الصَّامِتِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا أَبَا ذَرٍّ إِنَّهُ سَيَكُونُ بَعْدِي أُمَرَاءُ يُمِيتُونَ الصَّلَاةَ، فَصَلِّ الصَّلَاةَ لِوَقْتِهَا، فَإِنْ صَلَّيْتَ لِوَقْتِهَا كَانَتْ لَكَ نَافِلَةً، وَإِلَّا كُنْتَ قَدْ أَحْرَزْتَ صَلَاتَكَ(صحیح مسلم رقم648)
اس حدیث سے بعض لوگوں کی وہ بات بھی غلط ہوتی ہے کہ یزید نمازی اور صلاہ کا پابند تھا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ حکمران نماز ضائع کریں گے اور کب ہوں گی یہ پچھلی حدیث میں موجود ہے اور اس کی تائید شارح امام نووی نے بھی کی ہے کہ یہ نمازیں ضائع ہونا کب شروع ہوئی ہیں چنانچہ شرح مسلم میں فرماتے ہیں۔
إِنَّهُ سَيَكُونُ بَعْدِي أُمَرَاءُ يُمِيتُونَ الصَّلَاةَ فِيهِ دَلِيلٌ مِنْ دَلَائِلِ النُّبُوَّةِ وَقَدْ وَقَعَ هَذَا فِي زَمَنِ بَنِي أُمَيَّة
تم پر امراء (حکمران) ہو گے جو نمازیں ضائع کرے گے اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دلائل نبوت کی دلیل ہےاور یہ بنو امیہ کے زمانے میں ہوتا تھا۔
اب یہ تو امام نووی نے لکھا ہے اس لیے شاید بعض اس پر اعتراض بھی کر سکتے ہیں مگر ہم اس کی بھی دلیل صحیح مسلم کی روایت سے ہی دیں پڑھ لیں۔
وَحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ الْبَرَّاءِ، قَالَ: أَخَّرَ ابْنُ زِيَادٍ الصَّلَاةَ، فَجَاءَنِي عَبْدُ اللهِ بْنُ الصَّامِتِ، فَأَلْقَيْتُ لَهُ كُرْسِيًّا، فَجَلَسَ عَلَيْهِ، فَذَكَرْتُ لَهُ صَنِيعَ ابْنُ زِيَادٍ، فَعَضَّ عَلَى شَفَتِهِ، وَضَرَبَ فَخِذِي، وَقَالَ: إِنِّي سَأَلْتُ أَبَا ذَرٍّ كَمَا سَأَلْتَنِي، فَضَرَبَ فَخِذِي كَمَا ضَرَبْتُ فَخِذَكَ، وَقَالَ: إِنِّي سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا سَأَلْتَنِي، فَضَرَبَ فَخِذِي كَمَا ضَرَبْتُ فَخِذَكَ، وَقَالَ: «صَلِّ الصَّلَاةَ لِوَقْتِهَا، فَإِنْ أَدْرَكَتْكَ الصَّلَاةُ مَعَهُمْ فَصَلِّ، وَلَا تَقُلْ إِنِّي قَدْ صَلَّيْتُ فَلَا أُصَلِّي
یہ کوفہ میں یزید کا گورنر تھا اور نماز لیٹ کرتا تھا
تو حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق 60 سال بعد نمازیں ضائع ہوگی اوریہ حکمران کریں گے اور 60 ہجری میں حکمران کون تھا یہ سب جانتے ہیں۔
اخر میں جب یہ ثابت ہو چکا کہ 60 سال بعد نمازیں ضائع ہو گی تو کسی تابعی کی گواہی سے کیا پوری دنیا بھی گواہی دے دے تب بھی وہ نمازیں ضائع کرنے والا ہی ہو گا اور تابعی ابن حنفیہ کی گواہی جو یزید کے چاہنے والے پیش کرتے ہیں وہ اس کمزور روایت کے بل پر فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں جھٹلا سکتے ہین تو ان احادیث صحابہ کرام کے اثار کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یزید نماز کا ضائع کرنے والا تھا اور کوئی بھی کمزور کیا صحیح ترین تاریخی روایت فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیت العکبوت ہے۔ واللہ اعلم