السلام علیکم ورحمة الله وبركاته
حدثنا يعقوب قال حدثنا أبي عن ابن إسحاق قال حدثني يحيى بن عباد بن عبد الله بن الزبير عن أبيه عباد قال سمعت عائشة تقول مات رسول الله صلى الله عليه وسلم بين سحري ونحري وفي دولتي لم أظلم فيه أحدا فمن سفهي وحداثة سني أن رسول الله قبض وهو في حجري ثم وضعت رأسه على وسادة وقمت ألتدم مع النسا وأضرب وجهي ۔
(مسند احمد:جلد نہم:حدیث نمبر 6258 – إسناده حسن)
ترجمہ : ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات میری گردن اور سینہ کے درمیان اور میری باری کے دن میں ہوئی تھی ، اس میں میں نے کسی پر کوئی ظلم نہیں کیا تھا، لیکن یہ میری نادانی اور نوعمری تھی کہ میری گود میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا انتقال ہوا اور پھر میں نے ان کا سر اٹھا کر تکیہ پر رکھ دیا اور خود عورتوں کے ساتھ مل کر رونے اور اپنے چہرے پر ہاتھ مارنے لگی ۔
اس روایت کی سند درکار ہے
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ حدیث مسند امام احمد اور مسند ابویعلیٰ میں مروی ہے :
الحديث رواه الإمام أحمد وأبو يَعلَى بِلفظ (حدثنا يعقوب، قال: حدثنا أبي، عن ابن إسحاق، قال: حدثني يحيى بن عباد بن عبد الله بن الزبير، عن أبيه عباد، قال: سمعت عائشة، تقول: " مات رسول الله صلى الله عليه وسلم بين سحري، ونحري وفي دولتي، لم أظلم فيه أحدا، فمن سفهي وحداثة سني أن رسول الله قبض وهو في حجري، ثم وضعت رأسه على وسادة، وقمت ألتدم مع النساء، وأضرب وجهي "(مسند الامام احمد 26348)طبع الرسالۃ (الفتح الربانی )
قال الشيخ شعيب الارناؤط واصحابه : إسناده حسن من أجل ابن إسحاق: وهو محمد، وقد صرح بالتحديث هنا، فانتفت شبهة تدليسه. وبقية رجاله ثقات رجال الشيخين غير يحيى بن عباد بن عبد الله بن الزبير أخرج له أصحاب السنن، وهو ثقة، يعقوب: هو ابن إبراهيم بن سعد بن إبراهيم بن عبد الرحمن بن عوف.
وأخرجه أبو يعلى (4586) ، والبيهقي في "الدلائل" 7/213 من طريقين عن ابن إسحاق، بهذا الإسناد.
، وإسناده حَسَن .
اس حدیث میں عیاں ہے کہ جناب رسول مکرم ﷺ کی موت ثابت شدہ حقیقت ہے ،(
مات رسول الله صلى الله عليه وسلم بين سحري، ونحري )
اوراس حدیث ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی زبردست فضیلت و منقبت ثابت ہوتی ہے کہ رحمۃ للعالمین کی وفات ان کے سینہ اقدس پر ہوئی ،
اور ان کےاس شرف کیلئے پیغمبر اکرم ﷺ وفات چند روز پہلے پوچھتے رہتے تھے کہ میں کب سیدہ عائشہ کے گھر جاؤں گا ،
رسول اکرم ﷺ کی وفات سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سینے پر ہوئی اس کا ثبوت صحیح بخاری(1389) اور صحیح مسلم (باب فضل عائشۃ ) میں موجود یہ حدیث بھی ہے :
عن عروة، عن عائشة، قالت: إن كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ليتعذر في مرضه: «أين أنا اليوم، أين أنا غدا» استبطاء ليوم عائشة، فلما كان يومي، قبضه الله بين سحري ونحري ودفن في بيتي "
ترجمہ : جناب عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نقل کرتے ہیں کہ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مرض الوفات کے ایام میں دریافت فرماتے آج میری باری کن کے یہاں ہے۔ کل کن کے یہاں ہوگی؟ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی باری کے دن کے متعلق خیال فرماتے تھے کہ بہت دن بعد آئے گی۔ چنانچہ جب میری باری آئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی روح اس حال میں قبض کی کہ آپ میرے سینے سے ٹیک لگائے ہوئے تھے اور میرے ہی گھر میں آپ دفن کئے گئے۔"
اور صحیح بخاری میں یہی حدیث دوسری اسناد سے اس طرح منقول ہے :
قالت عائشة رضي الله عنها: توفي النبي صلى الله عليه وسلم في بيتي، وفي نوبتي، وبين سحري ونحري، وجمع الله بين ريقي وريقه "، قالت: دخل عبد الرحمن بسواك «فضعف النبي صلى الله عليه وسلم عنه، فأخذته، فمضغته، ثم سننته به»
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے گھر ‘ میری باری کے دن ‘ میرے حلق اور سینے کے درمیان ٹیک لگائے ہوئے وفات پائی ‘ اللہ تعالیٰ نے ( وفات کے وقت ) میرے تھوک اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تھوک کو ایک ساتھ جمع کر دیا تھا ‘ ( وہ اس طرح کہ ) عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ ( سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کے بھائی ) مسواک لئے ہوئے اندر آئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے چبا نہ سکے ۔ اس لئے میں نے اسے اپنے ہاتھ میں لے لیا اور میں نے اسے چبانے کے بعد وہ مسواک آپ کے دانتوں پر ملی ۔"
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر اٹھارہ سال کی تھی کہ آنحضرت ﷺ نے آخرت کا سفر اختیار کیا۔
سیدہ اپنی اس کم عمری کو نبی مکرم ﷺ کی وفات کے وقت اپنے طرز عمل کا عذر بتایا ہے ،کہ میں اس وقت کم عمر ی کے سبب اتنے بڑے حادثہ کو دیکھ کر گھبرا گئی تھی ،یہ میری ناسمجھی تھی ،میرا یہ طرز عمل اس موقع کی مناسبت سے درست نہیں تھا ، اسی لئے وہ اسے اپنی نوعمری کی نا سمجھی قرار دے رہی ہیں "
فَمِنْ سَفَهِي وَحَدَاثَةِ سِنِّي "
اس لئے اس حدیث میں اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے مذکورہ عمل میں مروجہ ماتم ،اور پیٹنے کی ہرگز کوئی دلیل نہیں بلکہ وہ خود اس عمل کو "ناسمجھی " قرار دیتی ہیں ،
کیونکہ شریعت اسلامیہ میں میت پر آہ و بکا کرنا، چیخنا چلانا اور نوحہ کرنا ناجائز ہے۔ اسی طرح کپڑے پھاڑنا، رخسار پیٹنا وغیرہ بھی ناجائز ہے۔ جس طرح کہ صحیحین میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشار مروی ہے :
ليس منا من ضرب الخدود وشق الجيوب ودعا بدعوى الجاهلية [صحيح البخارى وصحيح مسلم ]
”جو شخص (بوقت مصیبت) رخسار پیٹتا، گریبان پھاڑتا اور جاہلانہ انداز میں چیختا چلاتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اثْنَتَانِ فِي النَّاسِ هُمَا بِهِمْ كُفْرٌ: الطَّعْنُ فِي النَّسَبِ وَالنِّيَاحَةُ عَلَى الْمَيِّتِ " ’’ لوگوں میں دو باتیں ہیں ، وہ دونوں ان میں کفر (کی بقیہ عادتیں ) ہیں : ( کسی کے ) نسب پر طعن کرنا اور میت پر نوحہ کرنا ۔ ‘‘ (مسلم حدیث 67، کتاب الایمان)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔