• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امیر المومنین و کاتب وحی معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
264
پوائنٹ
142
*امیر المؤمنین و کاتبِ وحی معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما۔*

(پہلی قسط)

زوالِ علم کے اس دور میں ہر کوئی مفتی بننے کیلئے طبع آزمائی کرتا نظر آرہا ہے، خاص کر ٹیلیویژن اور اجتماعی مواصلات ( social media) نے تو مذکورہ خواہش رکھنے والوں کو بہترین میدان فراہم کیا ہے، چنانچہ موہنجوداڑو میں چھپے خزانے کی کھوج کی طرح ہر دن ایک نئے مفتی کا حصول ہو رہا ہے، نیز روز بروز نت نئی تحقیق سامنے آرہی ہے، اور اس تحقیق کو مزخرف کرکے ایسے پیش کیا جارہا ہے گویا کہ علی الصبح کوئی نئی وحی ان کے ہاتھ لگی ہو۔

ہم اہل علم اور تحقیق و جستجو کے بالکل بھی خلاف نہیں، لیکن تحقیق کے نام پر "تحکیک" اور علم کے نام پر "الم" سے ہمیں ویسی ہی تکلیف ہوتی ہے جیسے کسی نوزائیدہ بچے کے کان میں ریل کی سیٹی قریب سے بجانے سے ہوتی ہے۔

دورِ حاضر میں تقریبا ہر شخص سیال قلم کا مالک ہے، لکھاریوں کا سیلاب امنڈ پڑا ہے، زبان سے زیادہ انگلیاں رقص کرتی نظر آرہی ہیں، ہر شخص آزادی رائے کے نام پر بلا خوف و خطر کسی بھی موضوع پر خامہ فرسائی کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتا، چاہے وہ اس موضوع سے بالکل نابلد ہو یا اس تعلق سے اس کی حیثیت طفل مکتب سی ہو۔

شرعی علوم کو چھوڑ کر دیگر علوم میں جس سے آپ کی وابستگی نہ ہو اگر آپ رائے زنی کرتے ہیں تو اس میدان کے ماہرین آپ کا بخیہ ادھیڑ نے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ تے ہیں، ہر جگہ آپ کا ناطقہ بند ہو جاتا ہے، ذلت ورسوائی الگ سے پروسی جاتی ہے۔
لیکن اگر آپ مسلمان ہیں، شرعی علوم سے آپ کے سات پشتوں تک کا کوئی رشتہ نہیں ملتا اس کے باوجود اگر آپ کوئی ایسی رائے پیش کریں جو نقلا، عقلا اور علما مضحکہ خیز ہو پھر بھی بعض ثقافتی حلقے میں آپ کی کافی پذیرائی ہوگی، بلکہ آپ جیسی شخصیت کیلئےان کے دل کے سارے دروازے کھلے ملیں گے۔

دین اسلام کے مسلمات سے چھیڑ چھاڑ کرنا اور پھر اپنی رائے کے ذریعہ ان اصولوں کو غلط ثابت کرنے کا چلن عام ہو چلا ہے۔

محمد المسعری جو اصل میں سعودی ہے لیکن امریکہ میں پناہ گزین ہے، اس نے فیزیکس physics میں پی ایچ کی ڈگری حاصل کی ہے، اور اس کا استاذ بھی رہ چکا ہے، اس نے حال ہی میں اپنے ایک ٹویٹ میں معاویہ رضی اللہ عنہ پر (نعوذباللہ) لعنت کرنے کی بات کی ہے۔
مولانا مودودی ایک سیاسی اور فلسفی تھے، لیکن خمینی کے انقلاب سے اس قدر متاثر ہوئے کہ تمام حدیں پار کردیں، انہوں نے بھی معاویہ رضی اللہ عنہ کو اپنی عتاب کا نشانہ بنایا۔
سید قطب ایک قلم کار تھے، لیکن یہ ہر فکر سے متاثر تھے، ان پر سب سے زیادہ خارجیت غالب تھی، انہوں نے بھی معاویہ رضی اللہ عنہ پر بہتان تراشیوں میں اپنا پورا زور صرف کیا ہے۔
یہ تینوں اور ان کے ہمنوا معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف ایک ہی پلیٹ فارم پر قائم ہیں۔
مذکورہ اشخاص میں سے کسی کا بھی تخصص شرعی علوم نہیں، لیکن تینوں اپنے اپنے طور مفتی مانے جاتے ہیں، بلکہ ان کے فتاوے کو محدثین وفقہاء پر ترجیح حاصل ہوتی ہے۔
اگر آپ بیسویں صدی سے قبل کی تاریخ پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ اہل سنت والجماعت کا لبادہ اوڑھ کر منظم طریقہ سے صحابہ کی جماعت کو نشانہ بنانے کا کام پہلے کبھی نہیں ہوا، کیوں کہ اس سے قبل سب اپنے اپنے فن کے اصول و ضوابط سے بخوبی واقف تھے، اور انہی مسائل سے وہ دلچسپی لیتے تھے جس میں ان کا تخصص ہوتا تھا۔
اگر سلف کے اقوال کو بغور پڑھ لیا جاتا تو صحابہ پر یوں طعن کرنے کی نوبت ہی نہیں آتی، لیکن جب کج فکر افراد کو اپنا مرشد وقائد مان لیا جائے تو:
إذا كان الغراب دليل قوم يمر بهم إلى جيف الكلاب
صادق آتا ہے۔

اگلی قسط میں "معاویہ رضی اللہ عنہ کا مقام علماء اسلام کے اقوال کی روشنی میں" ملاحظہ فرمائیں، ان شاءاللہ۔

جاری۔۔۔۔۔۔۔

ابو احمد کلیم
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
264
پوائنٹ
142
*امیر المؤمنین و کاتبِ وحی معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما۔*
(دوسری قسط)

*[معاویہ رضی اللہ عنہ کا مقام علماء اسلام کے اقوال کی روشنی میں]*

علماء کرام کو دین میں ایک خاص مقام حاصل ہے، ان کی باتیں مشکوٰۃ نبوت کا ماحصل ہوتی ہیں، دین کے محافظ، انبیاء کے وارث، توحید کے داعی، سنت کے حامی اور بدعت کے ماحی ہوتے ہیں، اللہ رب العالمین نے اپنی وحدانیت پر گواہ بنانے کے لیے جن کا انتخاب کیا ان میں سے علماء بھی ہیں، اس لئے ان کی بات قابلِ توجہ اور لائقِ التفات ہوتی ہیں، اور خاص کر جب ان علماء کا تعلق خیر القرون سے ہو تو اہمیت مزید دوبالا ہو جاتی ہے، اس لئے جن اقوال کو ہم معاویہ رضی اللہ عنہ کے سلسلے میں پیش کریں گے وہ یہ کہہ کر ردی کی ٹوکری میں نہ ڈالی جائے کہ علماء کی بات قرآن وحدیث کا درجہ نہیں رکھتی ہیں، یہ ان کی اپنی رائے ہو سکتی ہے، یاد رہے کہ ہر رائے رد نہیں کی جاتی، جو رائے قرآن وحدیث کے موافق ہو اسے تسلیم کیا جاتا ہے اور جو مخالف ہو اسے نہیں مانا جاتا۔
جب چودہویں صدی ہجری میں پیدا ہونے والے غیر عالم شخص کی غیر معتبر بات لوگوں کیلئے قابل قبول ہو سکتی ہے تو پھر صحابہ و تابعین کے زمانے میں پیدا ہونے والے محدثین وفقہاء کی بات قابلِ قبول کیوں نہیں ہو سکتی؟
نیز یہ کہ خیر القرون کے علماء نے تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ان کے بعد کے بزرگان دین کا زمانہ دیکھا ہے، اوراس صحابی جلیل کے ساتھ ان کا تعامل بھی دیکھا ہے، اور خود اس صحابی کو بھی دیکھا ہے یا ان کے بارے میں بہت قریب سے سنا ہے، تو پھر ان کی بات قابلِ تسلیم کیوں نہیں ہوسکتی؟ جبکہ سلف حق بات کہنے میں کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے، نہ ہی انہیں منصب وکرسی کی حرص و ہوس تھی، اور نہ ان کی نظر سرکاری امداد پر ہوتی تھی، اس لئے فہم سلف (صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کو سلف کہتے ہیں) اسلام کو سمجھنے کیلئے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔
معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں سلف صالحین کی کیا رائے ہے آئیے اب ہم وہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

عمر وعثمان رضی اللہ عنہما کے دورِ خلافت میں معاویہ رضی اللہ عنہ شام کے حاکم رہے، اور ظاہر سی بات ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ حاکم خود نہیں بنے تھے بلکہ مذکورہ دونوں خلیفہ نے اپنے اپنے زمانے میں انہیں شام کا گورنر بنایا تھا، دونوں خلیفہ راشد دور اندیش، بردبار، حکیم ودانا، اور عالم وفاضل تھے، چنانچہ ان کا انتخاب بھی علم وفضل اور سیاسی امور میں حسنِ تصرف کی بنیاد پر ہی ہوتا تھا، اب یہاں غور کا مقام ہے کہ دونوں خلیفہ راشد نے ان کو حاکم بنانے پر اتفاق کرلیا لیکن اس زمانے کے بعض منہ زور افراد انہیں صحابی بھی ماننے کو تیار نہیں، خلفائے راشدین کا معاویہ رضی اللہ عنہ پر بطور گورنر بھروسہ کرنا خلفاء راشدین کے نزدیک ان کے بلند مقام اور ان کی ثقاہت کو واضح کرتا ہے۔

1- سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے فرمایا: *جس کی موت اس حالت میں ہوئی ہو کہ وہ خلفائے راشدین سے محبت کرتا تھا، اور عشرہ مبشرہ بالجنہ پر یقین رکھتا تھا، اور معاویہ رضی اللہ عنہ کیلئے رحمت کی دعائیں کرتا تھا تو ممکن ہے کہ اللہ رب العالمین اس کا کوئی حساب وکتاب نہ کرے* (1)۔

2- عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ اور عمر بن عبد العزیز میں افضل کون ہیں؟
عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ: *نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دورانِ جنگ جو غبار معاویہ رضی اللہ عنہ کی ناک میں داخل ہوئی وہ عمر بن عبد العزیز سے کہیں زیادہ بہتر ہے*(2)۔

3- جب مذکورہ بالا سوال معافی بن عمران رحمہ اللہ سے پوچھا گیا تو وہ غصہ ہوگئے اور فرمایا: *تم نے صحابی کو تابعی کے برابر کیسے قرار دیا، کسی بھی تابعی کا ایک صحابی سے مقابلہ ہو ہی نہیں سکتا، کیوں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ اللہ نبی کے ساتھی ہیں، ان کے سسرالی رشتہ دار، اور کاتبِ وحی ہیں*(3)۔

4- عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: *معاویہ رضی اللہ عنہ ہمارے نزدیک محبتِ صحابہ کے پرکھنے کا معیار ہیں، چناں چہ جو معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف نگاہِ غلط اٹھاتا ہے، یا ان کے خلاف بغض و عداوت رکھتا ہے ہم اسے پورے صحابہ سے نفرت کرنے والا سمجھتے ہیں*(4)۔
یعنی معاویہ رضی اللہ عنہ کی ذات میں طعن پورے صحابہ کی ذات میں طعن کے مترادف ہے۔

5- ربیع بن نافع الحلبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: *معاویہ رضی اللہ عنہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لئے حجاب کی حیثیت رکھتے ہیں، چنانچہ جو حجاب سے چھیڑ خانی کرسکتا ہے وہ حجاب کے پیچھے چھپی اشیاء سے بدرجہ اولیٰ چھیڑ خانی کر سکتا ہے*(5)۔

6- امام سجزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: *جو شخص عثمان، علی، عائشہ، معاویہ، عمرو بن العاص، اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہم اجمعین کی شان میں تنقیص کرتا ہے وہ خارجی اور گمراہ ہے*(6)۔

7- ابراھیم بن میسرۃ کہتے ہیں کہ: *میں نے عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کو کبھی کسی انسان کی پٹائی کرتے نہیں دیکھا، ہاں اگر کوئی معاویہ رضی اللہ عنہ کو برا کہتا یا ان کی شان میں گستاخی کرتا تو پھر اس پر کوڑے برساتے تھے*(7)۔
8- امام احمد رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما کے مابین جو کچھ ہوا اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ امام احمد نے جواب دیا کہ: *میں ان کے بارے سوائے اچھی بات کے اور کچھ نہیں کہوں گا، ان سب پر اللہ رب العالمین اپنی رحمتیں نازل فرمائے*(8)۔

9- ابوزرعۃ رازی رحمہ اللہ سے ایک آدمی نے کہا کہ میں معاویہ سے نفرت کرتا ہوں، تو ابوزرعۃ نے اس سے پوچھا کہ کیوں نفرت کرتے ہو؟ تو اس نے کہا کہ: انہوں نے علی رضی اللہ عنہ سے لڑائی کی اسی وجہ سے میں ان سے نفرت کرتا ہوں، ابو زرعہ رازی رحمہ اللہ نے اس شخص سے کہا کہ: *تو برباد ہوجائے، معاویہ رضی اللہ عنہ کا رب رحیم ہے، اور علي رضي الله عنہ جن سے انہوں نے قتال کیا وہ کریم الطبع اور شریف النفس ہیں، نیز ان دونوں سے اللہ راضی ہے، تو پھر تم کون ہوتے ہو ان دونوں کے درمیان دخل اندازی کرنے والے؟* (9).

10- امام نسائی رحمہ اللہ سے معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا:
*اسلام کی مثال ایک گھر کی طرح ہے جس کا ایک دروازہ ہے، اور وہ دروازہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں، چنانچہ جو صحابہ کو تکلیف دیتا ہے گویا کہ وہ اس گھر کو برباد کرنا چاہتا ہے، اور جو دروازہ پر دستک دیتا ہے در اصل وہ گھر میں داخل ہونا چاہتا ہے ( یعنی جو صحابہ پر لعن طعن کرتا ہے در اصل وہ اسلام پر طعن کرنا چاہتا ہے)، اور جو معاویہ رضی اللہ عنہ کو طعن و تشنیع کا نشانہ بناتا ہے حقیقت میں وہ پورے صحابہ کو مطعون کرنا چاہتا ہے*(10)۔

تلک عشرۃ کاملۃ

قارئینِ کرام یہ تو مشتِ نمونہ از خروارے ہے، ورنہ سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کیلئے۔

اگلی قسط "صحابہ کے درمیان ہونے والے اختلافات بالخصوص علی ومعاویہ رضی اللہ عنہما کے مابین ہونے والے واقعات علماء اسلام کے اقوال کی روشنی میں" ملاحظہ کریں ان شاءاللہ۔
جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابو احمد کلیم
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( 2، 3، 5، 7، 9). البدایہ والنہایہ 130- 139.
(4) تاریخ دمشق لابن عساکر (59/211).
(6) رسالۃ السجزی ص (218)۔
(8) السنۃ للخلال (2/460).
(10) (تہذیب الکمال 1/339)
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
264
پوائنٹ
142
امیر المومنین وکاتبِ وحی معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما۔
(تیسری قسط).

علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان جو کچھ بھی ہوا وہ اجتہاد پر مبنی تھا، جن کا اجتہاد صحیح ہے وہ دو اجر کے مستحق ہونگے، اور جو اپنے اجتہاد میں غلطی کرگئے وہ ایک اجر کے مستحق ہونگے۔
دوسری بات یہ کہ قدرو منزلت میں ان کا موازنہ ان کے بعد کے لوگوں سے کرنا بالکل خلافِ عدل وشریعت ہے، کیوں کہ:

# اللہ ان سب سے راضی ہے۔
# وہ سب کے سب قرآن کی شہادت کے مطابق جنتی ہیں۔
# نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بالخصوص ان نفوسِ قدسیہ کے متعلق بدزبانی سے منع کیا ہے۔
# اہل سنت والجماعت کا اتفاق ہے کہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین عادل ہیں، یعنی سب سچے اور ثقہ ہیں۔

اس لئے ان کے مابین ہونے والے آپسی اختلافات کو اسی نظر سے دیکھنا جیسے ہم اپنے درمیان کے اختلافات کو دیکھتے ہیں، نیز ان اختلافات کا محاکمہ اسی طرح کرنا جیسے ہم اپنے درمیان کے اختلافات کا کرتے ہیں کم علمی اور مزاجِ شریعت سے عدمِ واقفیت کا بین ثبوت ہے۔

یاد رہے کہ کتاب وسنت کو سمجھنے میں ہم آزاد نہیں ہیں، بلکہ کتاب وسنت کے کسی بھی مسئلہ کو فہم سلف کے مطابق ہی سمجھنا نقطہ اتصال کی حیثیت رکھتا ہے جسے بروئے کار نہ لانا اسلام کی حقیقی تعلیم سے دوری اور ضلالت وگمراہی کی پگڈنڈیوں پر گامزن ہونے کا بنیادی سبب ہے۔
اگر کتاب وسنت کو سمجھنے کے لیے فہم سلف کی ضرورت نہیں ہوتی تو خوارج، معتزلہ، قدریہ، روافض، مرجئہ، جہمیہ اور دیگر تمام فرقِ باطلہ اپنے منہج اور استدلال واستنباط میں صحیح قرار پاتی، کیوں کہ یہ تمام فرقے اپنی کج روی اور باطل نظریات پر کتاب وسنت سے ہی استدلال کرتے ہیں۔
خلاصہ کلام یہ کہ ہر کسی کی سمجھ سے کتاب وسنت کو نہیں سمجھا جا سکتا اور نہ ہی ہر کسی کی سمجھ قابلِ اعتبار ہو سکتی۔

ایک اور بات کا جاننا بہت ہی ضروری ہے کہ کسی مسئلہ میں سلف کی خاموشی قطعا اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ اس مسئلہ کا حل نہیں جانتے تھے، یا اس کو نہیں سمجھتے تھے، بلکہ خشیتِ الہی اور زہد و ورع کا تقاضا ہی یہی تھا کہ اس مسئلہ میں خاموشی اختیار کی جائے، اور ان مسائل پر لب کشائی کی جائے جو امت کیلئے دنیوی و اخروی زندگی کی سعادت کا سبب بنے۔

جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابو احمد محمد کلیم الدین یوسف
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
264
پوائنٹ
142
*امیر المومنین وکاتبِ وحی معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما*۔

(چوتھی قسط)

عام طور پر دیکھا یہ جاتا ہے کہ اختلافاتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ہوا دینے والوں کی کل پونجی غیر محقق تاریخی روایات ہوتی ہیں، اور انہی تارِ عنکبوت سی کمزور روایات کا سہارا لے کر ہر محفل، مجلس، بزم، تحریر، تقریر، اخبار، جرائد، مجلات، تالیف، تصنیف، مباحثہ اور مناقشہ میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے خلاف زبان صاف کرتے ہیں۔

شرعی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان ہونے والے اختلافات کے سلسلے میں چار بنیادی باتوں کا جاننا بہت ضروری ہے۔

1- پہلی چیز عقیدہ کا علم، یعنی صحابہ کے مابین ہونے والے واقعات کے بارے میں ایک مسلمان کا کیا عقیدہ ہونا چاہیے اس کو جاننا بے حد ضروری ہے۔

2- دوسری بنیادی چیز ان واقعات واختلافات سلسلے میں وارد روایات کا علم، اب یہ روایات یا تو تاریخی ہوں گی یا پھر حدیث کی کتابوں میں ملیں گی۔

3- تیسری بنیادی چیز ان روایات کی تحقیق ہے، کیوں کہ اس باب میں ہر قسم کی روایات پائی جاتی ہیں، صحیح، ضعیف، موضوع وغیرہ، اس لئے شریعت اسلامیہ کی روشنی میں قائم شدہ میزانِ تحقیق پر پرکھ کر صحیح اور ضعیف روایات کے درمیان فرق بہت ضروری ہے.
تحقیق و تفتیش کے مراحل سے گذرنے کے بعد کچھ ایسی تاریخی روایات آپ کے سامنے آجائیں جو صحیح ہوں، تو ایسی صورت میں ہمیں اس پر عمل کیسے کرنا چاہیے اس کیلیئے چوتھی اور آخری بنیادی بات کا جاننا ضروری ہے۔

4- چوتھی بنیادی بات یہ ہے کہ اختلافات صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے بارے میں جو صحیح روایات موجود ہیں اس سلسلے میں سلف کا موقف کیا ہے؟

قارئینِ کرام! اسلامی عقیدہ قرآن واحادیث کی روشنی میں تمام مسلمانوں سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ان تمام نفوسِ قدسیہ سے محبت کریں اور ان سے رضامندی کا اظہار کریں جو اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک محبوب اور پسندیدہ لوگ ہیں، نیز ان کے متعلق اپنے دل میں کسی قسم کی نفرت وعداوت نہ پالیں۔
اور موقفِ سلف صالحین ہمیں یہ بتاتا ہے کہ مشاجرات صحابہ کے سلسلے میں جو صحیح تاریخی روایات وارد ہیں اس سلسلے میں خاموشی اختیار کی جائے، اور ان میں سے ہر ایک کو مجتہد سمجھا جائے، اور ان کا معاملہ اس رب کے سپرد کیا جائے جس رب نے انہیں اپنے دین خدمت کیلئے اختیار کیا تھا، اور انہیں رضامندی وجنت کی سرٹیفکیٹ دی تھی۔

محترم قارئین! جو لوگ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے خلاف زبان درازی کرتے ہیں وہ صرف غیر محقق تاریخی روایتوں کا حوالہ دے کر مسلمانوں کو صحابہ کے خلاف بدظن کرتے ہیں، اگر وہ یہ جان لیتے کہ تاریخی روایات بیان کرنے سے قبل صحابہ کرام کے سلسلے میں شریعت نے کیا عقیدہ رکھنے کا حکم دیا ہے تو ہر گز مشاجرات صحابہ کا ذکر کرکے بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ہدفِ طعن نہیں بناتے، اس لئے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہمارے عقیدے کا حصہ ہیں، اور وہ چیز عقیدے کا حصہ ہو ہی نہیں سکتی جو رب کو ناپسند ہوں، اس لئے شاید ہی عقیدہ کی کوئی کتاب ہو جو صحابہ کرام کے ذکر سے خالی ہو۔

علماء امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مابین جو بھی اختلافات ہوئے ان پر سکوت اختیار کیا جائے، اور اپنی نافرمان زبان کو جنبش نہ دی جائے۔

سکوت اختیار کرنے کا کیا مطلب ہے؟
حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: " صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان جو بھی اختلافات رونما ہوئے، یا جو جنگیں ہوئیں ان واقعات کے ذکر سے یا ان کی تفصیلات میں جانے سے بالکلیہ گریز کرنا عوام الناس اور علماء دونوں پر واجب ہے، البتہ اگر کوئی عالم عادل و منصف ہے اور ہواپرستی کا پیروکار نہیں ہے تو اس کیلئے ان واقعات کا مطالعہ کرنا جائز ہے، لیکن اس کیلئے بھی ایک شرط یہ ہے کہ وہ ان تمام صحابہ کرام کے لئے مغفرت طلب کرے، کیوں کہ ہمارے رب نے ہمیں یہی سکھایا ہے، چنانچہ رب العالمین کا فرمان ہے: ﴿وَالَّذينَ جاءوا مِن بَعدِهِم يَقولونَ رَبَّنَا اغفِر لَنا وَلِإِخوانِنَا الَّذينَ سَبَقونا بِالإيمانِ وَلا تَجعَل في قُلوبِنا غِلًّا لِلَّذينَ آمَنوا﴾
[الحشر: ١٠]
ترجمہ: اور جو لوگ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بعد آئے وہ وہ لوگ اپنے رب سے دعائیں کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کہ اے ہمارے رب تو ہماری مغفرت فرمادے اور ہمارے ان بھائیوں کی بھی مغفرت فرمادے جو ہم سے قبل ایمان لائے، اور ہمارے دلوں میں ان مؤمنین صحابہ کے تئیں کوئی بغض و عداوت نہ پیدا کر۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جو اعمال صالحہ کئے ہیں وہ ان کے گناہوں کا کفارہ بن جائیں گے(1)۔

امام ذہبی رحمہ اللہ کے کلام سے بالکل واضح ہے کہ صحابہ کے درمیان ہونے والے واقعات کا تفصیلی مطالعہ وہی کرے جو انصاف پسند ہو، نیز جو یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ تمام صحابہ کرام سے اللہ رب العالمین راضی ہے، اور تمام کے تمام جنتی ہیں، اور پوری امت کے مقابلہ میں صحابہ کرام کی جماعت سب سے افضل ہے، اور ان میں سے کسی کو برا بھلا نہیں کہتا ہو بلکہ ان سے صادر شدہ غلطی پر اپنے رب سے ان کیلئے مغفرت طلب کرتا ہو۔
اس لئے ان سے ہونے والی غلطیوں کو بنیاد بناکر ان کے خلاف زہر افشانی کرنا اور عوام کو ان سے بد ظن کرنا دشمنانِ اسلام کی پہچان ہے نہ کہ کسی مسلمان کی۔

جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابو احمد محمد کلیم الدین یوسف
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) سیر اعلام النبلاء (10/92)

پہلی قسط : امیر المؤمنین و کاتبِ وحی معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما
https://millichronicle.com/2019/01/muawiyah-part-1-urdu/

دوسری قسط : امیر المؤمنین و کاتبِ وحی معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما
https://millichronicle.com/2019/01/muawiyah-part-2-urdu/

تیسری قسط : امیر المؤمنین و کاتبِ وحی معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما
https://millichronicle.com/2019/01/muawiyah-part-3-urdu/
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
264
پوائنٹ
142
*امیر المومنین وکاتبِ وحی معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما*۔
(پانچویں قسط).

_*کیا_معاویہ_رضی_اللہ_عنہ_کاتبِ_وحی_نہیں_تھے؟*_

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خطوط ورسائل تحریر کیا کرتے تھے، انہوں نے کبھی قرآن نہیں لکھا تو ہم انہیں کاتبِ وحی کیسے کہہ سکتے ہیں؟
محترم قارئین! در اصل معاویہ رضی اللہ عنہ کا صحابی ہونا بعض لوگوں کو اچھا نہیں لگتا اس لئے اس جلیل القدر صحابی کے متعلق نت نئے شبہات وتلبیسات پیدا کرنا ان کا مشغلہ بن گیا ہے، سچ تو یہ ہے کہ اس قسم کی تمام تر موشگافیاں روافض کا چبایا ہوا لقمہ ہے جس پر بعض نام نہاد مفکرین نے تحقیق کا غلاف چڑھا کر صحابہ کرام کے بارے میں امت کے متفق علیہ عقیدہ میں نقب زنی کی کی کوشش کی ہے۔

قارئین کرام! جن لوگوں کا اس بات پر ایمان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قول وعمل اور اقرار امت کیلئے حجت ہے اور وحی الٰہی کی ایک قسم ہے، جسے ہم حدیث کے نام سے بھی جانتے ہیں، وہ اس بات میں ذرہ برابر بھی شک نہیں کریں گے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کاتبِ وحی ہیں، کیوں کہ یہ بات وحیِ الٰہی غیر متلو یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور سلف کے اقوال سے ثابت ہے۔

چناں چہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ: " قال لي النبي صلى الله عليه وسلم: *((ادع لي معاوية))*، وكان كاتبه.
ترجمہ: "مجھ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: *معاویہ کو بلا لاؤ*، آگے ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ معاویہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب تھے (1)۔
اس حدیث میں یہ صراحت نہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کاتبِ وحی تھے یا پھر عام کاتب تھے، لیکن عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے دوسری جگہ صحیح سند سے ان کے کاتبِ وحی ہونے کی صراحت آئی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں ((وکان یکتب الوحی))(2)۔
ترجمہ: معاویہ رضی اللہ عنہ کاتبِ وحی تھے۔

حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے مذکورہ لفظ کے ساتھ اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے(3)۔

اب سلف صالحین کے بعض اقوال ملاحظہ فرمائیں:

عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ: *معاویہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے لکھا کرتے تھے*(4)۔

معافی بن عمران رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: *معاویہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب تھے اور وحی کے امین تھے*(5)۔

امام مدائنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: *نبی صلی اللہ علیہ وسلم قبائلِ عرب کو جو خطوط ارسال کیا کرتے تھے اسے معاویہ رضی اللہ عنہ تحریر کیا کرتے تھے*(6).

امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: *معاویہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب اور وحی کے امین تھے*(7)۔

ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: *معاویہ رضی اللہ عنہ کاتبین وحی میں سے تھے*(8)۔

امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: *نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو وحی الٰہی پر امین بنایا تھا۔۔۔۔*(9)۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: *معاویہ رضی اللہ عنہ کاتب وحی ہیں*(10)۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: *معاویہ رضی اللہ عنہ کاتبین وحی میں سے تھے، جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو کتابتِ وحی کی امانت سونپی تھی ویسے ہی معاویہ رضی اللہ عنہ کو بھی کاتبِ وحی بنایا تھا*(11)۔

ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: *معاویہ رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں سے تھے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے وحی الٰہی کی کتابت پر مامور تھے*(12)۔

یہاں پر صرف انہی علماء کرام کے اقوال پر اکتفا کیا گیا ہے جو موافقین و مخالفین کے محققین کے نزدیک یکساں طور پر بحرِ علم و معرفت کے غواص کے طور پر متعارف ہیں، نیز ہر مسئلہ میں تحری وتثبت اور عدل و انصاف کے تقاضے کو ہمیشہ مطمحِ نظر رکھتے ہیں۔

# کچھ لوگ کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے بعد تو قرآن نازل ہی نہیں ہوا تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے کون سی وحی لکھی؟
در حقیقت یہ اعتراض بھی روافض کی کوکھ سے نکلا ہہے جو کہ جہل مرکب پر مبنی ہے، کیوں کہ قرآن مجید تو حجۃ الوداع کے بعد تک نازل ہوتا رہا، حجِ وداع اور فتح مکہ کے درمیان تقریبا دو سال کا فاصلہ ہے، اور معاویہ رضی اللہ عنہ فتح مکہ سے قبل ہی اسلام لے آئے تھے، اور بعض روایت کے مطابق فتح مکہ کے موقع پر ایمان لائے تھے(13)۔

نیز صحیح بخاری کی روایت کے مطابق حجۃ الوداع میں عرفہ کے دن "اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي...... الآية"، نازل ہوئی(14)، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کے لیے فتح مکہ کے بعد تشریف لے گئے تھے، جو کہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ قرآن مجید کا نزول فتح مکہ کے دوسال بعد تک ہوتا رہا۔
اور سورہ مائدہ اور سورۃ توبہ بھی فتح مکہ کے بعد ہی نازل ہوئی(15)۔

اس لئے یہ کہنا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے سے قبل نزولِ وحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا تھا کذب و افتراء پر مبنی ہے۔

نوٹ: پچھلی چار قسطیں مندرجہ ذیل لنک پر مطالعہ کی جا سکتی ہیں۔

پہلی قسط
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2719980671559433&id=100006425819907

دوسری قسط

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2721542928069874&id=100006425819907

تیسری قسط

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2744041589153341&id=100006425819907

چوتھی قسط

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2749646841926149&id=100006425819907

ابو احمد محمد کلیم الدین یوسف
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) یہ حسن درجہ کی حدیث ہے، مسند احمد (5/ 217/ 3104).
(2) دلائل النبوۃ للبیہقی (6/ 243).
(3) تاريخ الإسلام (4/309)۔
(4) السير للذهبي (123/3)۔
(5) الشريعة للآجري (5/ 2467)۔
(6) الاصابہ فی تمییز الصحابہ (6/121).
(7) الشريعة للآجري (2466/5)۔
(8) الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (3/ 1416).
(9) الجامع لأحكام القرآن، للإمام القرطبي ( 8 / 181)۔
(10) لمعة الإعتقاد ( 1 / 31).
(11) منهاج السنة (7/ 40).
(12) البدایۃ والنہایہ (8/ 127).
(13) تاریخ بغداد (1/ 222).
(14) صحیح بخاری، حدیث نمبر 45.
(15) "التسهيل" لابن جزي: (1/ 219)، "التحرير والتنوير" لابن عاشور(10/ 154).
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
جزاک اللہ خیر عامر بھائی ۔ الہ العالمین آپکی اسلامی خدمات کو شرف قبولیت بخشنے ۔ آپکو ہر شر سے محفوظ رکھے
 
Top