السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
شیخ
@اسحاق سلفی اس روایت کی تشریح اور ترجمہ درکار ہے
امصص بظر اللات
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
آپ کے سوال کا جواب پہلے ہی ہمارے محترم بھائی
@عادل سہیل حفظہ اللہ نے
بالتفصیل دے رکھا ہے ،فجزاہ اللہ تعالی خیراً
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
خلیفہ أول بلا فصل ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ُ کے ایک قول پر اعتراضات کا جواب :::::::
أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ
بِسمِ اللَّہ ،والسَّلامُ عَلیَ مَن اتبع َالھُدیٰ و سَلکَ عَلیَ مَسلکِ النَّبیِّ الھُدیٰ مُحمدٍ صَلی اللہُ علیہِ وعَلیَ آلہِ وسلَّمَ ، و قَد خَابَ مَن یُشقاقِ الرَّسُولَ بَعدَ أَن تَبینَ لہُ الھُدیٰ ، و اتبِعَ ھَواء نفسہُ فوقعَ فی ضَلالاٍ بعیدا۔
شروع اللہ کے نام سے ، اورسلامتی ہو اُس شخص پر جس نے ہدایت کی پیروی کی ، اور ہدایت لانے والے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی راہ پر چلا ، اور یقینا وہ شخص تباہ ہوا جس نے رسول کو الگ کیا ، بعد اس کے کہ اُس کے لیے ہدایت واضح کر دی گئ اور(لیکن اُس شخص نے) اپنے نفس کی خواہشات کی پیروی کی پس بہت دور کی گمراہی میں جا پڑا ۔
السلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
اللہ جلّ ثناوہُ نے فرما رکھا ہے کہ ﴿وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ:::اور اِسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے اِنسانوں اور جِنّوں میں سے شیطانوں(کافروں ، شریروں) کو دُشمن بنایا ، جو دھوکہ دینے کے لیے ،ایک دوسرے کی طرف سجا سنوار کر وحی کرتے ہیں (یعنی بڑی سجی سنوری ، دِل فریب باتیں اور سوچیں ایک دُوسرے کے دِل و دِماغ میں ڈالتے ہیں) اور اگر آپ کا رب چاہتا تو وہ لوگ ایسا نہ کر تے ،پس آپ اُن کو اور اُن کی جھوٹ بازی کو (اُن کے حال پر) چھوڑ دیجیے(اللہ خود ہی اِن سے انتقام لے گا) ﴾سُورت الانعام(6)/آیت112،
ہم اپنے اِرد گِرد اکثر ایسے لوگوں کو پاتے ہیں جو اللہ تبارک و تعالیٰ کے اِس مذکورہ بالا فرمان میں بتائے گئےکام ، یعنی ، نبی اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی دُشمنی میں مشغول دِکھائی دیتے ہیں ، اور طرح طرح کے خوب صورت اِلفاظ میں دِلچسپ فلسفوں ، سوچوں اور باتوں کے ذریعے اپنے آپ کو بھی اور دُوسروں کو بھی دھوکہ دیتے ہیں ، کہ وہ لوگ حق پر ہیں ،
ایسے لوگوں میں کچھ وہ بھی ہیں جو اپنی عقل ، اپنی سوچ ، اپنی سمجھ کو حرف آخر سمجھتے ہیں ، اپنے بنائے ہوئے یا اپنے اختیار کردہ انداز و اطوار کو ہر کسی کے قول اور فعل کی جانچ کی کسوٹی سمجھتے ہیں ،
اگر یہ معاملہ اُن ہی کے جیسے دیگر عام اِنسانوں کے ساتھ کیا جا رہا ہو ، تو کافی حد تک اِس کو برداشت کیا جا سکتا ہے ، اور اِس سے صَرفء نظر کیا جا سکتا ہے ،
لیکن یہ لوگ تو اپنی اندھیر عقل ، گمراہ سوچ ، اور نام نہاد سمجھ ، اور بلا حدود و قیود قِسم کے انداز و اطوار پر اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ، اور اُن کے اصحاب رضی اللہ عنہم اجمعین کے اقوال و افعال کو جانچتے ہیں اور بلا لحاظ و تمیز اُن پر اعتراضات کرتے ہیں ، اور بسا اوقات تو اُن کا اِنکار ہی کردیتے ہیں ، اور بے ادبی ، بلکہ بدتمیزی کا اظہار کرتے ہیں اور ساتھ ہی مؤدب و مہذب ہونے کے دعویٰ دار بھی رہتے ہیں ،
لہذا اِن لوگوں کی یہ حرکات اِس قابل نہیں ہوتیں کہ اِن پر خاموش رہا جائے ، یا اِن سے صَرف نظر کر لیا جائے ،
الحمد للہ ، اللہ جلّ جلالہُ کی عطاء کردہ توفیق سے ، میں ایسے ہی کچھ لوگوں کے بہت سے جہالت ،گمراہی ،اور دھوکہ دہی پر مبنی اعتراضات کے جوابات پیش کر چکے ہوں ، ایک دو روز پہلے ایک محترم بھتیجے نے فیس بک پر ہونے والی ایک بحث کی طرف توجہ مبذول کروائی ،
اُس بحث میں اِسی قِسم کے لوگوں نے اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سیرت مُبارکہ کے ایک واقعے میں ، انبیاء اور رُسولوں کے بعد سب سے اعلیٰ اور بُلند رُتبےو الی ہستی ، پہلے بلا فصل خلیفہ أمیر المؤمنین ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ کے ایک قول پر اعتراض پر اعتراضات کیے گئے ، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات پاک پر وارد ہوتے ہیں کیونکہ یہ قول اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے سامنے کہا گیا ،
اُن سب اعتراضات کے اسباب وہی ہیں جِن کا ابھی ابھی ذِکر کیا گیا ہے ،
آیے دیکھتے ہیں کہ پہلے بلا فصل خلیفہ أمیر المؤمنین ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ نے وہ قول کب کہا ؟ اور کس وجہ سے کہا؟ اور کِس سے کہا ،
اور اِس کے ساتھ ساتھ یہ بھی یاد کر لیجیے کہ أمیر المؤمنین ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ نے کِسی مُسلمان کے ساتھ ، حتیٰ کہ کِسی کافر کے ساتھ بھی کبھی اس قِسم کے اِلفاظ اِستعمال کرتے ہوئے بات نہ کی نہ قبل از اِسلام اور نہ اِسلام قُبُول کرنے کے بعد ، جو اِس بات کا ایک ناقابل رد ثبوت ہے کہ اِس ایک موقع پر ، صِرف ایک ہی دفعہ ، اِس قِسم کے شدید اِلفاظ خاص سبب کی وجہ سے اِستعمال کیے گئے ، اور خاص حِکمت کی وجہ سے اِستعمال کیے گئے ،
یہ اُس وقت کا واقعہ ہے جب اللہ کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسم اپنے ساتھیوں کےعُمرہ کے لیے مکہ المکرمہ تشریف لائے اور مکہ میں داخل ہو نے سے پہلے اہل مکہ کے ساتھ مذاکرات فرما رہے تھے ،
جِن مذاکرات کے نتیجے میں صلح حدیبیہ واقع ہوئی ،
اُن مذاکرات میں مکہ کے کافر مُشرکوں میں سے ایک کافر مُشرک جس کا نام عُروہ تھا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے بات کرتا ہے ، اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی بے ادبی کرتا ہے کہ بات کرتے ہوئے بار بار اُن داڑھی مُبارک کو پکڑتا ہے،اور یہ بھی کہہ دِیا کہ """:::اے محمد کیا تم نے سنا ہے کہ عربوں میں تم سے پہلے کسی نے اپنے ہی خاندان کو تباہ کیا ہو؟(یعنی اگر تم جیتتے ہو تو اپنی ہی قوم قریش کو مار کر جیتتے ہو)"""،
اور پھر کہا کہ """ وَإِنْ تَكُنِ الأُخْرَى ، فَإِنِّى وَاللَّهِ لأَرَى وُجُوهًا ، وَإِنِّى لأَرَى أَوْشَابًا مِنَ النَّاسِ خَلِيقًا أَنْ يَفِرُّوا وَيَدَعُوكَ:::اور اگر معاملہ دُوسرا ہوا (یعنی قریش جیت گئے تو) اللہ کی قسم میں تو،تُمہارے اِرد گِرد مختلف قوموں اور قبلیوں کے ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں جو تمہیں چھوڑ دیں گے اور فرار ہو جائیں گے"""،
جب عُروہ نے یہ بات کہی ، جو کہ اُس وقت کےتمام مُسلمانوں کے اِیمان پر ایک بڑا بہتان تھا ، توأمیر المؤمنین ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ نے اُس کافر کو اُس کے عقیدے ،اِیمان اور اِخلاق کی حقیقت یاد دلانے کے لیے ایک محاورہ بولا ، جو اُس وقت عربوں میں اِستعمال کیا جاتا تھا، جب کسی کو اُس کی بات یا کام کی شدید برائی کا احساس دلوایا جانا مقصود ہوتا تھا ، کہ اِس کام یا بات سے اچھا تو یہ ہے کہ تُم یہ کام کر لو (جس کا محاورے میں ذِکر ہے)،
اب یہاں سے آگے بات کرنے سے پہلے لا محالہ مجھے وہ محاورہ اورمختصراً، اُس کا معنی ٰ و مفہوم بتانا پڑے گا ، لہذا براہ مہربانی اِسے بھی فحش گوئی پر محمول نہ کیا جائے ، کہ بسا اوقات کسی بات کو سمجھانے کے لیے کچھ ایسے اِلفاظ بولنا ہی پڑتے ہیں جو عام طور پر نہیں بولے جاتے ،کیونکہ اُنہیں اچھا نہیں سمجھا جاتا ،
وہ محاورہ تھا """امصُص بظر أُمک ::: اپنی ماں کی شرمگاہ چوس لو"""،
میں نے """بظر"""کا ترجمہ """شرمگاہ""" لکھا ہے ، جب کہ یہ لفظ شرمگاہ کے لیے نہیں ہے ، تفصیل میں جائے بغیر یہ بتاتا چلوں کہ بظر عورت کی شرمگاہ کے ایک خاص حصے کو کہا جاتا ہے ،
جی ، تو ،،، نبیوں اور رُسُولوں کے بعد سب سے بڑھ کر مکمل ترین اِیمان والے ، اور سب سے بُلند اور ارفع رُتبے والے اِنسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے پہلے بلا فصل خلیفہ أمیر المؤمنین ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ نے اِس موقع پرإِیمان والوں کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے محبت اور وفا داری کا اقرار کرتے ہوئے اور اُس کافر عُروہ کو اُس کی باتوں کی غلاظت اور برائی کا احساس دِلوانے لے لیے وہ محاورہ بولا ، لیکن اُس کی ماں کا ذِکر نہیں کیا ، بلکہ اُس بت کا ذِکر کیا جسے مکہ اور عرب کے دیگر کافر مُشرک اللہ کی بیٹی کہتے تھے ،( وہ بُت یا پتھر کا ٹکڑا طائف میں تھا)،
اور یہ کہا کہ """ امْصُصْ بَظْرَ اللاَّتِ ، أَنَحْنُ نَفِرُّ عَنْهُ وَنَدَعُهُ:::لات کی شرمگاہ چُوس لو ، کیا ہم لوگ محمد (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم)سے فرار ہو جائیں گے اور اِنہیں چھوڑ دیں گے ؟"""،
اور ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ُ کا محاورے کو بدل کر یہ جواب دینا ، اِس بات کی دلیل ہے کہ اُنہوں نے اپنی طرف سےبنا کر کوئی فحش گوئی نہیں کی ، بلکہ اُس محاورے کو بدل کر اُس کافر شخص کو یہ سمجھایا کہ ہم لوگ سچے اور اکیلے معبود اللہ اور اُس کے رسول محمد پر إِیمان لا کر اپنا سب کچھ قُربان کرنے نکلے ہیں ،تمہاری طرح جھوٹے معبودوں کے پُجاری نہیں ہیں ،
ایسے معبود جنہیں تُم اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے ہو،ہم کِسی صُورت میں بھی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو چھوڑ کر جانے والے نہیں ، ایسی بے تکی بکواس کرنے سے بہتر ہے کہ تُم اپنی اُس جھوٹی معبودہ کی شرمگاہ چُوسو ، جسے تم اللہ کی بیٹی سمجھتے ہو ،
پس ہمیں بڑی آسانی سے یہ سمجھ آتا ہے کہ أمیر المؤمنین ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ُ کی طرف سے ایسا شدید جواب اُس کافر عُروہ کو اُس کے عقیدے ،اِیمان اور اِخلاق کی حقیقت یاد دلانے کے لیے تھا، اور اُس لب ولہجے میں تھا جو لب و لہجہ اُس جیسے شخص سمجھ سکتے تھے ، اگر وہ اچھی صاف ستھری بات سمجھ سکنے والوں میں سے ہوتا تو اللہ کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی دعوت کو سمجھ چکا ہوتا ، اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی باتوں کو سمجھ چکا ہوتا ،اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے تحمل ، عفو و درگذر کو سمجھ چکا ہوتا ، اور اپنی بے ہودگی اور بد تمیزی سے باز آ چکا ہوتا ،
صحیح ثابت شدہ احادیث مُبارکہ ، اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے اقوال و افعال پر طعن کرنے والے ، اور محدثین کرام ، رحمہم اللہ جمعیاً پر طعن و تشنیع کرنے والے ، اور اُن کا مذاق اُڑانے والے لوگ ، اللہ جلّ جلالہُ کا یہ فرمان مُبارک پڑھیں اور خوب غور سے پڑھیں ﴿ لَّا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَن ظُلِمَ وَكَانَ اللَّهُ سَمِيعًا عَلِيمًا ::: اللہ اِس بات کو پسند نہیں کرتا کہ بدکلامی کی جائے ، سوائے اِس کے کسی پر ظُلم کیا جائے ، اور اللہ (سب ہی کچھ) سننےوالا،اور(ہر ایک)عِلم رکھنے والا ہے ﴾سُورت النِساء (4)/آیت 148،
وہ شخص، یعنی عُروہ ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی شان مُبارک میں جو بد تمیزی کر رہا تھا ، اور إِیمان والوں پر جو جھوٹ باندھ رہا تھا ، وہ سب کچھ اُن کے حق میں ظلم تھا ،
اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے اِس مذکورہ بالا فرمان شریف کی روشنی میں کسی ظالم کے بارے میں ، کسی ظالم کے ظلم کے جواب میں ایسی بات کہی جا سکتی ہے جو بری باتوں میں شُمار ہوتی ہے ،
پس ، پہلے بلا فصل خلیفہ أمیر المؤمنین ابو بکر الصدیق ، رضی اللہ عنہ ُ کا اُس کافر کو کچھ ایسے الفاظ میں جواب دینا کسی طور قابل گرفت ، اور قابل مذمت نہیں ،
یہاں آغاز میں کہی ہوئی ایک بات دہراتاچلوں کہ """أمیر المؤمنین ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ نے کِسی مُسلمان کے ساتھ ، حتیٰ کہ کِسی کافر کے ساتھ بھی کبھی اس قِسم کے اِلفاظ اِستعمال کرتے ہوئے بات نہ کی نہ قبل از اِسلام اور نہ اِسلام قُبُول کرنے کے بعد ، جو اِس بات کا ایک ناقابل رد ثبوت ہے کہ اِس ایک موقع پر ، صِرف ایک ہی دفعہ ، اِس قِسم کے شدید اِلفاظ خاص سبب کی وجہ سے اِستعمال کیے گئے ، اور خاص حِکمت کی وجہ سے اِستعمال کیے گئے"""،
اللہ تبارک و تعالیٰ کی ہم مُسلمانوں پر بے پناہ رحمتوں میں سے ایک رحمت یہ بھی ہے کہ اللہ کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت شریفہ کے ذریعے ہمیں بہت سے احکام کی تفسیر ، شرح اور تفصیل سِکھا دِی جو احکام کسی تفصیل کے بغیر قران کریم میں نازل فرمائے ، اور بے شمار ایسےمسائل اور حقائق سمجھا دیے جِن کا ذِکر اللہ جلّ شأنہُ نے اپنی کتاب کریم میں نہیں فرمایا ،
اِس واقعہ سے ہم مُسلمانوں کے إِماموں اور عُلماء نے یہ مسائل اخذ کیے :::
::::::: اگر مصلحت عامہ اور ضرورت کا تقاضا ہو تو اپنی گفتگو میں واضح طور پر شرمگاہ کا ( یا اُس کے مختلف حصوں کا) نام لیا جا سکتا ہے (جیسا کہ عِلم طب والے اپنے شاگردوں کو پڑھاتے اور سمجھاتے ہوئے لیتے ہیں ، اور جیسا کہ پاکیزگی اور طہارت کے مسائل سمجھنے سمجھانے کے لیے اِس کی ضرورت ہوتی ہے )،
::::::: اس بات کی دلیل ہے ، کہ لات نامی بُت یا پتھر ٹکڑا مؤنث سمجھا جاتا تھا،
::::::: جب بات کرنے والا ظلم و جُور پر مصر رہے تو پھر ہم اُسے نرمی اور اچھے الفاظ میں جواب دینے کے پابند نہیں رہتے ،
لہذا ، کسی بھی دُرُست عقل رکھنے والے کو خلیفہ اول بلا فصل أمیر المؤمنین ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ کے اِس قول پر کوئی اعتراض کرنے کی گنجائش نہیں رہتی ،
رہا معاملہ اُن لوگوں کا جو خود تو بنیادی پاکیزگی اور طہارت کے معاملات تک نہیں جانتے اور باتیں کرتے ہیں صحیح احادیث شریفہ کے خِلاف ، اور جنہیں اِسلامی عُلوم کی الف ب کا بھی پتہ نہیں اور بولتے ہیں محدثین کرام رحمہم اللہ کے خِلاف ، توایسے لوگوں کے لیے میں یہ ہی دُعاء کرتا ہوں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اُن لوگوں کو ہدایت دے ، اور اگر اُس کی مشیئت میں اُن لوگوں کے ہدایت نہیں ہے تو پھر اپنی تمام تر مخلوق کو اُن کے شر سے محفوظ فرما دے ۔
والسلام علیکم۔
طلب گارء دُعاء ، عادل سُہیل ظفر ۔
تاریخ کتابت : 29/01/1436ہجری، بمُطابق،22/11/2014عیسوئی۔