کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
امریکی صحافیوں کا بہیمانہ انداز میں قتل ڈراما تھا؟
دونوں امریکیوں کے چہرے بے خوف تھے: الجزیرہ کی تنقیدی رپورٹ
داعش کے ایک جنگجو نے گذشتہ منگل کو امریکی صحافی اسٹیون سوٹلوف کا سرقلم کیا تھا۔
دونوں امریکیوں کے چہرے بے خوف تھے: الجزیرہ کی تنقیدی رپورٹ
داعش کے ایک جنگجو نے گذشتہ منگل کو امریکی صحافی اسٹیون سوٹلوف کا سرقلم کیا تھا۔
الجزیرہ نیوز چینل نے ایک رپورٹ میں داعش کے ہاتھوں حال ہی میں دو امریکی صحافیوں جیمزفولی اور اسٹیون سوٹلوف کے بہیمانہ انداز میں قتل کا مضحکہ اڑایا ہے اور کہا ہے کہ ہالی وڈ طرز کے اس طرح کے شو کو شام میں مغرب کی فوجی مداخلت کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
الجزیرہ نے اپنی اس رپورٹ میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ دونوں امریکی صحافیوں کو ہالی وڈ کے ایک اسٹیج شو کے سے انداز میں قتل کیا گیا تھا حالانکہ امریکی حکومت ان ویڈیوز کے حقیقی ہونے کی تصدیق کر چکی ہے۔
الجزیرہ نے اپنی ویب سائٹ پر ''رپورٹس اور انٹرویوز'' کے سیکشن میں یہ رپورٹ جمعرات کو پوسٹ کی تھی اور اس میں لکھا ہے کہ ''جیمز فولی نے حقائق کو مسخ کیا ہے۔ اس کے سرقلم ہونے کی ویڈیو میں ناظرین کی توجہ ایک اہم چیز کی جانب مرکوز ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ فولی مقتول نہیں بلکہ ایک چیمپئن کا کردار ادا کر رہا تھا۔ وہ ایک لمبے چوڑے بیان کو بڑے اطمینان کے ساتھ پڑھتا ہے اور اس کی آنکھوں کے اشاروں سے ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ سامنے کسی اسکرین سے عبارت پڑھ رہا ہے اور اس کو خود کار طریقے سے چلایا جارہا ہے''۔
رپورٹ میں نقاب پوش قاتل کے بارے میں بھی شُبے کا اظہار کیا گیا ہے کہ اس کے نقوش ونگار عام جہادی کی طرح نہیں ہیں بلکہ وہ ہالی وڈ کا ایک اداکار نظر آ رہا ہے۔ اپنے اس دعوے کے حق میں کہ دونوں صحافیوں کے سرقلم کرنے کا ڈراما اسٹیج کیا گیا ہے، الجزیرہ نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ مقتول کی گردن پر چھے مرتبہ چاقو چلایا جا رہا ہے۔ فلم میکر یہ دکھانا چاہتا ہے کہ صحافی کا شاٹ کٹ ہونے کے بعد سرقلم کیا گیا تھا اور دوسرے شاٹ میں اس کی سربریدہ لاش اور سر الگ پڑے تھے۔
رپورٹ کے مطابق دوسرے صحافی سوٹلوف کی ویڈیو کو دیکھنے کے بعد بھی یہی کہا جاسکتا ہے کیونکہ اس کے چہرے پر بھی فولی کی طرح بیان پڑھتے ہوئے خوف کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔
اس میں یہ بھی سوال اٹھایا گیا ہے کہ جیمز فولی کو تو 2012ء میں اغوا کیا گیا تھا لیکن وہ دولت اسلامی عراق وشام کے ہتھے کیسے چڑھ گیا تھا۔ اس کو قتل کرنے والے شخص کے بارے میں بھی شُبے کا اظہار کیا گیا ہے۔
ایک نامعلوم ''کارکن'' کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ جیمز فولی ماضی میں امریکی محکمہ خارجہ کے لیے کام کرتا رہا تھا اور اس ناتے سے اس کے انٹیلی جنس کے ساتھ بھی روابط ہو سکتے تھے۔
الجزیرہ کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان ویڈیوز کو شام میں فوجی مداخلت کے لیے اسی طرح استعمال کیا جا سکتا ہے یا کیا جائے گا جس طرح سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے عراق پر حملے کے لیے سابق صدر صدام حسین کے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کو استعمال کیا تھا اور ان کا واویلا کر کے عراق کی اینٹ سے اہنٹ بجا دی تھی۔
العربیہ نیوز نے جب الجزیرہ کے ایک ترجمان سے اس رپورٹ پر تبصرہ کرنے کے لیے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ اتوار کو اس حوالے سے کوئی بات کر سکتے ہیں۔
لبنان سے تعلق رکھنے والی ایک مبصر مجدہ ابو فضیل کا کہنا ہے کہ ''سوال یہ ہے کیوں؟ اگر ان کے دعوے کے مطابق یہ سب کچھ ڈراما سٹیج کیا گیا ہے تو کیا اس کا ان کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت موجود ہے کیونکہ عدالت میں تو ٹھوس ڈیٹا کی ضرورت ہو گی اور واقعاتی شواہد اپنا کیس ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں ہوتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ''میرے پاس فی الوقت فولی اور سوٹلوف کے بہیمانہ قتل کی ویڈیوز کو درست ماننے یا ان کو رد کرنے کا کوئی ثبوت نہیں ہے لیکن میں یہ کہ سکتی ہوں کہ گذشتہ ہفتے ہمیں دو لبنانی شہریوں کی سربریدہ لاشوں کے بارے میں پتا چلا تھا۔ انتہا پسند جنگجوؤں نے ان کے سرقلم کر دیے تھے اور ان کی لاشیں ان کے خاندانوں کے حوالے کی گئی تھی۔ اب ان کے پیاروں کو یہ کہنا تو بہت ہی ظالمانہ روش ہوگی کہ ان کے قتل کا ڈراما اسٹیج کیا گیا تھا''۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ: ہفتہ 11 ذیعقدہ 1435هـ - 6 ستمبر 2014م