• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امریکی سازش اور پاکستانی قوم

طارق بن زیاد

مشہور رکن
شمولیت
اگست 04، 2011
پیغامات
324
ری ایکشن اسکور
1,719
پوائنٹ
139

امریکی سازش اور پاکستانی قوم​

صرف ملالہ یوسف زئی ہی نہیں یہاں ایک لمبی لسٹ ہے جو کسی وکی لیکس کا انتظار کر رہی ہے سب میں ایک ہی راز پنہاں ہے لیکن یہ سارے واقعیات ” طالبان نے ذمہ داری قبول کر لی ” پر اختتام پذیر ہو جاتے ہیں ان سب حالات میں میڈیا نے ٹھیک ٹھاک مغرب کا نمک حلال ہونے کا ثبوت دیا ہے اور یہ بیچارا سادہ عوام ایسے میں کچھ اپنی عقل سے بی سوچےجو ان کی نظر آئے بس لعن طن اور گالی ہی سن پاۓ-

میں کبھی کبھی سوچتا ہوں اسلاف کا رنگ افغانستان میں لوٹانے والے طالبان ؛ جب دشمن نوجوان دوشیزائیں قیدی تین تین سال بعد انکی جیل سےرہا ہو کر نکلتی ہیں تو گواہی دیتی ہیں کہ ہمیں چھوا تک نہیں گیا بھلا وہ ان گلی کوچوں کے انسانوں کے یوں کیسے دشمن ہو سکتے ہیں ؟ مراد یہ بات تو سمجھ آتی ہے کہ طالبان نہیں ہو سکتے لیکن یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ پھر افغان طالبان ایسے عوامل سے خود کو صاف صاف واضح کیوں نہیں کر پائے؟ آیا یہ پاکستانی طالبان حقیقت میں انکا حصہ ہیں یا یا کسی گہری امریکی سازش کا ؟ حصہ بنے ہوۓ ہیں یا بناۓ گئے ہیں ؟ میرے مشاہدے کے مطابق تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) ایک تحریک تخریب پاکستان(ٹی ٹی پی ) کے سوا کچھ نہیں جو باقاعدہ بلیک واٹر تنظیم کے نیچے کام کر رہی ہے ان نام نہاد جہادیوں کا افغان جہاد میں بھی ذرا برابر حصہ نہیں رہا – گزشتہ وزیرستان آپریشن سے قبل رات کی تاریکی میں امریکی ہیلی کاپٹرز کی نقل و حرکت اور پھر ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری کے فوراّ بعد تحریک طالبان پاکستان کی سرگرمیوں کی بندش اس راۓ کو مزید قوت فراہم کرتی ہیں -سچ تو یہ ہے کہ جہاد کو اگر کوئی نقصان پہنچا ہے تو اس امریکی جہاد سے ہی پہنچا ہے ورنہ پاکستان کی غالب اکثریت امریکا کے خلاف جہاد کی حمایتی ہے کاش افغان کوہساروں سے کوئی آواز آئےتو ہی یہ ساری دھندلاہٹ چھٹ پاۓ -

دوسری طرف سوشل میڈیا پر اکثر افراد نے ملالہ کی تصویر اپنی ڈی پی پر لگا رکھی ہے یہ وہ سادہ لوگ ہیں جو دل میں انسانیت کا دکھ اور تکلیف رکھتے ہیں لیکن اس ملالہ نامی تیرہ سالہ لڑکی سے واقفیت نہیں رکھتے یہ وہ لڑکی ہے جس کا آئیڈیل لیڈر امریکی صدر بارک اوباما ہے اور امریکہ کی ہر اس کوشش کی حمایتی ہے جو اس خطے میں طالبان کے خلاف کی جاۓ ، امریکہ نے اس کردار کو نہ صرف پیدا کیا ہے بلکہ اسے اسی امن کی سفارت کاری سے نوازا ہے جسے عالمی امن کا نام دے کر اپنے لاؤ لشکر سمیت اس خطے میں کود پڑا تھا پھر اس واقعے کے بعد اوباما ، بان کی مون ، ہیلری اور میڈونا کے تاثرات اس کو واضح طور پر مغرب کے مفاد کا اہم کردار ظاہر کرتے ہیں قطح نظر یہ کردار ملالہ کی فیملی نے خود لیا یا انھیں دے دیا گیا اور آج اس کردار کو بہترین ممکن استعمال کیا گیا ہے -

سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب پوری قوم امریکہ کے خلاف ہے سید منور حسن سے لے کر عمران خان تک تمام قابل اعتماد لیڈر امریکہ کی اس خطے میں کی جانے والی کاروائیوں کے خلاف ہیں تو یہ درد دل سے بھرے انسان ایک امریکی ہیرو اور کردار کو اپنا ہیرو اور قومی اثاثہ کیوں قرار دے رہے ہیں ؟ چہ جائیکہ امریکہ نے اپنے اس تیرہ سالہ نابالغ کردار کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے انتہائی گھناؤنے طریقے سے استعمال کیا ہے جو قابل مذمت ہے لیکن وہ ہرگز قومی اثاثہ نہیں ہو سکتی ، یہ شاطر بکاؤ میڈیا کی فنکاری ہے کہ اسے قومی اثاثے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے اور اکثریت نے آنکھیں بند کر کے قبول کر لیا ہے مجھے اس میں بینظیربھٹو کا قتل نظر آرہا ہے جس پر قوم کےاندھیرے نے زرداری جیسا لیڈر پیدا کر دیا تھا آج بھی ویسی کیفیت پیدا ہے قوم اپنے ہاتھوں سے امریکا کے مذموم مقاصد پورے کرنے چلی ہے

وہ مقاصد جو اس سازش کے پس پردہ کام کر رہے ہیں میں ایک بار پھر دوہرائے دیتا ہوں :
شمالی وزیرستان میں آپریشن کی راہ ہموار کرنا
ڈرون حملوں کا بہترین جواز فراہم کرنا
اسلام مخالف فلم پر پاکستانی احتجاج کو منظر نامے سے ہٹانا
پاکستان میں امریکی ساکھ کی بحالی کی کوشش کرنا
امریکی الیکشن میں باراک اوباما کو سیاسی طاقت پہنچانا

پاکستانی قوم اس کھیل میں امریکی عزائم پر بہت حد تک پورا اتری ہے، شمالی وزیرستان میں آپریشن ہونے چلا ہے ، شان رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایشو کو ملالہ کا ایشو ہضم کر گیا ہے اور روز درجن بھر پاکستانی ڈرونز سے مارے جائیں گے اور یہ قوم تالیاں بجا بجا کر کہے گی کہ ملالہ کے دشمنوں سے بدلہ لیا جا رہا ہے ، نام نہاد وار آن ٹیرر کی تاریخ میں پاکستانی قوم کبھی اس حد تک نہیں بہکی تھی جس طرح آج امریکا نے اسکو ہاتھ میں جکڑ لیا ہے -

وقت کی ضرورت ہے کہ پاکستانی قوم کو اس فریب اور سازش سے نکالا جاۓ پاکستان کا دشمن ناموں سے دھوکہ دے رہا ہے عقل مندی کا تقاضا ہے کہ پس پردہ دشمن پر انگلی رکھی جاۓ اور اس کے خلاف جدوجہد کی جاۓ اس دشمن سے چھٹکارا حاصل کرنا صرف اور صرف “گو امریکا گو ” تحریک میں ہی مضمر ہے اگر آپ پاکستان اور اسلام کے لیے کچھ کرنا چاھتے ہیں تو اسے اپنی اولین ترجیح بنانا ہو گا ورنہ بہت دیر ہو جاےٴ گی-

( ماخوذ از مائی آئیڈیالوجی از اسلام اینڈ مائی آئیڈنٹٹی از پاکستان )
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
شکریہ طارق بھائی اللہ آپ کو جزائے خیر دے ۔
میں بھی کچھ کہنا چاہوں گا ۔
ملالہ زئی والے معاملہ میں دو بنیادی نقطے ہیں
1 ۔ کچھ کہتے ہیں کہ طالبان پر اس کے حملے کا الزام لگایا گیا ہے ۔ حقیقت ایسے نہیں ہے ۔ کچھ اس کے عکس موقف رکھتے ہیں ۔
2۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ملالہ زئی کی ڈائری اور اس میں موجود گستاخیاں یہ ملالہ پر الزام ہے یا کسی اور کی سازش ہے ۔ بعض لوگ اس کے عکس موقف رکھتے ہیں ۔
کہنا یہ چاہتا ہوں جس طرح پہلے مسئلے میں مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اگر طالبان اس میں ملوث نہیں ہیں تو پھر وہ اس کے خلاف بیان کیوں نہیں دیتے اور اپنی براءت کا اظہار کیوں نہیں کرتے ۔
اسی طرح دوسرے مسئلے میں بھی یہی طریقہ کار اختیار کرنا چاہیے کہ اگر ملالہ نے یہ سب کچھ نہیں کیا توپھر ملالہ یا اس کے سر پرست والدین وغیرہ کو بیان دینا چاہیے کہ یہ سب کچھ ہم پر الزام ہے ہم نے ایسا کچھ نہیں کیا ۔
کیا کوئی بھائی بتا سکتا ہے کہ طالبان نے اپنی براءت کا اظہار کیا ہے کہ نہیں ؟
اور
کیا کوئی بھائی بتا سکتا ہے کہ ملالہ کی طرف منسوب گستاخی کی تردید اس نے یا اس کے سرپرستوں نے کی ہے کہ نہیں ؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
راجا بھائی
اور
[MENTION]عبد اللہ عبدل[/MENTION] بھائی
اس بارے میں کافی معلومات رکھتے ہیں ان سےدرخواست ہے کہ کچھ رہنمائی کریں ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
راجا بھائی
اور
[MENTION]عبد اللہ عبدل[/MENTION] بھائی
اس بارے میں کافی معلومات رکھتے ہیں ان سےدرخواست ہے کہ کچھ رہنمائی کریں ۔
 
شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
السلام علیکم
خضر بھائی نے لکھا::
کیا کوئی بھائی بتا سکتا ہے کہ طالبان نے اپنی براءت کا اظہار کیا ہے کہ نہیں ؟
اور
کیا کوئی بھائی بتا سکتا ہے کہ ملالہ کی طرف منسوب گستاخی کی تردید اس نے یا اس کے سرپرستوں نے کی ہے کہ نہیں ؟
پہلی بات::
جناب جب وہ قبول کرتے پھر رہے ہیں تو برات کیسی؟؟؟
اور اگر نہ کیا ہوتا تو فورا آپ کے فارمولے کے مطابق تردید آجاتی جیسے کے پہلے جب ان پر ایک دفع الزام لگا کہ پشاور بازاروں میں یہ دہشت گردی کر رہے ہیں تو ان کے ترجمان اعظم طارق نے ایک تردید بھری ویڈیو شائع کی،
تردید ضروری تھی، کیونکہ کوئی مانے یا مانے ، اس سے ان کے ’’جہاد‘‘ کو کافی کھری کھری سننی پڑیں ہیں اور بدنامی کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے ہیں۔
دوسری بات::
اس بارے بات صاف ہے، کہ جب تک وہ بچی ہوش میں نہیں آجاتی ، کوئی یہ راز نہیں کھولے گا اور نہ ہی وہ تصدیق یا تردید قابل قبول ہوگی کہ وہ منسوب کردہ اقتباس کس کے ہیں ۔۔لہذا یہ تردید و تصدیق تو موخر ٹہری!!!
مگر ٹی ٹی پی کا میڈیا ’’ سھاب‘‘ موجود ہے ، ایک دو ڈھائی منٹ کی تردید پیش کر دیں، مگر نہیں پیش کریں گے کیونکہ کھرا ان کے ہی گھر جاتا ہے معذرت کے ساتھ۔۔
یہ تھی وضاحت جو انصاف کے ساتھ سب کے سامنے پیش کر دی آپ کی درخواست پر!!


السلام علیکم
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
کیا کوئی بھائی بتا سکتا ہے کہ طالبان نے اپنی براءت کا اظہار کیا ہے کہ نہیں ؟
اور
کیا کوئی بھائی بتا سکتا ہے کہ ملالہ کی طرف منسوب گستاخی کی تردید اس نے یا اس کے سرپرستوں نے کی ہے کہ نہیں ؟
عبداللہ بھائی نے بخوبی وضاحت کر دی ہے۔
میں بھی بالکل دیانت داری سے واضح کرنا چاہتا ہوں کہ:

طالبان کی جانب سے نہ صرف یہ کہ براءت کا اظہار نہیں کیا گیا۔ بلکہ اس واقعہ کی پوری ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اسے شرعی بنیاد مہیا کرنے کی کوشش جاری ہے۔
اور اس کی بنیاد فقط بی بی سی یا پاکستانی میڈیا نہیں ہے۔ کیونکہ یہ واقعی درست ہے کہ یہ میڈیا طالبان کے بارے میں ساری خبریں درست مہیا نہیں کرتا۔
لیکن جب خود طالبانی ذرائع اس کی تصدیق کر رہے ہیں اور ان کے علماء ملالہ کو مرتد اور قتل کے لائق قرار دے رہے ہیں۔ اور اس کے دلائل قرآن و حدیث سے کشید کر کے اپنے ہمدردوں کو مطمئن کر رہے ہیں۔
طالبان سے تعلق رکھنے والے لوگ خود اس واقعہ پر انگشت بدنداں ہیں اور کچھ تو کھلے عام اس پر اپنے تحفظات کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔


ایسے میں اس بات کا کوئی سوال ہی نہیں کہ اس واقعہ کی طالبان نے تردید کیوں نہیں کی۔ وہی اس واقعہ کے ذمہ دار ہیں اور وہ خود عوامی ردعمل سے قطع نظر اسے قبول کر رہے ہیں۔

دوسری جانب ملالہ کی ڈائری والا واقعہ ہے تو
دیانت داری کی بات یہ ہے کہ اس کی بھی کوئی تردید نہیں۔ بلکہ ملالہ اس ڈائری پر شاید ایوارڈز وغیرہ بھی وصول کر چکی ہے۔ اگر کسی کو تردید کرنی ہوتی تو یہ ڈائری تین سال قبل شائع ہوئی تھی ، اب تک تردید ہو چکی ہوتی۔

لیکن اس ڈائری والے واقعہ میں ہم حسن ظن رکھتے ہوئے یہی کہہ سکتے ہیں کہ اس کے مندرجات کسی گیارہ سالہ لڑکی کے نہیں ہو سکتے۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ اس میں نوے فیصدی باتیں واقعی ملالہ کی ہوں اور بقیہ تھوڑی بہت تحریف بی بی سی کے ذمہ داران نے کی ہو، جس کی تردید کی کبھی ضرورت ہی نہیں سمجھی گئی۔ ایک حالیہ خبر نے اس حسن ظن کو تقویت بھی بخشی ہے۔ لیکن بہرحال یہ خبر خود قابل تصدیق نہیں۔ لہٰذا اس پر بھی صد فیصد اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ خبر یہ رہی:

سوات میں طالبان کا نشانہ بننے والی لڑکی ملالہ کی مشہور ڈائری کا معمہ حل ہو گیا ہے اور پاکستان کے سرکاری ذرائع نے انکشاف کیاہے کہ بی بی سی کا ایک مقامی رپورٹر ہی ملالہ کی ڈائری لکھا کرتا تھا اور پھر اسے گل مکئی کے نام سے شائع کردیا جاتا تھا۔ پاکستانی سیکورٹی ذرائع کا دعوی ہے کہ 2009 میں جب سوات میں پاکستانی حکومت اور فوج نے طالبان سے ایک امن معاہدہ کیا تھا تو اس کی مخالفت امریکہ اور یورپ نے کی تھی عین اسی دوران امریکہ نے پاکستان کے شورش زدہ علاقے خیبر پختون خواہ اور قبائلی علاقوں میں ذرائع ابلاغ کے ایک بڑے پروگرام کا آغاز کیا تھا جس کے تحت کئی مقامی ریڈیو اسٹیشن قائم کئے گئے تھے اور مقامی اخبارات اور میڈیا اداروں کے پروگرام بھی اسپانسر کئے گئےتھے۔ مصدقہ ذرائع کے مطابق 2009 میں اسی دوران بی بی سی کی جانب سے ایک پروگرام کا آغاز کیا گیا تھا جس کے تحت سوات کی کسی مقامی لڑکی سے ایک ڈائری لکھوانی تھی جس میں وہ طالبان کے خلاف اور لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں کچھ باتیں نارمل انداز میں کرتی اس پروگرام کا جواز یہ بتایا گیا تھا کہ طالبان لڑکیوں کے اسکول تباہ کررہے ہیں اس لئےان پر پریشر ڈالنے کے لئے ایک طالبہ سے ڈائری لکھوائی جائے گی۔ اس پروگرام کے پروڈیو سر اور ایڈیٹر پاکستان کے شہر رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے ایک مشہور صحافی تھے جنہوں نے کراچی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور پھر لندن جا کر بی بی سی سے منسلک ہوگئے۔ تقریبا بیس برس لسندن میں گزارنے کے بعد وہ اب کراچی سے بی بی سی اردو کے سنیئر ترین عہدے دار کے طور پر کام کررہے ہیں اور خواتین کے حقوق کے لئے نمایاں طور پر آواز اٹھاتے رہتے ہین۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ انہوں نے ادھیڑ عمری میں حال ہی میں اپنے آبائی علاقے سے ایک نو عمر لڑکی سے شادی کی ہے۔۔پشاور پریس کلب کے کئی صحافی اس بات کے عینی شاہد ہیں کہ ان دنوں بی بی سی کے ایک مقامی رپورٹر، جن کا تعلق پشتونوں کے اسی قبیلے سے ہے جس سے ملالہ کا تعلق ہے، کافی سرگرمی سے کسی ایسی طالبہ کو ڈھونڈ رہے تھے جو ایک بی بی سی کے لئے ایک ڈائری لکھ سکے۔ اسی دوران بی بی سی اس رپورٹر کی ملاقات سوات میں لڑکیوں کا ایک اسکول چلانے والے ضیا اللہ سے ہوئی۔ جب بی بی سی کے مقامی رپورٹر نے ان کے سامنے یہ مسئلہ رکھا تو انہوں نے فورا اپنی بیٹی کا نام لیا جو اسی اسکول میں زیر تعلیم تھی اور خاصی ایکٹو بھی تھی۔ واضح رہے کہ ضیا اللہ طالبان کے سخت مخالف اور اے این پی سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ طالبان کے خلاف ایک لشکر بھی بنا چکے ہیں۔ اس طرح رفعت اللہ اور ضیا اللہ کے درمیان یہ طے پایا کہ بی بی سی کے رپورٹر ملالہ سے ملاقات کریں گے اور اس سے باتیں کریں گے اور پھر جو کچھ وہ بتائے گی، وہ اسے ڈائری کے طور پر لکھ کر بی بی سی کو بھیج دیں گے۔ اس وقت ملالہ کی عمر بہت ہی کم تھی اور وہ چوتھی جماعت میں زیر تعلیم تھی، اس وقت اسے اردو کے مشکل الفاظ اور جملے لکھنے نہیں آتے تھے۔ اس وقت ملالہ کی عمر صرف 9 سال تھی۔ رپورٹر کی رہائش پشاور میں تھی اس لئے وہ روز سوات نہیں آ سکتے تھے۔ اور سوات کے خراب کی حالات کی وجہ سے بھی ان کا سوات بار بار آنا خطرناک تھا۔ واضح رہے کہ مذکورہ رپورٹر سیکولر خیالات کی وجہ سے پشاور کے صحافتی حلقوں میں ٕمشہور ہیں اور انہیں نشانہ بنانے کے لئے طالبان نے 2010 مین پشاور پریس کلب پر ایک خود کش حملہ بھی کیا تھا جس میں وہ بچ گئے تھے مگر پریس کلب کا چوکیدار اور ایک پولیس اہلکار مارا گیا تھا۔ اس کے بعد پشاور کے صحافیوں اور طالبان کے درمیان رابطوں اور مذاکرات کے دوران یہ بات طے پائی تھی کہ بی بی سی کا مذکورہ رپورٹر پریس کلب کو اپنے دفتر کے طور پر استعمال نہیں کرے گا۔ پشاور پریس کلب کے ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ رپورٹر اس کے بعد کافی عرصہ خاموش رہے۔ جن دنوں بی بی سی کا مذکورہ رپورٹر ملالہ کی ڈائری لکھنے مینگورہ جایا کرتے تھے وہ اس دوران اپنے ساتھ گاڑی مین اپنی آٹھ سالہ بیٹی کو لازمی لے جایا کرتے تھے ان کا کہنا تھا کہ اس طرح ان پر کوئی شک نہیں کرے گا اور طالبان بھی اسے نقصان نہیں پہنچائین گے۔ یہ بات بی بی سی کے مذکورہ رپورٹر نے بی بی سی ورلڈ سے ایک حالیہ انٹرویو میں بھی بتائی کہ کس طرح وہ ملالہ سے ملنے سوات جایا کرتے تھے اور اس دوران ان کی بیٹی بھی ان کے ہمراہ ہوتی تھی اور کئی مسلسل ملاقاتوں کے باعث ملالہ اور ان کی بیٹی کی گہری دوستی ہوگئی تھی۔ بی بی سی ورلڈ کے پروگرام میں ان کا کہنا تھا کہ وہ صرف ملالہ سے اس کی ڈائری وصول کرنے جایا کرتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی ان کا دعوی تھا کہ ملالہ بہت فعال تھی اور کمپیوٹر اور انٹر نیٹ بھی استعمال کرتی تھی مگر وہ بتانا بھول گئے کہ آخر ملالہ ان کو اپنی تحریر ای میل کیوں نہیں کرتی تھی اور وہ جان خطرے مین ڈال کر خود ہی کیوں جایا کرتے تھے۔
پشاور پریس کلب کے صحافیوں میں یہ ایک کھلا راز ہے کہ بی بی سی کے مذکورہ رپورٹر ملالہ سے اپنی گفتگو کو ریکارڈ کر کے لایا کرتے تھے اور پھر اسے اپنے الفاظ میں تحریر کر کے بی بی سی کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیا کرتے تھے اور اسےگل مکئی کی ڈائری کا نام دیا جاتا تھا۔ بی بی سی کے مذکورہ پشتون رپورٹر ہی ملالہ کے والد ضیا اللہ اورملالہ کو امریکی صحافیوں سے بھی رابطہ کار کے فرائض انجام دیتے تھے۔ملالہ کے والد اس طرح اپنے اسکول کو ایک بڑے ادارے میں تبدیل کرنے کے خواہش مند تھے اور اس کے لئے فنڈنگ چاہتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح بین الااقوامی طورپر پروجیکشن سے ان کے لئے اپنا کالج اور یونیورسٹی قائم کرنے کے لئے فنڈنگ لینا آسان ہوگا۔ مگر انہیں بی بی سی اور امریکی میڈیا نے اپنے مقاصد کے لئے استعمال تو کیا مگر بھاری فنڈنگ دینے کےبجائے چند لاکھ روپے دینے پر ہی اکتفا کیا۔ امریکی صدر کے نمائندہ خاص رچرڈ ہالبروک سے ملاقات میں بھی ملالہ اور اس کے والد فنڈز مانگتے دیکھے جاسکتے ہیں مگر حقیقت میں انہیں کبھی وہ مطلوبہ فنڈ نہیں مل سکے۔ سوات کے مقامی صحافتی حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملالہ پر حملے کے بعد اس کے خاندان میں بھی اختلافات نمایاں ہوگئے ہیں اور اس کی والدہ جو کہ پہلے ہی بیٹی کو اس طرح باہر نکال کر نمائش کرنے کے حق میں نہیں تھیں، وہ اب کچھ حقائق سب کے سامنے لانے کے لئے بے تاب ہیں جب کہ اس کے والد بھی فنڈنگ نہ ملنے کی وجہ سے دل شکستہ ہیں اور اب بیٹی بھی ان کے ہاتھ سے جاتی دکھائی دےرہی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سیکورٹی سے متعلق حکام نے بھی ملالہ کے والد پر نرمی سے واضح کردیا ہے کہ انہیں اور ان کی بیٹی کو مغربی ذرائع ابلاغ نے استعمال کیا اور پھر ٹشو کی طرح پھینک دیا تاکہ طالبان انہیں قتل کردیں اور پھر مغربی میڈیا ان کی لاشوں پر نئی دکان سجا سکے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ملالہ کے جب پہلی بار انٹرویو لئے گئے تو وہ بار بار کہہ رہی تھی کہ وہ ڈاکٹر بننا چاہتی ہے اور اس کی جدوجہد کا مرکز صرف ڈاکٹر بننا ہے۔ پہلے چند انٹرویو کے بعد اچانک اس نے یو ٹرن لیا اور کہنا شروع کردیا کہ وہ اب ڈاکٹر بننا نہیں چاہتی بلکہ سیاستدان بننا چاہتی ہے تاکہ سوسائیٹی کو تبدیل کرسکے۔ اور طالبائنزیشن کو روک سکے۔ اہم قومی ادارے اس بات پر تحقیق کررہے ہین کہ آخر وہ کون تھا جو ملالہ کے منہ میں الفاظ ڈال رہا تھا۔ اس بات کی بھی تفتیش کی جا رہی ہے کہ وہ کون تھا جس نے ملالہ سے اوباما کو آئیڈل قرار دینے کے الفاظ کہلوائے کیونکہ چوتھی جماعت کی بچی کو اوباما کے بارے میں علم ہونا ممکن نہیں ہے۔

تازہ ترین رپورٹس یہ ہیں کہ بی بی سی کے مذکورہ رپورٹر ملالہ پر حملے کے بعد سے روپوش ہین اور ان کے تمام فون نمبر مسلسل بند جا رہے ہیں۔ دوسری جانب طالبان کا دعوی ہے کہ انہوں نے ملالہ کے والد کو متنبہ کرنے کے لئے کئی بار اخبار میں بھی اشتہار شائع کرایا تھا مگر وہ کوئی بات سننے پر تیار نہ تھے اور لڑکی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کررہے تھے جس کےبعد انہیں یہ فیصلہ کرنا پڑا
 
شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
اللہ اکبر!!!
لیں جی ’’کفریہ ڈائری‘‘ بھی کفار کے ذہن کے مطابق تراشی ہوئی نکلی۔

میرا خیال ہے دینی حلقوں کو اپنے رویوں کو مزید محتاط کر لینا چاہیئے۔

جزاک اللہ خیرا
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت ۔
بہر صورت علی الأقل یہ ملالہ و لالہ سب کو اس ڈائری کے مندرجات کی تردید کرنی چاہیے اور کہنا چاہیے کہ یہ ہماری لا علمی میں ہمارا نام استعمال کیا گیا ہے ۔
اگر ایسا نہیں کرتے تو پھر اس کا مطلب ہے کہ اتمام حجت ہونے کے بعد بھی وہ اپنی گستاخی پر برقرار ہیں ۔

اللہ سب کو ہدایت دے ۔۔۔
دین سے دوری کا نتیجہ ہے کہ وہ لوگ جو اسلام کا نام سن کر دھل جایا کرتے تھے آج انہیں مسلمانوں کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے ایک دوسرے کے خلاف استعمال کر رہے ہیں ۔
ہر ایک کو اس کی سوچ کے مطابق اہل اسلام کے خلاف تیار کیا جارہا ہے ۔ یہ ملالہ و لالہ کو دنیاوی لالچ دے کر اور ظالمان کو جنت کے سنہری باغ دکھا کر ۔
بہر صورت اب ہمیں ہی سمجھ لینا چاہیے کہ اگر چہ فی الوقت راستے مختلف ہیں لیکن یہ منتج ہماری ہی ذلت و رسوائی پر ہوں گے ۔
اللہ انصر الإسلام و المسلمین ، اللہم انصر الجہاد والمجاہدین فی سبیلک ۔
اللھم دمر أعداءک و أعداء المسلمین ۔ اللہم علیک بالیہود وا لصلیبین ، اللہم علیک بالکفار أجمعین ۔
اللہم من أرادنا و أراد المسلمین بسوء فأشغلہ بنفسہ و رد کیدہ فی نحرہ و اجعلہ تدبیرہ تدمیرا علیہ یا رب العالمین ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
دوسری جانب ملالہ کی ڈائری والا واقعہ ہے تو
دیانت داری کی بات یہ ہے کہ اس کی بھی کوئی تردید نہیں۔ بلکہ ملالہ اس ڈائری پر شاید ایوارڈز وغیرہ بھی وصول کر چکی ہے۔ اگر کسی کو تردید کرنی ہوتی تو یہ ڈائری تین سال قبل شائع ہوئی تھی ، اب تک تردید ہو چکی ہوتی۔

لیکن اس ڈائری والے واقعہ میں ہم حسن ظن رکھتے ہوئے یہی کہہ سکتے ہیں کہ اس کے مندرجات کسی گیارہ سالہ لڑکی کے نہیں ہو سکتے۔
اگر یہ ڈائری صرف ملالہ کی حد تک ہوتی تو پھر شاید ایک سو ایک تاویلات کی جا سکتی تھیں ۔۔ لیکن جیسی صورت حال نظر آرہی ہے اس کا مطلب ہے کہ یہ صرف ایک نا سمجھ بچی کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ سمجھ دار لوگوں کا کام ہے جن کے بارے لا علمی وغیرہ والے حسن ظن سب بیکار ہو جاتے ہیں ۔
اور مستزاد یہ ہے کہ وہ خود بھی اس کی تردید کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں جیساکہ بتایا جا رہا ہے کہ اس بات کو تین سال ہو گئے ہیں ۔۔۔۔ اب تین سال گزرنے کے بعد حسن ظن بھی بچارا کیا کر سکتا ہے ۔
بہر صورت ہماری تو یہی دعا ہے کہ اللہ ان کو اب بھی توفیق دے دے کہ توبہ تائب ہو جائیں ۔
 
Top