محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
وہ چار نومبر 2008 کی شب تھی۔ واشنگٹن، شکاگو، نیویارک، فلاڈیلفيا نہ جانے کتنے امریکی شہروں کی سڑکوں پر لوگ نکل آئے تھے۔
گاتے بجاتے، ایک دوسرے کو گلے لگاتے، ہر رنگ کے لیکن زیادہ تر سیاہ فام لوگ۔ امریکہ نے اس رات اپنا پہلا سياہ فام صدر متخب کیا تھا۔
تصویر کچھ ویسی ہی تھی جیسی رام چندر گہا نے اپنی کتاب میں اس وقت کی دہلی کی سڑکوں کی کھینچی ہے جب نہرو نے آزادی کے اعلان کے بعد اپنی مشہور ’ٹرسٹ وتد ڈیسٹني‘ والی تقریر کی تھی۔
پانچ نومبر کی دوپہر کو میں نارتھ كیرولائینا کے شارلٹ شہر میں تھا، یہ ان علاقوں میں سے ایک ہے جہاں سیاہ فام اور گوروں کے درمیان خلیج تاریخی رہی ہے۔ایک نائی کی دکان میں ایک سياہ فام خاتون بال کاٹ رہی تھیں، گا بھی رہی تھیں اور تھرک بھی رہی تھیں۔ میں نے پوچھا کہ آج امریکہ میں کیا نیا ہے؟
ان کا جواب تھا: گورا آدمی روز مجھے گڈ مارننگ کہتا تھا۔ آج اس نے جس طرح سےگڈ مارنگ کہا اس میں کچھ مختلف سا تھا وہ کچھ شاعرانہ تھا۔
اگلے روز میں کبھی نسل پرستي کا گڑھ کہے جانے والی ریاست الاباما کے برمنگھم شہر میں تھا۔ ٹرین سٹیشن کے قریب ایک بزرگ ملے۔
میرے ہاتھ میں مائیکرو فون دیکھ کر کہنے لگے: ’جہاں آپ کھڑے ہیں پہلے یہاں دو الگ الگ نل ہوتے تھے، ایک سیاہ پانی ایک سفید پانی یعنی ایک نل سياہ فام لوگوں کے لیے اور دوسرا صرف سفید فام افراد کے لیے۔ آج دیکھیے ہم کتنی دور نکل آئے ہیں۔‘
کیا واقعی؟
امریکہ نے سياہ فام صدر سے جو امیدیں پال لی تھیں انھیں سن کر لگتا تھا جیسے اوباما کے ہاتھوں میں ایک جادو کی چھڑی ہوگی جسے گھماتے ہی اس ملک سے کالے گورے کا فرق ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا۔
گذشتہ کچھ ہفتوں میں لوگ راتوں کو پھر سے امریکہ کی سڑکوں پر نکلے ہیں، نعرے لگا رہے ہیں، ہر رنگ کے لیکن زیادہ تر سیاہ فام ہیں۔
اب امید نہیں نااميدي ہے، غصہ ہے، مایوسی ہے۔ غصہ اس لیے بھی زیادہ کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ اوباما کے ہوتے ہوئے ایسا ہو رہا ہے۔
ایئیل یونیورسٹی کے کچھ سياہ فام نوجوانوں نے ابھی تک پیدا نا ہونے والے اپنے بچوں کے نام خط لکھا ہے۔ اس ملک میں تم کچھ بھی بن جاؤ لوگوں کو تمہارا كالاپن ہی نظر آئے گا۔
دوسرے نے لکھا ہے۔ یہ دنیا تمہارے لیے تیار نہیں ہے۔ میں تمہیں سینے سے لگائے رکھوں گا تب تک، جب تک یہ دنیا تم سے پیار کرنے کو تیار نہ ہو جائے۔
سفید فام پولیس والوں پر سياہ فام یقین نہیں کرتے، سياہ فام افراد کی قد کاٹھی گورے پولیس والوں کے ذہنوں میں کہیں نہ کہیں ایک خوف پیدا کرتی ہے۔ بات چیت ہو تو کیسے ہو؟
کہیں کسی کا بیٹا پولیس کا شکار بنا ہے تو کہیں چھ بچوں کا باپ۔ کسی کی دم گھٹنے سے موت ہوئی ہے تو کسی کی بندوق کی گولی سے۔
مرنے والا اکثر سياہ فام ہوتا ہے تو مارنے والا اکثر گورا ہوتا ہے۔ صحیح غلط کی لکیر اکثر دھندلی سی ہوتی ہے۔ سياہ فام کی طرف داری کرنے والے زیادہ تر سیاہ ہیں، پولیس کا ساتھ دینے والے بیشتر گورے لوگ ہیں۔
اوباما نے ہر پولیس والے کی وردی پر کیمرے لگانے کا اعلان کیا ہے۔ لوگ صحیح غلط کا فیصلہ نہیں کر پائے، تو کیمرہ کیا کرے گا؟ وہ تو بس تصویریں لےگا، رنگ تو اس میں لوگ ہی بھریں گے۔
پوری دنیا کو نصیحت کرنے والے امریکہ کو آج اپنے آپ سے بات کرنے کی ضرورت ہے، اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ وہاں کسی کیمرے کے بغیر ہی، صحیح اور غلط بالکل صاف نظر آتا ہے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2014/12/141205_washington_diary_zz
گاتے بجاتے، ایک دوسرے کو گلے لگاتے، ہر رنگ کے لیکن زیادہ تر سیاہ فام لوگ۔ امریکہ نے اس رات اپنا پہلا سياہ فام صدر متخب کیا تھا۔
تصویر کچھ ویسی ہی تھی جیسی رام چندر گہا نے اپنی کتاب میں اس وقت کی دہلی کی سڑکوں کی کھینچی ہے جب نہرو نے آزادی کے اعلان کے بعد اپنی مشہور ’ٹرسٹ وتد ڈیسٹني‘ والی تقریر کی تھی۔
پانچ نومبر کی دوپہر کو میں نارتھ كیرولائینا کے شارلٹ شہر میں تھا، یہ ان علاقوں میں سے ایک ہے جہاں سیاہ فام اور گوروں کے درمیان خلیج تاریخی رہی ہے۔ایک نائی کی دکان میں ایک سياہ فام خاتون بال کاٹ رہی تھیں، گا بھی رہی تھیں اور تھرک بھی رہی تھیں۔ میں نے پوچھا کہ آج امریکہ میں کیا نیا ہے؟
ان کا جواب تھا: گورا آدمی روز مجھے گڈ مارننگ کہتا تھا۔ آج اس نے جس طرح سےگڈ مارنگ کہا اس میں کچھ مختلف سا تھا وہ کچھ شاعرانہ تھا۔
اگلے روز میں کبھی نسل پرستي کا گڑھ کہے جانے والی ریاست الاباما کے برمنگھم شہر میں تھا۔ ٹرین سٹیشن کے قریب ایک بزرگ ملے۔
میرے ہاتھ میں مائیکرو فون دیکھ کر کہنے لگے: ’جہاں آپ کھڑے ہیں پہلے یہاں دو الگ الگ نل ہوتے تھے، ایک سیاہ پانی ایک سفید پانی یعنی ایک نل سياہ فام لوگوں کے لیے اور دوسرا صرف سفید فام افراد کے لیے۔ آج دیکھیے ہم کتنی دور نکل آئے ہیں۔‘
کیا واقعی؟
امریکہ نے سياہ فام صدر سے جو امیدیں پال لی تھیں انھیں سن کر لگتا تھا جیسے اوباما کے ہاتھوں میں ایک جادو کی چھڑی ہوگی جسے گھماتے ہی اس ملک سے کالے گورے کا فرق ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا۔
گذشتہ کچھ ہفتوں میں لوگ راتوں کو پھر سے امریکہ کی سڑکوں پر نکلے ہیں، نعرے لگا رہے ہیں، ہر رنگ کے لیکن زیادہ تر سیاہ فام ہیں۔
اب امید نہیں نااميدي ہے، غصہ ہے، مایوسی ہے۔ غصہ اس لیے بھی زیادہ کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ اوباما کے ہوتے ہوئے ایسا ہو رہا ہے۔
ایئیل یونیورسٹی کے کچھ سياہ فام نوجوانوں نے ابھی تک پیدا نا ہونے والے اپنے بچوں کے نام خط لکھا ہے۔ اس ملک میں تم کچھ بھی بن جاؤ لوگوں کو تمہارا كالاپن ہی نظر آئے گا۔
دوسرے نے لکھا ہے۔ یہ دنیا تمہارے لیے تیار نہیں ہے۔ میں تمہیں سینے سے لگائے رکھوں گا تب تک، جب تک یہ دنیا تم سے پیار کرنے کو تیار نہ ہو جائے۔
سفید فام پولیس والوں پر سياہ فام یقین نہیں کرتے، سياہ فام افراد کی قد کاٹھی گورے پولیس والوں کے ذہنوں میں کہیں نہ کہیں ایک خوف پیدا کرتی ہے۔ بات چیت ہو تو کیسے ہو؟
کہیں کسی کا بیٹا پولیس کا شکار بنا ہے تو کہیں چھ بچوں کا باپ۔ کسی کی دم گھٹنے سے موت ہوئی ہے تو کسی کی بندوق کی گولی سے۔
مرنے والا اکثر سياہ فام ہوتا ہے تو مارنے والا اکثر گورا ہوتا ہے۔ صحیح غلط کی لکیر اکثر دھندلی سی ہوتی ہے۔ سياہ فام کی طرف داری کرنے والے زیادہ تر سیاہ ہیں، پولیس کا ساتھ دینے والے بیشتر گورے لوگ ہیں۔
اوباما نے ہر پولیس والے کی وردی پر کیمرے لگانے کا اعلان کیا ہے۔ لوگ صحیح غلط کا فیصلہ نہیں کر پائے، تو کیمرہ کیا کرے گا؟ وہ تو بس تصویریں لےگا، رنگ تو اس میں لوگ ہی بھریں گے۔
پوری دنیا کو نصیحت کرنے والے امریکہ کو آج اپنے آپ سے بات کرنے کی ضرورت ہے، اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ وہاں کسی کیمرے کے بغیر ہی، صحیح اور غلط بالکل صاف نظر آتا ہے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2014/12/141205_washington_diary_zz