عبد الرشید
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 5,402
- ری ایکشن اسکور
- 9,991
- پوائنٹ
- 667
امریکی بدمعاشیاں کیا رنگ لائیں گی؟
ہفت روزہ جرار
سابق امریکی صدارتی امیدوار سینیٹر جان کیری بھاگے آئے تھے کہ امریکی بدمعاش قاتل ریمنڈ ڈیوس کو چھڑا کر طیارے میں اپنے ساتھ لے جائیں گے۔ انہوں نے لالچ، دھمکی اور تزویر سے کام لیا مگر وہ نامراد لوٹ گئے اور بدبخت ریمنڈ ڈیوس جو دو بے گناہ پاکستانیوں کا قاتل ہے، حکومت پنجاب کی تحویل میں ہے اور اسے عدالت انصاف کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جان کیری یہاں کہہ رہے تھے کہ ریمنڈ ڈیوس کو ان کے سپرد کر دیا جائے تو اس پر امریکا میں مقدمہ چلایا جائے گا۔ گویا انہیں پاکستانی عدالتوں پر اعتماد نہیں، اگر یہ بات ہے تو پاکستانی قوم امریکی عدالتوں پر کیونکر اعتماد کر سکتی ہے؟ مسلمانوں کے حوالے سے امریکی عدالتیں تو تعصب، جھوٹ اور لعنت کی پوٹ ہیں۔ وہ امریکی ’’عدالت‘‘ ہی ہے جس نے چھ ماہ پہلے ایک بے گناہ پاکستانی خاتون کو 86 سال قید کی سزا سنا کر ثابت کر دیا کہ جھوٹ، ظلم اور درندگی میں امریکیوں کا کوئی ثانی نہیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ان کے تین بچوں سمیت امریکیوں نے بدبخت جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے تعاون سے مارچ 2003ء میں کراچی سے اغوا کیا تھا اور افغانستان لے گئے۔ وہاں بگرام جیل میں ان پر غیر انسانی ظلم ڈھائے گئے۔ ان کا چھوٹا بیٹا درندہ صفت امریکیوں کے ہاتھوں جان ہار گیا۔ پھر جب اس ظلم و شقاوت کا راز فاش ہونے لگا تو ظالمانہ مکر و فریب میں طاق امریکیوں نے جولائی 2008ء میں ڈاکٹر عافیہ کو امریکہ منتقل کر دیا اور ساتھ ہی یہ جھوٹی خبر پھیلا دی کہ ڈاکٹر عافیہ نے خوست میں گرفتاری کے بعد دوران تفتیش امریکیوں پر فائرنگ کی تھی۔ اگر یہ کہانی بفرض محال تسلیم بھی کر لی جائے کہ نحیف و نزار ڈاکٹر عافیہ نے بھاری گن اٹھا کر امریکیوں پر فائرنگ کی تو بھی اس سے نہ کوئی امریکی زخمی ہوا اور نہ کمرہ تفتیش کی دیواروں پر گن فائرنگ کا کوئی نشان ملا۔ اس کے باوجود اس مظلوم پاکستانی بیٹی کو اتنی سخت اور طویل سزا سنانا یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ جس طرح امریکی فوجی بے رحم درندے اور بے اصل ہیں، اسی طرح امریکی عدالتوں میں بیٹھے مرد اور عورتیں بھی بے رحم، درندہ صفت اور اصول عدل و انصاف کے صریحاً قاتل ہیں۔ امریکہ میں ڈاکٹر عافیہ کے سامنے قرآن کے اوراق بکھیر کر ان سے یہ کہا گیا کہ ان پر چلو، اس کے بعد امریکی درندوں کو انسان کہنا شرف انسانی کی توہین ہے۔
وحشی قاتل ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے لئے امریکی سفیر منٹر، گوری گڑیا ہلیری (وزیر خارجہ اور چیئرمین خارجہ امور کمیٹی سینیٹر جان کیری اور ان کے بعد خود صدر اوباما مرے جا رہے ہیں۔ کیری کے بعد خارجہ امور کمیٹی کے رکن سینیٹر رابرٹ کروکر کی سربراہی میں امریکی کانگرس کا وفد زرداری اور گیلانی کو سمجھانے آ پہنچا۔گوروں کے اشارہ ابرو کے منتظر سیاہ فام صدر بارک اوباما نے تو اپنے گورے عوام میں سرخرو ہونے کے لئے یہ سفید جھوٹ بولا کہ ریمنڈ ڈیوس سفارتکار ہے لہٰذا اسے رہا کیا جائے، حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ نہ وہ سفارت کار ہے اور نہ اسے وی آنا کنونشن (1961ئ) کے تحت استثنا حاصل ہے۔ اس بدقماش سی آئی اے کے ایجنٹ نے گرفتاری پر خود کو امریکی قونصل خانہ (لاہور) میں ’’ٹیکنیکل ایڈوائزر‘‘ بتایا تھا۔ ایک روز امریکی سفارتخانہ خاموش رہا اور اگلے دن اس نے یہ کہانی گھڑ لی کہ ریمنڈ ڈیوس سفارتکار ہے اور اسے سفارتی استثنا حاصل ہے لیکن ایک ماہ ہونے کو ہے وہ اس کی سفارتی حیثیت کا کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکے۔ ریمنڈ ڈیوس کی قاتلانہ واردات سے چند روز پہلے 25 جنوری کو امریکی سفارتخانے کی طرف سے 10 امریکیوں کو سفارتی شناختی کارڈ دلوانے کے لئے جو فہرست وزارت خارجہ میں پیش کی گئی تھی۔ اس میں ریمنڈ ڈیوس کا نام شامل نہیں تھا۔ یوں سی آئی اے کا یہ دہشت گرد قاتل غدار وطن جنرل مشرف کی امریکیوں کو دی گئی غیر قانونی اجازت کے بل پر محض امریکی پاسپورٹ پر وطن عزیز میں کھلا پھرتا تھا اور اس کے پاس سے جاسوسی کے جو جدید آلات اور دینی مدارس کے فوٹو برآمد ہوئے وہ امریکی دعوے کی نفی کرتے ہیں۔ پھر اس کی جیب سے لاہور قونصل خانے کے بجائے پشاورقونصل خانے کا کارڈ نکلنا کیا معنی رکھتا ہے۔
دریں اثنا آئی ایس آئی کے ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ جب جو ناتھن بینکس خوفزدہ ہو کر پاکستان سے چلا گیا تھا تب سے ریمنڈ ڈیوس پاکستان میں سی آئی اے کا قائمقام سربراہ ہے جو یہاں ڈرون کے لئے معلومات جمع کر رہا تھا۔ ادھر یورپی ٹائمز کی ویب سائٹ Eutimesمیں کہا گیا ہے کہ روسی بیرونی جاسوسی تنظیم SVR کی رپورٹ کے مطابق ریمنڈ سے سی آئی اے کی انتہائی خفیہ (دستاویزات برآمد ہوئی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اس علاقے میں کام کرنے والی امریکی ٹاسک فورس TF373 سے منسلک ہے جو القاعدہ کے دہشت گردوں کو ایٹمی اور جراثیمی مواد فراہم کر رہی ہے جسے بعد ازاں امریکہ کے خلاف استعمال کرایا جائے گا۔ اس کا مقصد عالمی معیشت پر مغرب کی بالادستی از سر نو قائم کرنا ہے۔ روسی فارن انٹیلی جنس سروس SVR کے بقول ریمنڈ ڈیوس کا وزیرستان میں موبائل فون ٹریس ہونے کے بعد یہ معلوم ہوا کہ وہ القاعدہ سے رابطے کر ر ہاتھا۔ امریکی ٹاسک فورس 373 کی بلیک آپریشنز یونٹ پاک افغان سرحد پر کام کر رہی ہے۔ نیز قبائلی علاقے میں امریکی سپیشل فورسز کے سپاہی، سی آئی اے کے جاسوس اور فری لانس فوجی دندنا رہے ہیں۔ یہ صورتحال ارباب اختیار کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔