امر:
امر کا لفظ دو معنوں کےلیے استعمال ہوتا ہے:
1۔ فعل کو طلب کرنے کےلیے، جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلاةِ ﴾ [طه:132] اور اپنے گھر والوں کو نماز کاحکم دیجئے۔
اس امر کی جمع ’اوامر‘ آتی ہے۔
2۔ کام ، حالت اور معاملہ کےلیے ، جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ وَشَاوِرْهُمْ فِي الأَمْرِ ﴾ [آل عمران:159] اور معاملات میں ان سے مشورہ لیجئے۔
اس امر کی جمع ’امور‘ آتی ہے۔
یہاں (اصول فقہ میں) امرپہلے معنی میں ہے کیونکہ اس میں طلب کا معنی پایا جاتا ہے۔
اصطلاحی تعریف: تحکم کے انداز میں فعل کو اس قول کے ذریعے طلب کرنا جو اس (طلب کرنے) پر دلالت کرے۔
اکثر اصولیوں نے آمر(حکم دینے والے) میں علو اور استعلاء کی شرط نہیں لگائی اس کےلیے انہوں نے عمرو بن العاصtکی بات سے استشہاد کیا ہے جو انہوں نے معاویہtسے کہی تھی:
أمرتك أمرًا جازمًا فعصيتني وكان من التوفيق قتل ابن هاشم
’میں نے آپ کو بہت پختہ حکم (مشورہ)دیا تھا لیکن آپ نے میری بات نہ مانی حالانکہ ہاشم کے بیٹے کا قتل توفیق میں سے تھا۔‘
اصل میں ابن ہاشم نے معاویہ tپر خروج کیا تھا ، انہوں نے اسے پکڑلیا لیکن پھر معاف کردیا تو اس نے دوسری مرتبہ خروج کردیا۔
یہ بات معلوم ہے کہ یہاں پر عمروبن العاص کو معاویہ پر کوئی علو اور استعلاء حاصل نہ تھا۔
اسی طرح اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا وہ فرمان بھی ہے جو فرعون کی اس بات کی حکایت کرتے ہوئے جو اس نے اپنی قوم سے کہی تھی: ﴿ فَمَاذَا تَأْمُرُونَ ﴾ [الأعراف:110] تم مجھے کس بات کا حکم(مشورہ) دیتے ہو؟
ممکن ہے کہ اس بات کا یہ جواب دیا جائے کہ جب معاویہ رضی اللہ عنہ نے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو اپنی رائے ظاہر کرنے کا اختیار دیا تو یہی ان کےلیے اعلاء بن گیا۔
امر کےلیے استعمال ہونے والے صیغے:
امر کے کچھ صیغے ہیں جو اگر کسی قرینہ صارفہ سے خالی ہوں تو طلب فعل پر دلالت کرتے ہیں ، یہ صیغے چار ہیں:
1۔ فعل امر: جیسے:﴿ أَقِمِ الصَّلاةَ ﴾ [الإسراء:78] نماز قائم کرو۔
﴿ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُم ﴾ [نوح:10] اپنے رب سے بخشش طلب کرو۔
﴿ يا أَيهَا النَّبِي جَاهِدِ الكُفَّارَ وَالمُنَافِقِينَ ﴾ [التوبة:73] اے نبیﷺ! کفار اور منافقین سے جہاد کیجئے۔
2۔ مضارع مجزوم بلام امر: جیسے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ ثُمَّ لْيقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيطَّوَّفُوا بِالْبَيتِ الْعَتِيقِ ﴾ [الحج:29] پھر وه اپنا میل کچیل دور کریں اور اپنی نذریں پوری کریں اور اللہ کے قدیم گھر کا طواف کریں۔
3۔ اسم فعل بمعنی امر: جیسے اللہ رب العالمین کا یہ فرمان ہے: ﴿ يا أََيهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيكُمْ أََنفُسَكُمْ ﴾ [المائدة:105] اے ایمان والو! تم اپنی فکر کرو۔
4۔ فعل امر کا نائب مصدر: جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ فَضَرْبَ الرِّقَابِ ﴾ [محمد:4] تو ان کی گردنیں مارو۔
امر کے صیغوں کا فائدہ دینے والے چند مزید صیغ:
امر کے اصلی صیغوں کا بیان پیچھے گزرچکا ہے ۔ کچھ اور بھی ایسے صیغے ہیں جو کسی چیز کے حکم اور اس کے پیدا کرنے کی طلب پر دلالت کرتے ہیں۔ وہ صیغ یہ ہیں:
۱۔ امرکے لفظ کے ساتھ وضاحت ہو، جیسے: «آمركم، وأمرتكم، أنتم مأمورون» میں تمہیں حکم دیتا ہوں، میں نے تمہیں حکم دیا تھا، تمہیں حکم دیا گیا تھا وغیرہ۔
۲۔ کسی کام کے واجب ہونے کی صراحت کا ہونا۔
۳۔ فرض یا لکھے جانے کی وضاحت کا ہونا۔
۴۔ حق علی العباد و علی المؤمنین (بندوں اور مؤمنوں پر کام کرنا واجب ہے)کے الفاظ کا ہونا۔
۵۔ اسی طرح جن کاموں کے چھوڑنے پر مذمت بیان کی گئی ہو اور سزا کا مستحق ٹھہرایا گیا ہو یا پھر اعمال کے برباد ہونے کی خبر سنائی گئی ہو۔
چند مزید الفاظ بھی ہیں۔
مذکورہ بالا بیان جمہور کی رائے ہے اور انہوں نے ان الفاظ کے امر ہونے پر اہل لغت کے اجماع سے استدلال کیا ہے۔ لہٰذاجب مالک اپنے غلام سے کہتا ہے کہ : ” «أعطني كذا» “ مجھے فلاں چیز دو
تو اس مالک کو آمر (حکم دینے والا) اور غلام کو مطیع (حکم کی پیروی کرنے والا) سمجھا جاتا ہے اگر وہ یہ کام کرے تو۔ اور اگر نہ کرے تو اسے نافرمان گردانا جاتا ہے۔
اشاعرہ اور ان کی پیروکاروں کا مذہب یہ ہے کہ امر کا کوئی لفظی صیغہ ہے ہی نہیں کیونکہ ان کے نزدیک کلام لفظ کی بجائے اس معنی کو کہتے ہیں جو قائم بالنفس (دل میں موجود) ہو اور الفاظ کو تو صرف اس لیے بنایاگیا ہے تاکہ وہ دل میں موجود معنی کی تعبیر کرسکیں اور اس پر دلالت کرسکیں۔لیکن یہ رائے کتاب وسنت کی خلاف ہونے کی وجہ سے باطل ومردود ہے۔
قرآنی دلیل: ایک تو اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے جو اللہ رب العزت نے زکریا u سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ آيتُكَ أَلاَّ تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلاثَ لَيالٍ سَوِيا ﴾ [مريم:10] تمہارے لیے یہ نشانی مقرر کی گئی ہے کہ تم مسلسل تین راتوں تک لوگوں سے کلام نہیں کرسکو گے۔
تو یہاں زکریاuکے دل میں موجود معنی اور اس اشارے پر جسے قوم نے سمجھ لیا تھا، کلام کا لفظ نہیں بولا گیا۔
رہی سنت سے دلیل تو وہ نبی کریمﷺ کا یہ فرمان ہے کہ : اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے میری امت کے ان گناہوں کو معاف کردیا جو ان کے دلوں میں موجود ہیں ، جب تک وہ ان کے ساتھ کلام نہ کریں یا عمل نہ کریں۔
تو یہاں پر نبی کریم ﷺ نے دل میں موجود معنی اور کلام کے درمیان فرق کیا ہے اور بتایا ہے کہ اللہ رب العالمین نے پہلے کو تو معاف کیا ہے ، دوسرے کو نہیں۔
ترجمہ کتاب تسہیل الوصول از محمد رفیق طاہر