saeedimranx2
رکن
- شمولیت
- مارچ 07، 2017
- پیغامات
- 178
- ری ایکشن اسکور
- 16
- پوائنٹ
- 71
دین اسلام کی تاریخ میں جب بھی کسی حکمران نے اسلام کی سر بلندی کی کوشش کی تو اندرونی سازشوں نے اس کے خلاف سر توڑ کوشش کی۔
ابو بکر علیہ السلام ہوں، عمر ہوں، عثمان ہوں یا علی علیہم السلام، یا پھر معاویہ علیہ السلام۔۔۔
ہر دور میں اندرونی سازشیوں نے اسلام کے قلعہ کو کمزور و مسمار کرنے کی کوشش کی۔
تاریخ اسلام میں ایک ایسا کردار ہے جس نے بطور حکمران اسلام کو مضبوط کیا، مسلمانوں کو سائنسی علوم کی طرف راغب کیا، ترقی کی راہیں دکھائیں وہ کردار امیر المؤمنین فی آل بیت نبی ﷺ مامون الرشید کا ہے جو کہ نبی ﷺ کے چچا حضرت عباس علیہ السلام اور حبر امت عبداللہ بن عباس علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے۔
روافض اور سبائی جو کہ شروع سے ہی اہل بیت کے دشمن تھے، انہوں نے اس بات کو بالکلبالکل گوارا نہ کیا کہ امیر المؤمنین مامون الرشید اپنے بد کردار، کمزور بھائی کا قلع قمع کرکے اسلام کے قلعے کو مضبوط کریں۔
اس لئے انہوں نے آپ کے خلاف طرح طرح کی سازشیں شروع کردیں۔
یہ علوم اسلامیہ یعنی قرآن کی تفسیر و حدیث کی تدوین و ترقی کا دور تھا، اس لئے اس دفعہ روافض اور سبائیوں نے ان علماء کی صف میں داخل ہو کر امیر المؤمنین مامون الرشید کو گرانے کا سوچا۔
ہمارے اسلاف جو نہایت انصاف پسند تھے اور جرح و تعدیل کی کتب میں متعدد جروحات ایسے راویوں پر کی ہیں جو کہ رافضی س شیعہ وغیرہ تھے، یہ ان کی انصاف پسندی کا ثبوت ہے، اور اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ رافضی اور غالی شیعہ ہمیشہ سے ہی اہل حدیث کی صفوں میں موجود رہےہیں ۔
امیر المؤمنین مامون الرشید کا دور بھی مختلف نہ تھا اسلئے ان روافض وشیعہ نے اسلام کے اس مجاہد اور حبر امت کی نسل کے ایک بڑے عالم کو ڈی گریڈ کرنے کے لئے نہایت انصاف پسند علماء کو ہی استعمال کیا، یہ علماء بے شک علوم اسلامیہ کے ماہر تھے مگر ایسی چالاکیاں ان میں نہ تھیں کہ ملکی سیاست کے ہتھکنڈوں کو سمجھ سکتے۔
سازشیوں نے اس وقت کے زیر بحث مسئلہ خلق قرآن کو ہتھیار بنایا اور امیر المؤمنین پر تہمت لگائی گئی کہ وہ خلق قرآن کے حمایتی ہیں۔ مزید برآں امیر المؤمنین کی دربار کی صفوں میں اپنے چند لوگ پہنچائے گئے اور جب امیر المؤمنین کفار کے ساتھ سرحدوں میں جہاد پر مشغول تھے تو ان سادہ لوح علماء کو اپنے حمایتیوں کے ذریعے گرفتار کیا گیا اور تھوڑا بہت مارا پیٹا گیا۔
علماء چونکہ جنگی سختیوں کے عادی نہیں ہوتے اس لئے یہ تھوڑی مات پیٹ بھی بہت تھی۔
رافضیوں اور سبائیوں نے اگلا کام یہ کیا کہ اہل حدیث کی صفوں میں موجود اپنے حامیوں اور ایجنٹوں نے ذریعے ان واقعات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنے کی کوشش کی اور اسکا الزام امیر المؤمنین پر ڈالنے کی کوشش کی تاکہ عام عوام۔ کو امیر المؤمنین فاتح ترکیہ و روس کے خلاف ابھارا جا سکے۔
چونکہ عوام عام طور پر علماء کے پیچھے چلتے ہیں اس لئے ان کا یہ ہتھکنڈا کامیاب ہو جاتا مگر امیر المؤمنین نے بروقت اس صورتحال کو بھانپ لیا تھا اس لئے اس پر قابو پا لیا گیا۔
زیادہ تفصیلات میں نہیں جاؤں گا سب کچھ کتب میں موجود ہے اور یہ بات بھی واضح ہے کہ کوئی ایسی روایت صحیح سند کے ساتھ موجود نہیں کہ عالم اسلام کے اس عظیم حکمران نے کسی عالم پر تشدد کا حکم دیا ہو۔
سادہ لوح علماء جن کو یہ معلوم بھی نہیں تھا کی یہ حکم امیر المؤمنین کا نہیں ہے انہوں نے آپ کے خلاف بہت کچھ لکھا۔۔ مگر یہ سب غلط فہمی کی وجہ سے ہوَ کیونکہ علماء ایسے سازشی ہتھکنڈے نہیں جانتے تھے۔
میری تمام قارئین سے درخواست ہے کہ اس حقیقت کو قبول کرہں اور اسلام کے اس عظیم حکمران کے خلاف کھڑی کی جانے والی تہمتوں کی عمارات کو منہدم کرنے میں اپنا حصہ ڈالیں۔
جزاک اللہ
ابو بکر علیہ السلام ہوں، عمر ہوں، عثمان ہوں یا علی علیہم السلام، یا پھر معاویہ علیہ السلام۔۔۔
ہر دور میں اندرونی سازشیوں نے اسلام کے قلعہ کو کمزور و مسمار کرنے کی کوشش کی۔
تاریخ اسلام میں ایک ایسا کردار ہے جس نے بطور حکمران اسلام کو مضبوط کیا، مسلمانوں کو سائنسی علوم کی طرف راغب کیا، ترقی کی راہیں دکھائیں وہ کردار امیر المؤمنین فی آل بیت نبی ﷺ مامون الرشید کا ہے جو کہ نبی ﷺ کے چچا حضرت عباس علیہ السلام اور حبر امت عبداللہ بن عباس علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے۔
روافض اور سبائی جو کہ شروع سے ہی اہل بیت کے دشمن تھے، انہوں نے اس بات کو بالکلبالکل گوارا نہ کیا کہ امیر المؤمنین مامون الرشید اپنے بد کردار، کمزور بھائی کا قلع قمع کرکے اسلام کے قلعے کو مضبوط کریں۔
اس لئے انہوں نے آپ کے خلاف طرح طرح کی سازشیں شروع کردیں۔
یہ علوم اسلامیہ یعنی قرآن کی تفسیر و حدیث کی تدوین و ترقی کا دور تھا، اس لئے اس دفعہ روافض اور سبائیوں نے ان علماء کی صف میں داخل ہو کر امیر المؤمنین مامون الرشید کو گرانے کا سوچا۔
ہمارے اسلاف جو نہایت انصاف پسند تھے اور جرح و تعدیل کی کتب میں متعدد جروحات ایسے راویوں پر کی ہیں جو کہ رافضی س شیعہ وغیرہ تھے، یہ ان کی انصاف پسندی کا ثبوت ہے، اور اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ رافضی اور غالی شیعہ ہمیشہ سے ہی اہل حدیث کی صفوں میں موجود رہےہیں ۔
امیر المؤمنین مامون الرشید کا دور بھی مختلف نہ تھا اسلئے ان روافض وشیعہ نے اسلام کے اس مجاہد اور حبر امت کی نسل کے ایک بڑے عالم کو ڈی گریڈ کرنے کے لئے نہایت انصاف پسند علماء کو ہی استعمال کیا، یہ علماء بے شک علوم اسلامیہ کے ماہر تھے مگر ایسی چالاکیاں ان میں نہ تھیں کہ ملکی سیاست کے ہتھکنڈوں کو سمجھ سکتے۔
سازشیوں نے اس وقت کے زیر بحث مسئلہ خلق قرآن کو ہتھیار بنایا اور امیر المؤمنین پر تہمت لگائی گئی کہ وہ خلق قرآن کے حمایتی ہیں۔ مزید برآں امیر المؤمنین کی دربار کی صفوں میں اپنے چند لوگ پہنچائے گئے اور جب امیر المؤمنین کفار کے ساتھ سرحدوں میں جہاد پر مشغول تھے تو ان سادہ لوح علماء کو اپنے حمایتیوں کے ذریعے گرفتار کیا گیا اور تھوڑا بہت مارا پیٹا گیا۔
علماء چونکہ جنگی سختیوں کے عادی نہیں ہوتے اس لئے یہ تھوڑی مات پیٹ بھی بہت تھی۔
رافضیوں اور سبائیوں نے اگلا کام یہ کیا کہ اہل حدیث کی صفوں میں موجود اپنے حامیوں اور ایجنٹوں نے ذریعے ان واقعات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنے کی کوشش کی اور اسکا الزام امیر المؤمنین پر ڈالنے کی کوشش کی تاکہ عام عوام۔ کو امیر المؤمنین فاتح ترکیہ و روس کے خلاف ابھارا جا سکے۔
چونکہ عوام عام طور پر علماء کے پیچھے چلتے ہیں اس لئے ان کا یہ ہتھکنڈا کامیاب ہو جاتا مگر امیر المؤمنین نے بروقت اس صورتحال کو بھانپ لیا تھا اس لئے اس پر قابو پا لیا گیا۔
زیادہ تفصیلات میں نہیں جاؤں گا سب کچھ کتب میں موجود ہے اور یہ بات بھی واضح ہے کہ کوئی ایسی روایت صحیح سند کے ساتھ موجود نہیں کہ عالم اسلام کے اس عظیم حکمران نے کسی عالم پر تشدد کا حکم دیا ہو۔
سادہ لوح علماء جن کو یہ معلوم بھی نہیں تھا کی یہ حکم امیر المؤمنین کا نہیں ہے انہوں نے آپ کے خلاف بہت کچھ لکھا۔۔ مگر یہ سب غلط فہمی کی وجہ سے ہوَ کیونکہ علماء ایسے سازشی ہتھکنڈے نہیں جانتے تھے۔
میری تمام قارئین سے درخواست ہے کہ اس حقیقت کو قبول کرہں اور اسلام کے اس عظیم حکمران کے خلاف کھڑی کی جانے والی تہمتوں کی عمارات کو منہدم کرنے میں اپنا حصہ ڈالیں۔
جزاک اللہ