abdullah786
رکن
- شمولیت
- نومبر 24، 2015
- پیغامات
- 428
- ری ایکشن اسکور
- 25
- پوائنٹ
- 46
گذشتہ سے پیوستہ۔
یزید کے دور کے ضمن میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کے حوالے سے تو بات ہو گئی کہ کس طرح نماز ضائع کی جائیں گی اور شھوات کی پیروی ہے گی اس حوالےسے ہم احادیث صحیحہ سے نماز میں تاخیر اور زکوۃ میں خرد برد کے بارے میں بیان کر چکے ہیں اب اس حدیث کے تحت بیان کرنا ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی ہلاکت قریش کے بیوقوف لڑکوں کے ہاتھوں ہونے کا بیان کیا ہے چنانچہ بخاری کی حدیث ہے۔
يَقُولُ هَلَكَةُ أُمَّتِي عَلَى يَدَيْ غِلْمَةٍ مِنْ قُرَيْشٍ(صحیح بخاری کتاب الفتن رقم 7058)
میری امت کی ھلاکت قریش کے چھوکروں کے ہاتھوں ہو گی۔
اور امام بخاری نے اس حدیث پر یہ باب قائم کیا ہے
چنانچہ مصنف ابن ابی شیبہ میں موجود ہے
أن أبا هريرة كان يمشي في السوق ويقول : اللهم لا تدركني سنة ستين ولا إمارة الصبيان(مصنف ابن ابی شیبہ)
ابوھریرۃ بازار میں کہتے پھرتے تھے اے اللہ مجھے 60 ہجری نہ دیکھانا اورنہ بچوں کی امارۃ۔
اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ کو یہ معلوم تھا کہ امارۃ سفھاء کب آئے گی مگر امارۃ الصبیان کا نہیں معلوم تھا اس لئے اس سے پناہ مانگتے تھے اور ساٹھ ہجری کے بعد امارۃ اسفھاء آنی تھی اس لئے اس سے پناہ مانگتے تھے یا موت مانگتے تھے۔جیسا ہم نے اوپر نقل کیا ہے بعض ابوھریرۃ کی دعا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث جس کو ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے ان کی اس دعا سے مختلف شمار کرتے ہیں اور اس حدیث سے اس 60 ہجری کو 80 ہجری میں بدل دیتے ہیں جبکہ ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ کی دعا اور وہ حدیث ایک ہی مفہوم ثابت کرتی ہے چنانچہ پہلے وہ حدیث پیش کیے دیتے ہیں۔
تعوذوا بالله من رأس السبعين وإمارة الصبيان(مسند احمد رقم 8302)
اس میں انہی دو باتوں کا ذکر ہے جس سے ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ پناہ مانگتے تھے اب ہم دونوں اپ کے سامنے رکھتے ہیں
اس میں صاف موجود ہے کہ امارۃ السفھاء سے قبل موت مانگی جائے اور ایک روایت ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے مگر اس کی سند میں ایک مجھہول راوی ہے مگر چونکہ اس کی تائید میں ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ کی دعا موجود ہے تو اس کا امکان یقینی ہے کہ ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ کو یہ بات معلوم تھی کہ امارۃ السفھاء سے قبل موت مانگنی چاہیئے۔
عبد الرزاق عن ابن جريج قال : حدثني غير واحد عن أبي هريرة أنه سمع رجلا ذكروا أنه الحكم الغفاري أنه قال : يا طاعون ! خذني الليل ، قال أبو هريرة : ما سمعت يا أبا فلان ! رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم لا يدعو أحدكم بالموت فإنه لا يدري على أي شئ هو منه قال : بلى ولكن سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يذكر ستا ، أخشى أن دركني بعضهن ، قال : بيع الحكم ، وإضاعة الدم ، وإمارة السفهاء ، وكثرة الشرط ، وقطيعة الرحم ، وناس يتخذون القرآن مزامير يتغنون به.
مصنف عبد الرزاق الجزء 2 / 4186)
ان تمام روایت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امارۃ السفھاء سے قبل موت مانگنے چاہیے اور وہ امارۃ السفھاء 60 ھجری کے بعد تھی جس سے قبل ابو ھریرۃ موت کی دعا کیا کرتے تھے اور جس کا کسی کو انکار نہیں ہے کہ یہ 60 ھجری یزید کا دور تھا تو ان احادیث کے مطابق قریش کا وہ سب سے پہلا بیوقوف خطرناک چھوکرا یزید ہے جیسا آئمہ نے بھی نقل کیا ہے۔
ساٹھ ھجری پر اقوال آئمہ
حافظ ابن حجر:
حافظ صاحب اس پر یوں تبصرہ کرتے ہیں
في رواية ابن أبي شيبة" أن أبا هريرة كان يمشي في السوق ويقول : اللهم لا تدركني سنة ستين ولا إمارة الصبيان " وفي هذا إشارة إلى أن أول الأغيلمة كان في سنة ستين وهو كذلك فإن يزيد بن معاوية استخلف فيها وبقي إلى سنة أربع وستين فمات ثم ولي ولده معاوية ومات بعد أشهر ، وهذه الرواية تخصص روايةأبي زرعة عن أبي هريرةالماضية في علامات النبوة بلفظ : يهلك الناس هذا الحي من قريش " وإن المراد بعض قريش وهم الأحداث منهم لا كلهم ، والمراد أنهم يهلكون الناس بسبب طلبهم الملك والقتال لأجله فتفسد أحوال الناس ويكثر الخبط بتوالي الفتن ، وقد وقع الأمر كما أخبر صلى الله عليه وسلم (فتح الباری رقم 6649)
اس میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ کی اسی دعا کا ذکر کیا ہے اور اس کے بعد فرماتے ہیں کہ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ پہلا چھوکرا 60 ھجری میں ہو گا جیسا کہ یزید بن معاویہ نے 4 سال خلافت سنبھالی اور مر گیا اور ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ یہ روایت تخصص کرتی ہے اس روایت کی جو علامات النبوی میں سے ہے کہ لو گوں کی ھلاکت قریش سے ہوگی" اور اس سے مراد بعض قریش تمام نہیں ہے اور یھلکون الناس سے مراد ہے کہ وہ حکومت کے طلب کرنے میں لوگوں کا قتل کریں گے اور فتن اور فساد برپا کریں گےاور یہ سب ہوا جیسا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔
امام الابی المالکی صحیح مسلم کی شرح میں یہ فرماتے ہیں کہ
قریش کے ان چھوکروں میں یزید بن معاویہ اور ابن زیاد وغیرہ جو انہوں نے کیا یعنی اہل بیت کا قتل خیار مھاجرین و انصار کا قتل ہیں۔(تفسی الکمال الکمال الملمہ تحت حدیث 2917)
امام شوکانی تعوذوا بالله من رأس السبعين وإمارة الصبيان کے تحت فرماتے ہیں
بالتعوذ من راس السبعین لعلہ لما ظھر فیھا الفتن العظیمۃ، منھا قتل الحسین رضی اللہ عنہ، و وقعۃ الحرۃ وغیرہ ذلک مما وقع فی عشر السبعین۔(نیل الاوطار کتاب الفتن رقم 3929)
اس سے مراد وہ فتن عظیم ہو سکتے ہیں جیسا حسین رضی اللہ عنہ کا قتل اور واقعہ حرہ وغیرہ جو ستر میں پیش آئے۔
امام شوکانی کی تصریح سے بعض لوگوں کی یہ غلط فہمی بھی دور ہوجانی چاہیئے کہ یہ اس ستر ہجری کو وفات کے بعد گنا جاتا ہے جبکہ امام شوکانی نے اس ستر کو ہجرت کے بعد سے گنا ہے۔
آخری اشکال یہ اٹھایا جاتا ہے کہ یزید تو حکومت سنبھالتے ہوئے چھوکرے نہیں تھے بلکہ ان کی عمر اس وقت اگر عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں پیدائش سے مانا جائے تو تقریبا 36 سال بنتی ہے مگر اس پر ہم فقط اتنا کہیں گے دنیا کی طلب اور اقتدار کی حوس رکھنے والا دنیا کی لذتوں میں گم آخرت کو بھولا بیٹھنے والا چاہے کتنی ہی عمر پا لے وہ نادان اور بیوقوف ہی رہے گا کیونکہ وہ اس ہمیشہ کی زندگی سے انجان ہے اس لئے ابن ھجر نے بالکل صحیح لکھا تھا کہ اقتدار کے لئے قتل و غارت گری اور فساد برپا کریں گےیعنی طالب دنیا ہوں گے اور اخرت کا ذرا برابر بھی خوف رکھنے والا طالب دنیا کو نادان اور بیوقوف ہی سمجھتا ہے ۔
اب جبکہ الحمد اللہ یہ ثابت ہو چکا کہ امارۃ السفھاء کا پہلا حکمران یزید ہے تو اب یہ بھی بتا دینا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اس امارۃ السفھاء کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا ہے کہ امارۃ کیسی ہوگئی یہ حدیث ملاحظہ کریں۔
- حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا عبد الرزاق أنا معمر عن بن خثيم عن عبد الرحمن بن ثابت عن جابر بن عبد الله Y أن النبي صلى الله عليه و سلم قال لكعب بن عجرة أعاذك الله من إمارة السفهاء قال وما إمارة السفهاء قال أمراء يكونون بعدي لا يقتدون بهديي ولا يستنون بسنتي فمن صدقهم بكذبهم وأعانهم على ظلمهم فأولئك ليسوا مني ولست منهم ولا يردوا على حوضي ومن لم يصدقهم بكذبهم ولم يعنهم على ظلمهم فأولئك مني وأنا منهم (مسند احمد رقم 14441)اسنادہ قوی علی شرط مسلم
اس میں صاف موجود ہے کہ امارۃ السفھاء ایسے حکمران ہوں گے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر نہیں ہوں گے اور نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی ھدایت ہر ہوں گے ۔
اور ہدایت سے ہٹ کر صرف گمراہی ہے اور کچھ نہیں ہے۔ اللہ سب کو ہدایت دے
میرا مضمون مکمل ہواالحمد اللہ۔ اب جو اس پر اعتراض یا تبصرہ کرنا چاہتا ہے وہ کر سکتا ہے۔
یزید کے دور کے ضمن میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کے حوالے سے تو بات ہو گئی کہ کس طرح نماز ضائع کی جائیں گی اور شھوات کی پیروی ہے گی اس حوالےسے ہم احادیث صحیحہ سے نماز میں تاخیر اور زکوۃ میں خرد برد کے بارے میں بیان کر چکے ہیں اب اس حدیث کے تحت بیان کرنا ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی ہلاکت قریش کے بیوقوف لڑکوں کے ہاتھوں ہونے کا بیان کیا ہے چنانچہ بخاری کی حدیث ہے۔
يَقُولُ هَلَكَةُ أُمَّتِي عَلَى يَدَيْ غِلْمَةٍ مِنْ قُرَيْشٍ(صحیح بخاری کتاب الفتن رقم 7058)
میری امت کی ھلاکت قریش کے چھوکروں کے ہاتھوں ہو گی۔
اور امام بخاری نے اس حدیث پر یہ باب قائم کیا ہے
بَاب قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلَاكُ أُمَّتِي عَلَى يَدَيْ أُغَيْلِمَةٍ سُفَهَاءَ
چنانچہ مسند احمد میں یہی حدیث موجود ہے جس پر امام بخاری نے باب قائم کیا ہے
سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم أبا القاسم الصادق المصدوق يقول هلاك أمتي على رءوس غلمة أمراء سفهاء من قريش(مسند احمد رقم 1841)
میری امت کی ھلاکت قریش کے بیوقوف حکمران چھوکرے کے ہاتھوں ہو گی۔
اس حدیث کو بیان کرنے والے ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ دو باتوں سے پناھ مانگتے تھے۔
چنانچہ امام بخاری نے اپنی الادب المفرد میں نقل کیا ہے
حدثنا آدم بن أبى إياس قال حدثنا بن أبى ذئب قال حدثنا سعيد بن سمعان قال Y سمعت أبا هريرة يتعوذ من إمارة الصبيان والسفهاء
(الادب المفرد رقم 66)
ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ امارۃ الصبیان اور السفھاء سے اللہ کی پناہ طلب کرتے تھے۔
اور ایک روایت میں ساٹھ ہجری اور امارۃ الصبیان سے پناہ طلب کرنے کا بھی ذکر ہےچنانچہ مسند احمد میں یہی حدیث موجود ہے جس پر امام بخاری نے باب قائم کیا ہے
سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم أبا القاسم الصادق المصدوق يقول هلاك أمتي على رءوس غلمة أمراء سفهاء من قريش(مسند احمد رقم 1841)
میری امت کی ھلاکت قریش کے بیوقوف حکمران چھوکرے کے ہاتھوں ہو گی۔
اس حدیث کو بیان کرنے والے ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ دو باتوں سے پناھ مانگتے تھے۔
چنانچہ امام بخاری نے اپنی الادب المفرد میں نقل کیا ہے
حدثنا آدم بن أبى إياس قال حدثنا بن أبى ذئب قال حدثنا سعيد بن سمعان قال Y سمعت أبا هريرة يتعوذ من إمارة الصبيان والسفهاء
(الادب المفرد رقم 66)
ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ امارۃ الصبیان اور السفھاء سے اللہ کی پناہ طلب کرتے تھے۔
چنانچہ مصنف ابن ابی شیبہ میں موجود ہے
أن أبا هريرة كان يمشي في السوق ويقول : اللهم لا تدركني سنة ستين ولا إمارة الصبيان(مصنف ابن ابی شیبہ)
ابوھریرۃ بازار میں کہتے پھرتے تھے اے اللہ مجھے 60 ہجری نہ دیکھانا اورنہ بچوں کی امارۃ۔
اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ کو یہ معلوم تھا کہ امارۃ سفھاء کب آئے گی مگر امارۃ الصبیان کا نہیں معلوم تھا اس لئے اس سے پناہ مانگتے تھے اور ساٹھ ہجری کے بعد امارۃ اسفھاء آنی تھی اس لئے اس سے پناہ مانگتے تھے یا موت مانگتے تھے۔جیسا ہم نے اوپر نقل کیا ہے بعض ابوھریرۃ کی دعا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث جس کو ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے ان کی اس دعا سے مختلف شمار کرتے ہیں اور اس حدیث سے اس 60 ہجری کو 80 ہجری میں بدل دیتے ہیں جبکہ ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ کی دعا اور وہ حدیث ایک ہی مفہوم ثابت کرتی ہے چنانچہ پہلے وہ حدیث پیش کیے دیتے ہیں۔
تعوذوا بالله من رأس السبعين وإمارة الصبيان(مسند احمد رقم 8302)
اس میں انہی دو باتوں کا ذکر ہے جس سے ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ پناہ مانگتے تھے اب ہم دونوں اپ کے سامنے رکھتے ہیں
لا تدركني سنة ستين ولا إمارة الصبيان
تعوذوا بالله من رأس السبعين وإمارة الصبيان
اس میں ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ 60 ہجری سے قبل موت مانگتے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پناہ کا حکم دیا ہے حدیث میں ستر کے الفاظ ہے اور ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ ساٹھ سے قبل موت مانگ رہے ہیں اس سے بعض یہی کہتے ہیں کہ کسی زمانے سے قبل موت مانگنا الگ بات ہے اور کسی زمانے سے پناہ مانگنا الگ بات ہے اور اس ستر کو وہ وفات کے سال سے گنتے ہیں کیونکہ ان کے بقول نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دور میں ہجری سال نہیں تھے اس لیے یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے گنا جائے گا جیسا شیخ سنابلی صاحب نے اپنی کتاب "یزید بن معاویہ پر الزامات کا جائزہ" میں لکھا ہے مگر اس کی کوئی دلیل پیش نہیں کی ہے کہ ایساکیوں ہے جبکہ بعض روایات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات کے بعد کے حالات کو من بعدی(میرے بعد) سے واضح کرتے ہیں مگر اس روایت میں ایسا بھی نہیں ہے اور دوسری بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ہجری دور نہیں تھا تو کیا ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی نہیں تھا اور کیا وہ یہ حساب بھی نہ لگا سکے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ستر سے مراد کون سا دور بنے گاحدیث کا مسلمہ اصول ہے کہ روای اپنی روایت کو سب سے بہتر جانتا ہے اور ان دونوں روایات یعنی ستر سے پناہ مانگنا اور ساٹھ سے پناہ مانگنا ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہیں اس لئے ممکن ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ کو اس دور کے بارے میں بتایا ہو اور امکان بھی لگتا ہے جیسا ہم ثابت کریں گے کہ کسی فتنہ سے قبل موت مانگنا اور خصوصا امارۃ السفھاء سے قبل موت مانگنے کی تلقین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے ثابت ہے۔
چنانچہ ابن ماجہ میں حدیث ہے۔
قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ : لَتُنْتَقَوُنَّ كَمَا يُنْتَقَى التَّمْرُ مِنْ أَغْفَالِهِ ، فَلْيَذْهَبَنَّ خِيَارُكُمْ ، وَلَيَبْقَيَنَّ شِرَارُكُمْ ، فَمُوتُوا إِنِ اسْتَطَعْتُمْ(سنن ابن ماجہ رقم 4038)
اس میں جب شریر حکمران ہوں گے ان کے شر سے پناہ کے لئے فرمایا کہ اگر مر سکتے ہو تو مرجانا۔
یہ ایک عام دلیل ہے کہ اگر شر میں ایمان کا خطرہ ہو تو مرنے کی دعا کی جاسکتی ہے اب ہم اپ کو خاص دلیل پیش کرتے ہیں جس میں واضح ہے کہ امارۃ السفھاء سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈرایا ہے اور اس سے قبل موت مانگنے کے بارے میں بھی فرمایا ہے چنانچہ دوںوں روایت ترتیب وار پیش ہیں۔
اخاف علیکم ستا ، امارۃ السفھاء(صحیح جامع الصغیر رقم 216)
میں تمہیں چھ چیزوں سے ڈراتا ہوں۔ امارۃ السفھاء۔
اس میں باقی پانچ کے نام ہم نے درج نہیں کیے ہیں۔
اس میں صاف طور پر امارۃ السفھاء سے ڈرایا جا رہا ہے اور دوسری روایت میں اس سے قبل موت مانگنے کا ذکر ہے۔
حدثنا عبد الله قال حدثني أبي قال ثنا وكيع قال ثنا النهاس بن قهم أبو الخطاب عن شداد أبي عمار الشامي قال قال عوف بن مالك يا طاعون خذني إليك قال فقالوا أليس قد سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول ما عمر المسلم كان خيرا له قال بلى ولكني أخاف ستا إمارة السفهاء وبيع الحكم وكثرة الشرط وقطيعة الرحم ونشوا ينشؤن يتخذون القرآن مزامير وسفك الدم(رقم 24016)
اس میں صاف موجود ہے کہ مسلمان کی عمر خیر ہے مگر 6 باتوں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈرایا ہے یعنی ان 6 باتوں سے قبل موت مانگ سکتے ہیں ان میں سے ایک امارۃ السفھاء ہے اس میں اگرچہ نھاس بن قھم ضعیف راوی ہے مگر یہ حدیث دیگر طرق و شواہد سے حسن ضرور ہے اس کو شعیب الاروط اور البانی صاحب نے صحیح لغیرہ کہا ہے جیسا کہ مسند احمد کی تخریج میں شیخ شعیب نے اور سلسلہ احادیث صحیحہ میں البانی صاحب نے صحیح کہا ہے(مسند احمد تخریج شیخ شعیب الاروط، سلسلہ احادیث صحیحہ تحت حدیث 979)
اور اسی طرح ایک اور حدیث میں موجود ہے کہ
( بَادِرُوا بِالْمَوْتِ سِتًّا : إِمْرَةَ السُّفَهَاءِ ، وَكَثْرَةَ الشَّرْطِ ، وَبَيْعَ الْحُكْمِ ، وَاسْتِخْفَافًا بِالدَّمِ ، وَقَطِيعَةَ الرَّحِمِ ، وَنَشْئًا يَتَّخِذُونَ الْقُرْآنَ مَزَامِيرَ يُقَدِّمُونَهُ يُغَنِّيهِمْ وَإِنْ كَانَ أَقَلَّ مِنْهُمْ فِقْهًا
رواه أحمد (15462) وقال الزين في المسند : إسناده صحيح ، ورواه الطبراني بلفظ "بادروا بالأعمال" وصححه الألباني في صحيح الجامع (2812) ، وانظر الصحيحة (979)تعوذوا بالله من رأس السبعين وإمارة الصبيان
اس میں ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ 60 ہجری سے قبل موت مانگتے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پناہ کا حکم دیا ہے حدیث میں ستر کے الفاظ ہے اور ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ ساٹھ سے قبل موت مانگ رہے ہیں اس سے بعض یہی کہتے ہیں کہ کسی زمانے سے قبل موت مانگنا الگ بات ہے اور کسی زمانے سے پناہ مانگنا الگ بات ہے اور اس ستر کو وہ وفات کے سال سے گنتے ہیں کیونکہ ان کے بقول نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دور میں ہجری سال نہیں تھے اس لیے یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے گنا جائے گا جیسا شیخ سنابلی صاحب نے اپنی کتاب "یزید بن معاویہ پر الزامات کا جائزہ" میں لکھا ہے مگر اس کی کوئی دلیل پیش نہیں کی ہے کہ ایساکیوں ہے جبکہ بعض روایات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات کے بعد کے حالات کو من بعدی(میرے بعد) سے واضح کرتے ہیں مگر اس روایت میں ایسا بھی نہیں ہے اور دوسری بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ہجری دور نہیں تھا تو کیا ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی نہیں تھا اور کیا وہ یہ حساب بھی نہ لگا سکے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ستر سے مراد کون سا دور بنے گاحدیث کا مسلمہ اصول ہے کہ روای اپنی روایت کو سب سے بہتر جانتا ہے اور ان دونوں روایات یعنی ستر سے پناہ مانگنا اور ساٹھ سے پناہ مانگنا ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہیں اس لئے ممکن ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ کو اس دور کے بارے میں بتایا ہو اور امکان بھی لگتا ہے جیسا ہم ثابت کریں گے کہ کسی فتنہ سے قبل موت مانگنا اور خصوصا امارۃ السفھاء سے قبل موت مانگنے کی تلقین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے ثابت ہے۔
چنانچہ ابن ماجہ میں حدیث ہے۔
قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ : لَتُنْتَقَوُنَّ كَمَا يُنْتَقَى التَّمْرُ مِنْ أَغْفَالِهِ ، فَلْيَذْهَبَنَّ خِيَارُكُمْ ، وَلَيَبْقَيَنَّ شِرَارُكُمْ ، فَمُوتُوا إِنِ اسْتَطَعْتُمْ(سنن ابن ماجہ رقم 4038)
اس میں جب شریر حکمران ہوں گے ان کے شر سے پناہ کے لئے فرمایا کہ اگر مر سکتے ہو تو مرجانا۔
یہ ایک عام دلیل ہے کہ اگر شر میں ایمان کا خطرہ ہو تو مرنے کی دعا کی جاسکتی ہے اب ہم اپ کو خاص دلیل پیش کرتے ہیں جس میں واضح ہے کہ امارۃ السفھاء سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈرایا ہے اور اس سے قبل موت مانگنے کے بارے میں بھی فرمایا ہے چنانچہ دوںوں روایت ترتیب وار پیش ہیں۔
اخاف علیکم ستا ، امارۃ السفھاء(صحیح جامع الصغیر رقم 216)
میں تمہیں چھ چیزوں سے ڈراتا ہوں۔ امارۃ السفھاء۔
اس میں باقی پانچ کے نام ہم نے درج نہیں کیے ہیں۔
اس میں صاف طور پر امارۃ السفھاء سے ڈرایا جا رہا ہے اور دوسری روایت میں اس سے قبل موت مانگنے کا ذکر ہے۔
حدثنا عبد الله قال حدثني أبي قال ثنا وكيع قال ثنا النهاس بن قهم أبو الخطاب عن شداد أبي عمار الشامي قال قال عوف بن مالك يا طاعون خذني إليك قال فقالوا أليس قد سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول ما عمر المسلم كان خيرا له قال بلى ولكني أخاف ستا إمارة السفهاء وبيع الحكم وكثرة الشرط وقطيعة الرحم ونشوا ينشؤن يتخذون القرآن مزامير وسفك الدم(رقم 24016)
اس میں صاف موجود ہے کہ مسلمان کی عمر خیر ہے مگر 6 باتوں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈرایا ہے یعنی ان 6 باتوں سے قبل موت مانگ سکتے ہیں ان میں سے ایک امارۃ السفھاء ہے اس میں اگرچہ نھاس بن قھم ضعیف راوی ہے مگر یہ حدیث دیگر طرق و شواہد سے حسن ضرور ہے اس کو شعیب الاروط اور البانی صاحب نے صحیح لغیرہ کہا ہے جیسا کہ مسند احمد کی تخریج میں شیخ شعیب نے اور سلسلہ احادیث صحیحہ میں البانی صاحب نے صحیح کہا ہے(مسند احمد تخریج شیخ شعیب الاروط، سلسلہ احادیث صحیحہ تحت حدیث 979)
اور اسی طرح ایک اور حدیث میں موجود ہے کہ
( بَادِرُوا بِالْمَوْتِ سِتًّا : إِمْرَةَ السُّفَهَاءِ ، وَكَثْرَةَ الشَّرْطِ ، وَبَيْعَ الْحُكْمِ ، وَاسْتِخْفَافًا بِالدَّمِ ، وَقَطِيعَةَ الرَّحِمِ ، وَنَشْئًا يَتَّخِذُونَ الْقُرْآنَ مَزَامِيرَ يُقَدِّمُونَهُ يُغَنِّيهِمْ وَإِنْ كَانَ أَقَلَّ مِنْهُمْ فِقْهًا
اس میں صاف موجود ہے کہ امارۃ السفھاء سے قبل موت مانگی جائے اور ایک روایت ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے مگر اس کی سند میں ایک مجھہول راوی ہے مگر چونکہ اس کی تائید میں ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ کی دعا موجود ہے تو اس کا امکان یقینی ہے کہ ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ کو یہ بات معلوم تھی کہ امارۃ السفھاء سے قبل موت مانگنی چاہیئے۔
عبد الرزاق عن ابن جريج قال : حدثني غير واحد عن أبي هريرة أنه سمع رجلا ذكروا أنه الحكم الغفاري أنه قال : يا طاعون ! خذني الليل ، قال أبو هريرة : ما سمعت يا أبا فلان ! رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم لا يدعو أحدكم بالموت فإنه لا يدري على أي شئ هو منه قال : بلى ولكن سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يذكر ستا ، أخشى أن دركني بعضهن ، قال : بيع الحكم ، وإضاعة الدم ، وإمارة السفهاء ، وكثرة الشرط ، وقطيعة الرحم ، وناس يتخذون القرآن مزامير يتغنون به.
مصنف عبد الرزاق الجزء 2 / 4186)
ان تمام روایت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امارۃ السفھاء سے قبل موت مانگنے چاہیے اور وہ امارۃ السفھاء 60 ھجری کے بعد تھی جس سے قبل ابو ھریرۃ موت کی دعا کیا کرتے تھے اور جس کا کسی کو انکار نہیں ہے کہ یہ 60 ھجری یزید کا دور تھا تو ان احادیث کے مطابق قریش کا وہ سب سے پہلا بیوقوف خطرناک چھوکرا یزید ہے جیسا آئمہ نے بھی نقل کیا ہے۔
ساٹھ ھجری پر اقوال آئمہ
حافظ ابن حجر:
حافظ صاحب اس پر یوں تبصرہ کرتے ہیں
في رواية ابن أبي شيبة" أن أبا هريرة كان يمشي في السوق ويقول : اللهم لا تدركني سنة ستين ولا إمارة الصبيان " وفي هذا إشارة إلى أن أول الأغيلمة كان في سنة ستين وهو كذلك فإن يزيد بن معاوية استخلف فيها وبقي إلى سنة أربع وستين فمات ثم ولي ولده معاوية ومات بعد أشهر ، وهذه الرواية تخصص روايةأبي زرعة عن أبي هريرةالماضية في علامات النبوة بلفظ : يهلك الناس هذا الحي من قريش " وإن المراد بعض قريش وهم الأحداث منهم لا كلهم ، والمراد أنهم يهلكون الناس بسبب طلبهم الملك والقتال لأجله فتفسد أحوال الناس ويكثر الخبط بتوالي الفتن ، وقد وقع الأمر كما أخبر صلى الله عليه وسلم (فتح الباری رقم 6649)
اس میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ کی اسی دعا کا ذکر کیا ہے اور اس کے بعد فرماتے ہیں کہ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ پہلا چھوکرا 60 ھجری میں ہو گا جیسا کہ یزید بن معاویہ نے 4 سال خلافت سنبھالی اور مر گیا اور ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ یہ روایت تخصص کرتی ہے اس روایت کی جو علامات النبوی میں سے ہے کہ لو گوں کی ھلاکت قریش سے ہوگی" اور اس سے مراد بعض قریش تمام نہیں ہے اور یھلکون الناس سے مراد ہے کہ وہ حکومت کے طلب کرنے میں لوگوں کا قتل کریں گے اور فتن اور فساد برپا کریں گےاور یہ سب ہوا جیسا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔
امام الابی المالکی صحیح مسلم کی شرح میں یہ فرماتے ہیں کہ
قریش کے ان چھوکروں میں یزید بن معاویہ اور ابن زیاد وغیرہ جو انہوں نے کیا یعنی اہل بیت کا قتل خیار مھاجرین و انصار کا قتل ہیں۔(تفسی الکمال الکمال الملمہ تحت حدیث 2917)
امام شوکانی تعوذوا بالله من رأس السبعين وإمارة الصبيان کے تحت فرماتے ہیں
بالتعوذ من راس السبعین لعلہ لما ظھر فیھا الفتن العظیمۃ، منھا قتل الحسین رضی اللہ عنہ، و وقعۃ الحرۃ وغیرہ ذلک مما وقع فی عشر السبعین۔(نیل الاوطار کتاب الفتن رقم 3929)
اس سے مراد وہ فتن عظیم ہو سکتے ہیں جیسا حسین رضی اللہ عنہ کا قتل اور واقعہ حرہ وغیرہ جو ستر میں پیش آئے۔
امام شوکانی کی تصریح سے بعض لوگوں کی یہ غلط فہمی بھی دور ہوجانی چاہیئے کہ یہ اس ستر ہجری کو وفات کے بعد گنا جاتا ہے جبکہ امام شوکانی نے اس ستر کو ہجرت کے بعد سے گنا ہے۔
آخری اشکال یہ اٹھایا جاتا ہے کہ یزید تو حکومت سنبھالتے ہوئے چھوکرے نہیں تھے بلکہ ان کی عمر اس وقت اگر عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں پیدائش سے مانا جائے تو تقریبا 36 سال بنتی ہے مگر اس پر ہم فقط اتنا کہیں گے دنیا کی طلب اور اقتدار کی حوس رکھنے والا دنیا کی لذتوں میں گم آخرت کو بھولا بیٹھنے والا چاہے کتنی ہی عمر پا لے وہ نادان اور بیوقوف ہی رہے گا کیونکہ وہ اس ہمیشہ کی زندگی سے انجان ہے اس لئے ابن ھجر نے بالکل صحیح لکھا تھا کہ اقتدار کے لئے قتل و غارت گری اور فساد برپا کریں گےیعنی طالب دنیا ہوں گے اور اخرت کا ذرا برابر بھی خوف رکھنے والا طالب دنیا کو نادان اور بیوقوف ہی سمجھتا ہے ۔
اب جبکہ الحمد اللہ یہ ثابت ہو چکا کہ امارۃ السفھاء کا پہلا حکمران یزید ہے تو اب یہ بھی بتا دینا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اس امارۃ السفھاء کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا ہے کہ امارۃ کیسی ہوگئی یہ حدیث ملاحظہ کریں۔
- حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا عبد الرزاق أنا معمر عن بن خثيم عن عبد الرحمن بن ثابت عن جابر بن عبد الله Y أن النبي صلى الله عليه و سلم قال لكعب بن عجرة أعاذك الله من إمارة السفهاء قال وما إمارة السفهاء قال أمراء يكونون بعدي لا يقتدون بهديي ولا يستنون بسنتي فمن صدقهم بكذبهم وأعانهم على ظلمهم فأولئك ليسوا مني ولست منهم ولا يردوا على حوضي ومن لم يصدقهم بكذبهم ولم يعنهم على ظلمهم فأولئك مني وأنا منهم (مسند احمد رقم 14441)اسنادہ قوی علی شرط مسلم
اس میں صاف موجود ہے کہ امارۃ السفھاء ایسے حکمران ہوں گے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر نہیں ہوں گے اور نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی ھدایت ہر ہوں گے ۔
اور ہدایت سے ہٹ کر صرف گمراہی ہے اور کچھ نہیں ہے۔ اللہ سب کو ہدایت دے
میرا مضمون مکمل ہواالحمد اللہ۔ اب جو اس پر اعتراض یا تبصرہ کرنا چاہتا ہے وہ کر سکتا ہے۔