• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امیرالمومنین کے گھر کی عید!!!

حسن شبیر

مشہور رکن
شمولیت
مئی 18، 2013
پیغامات
802
ری ایکشن اسکور
1,834
پوائنٹ
196
حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃاللہ علیہ سے کسی نے پوچھا۔ ''آپ ایسے نیک اور اچھے انسان کس طرح بن گئے؟ آپ کے گھر کی تربیت ہے! استادوں کی مہربانی کا نتیجہ ہے یاکوئی اور بات ہے؟''آپؒ نے فرمایا... ''ایک چھوٹی سی بات ہے جس نے مجھے ٹھیک کر دیا''پوچھا گیا... ''وہ کیا؟''
فرمایا... ''ایک مرتبہ مجھے اپنے ایک غلام پر بہت سخت غصہ آیا' یہ غصہ اتنا بڑھا' اتنا بڑھا کہ میں اسے مارنے اُٹھا۔ اس غلام نے میرا غصہ دیکھا تو بولا... ''سرکار کبھی قیامت کے دن کو بھی یاد کر لیا کیجئے:''''میرا غصہ انتہا کو پہنچا ہوا تھا لیکن اس نے کچھ اس طرح سے یہ جملہ کہا کہ میرے قدم رک گئے' میرا ہاتھ رک گیا اور میری زبان رک گئی۔ قریب تھاکہ میرا دل بھی رک جاتا۔ مجھ پر ایسا خوف خدا طاری ہوا کہ میری حالت ہی بدل گئی۔ وہ دن اور آج کا دن قیامت کا خیال ہمیشہ میرے پیش نظر رہتا ہے اور وہ جملہ میرے کانوں میں گونجتا رہتا ہے''۔نوکروں کے ساتھ آپ کا سلوک اچھا تھا۔ اس درجہ اچھا کہ اُلٹے آپ ان کی خدمت کرنے لگتے تھے۔
گرمی کے دن تھے، سخت حبس تھا، لونڈی پنکھا جھل رہی تھی۔ آپ سرکاری کام میں لگے رہے، کچھ دیر گزری تو گرمی کا احساس بڑھا پلٹ کر دیکھا۔ وہاں کچھ اور ہی منظر تھا، پنکھا ایک طرف پڑا ہوا تھا اور ملازمہ کی آنکھ لگ گئی تھی، آپ نے پھر کام کرنا شروع کر دیا لیکن سخت گرمی تھی کام نہ کیا گیا، خود پنکھا اٹھایا اور اپنے آپ کو جھلنے لگے۔ خیال آیا... آخر اس غریب کو بھی تو گرمی لگ رہی ہو گی، اب ملازمہ کو پنکھا جھلنا شروع کیا، کافی دیر کے بعد اس کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھاکہ امیرالمؤمنین پنکھا جھل رہے ہیں' سٹپٹا کر اٹھ بیٹھی۔ ہاتھ جوڑے معافی مانگنے لگی... آپؒ نے فرمایا... ''کوئی بات نہیں۔ تم بھی میری طرح انسان ہو۔ تم کو بھی گرمی لگتی ہو گی''۔
بادشاہت میں فقیری: حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃاللہ علیہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے نواسے تھے۔ ان کا بھی وہی حال تھا جو نانا کا تھازیادہ تر مسجد میں ہوتے یا عام لوگوں میں بیٹھے رہتے اور کوئی اجنبی آجاتا تو پہچاننا ناممکن تھا کہ یہ امیرالمومنین ہیں' پھٹے پرانے جوتے۔ پُرانے سے کپڑے وہ بھی پیوند لگے ہوئے۔ سب سے برابری سے ملتے آقا اور غلام کی کوئی تمیز نہ تھی، ادب سے سلام کرنے اور جھک کر ہاتھ ملانے تک کی ممانعت تھی،اونچی جگہ نہ بیٹھتے تھے، شان اور امتیاز کی کوئی بات روا نہ رکھتے، تاریخ گواہ ہے حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی طرح آپ بھی دنیا کے عظیم الشان حکمرانوں میں گنے جاتے ہیں، معلوم ہوا بڑی شان و شوکت اور زرق برق، لباس میں نہیں' انسان کے اخلاق وکردار میں ہے۔
علم او راہل علم سے محبت:حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃاللہ علیہ نے عالموں کی بڑی قدر کی، انہیں روزگار کی طرف سے بے نیاز کر دیا، قاضی ابوبکر بن حزم کو لکھا: لوگوں کو چاہیے کہ عام طور پر تعلیم کو پھیلانے کی کوشش کریں۔ ایک گورنر کو لکھا: اہل علم کو مجبور کرو اور حکماً پابند کرو کہ مسجدوں میں بیٹھ کر درس دیں... حدیثیں ختم ہو رہی ہیں۔
حمص کے والی کو فرمان بھیجا... دنیا چھوڑ کر جن لوگوں نے پڑھنے پڑھانے کے لیے اپنی زندگی وقف کر رکھی ہے انہیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالو بیت المال سے سو سو دینار کا وظیفہ ان کے نام جاری کرو تاکہ وہ اطمینان سے اپنا کام جاری رکھ سکیں۔ طالب علموںکو بھی وظیفے دو تاکہ وہ دل لگا کر پڑھیں۔
عاصم بن عمرو بن قتادہ رحمۃ اللہ علیہ سیرت اور تاریخ کے بڑے عالم تھے جامع دمشق میں ان کے درس شروع کروائے۔ حضرت نافع مدینہ کے بہت بڑے فقیہہ تھے، حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ ٗنے آپ کی تربیت فرمائی تھی۔ انہیں بڑی عزت و احترام سے مصر بھیجا۔ یزید بن ابی مالک اور حارث اشعری کو بدویوں کی تعلیم کے لیے مقرر کیا۔ قاری بن عامان کو مصر قرآن سکھانے روانہ کیا۔ مملکت کے گوشے گوشے میں واعظ اور مفتی مقرر کیے۔ حتیٰ کہ سلیط بن عبداللہ حنفی رحمۃ اللہ علیہ کو چین روانہ کیا۔ نظم و نسق کی ایک ایک بات پر نظر تھی... علمی دنیا کے مسائل سے بھی اس حد کی واقفیت تھی کہ کیا کہیے۔
زہد و تقویٰ اور بیٹی کا حال: ڈھائی برس کا زمانہ کتنا ہی ہوتا ہے لیکن اس دور میں حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے کیسے کیسے کام کیے۔ خلفائے راشدین کے بعدسے ان کے زمانے تک جب آپ نے خلافت سنبھالی کوئی ۵۸ برس کا عرصہ بیت چکاتھا، اس زمانے میں حکومت کا ڈھب ہی بدل گیا تھا، ملت کے مفادات پر ذات اور خاندان کی محبت غالب آگئی تھی، بیت المال ذاتی خزانہ بن گیا تھا، شاہان کسریٰ کی شان و شوکت کے بہت سے لوازمات بنو اُمیہ کے حکمران کی زندگی میں بھی داخل ہو گئے تھے۔
تین سو دربان ہر وقت محل پر موجود رہتے شاہی اصطبل دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ خود عمر بن عبدالعزیزؒ اسی ماحول میں پلے بڑھے تھے لیکن خلیفہ ہوئے تو زندگی کا انداز ہی بدل گیا۔ کہاں تو چار چار سو درھم کا ایک ایک جوڑا پہنتے تھے اور دن میں کئی کئی جوڑے بدلتے تھے اور کہاں یہ حال ہو گیا کہ امیرالمؤمنین کے پاس لے دے کر ایک ہی جوڑا رہ گیا تھا اس کو دھو دھو کر پہنتے تھے۔ بال بچوں کا بھی یہی حال تھا۔ آمنہ بڑی چہیتی بیٹی تھیں، معلوم ہوا کپڑے بالکل پھٹ گئے ہیں، کوئی جوڑا صحیح سلامت نہیں، لاڈلی بیٹی نے تقاضا کیا۔
''بابا! ایک جوڑا کپڑا بنوا دیجئے!'' باپ ایسی سلطنت کا حکمران جس میں سورج نہ ڈوبتا تھا۔ فرمایا۔ ''فرش کی چاندنی پھاڑ کر ایک کرتا سی ڈالو''۔
تاریخ کا ناقابل یقین خلیفہ: لوگ حکومت پاتے ہیں تو اپنا گھر بھرتے ہیں۔ عزیزوں رشتہ داروں کو نوازتے ہیں جو ممکن رعایت ہے اپنے دوستوں اور طرفداروں کے لیے روا رکھتے ہیں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ خلیفہ مقرر ہوئے تو بنو اُمیہ کے لیے یہ بات الٹی پڑی۔ سلیمان بن عبدالملک تک اس خاندان کے سات خلیفہ حکومت کر چکے تھے۔ کسی نے بھی حکومت کا انداز نہ بدلا۔ خاندانِ خلافت کے لوگ خوشی کے جھولوں میں جھولتے رہے لیکن اب دنیا ہی بدل گئی تھی۔ انعام و اکرام' جاگیر اور جائیداد کی امید کہاں جو کچھ پاس تھا، وہی بچ جاتا تو بہت تھا۔
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں سے پائی پائی کا حساب پوچھ رہے تھے۔ یہ جاگیر کہاں سے آئی؟ وہ محل کس کی ملکیت ہے؟ اتنا روپیہ پیسہ تمہارے پاس کہاں سے آیا؟ انہوں نے سب ناجائز عطیات واپس لے کر بیت المال میں داخل کرا دئیے۔ زمینیں اور مکانات جن کے تھے' انہیں واپس کروا دئیے''۔
عید کے روز حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نماز عید کے بعد گھر تشریف لائے تو بیٹیاں عید کی مبارکباد دینے کیلئے حاضر ہوئیں' حیرت کی بات یہ کہ انہوں نے اپنے منہ دوپٹے سے ڈھکے ہوئے تھے امیرالمؤمنین رحمۃ اللہ علیہ نے حیران ہوکر پوچھا کہ بیٹا کیا بات ہے؟
بیٹی نے جواب دیا کہ اباجان آج گھر میں کھانے کیلئے کچھ نہیں تھا اس لیے صرف پیاز کھایا ہے جس کی بو منہ میں موجود ہے مجھے اچھا نہ لگا کہ اس بو سے آپ کو تکلیف ہو یہ سن کر حضرت عمربن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور فرمانے لگے بیٹا! میں چند دن کی زندگی کیلئے ہمیشہ کی آخرت برباد نہیں کرسکتا اور نہ تمہیں حرام کا لقمہ کھلانا چاہتا ہوں۔ (بشکریہ ابولبیب)
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
بہت عمدہ۔۔۔۔
اللہ ایسا محاسبہ آج کے مسلمانوں میں بیدار کر دے۔آمین
 
Top