• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انا افصح العرب

شمولیت
جون 14، 2011
پیغامات
9
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
0
میں فصیح تر عرب ہوں
نبی امی..... فداہ ابی واُمی..... کا سب سے بڑا معجزہ قرآنِ پاک ہے کہ جس ذاتِ اقدس نے نہ تو کسی استاذ سے پڑھا، نہ ہی کبھی کسی کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا، نہ ہی شعروادب کی مجلسوں میں شریک ہوئے، نہ ہی زبان وادب کے نشیب وفراز کے اصول پڑھے یکایک ایسے کلام کی تلاوت کرنے لگے جس کی مثال پیش کرنے سے اُدبائے زمانہ عاجز رہ گئے اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ کلام رب العالمین کا تھا اور لانے والے جبرئیل امین تھے، اللہ تعالیٰ خود ارشاد فرماتے ہیں:
"وَإِنَّهُ لَتَنْزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَo نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُo عَلَى قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنْذِرِينَo بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍo"۔ (شعراء۱۹۲۔۱۹۵)
یہ پروردگارِ عالم کا اُتارا ہوا قرآن ہے، اس کو آپ(ﷺ ) کے قلب پر معتبر فرشتہ لے کراُتراہے؛ تاکہ آپ(ﷺ ) ڈرسنانے والوں میں سے ہوجائیں۔

اس کلام کی اعجازی حیثیت آج بھی اسی طرح قائم ہے اور قیامت تک قائم رہےگی، اسی کے ساتھ اللہ رب العزت نے رسولِ اکرمﷺ کو خصوصی طور پر زبان وادب کا معجزہ بھی عنایت فرمایا تھا، یہ معجزہ جہاں فطری اور طبعی نظر آتا ہے، وہیں اس کا وہبی اور خصوصی عطائے ایزدی ہونا بھی ظاہر وباہر ہے، عرب کے سارے قبائل میں زبان وادب کے لحاظ سے "قبیلۂ مُضَر" کو نمایاں حیثیت حاصل تھی اور اس قبیلہ کی ایک شاخ "کنانہ" کو دوسری تمام شاخوں پر تفوق وامتیاز حاصل تھا اور اس کے جملہ بطون میں "قریش" سب سے فائق تھے اور قریش کا سکہ سارے قبائل پر چلتا تھا، زبان وبیان، اندازِ تعبیر اور اُسلوبِ ادا میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا، شعروادب کی مجلسوں میں اس قبیلہ کے ادباء کو نمایاں مقام دیا جاتا تھا، قریش کے عام افراد کی زبان بھی عام شعراء وادباء جیسی معیاری تھی، مردوں کے علاوہ عورتیں اور بچے بھی فی البدیہہ اشعار کہنے پر قدرت رکھتے تھے، عرب کے افکار وخیالات کی ترجمانی اُن کے قصائد وابیات کی تراکیب قریش کے ادبی معیار پر ہی قابلِ قبول سمجھی جاتی تھیں۔

قریشی زبان وادب کو سارے عرب میں اس لیے بھی قبولِ عام حاصل تھا کہ یہ قبیلہ دوسرے قبائل کے مقابلے میں عجم کے اختلاط سے بالکل محفوظ تھا، جغرافیائی لحاظ سے عجمی آبادی سے دُوری، عدم اختلاط کا خاص سبب تھا، اِس لیے قریشی ادب اپنی اصل حالت پر باقی رہا، نہ تو اس کے اسالیب عجمی اسالیب سے متاثر ہوئے اور نہ ہی الفاظ ومفردات میں کسی طرح کی تبدیلی واقع ہوئی، دوسرے قبائل چونکہ عجمی آبادی سے قریب تھے، اِس لیے اُن کے اُسلوب وادا کو ادبائے عرب نے معیار نہیں بنایا، ناقدین کے نزدیک کلام کے صحیح اور غلط ہونے کے لیے قریشی ادبی معیار کی موافقت ومخالفت کافی تھی؛ غرض یہ کہ عرب کے فصیح ترین خاندان کے اندر رسولِ عربیﷺ پیدا ہوئے؛ اسی طرح آپﷺ کی رضاعت کے لیے خدائے وحدہٗ نے ایسے قبیلہ کا انتخاب فرمایا، جوقریش کے علاوہ دوسرے قبائل کے مقابلہ میں زبان وادب کے لحاظ سے اپنا ایک خاص مقام رکھتا تھا؛ نیز یہ قبیلہ منجملہ ان سات قبائل میں سے ہے، جن کی زبان کی رعایت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک کو نازل فرمایا ہے، مشہور حدیث ہے:
"إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ أُنْزِلَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ"۔
(ابوداؤد، باب انزل القرآن علی سبعۃ أحرف، حدیث نمبر:۱۲۶۱)
یہ قرآنِ پاک سات زبانوں کے مطابق نازل ہوا ہے۔

بہرکیف! اللہ رب العزت نے جہاں رسولِ عربیﷺ کی ولادت کے لیے عرب کا فصیح ترین قبیلہ منتخب کیا وہیں آپﷺ کی پرورش وپرداخت کے لیے بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے زبان وادب میں مسلّمہ معیار رکھنے والے قبیلہ کا انتخاب کیا۔

ایک موقع سے آپﷺ نے زبان وبیان اور اپنی فصاحت وبلاغت اور قادرالکلامی کو واضح کرنے اور اُدبائے عرب میں اپنی حیثیت وحقیقت ظاہر کرنے کے لیے ارشاد فرمایا:
"أَنَا أَفْصَحُ الْعَرَبِ بَيْدَ أَنِّي مِنْ قُرَيْشٍ َنَشَأْتُ فِي بَنِي سَعْدِ بْنِ بَكْرٍ"۔
(شرح الشفاء ، لملاعلی القاری:۱/۴۶۹۔ تاریخ آداب العرب للرافعی:۱/۱۲۸، بحوالہ الروائع والبدائع فی البیان النبوی:۳۳)
یعنی میں (ادبائے) عرب میں سب سے زیادہ فصیح ہوں، اس کے علاوہ (مجھ کویہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ) میں قریشی ہوں اور میری پرورش قبیلۂ بنوسعد بن بکر میں ہوئی ہے (جن کو زبان وادب میں خاص امتیازی حیثیت حاصل تھی)۔

رسولِ اکرمﷺ کو جس طرح قریشی زبان وبیان پر مکمل قدرت حاصل تھی اور جس طرح آپﷺ قرب وجوار کے قبائل کی زبان وبیان اور اُسلوبِ ادا سے واقف تھے؛ اِسی طرح دُور دراز قبائل کے الفاظ ولغات، طرز واُسلوب حتی کہ ان کی زبان کے امتیازی فروق پر پوری قدرت رکھتے تھے اور انھیں کے فصیح ترین اُسلوب میں ان سب سے خطاب کرتے، الفاظ وعبارت میں ان قبائل کے ادباء سے زیادہ درستگی اور وضاحت ہوتی تھی؛ خواہ وہ اہلِ نجد اور تہامہ کے ہوں یاقبائلِ یمن اور حضرِموت کے لوگ ہوں، ہرایک سے ان کے خاص قبائلی ادب کی رعایت کے ساتھ گفتگو فرماتے تھے، ربِ ذوالجلال کی یہ خصوصی نوازش صرف سیدالکونینﷺ پر ہوئی، اس میں آپﷺ کا کوئی ثانی نہیں۔

ایک بار رسول اللہﷺ کی خدمت میں قبیلہ "بنوفہد" کا ایک وفد حاضر ہوا، آپﷺ اس وفد سے خاص انہی کے لب ولہجہ اور انھیں کی لغات کی رعایت کے ساتھ بات کرنے لگے، حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حیرت واستعجاب کے عالم میں آپﷺ سے دریافت کیا: یارسول اللہﷺ ! ہم اور آپﷺ ایک ہی آباواجداد کی اولاد ہیں؛ لیکن آپﷺ وفودِ عرب سے ایسی لغات اور ایسے لب ولہجہ میں بات کرتے ہیں کہ ہم ان میں سے اکثر باتوں کو نہیں سمجھ پاتے، آخر ایسا کیوں ہے؟ تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا:
"أَدَّبَنِي رَبِّي فَأَحْسَنَ تَأْدِيبِي"۔ (کنزالعمال:۱۱/۴۰۶، حدیث نمبر:۳۱۸۹۵)
میرے رب نے مجھے بہترین ادب سکھایا ہے۔

آپؐ نے متعدد قبائل کے پاس خطوط بھیجے، اُن میں بھی جہاں خطوط کے اُسلوب کی رعایت ہوتی؛ خط کا مضمون خصوصی ہدف اور مقصد سے متجاوز نہ ہوتا؛ قرآنِ پاک کی آیات سے استدلال فرماتے؛ مقتضائے حال کے مطابق املاء فرماتے اور احکام واوامر نہایت واضح انداز میں لکھاتے؛ وہیں الفاظ ولغات اور تراکیب واسالیب میں خاص کرمخاطب اور مرسل الیھم کی زبان اختیار فرماتے؛ کسی طرح کا کوئی تکلف اور آورد نہیں ہوتا؛ بلکہ بلاتکلف ایسا املاء کراتے جیسے وہ زبان آپؐ کی فطری اور آبائی ہے اور ایسا کیوں نہ ہوتا؟ قرآن کی شہادت ہے:
"وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَىo إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى"۔ (النجم:۳،۴)
آپﷺ اپنی خواہش سے کچھ نہ بولتے تھے، آپؐ کی ساری باتیں وحی الہٰی ہوا کرتی تھیں۔

علامہ مصطفیٰ صادق رافعیؒ تحریر فرماتے ہیں:
"وَلَانَعْلَمُ أَنَّ ھٰذِہِ الْفَصَاحَۃَ قَدْکَانَتْ لَہٗ إِلَّاتَوْفِیْقًا مِنَ اللہِ ، الخ"۔
(تاریخ آداب العرب:۲/۳۳۳،۳۳۹،۲۹۸، بحوالہ: الروائع والبدائع:۳۱،۱۲۹،۱۵۲)
ہم تو صرف یہی سمجھتے ہیں کہ فصاحتِ نبویﷺ کا یہ معیار سوائے القائے ربانی اور توفیق ایزدی کے اور کچھ نہیں تھا۔

رسولِ اکرمﷺ کا اوّلین مقصد اللہ تعالیٰ کی شریعت کی تعلیم وتزکیہ اور تشریح وتبلیغ تھا؛ اس لیے آپﷺ کی یہ صفات ہرہرگفتگو میں نمایاں نظر آتی ہیں؛ خواہ عام خطاب ہو یاخاص، اپنے اعزاء واقرباء سے روز مرّہ کی بات چیت ہو یابے تکلفی اور مزاح کے مواقع کی گفتگو، شاہانِ وقت کے پاس خطوط ہوں یاصحابہؓ کے وصایا؛ غرض یہ کہ آپﷺ کا کلام کسی بھی جگہ اپنے مرکزی ہدف ومقصد سے الگ نظر نہیں آتا؛ اسی طرح کلام فصاحت وبلاغت کے اعلیٰ ترین معیار پر ہوتا ہے؛ کبھی کبھار مسجع اور مقفیٰ کلام بھی کیا کرتے تھے؛ اسی طرح اپنے کلام کو امثال وحکم سے بھی زینت بخشتے تھے۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے، الروائع والبدائع: ۱۳۸،۱۴۳،۱۴۴)

خطباتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم

آپﷺ کا خطبہ برمحل، برجستہ، بے تکلف، سلیس اور رواں دواں ہوتا تھا، اندازِ بیان نہایت پختہ اور واضح رہتا تھا؛ اسی کے ساتھ آپﷺ کے خطبہ میں یہ خاص بات تھی کہ آپﷺ کا خطبہ قرآنی مضامین سے مستنبط؛ بلکہ اس کی صحیح اور حقیقی تفسیر ہوتا تھا؛ نیزآپﷺ کے اسلوبِ ادا پر بھی قرآن کا اثر ہی غالب رہا کرتا تھا، آپﷺ چونکہ شدید ضرورت کے وقت ہی خطبہ دیتے تھے؛ اِس لیے خطبہ ازاوّل تاآخر ملولِ خاطر اور اُکتاہٹ سے منزہ اور پاک ہوتا، دوسرے خطبوں کے برعکس خطباتِ نبویﷺ میں آج بھی وہی تاثیر ہے، جوآج سے ہزارڈیڑھ ہزار سال پہلے تھی، قدامت نے دُور سے بھی چھوا تک نہیں ہے، خطبہ اکثرمختصر دیا کرتے تھے؛ لیکن کبھی کبھی گھنٹہ دوگھنٹہ بھی آپﷺ نے خطاب فرمایا ہے، خطبہ میں جس طرح اِسلامی نظامِ زندگی اور اُمورِ آخرت کا بیان ہوتا؛ اِسی طرح شرعی احکام اور پیش آمدہ مسائل کا دائمی حل بھی بتاتے، آپﷺ کے اُوپر ادائے امانت اور تبلیغِ رسالت کا غلبہ ہرلمحہ رہتا، بعض بعض خطبات میں بڑے مؤثر انداز میں فرماتے:
"أَلَاهَلْ بَلَّغْتُ قَالُوا نَعَمْ قَالَ اللَّهُمَّ اشْهَدْ"۔
(بخاری، باب الخطبۃ أیام منی، حدیث نمبر:۱۶۲۵)
کیا میں نے دین کو پہونچادیا؟ سب نے کہا: ہاں! پھر آپؐ نے فرمایا: اے اللہ! آپ گواہ رہیے۔

جناب محمدصلاح الدین عمری اپنے مضمون میں لکھتے ہیں:
"ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان چند الفاظ میں آپؐ کی پوری زندگی سمٹ گئی ہے؛ یہی وجہ ہے کہ کلامِ نبیﷺ میں جو صفت تمام صفات پر حاوی ہے، وہ ہے "صفتِ بلاغت" بلکہ یہ ایک ایسی جامع صفت ہے جسے اصل کے درجہ میں رکھا جاسکتا ہے، کلامِ نبیﷺ خواہ معاہدات وخطوط ہویاخطبات، دعائیں ہوں یا وصایا وغیرہ؛ الغرض ہرصفت میں یہ صفت واضح طور پر اسلوب میں شامل ہے؛ گویا کلامِ نبیﷺ کی ہرصفت لازمی طور پر اپنے اندرکردار سازی کے مقصد کو سموئے ہوئے ہے"۔
آگے لکھتے ہیں:
"کلامِ نبیﷺ کی صفات میں تکلف، غموض اور اجنبیت سے عاری کلمات کا استعمال ایک ایسی صفت ہے، جواسالیبِ بلاغت کے ایک اہم اُسلوب کی حیثیت رکھتی ہے اور اعلیٰ مثال کے نمونوں کو جنم دیتی ہے، آپﷺ ایسا کوئی کلمہ استعمال کرنے سےاحتراز فرماتے، جوغریب الاستعمال یاوضاحت طلب ہوتا، اس کی وجہ یہ تھی کہ آپﷺ کی تقریر ہمیشہ اپنی بات کو بغیر کسی اجنبی کلمہ یااجنبی مفہوم کے واسطہ کے سامع تک پہنچانے پر ہوتی؛ اِسی لیے بسااوقات اپنی بات کو تین بار ادا فرماتے کہ سامع پوری طرح سمجھ لے، پرتکلف اُسلوب اور ایسے کلمات وعبارات کے استعمال کو بھی آپﷺ ناپسند فرماتےتھے، جن کا سمجھنا دُشوار ہوتا یاجن سے ابہام کا اندیشہ ہوتا، آپﷺ کا کلام تکرار اور حشووزوائد سے پاک ہوتا؛ اگرتکرار ہے توایسے ہی مواقع پر جہاں اس کا محل ہے.... تعبیر میں بلاغت کا یہ اُسلوب سامع تک کلمات کے ساتھ نفسِ مفہوم کو بھی پہنچانے کا سب سے مؤثر اور غیرمبہم اُسلوب ہے، جس میں نہ توغیرضروری تزئین ہوتی ہے اور نہ غموض وتعقید؛ بلکہ صاف وشفاف اور واضح اُسلوب میں پوری بات کہی جاتی ہے کہ متکلم نے جس مفہوم، فکراور نظریہ کو جن منتخب کلمات والفاظ کے وسیلہ سے جس درجہ کے ساتھ پہونچانا چاہا ہے؛ اسی درجہ میں اس مفہوم کے ساتھ اور انہی کلمات میں سامع تک براہِ راست بات پہونچتی ہے نہ کم نہ زیادہ اور یہی صفت الفاظ کے انتخاب اور ان پر متکلم کی گرفت کو بھی واضح کرتی ہے"۔ (ترجمان الاسلام: ۶۱،۶۲/۶۱)

آپﷺ کے کلام فیض ترجمان اور معجزبیان کی معنوی خوبیوں کو توعلماء فقہاء اور محدثین نے موضوعِ بحث بنایا ہی ہے؛ البتہ قرآن کے اعجاز کی وجہ سے غالباً آپﷺ کی احادیث کی لفظی خوبیوں سے بحث کو نسبتاً کم لوگوں نے موضوعِ بحث بنایا ہے، محدثین میں سرِفہرست علامہ بدرالدین عینیؒ کا نام آتا ہے کہ آپ نے عمدۃ القاری، شرح بخاری میں بہت سی احادیث کی شرح میں فصاحت وبلاغت پر بھی کلام کیا ہے؛ البتہ ادباء امت میں ایک نہیں متعدد شخصیات نے اس پہلو پر بھی سیرحاصل بحث کی ہے، مثلاً ابوعثمان جاحظؒ نے "البیان والتبیین" میں، ابومنصور ثعالبیؒ نے "الاعجاز والایجاز" میں، وہ ساری احادیث جمع کردی ہیں، جن میں تشبیہات، تمثیلات، تجنیسات، استعارات اور کنایات موجود ہیں، جوعربی زبان وادب کا شاہکار اور اعلیٰ ترین نمونہ ہیں؛ اسی طرح ابوبکر ازدی کی "کتاب المجتبیٰ" بھی قابلِ ذکر ہے کہ اس میں پچاس کے قریب احادیث شریف کی امتیازی اور ادبی حیثیت کو بیان کیا گیا ہے، ان کے علاوہ ضیاء الدین ابن الاثیرؒ کی "المثل السائر فی ادب الکاتب والشاعر" اور ابوہلال عسکریؒ کی "کتاب الصناعین" بھی قابلِ ذکر ہیں۔
(مقدمہ الروائع والبدائع فی البیان النبوی: ۱۱،۱۲)

اسی طرح المسعودی نے اپنی تصنیف "مروج الذہب" میں آپﷺ کی زبانِ مبارک سے ادا ہونے والے ان کلمات کی ایک طویل فہرست مرتب کی ہے، جن کے بارے میں محققین کی رائے ہے کہ ان کلمات وتعبیرات کی روایت آپﷺ سے پہلے عرب ادباء وفصحاء کے یہاں نہیں ملتی اور یہ سب سے پہلے آپﷺ ہی کی زبان سے ادا ہوئے۔ (ترجمان الاسلام:۶۱،۶۱/۶۳)

اس سلسلے میں مولانا نعمان الدین ندوی دامت برکاتہم نے نہایت ہی عمدہ اور مفصل کلام کیا ہے، ان کی مایۂ ناز کتاب "الروائع والبدائع فی الکلام النبوی:۱۲۸ تا ۱۳۳" کافی مفید اور مطالعہ کے لائق ہے۔

اُسلوبِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات

رسولِ اکرمﷺ کی زبانِ حق ترجمان سے ادا ہونے والے الفاظ وتعبیرات کی ادبی خصوصیات وامتیازات کو کون بیان کرسکتا ہے، آپﷺ کا کلام فصاحت وبلاغت کی اس بلندی پر ہوتا تھا، جس کی رفعت کو ادبائے زمانہ پانہیں سکتے؛ پھربھی بعض ادبائے اُمت نے اپنی قصور فہمی کے اعتراف کے ساتھ آپﷺ کے کلام کی انفرادیت اور نمایاں خصوصیات واوصاف کو بیان کیا ہے، ذیل میں صرف ایک مشہور ادیب ابوعثمان عمروبن بحر "جاحظؒ"کی بیان کردہ خصوصیات کا خلاصہ نمبر وار پیش کیا جاتا ہے، لکھتے ہیں:

۱۔آپﷺ کا کلام نہایت ہی جامع اور مکمل ہوتا، اس میں الفاظ اور حروف کی تعداد کم ہوتی؛ لیکن معانی کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر دِکھائی دیتا تھا۔

۲۔آپﷺ کا کلام صناعتِ لفظیہ اور معنویہ کے لحاظ سے نہایت ہی نمایاں اور بلند ترین مرتبہ پر ہوتا تھا۔

۳۔اسی طرح تکلف اور بناوٹ سے بالکل پاک اور منزہ ہوتا؛ اِس لیے بھی کہ خود اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپﷺ کو صراحتاً حکم دیا تھا کہ اے محمد(ﷺ )! آپ لوگوں سے کہہ دیجئے کہ میں دینِ اسلام کی تبلیغ پر تم سے نہ توکوئی بدلہ طلب کرتا ہوں اور نہ ہی میں تکلف کرنے والوں میں سے ہوں (بخاری: ۲/۸۶) اور اس وجہ سے بھی کہ آپ بہ تکلف فصاحت وبلاغت ظاہر کرنے کے لیے باچھیں کھولنے کو ناپسند فرماتے اور چیخنے چلانے والے لوگوں سے بھی کنارہ کش رہتے تھے۔

۴۔تفصیل کی جگہ میں آپ کا کلام نہایت مفصل ہوتا تھا۔

۵۔اور مختصر بیانی کے مواقع پر مختصر ترین گفتگو فرماتے تھے۔

۶۔غیرمانوس، غریب، نادر اور وضاحت طلب الفاظ استعمال نہ فرماتے تھے۔

۷۔آپﷺ اپنی گفتگو کو بازاری الفاظ سے بھی پاک رکھتے تھے۔

۸۔آپﷺ کا کلام اسرار وحِکم کا نمونہ ہوتا۔

۹۔آپﷺ کے کلام کو خصوصی تائیدِ الہٰی حاصل ہوتی۔

۱۰۔آپﷺ کے کلام میں اللہ تعالیٰ نے اعلیٰ درجہ کی محبوبیت اور قبولیت کی شان پیدا کردی تھی۔

۱۱۔آپﷺ کا کلام ہیبت وحلاوت کا سنگم ہوتا تھا۔

۱۲۔آپﷺ کے کلام میں اختصار کے باوجود تفہیم کی پوری صلاحیت ہوتی تھی۔

۱۳۔اکثراوقات ایک بات، ایک ہی بار ارشاد فرماتے؛ لیکن اتنی واضح اور مکمل کہ سامعین کو اطمینان ہوجاتا؛ انھیں دہرانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔

۱۴۔آپﷺ کی گفتگو میں کبھی کوئی لفظ ساقط نہیں ہوتا۔

۱۵۔آپﷺ گفتگو کے دوران اپنے ہدف اور مقصد سے ذرا بھی نہ ہٹتے۔

۱۶۔دورانِ گفتگو آپ کی ہردلیل تیر بہ ہدف کام کرتی، ایک دلیل بھی ضائع نہ ہوتی تھی۔

۱۷۔آپﷺ کی گفتگو اتنی پیاری ہوتی کہ کوئی مخالفت نہ کرتا؛ بلکہ اکثراوقات مخالف موافق ہوجاتا۔

۱۸۔آپﷺ کو گفتگو کے دوران کسی نے کبھی بھی لاجواب اور خاموش نہیں کیا۔

۱۹۔آپﷺ کے مختصر کلام کے سامنے بڑی بڑی تقریریں شکستہ حال ہوجاتیں۔

۲۰۔آپﷺ انھیں باتوں سے مقابل کو خاموش کرتے، جن کو وہ اچھی طرح جانتے اور سمجھتے ہوں۔

۲۱۔آپﷺ کا استدلال سچی اور صحیح باتوں سے ہی ہوتا تھا۔

۲۲۔گفتگو میں صرف حق بات کی فتحمندی مطلوب ہوتی تھی۔

۲۳۔آپﷺ فریفتہ کرنے والی تعبیرات سے کبھی بھی لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش نہ کرتے۔

۲۴۔آپﷺ گفتگو میں دھوکہ اور فریب سے کام نہ لیتے تھے۔

۲۵۔آپﷺ گفتگو کے دوران کسی کی عیب جوئی اور غیبت نہ کرتے تھے۔

۲۶۔آپﷺ کےگفتگو کی رفتاردرمیانہ ہوتی،نہ تو بالکل آہستہ کلام کرتے اور نہ ہی جلدی جلدی بولتے تھے۔

۲۷۔ گفتگو نہ تومختصر ترین ہوتی اور نہ ہی طویل ترین۔

۲۸۔نوعِ انسانی نے آپﷺ کے کلام سے زیادہ عمومی نفع کا حامل کلام نہ تو پہلے کبھی سنا اور نہ بعد میں کبھی سنے گی۔

۲۹۔نہ تو آپﷺ سے زیادہ سچے الفاظ ان کی سماعت سے ٹکرائے۔

۳۰۔نہ ہی آپﷺ سے زیادہ معتدل اور موزوں ترین تعبیرات انھیں ملیں۔

۳۱۔نہ ہی آپﷺ سے زیادہ حسین طریقِ گفتگو سے وہ واقف ہوئے۔

۳۲۔نہ ہی آپﷺ سے زیادہ نفیس مطلب باتیں ان کو ملیں۔

۳۳۔نہ ہی میدانِ گفتگو میں آپﷺ سے زیادہ لطیف انداز میں اترنے والا کسی کو پایا۔

۳۴۔نہ ہی مراحلِ گفتگو کو آپﷺ سے زیادہ آسانی کے ساتھ عبور کرنے والا دیکھا۔

۳۵۔نہ ہی معانی مراد کے سمجھانے کے لیے آپﷺ سے زیادہ فصیح تعبیرات اختیار کرنے والا کسی کو پایا۔

۳۶۔اور نہ ہی مقصدِ گفتگو کو آپﷺ سے زیادہ واضح اور عمدہ انداز میں بیان کرنے والا کسی کو پایا۔
(مستفاداز:البیان والتبیین للجاحظ:۲/۸، بحوالہ الروائع والبدائع فی البیان النبوی:۳۷،۳۸)

غرض یہ کہ رسولِ اکرمﷺ نے اپنی خداداد استعداد وصلاحیت اور عربیت وادبیت کے ذریعہ عربی زبان وادب کو تراش خراش کر ہرلحاظ سے عمدہ اور بہتر بنادیا، اس طرح عربی زبان اپنی رفعت کے اوجِ کمال پر پہونچ گئی؛ ہرایک نے اس کی آفاقیت کا اعتراف بھی کیا اور خصوصاً قریش کے معیارِ ادب کو قیامت تک کے لیے شہنشاہیت کا تاج نصیب ہوا۔

رسولِ اکرمﷺ کا کلام توگوناگوں خصوصیات وامتیازات کی وجہ سے گلہائے رنگارنگ سے سجا ہوا سراپا گلدستہ ہے؛ کسی ایک مقالہ یامضمون میں سب کا احاطہ مشکل ہے اور مجھ جیسے عجمی اور علم وادب سے تہی داماں کے لیے توناممکن ہی ہے؛ اس لیے "مُشتے نمونہ ازخروارے" کے طور پر چند احادیث پیش کی جاتی ہیں:

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمثیل بیانی
(۱)"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَثَلُ الْبَخِيلِ وَالْمُنْفِقِ كَمَثَلِ رَجُلَيْنِ عَلَيْهِمَا جُبَّتَانِ مِنْ حَدِيدٍ مِنْ ثُدِيِّهِمَا إِلَى تَرَاقِيهِمَا فَأَمَّا الْمُنْفِقُ فَلَا يُنْفِقُ إِلَّاسَبَغَتْ أَوْوَفَرَتْ عَلَى جِلْدِهِ حَتَّى تُخْفِيَ بَنَانَهُ وَتَعْفُوَ أَثَرَهُ وَأَمَّاالْبَخِيلُ فَلَايُرِيدُ أَنْ يُنْفِقَ شَيْئًا إِلَّالَزِقَتْ كُلُّ حَلْقَةٍ مَكَانَهَا فَهُوَ يُوَسِّعُهَا وَلَاتَتَّسِعُ"۔
(بخاری، کتاب الزکات، باب مثل المتصدق والبخیل، حدیث نمبر:۱۳۵۲)
رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بخیل اور سخی کی مثال دوایسے آدمیوں جیسی ہے، جن کے بدن پر لوہے کے دوکُرتے ہیں، جن کی لمبائی صرف ان کے سینے سے گلے کی ہڈی تک ہے؛ چنانچہ سخی جتنا خرچ کرتا ہے، اتنا ہی اس کا کرتا جسم پر لمبا ہوتا چلا جاتا ہے، حتی کہ اس کی انگلیوں کے پوروں اور پورے وجود کو ڈھانپ لیتا ہے اور بخیل کچھ بھی خرچ کرنا نہیں چاہتا؛ اس لیے اس کا کرتا اپنی جگہ پچکا ہوا رہتاہے، وہ اس کو اپنے جسم پر پھیلانا چاہتا بھی ہے؛ لیکن وہ پھیل نہیں پاتا۔

لوگ مختلف المزاج ہوتے ہیں، کسی میں عمدہ اخلاق وعادات اور اچھی سے اچھی صفات پائی جاتی ہیں، ان میں دن بدن مزید ترقی بھی ہوتی رہتی ہے؛ اس کے برخلاف بعض لوگوں کے عادات واخلاق بہتر نہیں ہوتے اور ان میں دن بدن تنزل ہی تنزل نظر آتا ہے، بعضوں کے اندر جودوسخا کی صفت ہوتی ہے، اس میں ترقی ہوتی رہتی ہے؛ یہاں تک کہ وہ سراپا سخی نظر آنے لگتا ہے اور بعضوں میں بخل اور کنجوسی پائی جاتی ہے، اس کی وجہ سے وہ نہ تو معاشرے میں اچھی نگاہ سے دیکھا جاتا اور نہ ہی اپنے اہل وعیال میں اس کی تعریف وتوصیف ہوتی ہے، وہ ہرایک کی نگاہوں سے گرجاتا ہے، مذکورہ بالا حدیث شریف میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سخی اور بخیل کی تمثیل نہایت ہی عمدہ اور اچھوتے پیرایۂ بیان میں ذکر فرمائی ہے، جس طرح لوہے کو گرم کیا جائے تو نرم ہوگا، بڑھانے سے بڑھے گا اور گھٹانے سے گھٹے گا، گرم کرنے کے بعد ہی وسیع سے وسیع ترکیا جاسکتا ہے؛ اگرگرم نہ کیا جائے تو نہ تو وہ نرم ہوگا اور نہ ہی پھیلانے سے پھیلے گا، نہ ہی اس پر نقش ونگار بنائے جاسکتے ہیں اور نہ ہی وہ کسی طرح کی تبدیلی قبول کرے گا تو بخیل اور سخی کی مثال ایسے دوآدمی کی سی ہے، جس نے لوہے کے تنگ ترین کرتے پہن رکھے ہیں، سخی اپنی جود وسخا کی گرمی سے لوہے کو گرم اور نرم کرتا رہتا ہے، اس طرح اس کے روز بروز سخاوت کے اضافہ کے ساتھ اس کا کرتا لمبا ہوتا چلا جاتا ہے؛ یہاں تک کہ اس کے پورے وجود کو ڈھانپ لیتا ہے، اس کی گرم جوشانہ سخاوت لوہے کو وسیع سے وسیع تر کرنے اور اس کے آرام وراحت کے سامان تیار کرنے میں ہمیشہ لگی رہتی ہے اور ہرطرف اس کی تعریف وتوصیف ہونے لگتی ہے۔

اس کے برخلاف بخیل ہے کہ اس کے جذبات سرد ہی رہتے ہیں اور سردی کسی طرح لوہے کو پگھلا نہیں سکتی؛ بالآخر بخیل کا تنگ کرتا اس کے تن پر تنگ ہی رہتا ہے، وہ اپنی تنگی کی وجہ سے نہ تو بخیل کے لیے آرام واحت کا باعث بنتا ہے اور نہ ہی اس کے وجود کو ڈھانپتا ہے، ہزارخواہشوں کے باوجود تن پوشی کا سامان مہیا نہیں کرپاتا؛ بلکہ لوگ ہرطرف اس کے بخل کو بیان کرتے ہیں، اس طرح بخیل کی عزت کا پیراہن اس کی عیب پوشی کے لیےناکافی ہی رہتا ہے۔

غور فرمائیے! کہ رسول اللہﷺ نے بخیل اور سخی کی کیسی منظر نمائی اور تصویر کشی فرمائی ہے، کلام کتنا نورانی ہے؟ اتنا آسان، اتناپرمغز اور پرلطف اندازِ تعبیر کہ ہرایک نہایت ہی آسانی سے سمجھ سکے، سچ ہے کہ صاحب کلام جتنا اُونچا اور بلند ہوتا ہے، اس کا کلام بھی اتنا ہی پرمغز، باوزن اور آسان ہوتا ہے۔
(۲)"عَنْ أَبِي مُوسَى عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَثَلُ مَابَعَثَنِي اللَّهُ بِهِ مِنْ الْهُدَى وَالْعِلْمِ كَمَثَلِ الْغَيْثِ الْكَثِيرِ أَصَابَ أَرْضًا فَكَانَ مِنْهَا نَقِيَّةٌ قَبِلَتْ الْمَاءَ فَأَنْبَتَتْ الْكَلَأَ وَالْعُشْبَ الْكَثِيرَ وَكَانَتْ مِنْهَا أَجَادِبُ أَمْسَكَتْ الْمَاءَ فَنَفَعَ اللَّهُ بِهَا النَّاسَ فَشَرِبُوا وَسَقَوْا وَزَرَعُوا وَأَصَابَتْ مِنْهَا طَائِفَةً أُخْرَى إِنَّمَاهِيَ قِيعَانٌ لَاتُمْسِكُ مَاءً وَلَاتُنْبِتُ كَلَأً فَذَلِكَ مَثَلُ مَنْ فَقُهَ فِي دِينِ اللَّهِ وَنَفَعَهُ مَابَعَثَنِي اللَّهُ بِهِ فَعَلِمَ وَعَلَّمَ وَمَثَلُ مَنْ لَمْ يَرْفَعْ بِذَلِكَ رَأْسًا وَلَمْ يَقْبَلْ هُدَى اللَّهِ الَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ"۔ (بخاری، کتاب العلم،بَاب فَضْلِ مَنْ عَلِمَ وَعَلَّمَ، حدیث نمبر:۷۷)
رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ کوہدایت اور علم دے کر مبعوث فرمایا ہے، اس کی مثال بے پناہ بارش کی سی ہے، جوکسی ایسی زمین پر برسی، جونہایت صاف ستھری اور بہترین تھی؛ چنانچہ اس نے پانی کو جذب کیا اور گھاس اورہریالیاں اُگائیں؛ لیکن زمین کا بعض حصہ بنجر تھا، جس نے پانی کو روکا توصحیح؛ البتہ (اس زمین سے کچھ اُگ نہ سکا؛ بلکہ) اس کے پانی سے لوگوں نے (خوب) فائدے اُٹھائے؛ چنانچہ پئے بھی، پلائے بھی اور کھیت کی سینچائی بھی کی؛ اسی طرح یہ پانی زمین کے بعض دوسرے حصہ کو پہونچا، جوٹیلوں سے بالکل دُور تھا، وہ حصہ نہ تو پانی کو روکا اور نہ ہی سبزہ اُگایا؛ پس یہ اس آدمی کی مثال ہے جس نے اللہ کے دین کو گہرائی سے سمجھا اور اللہ تعالیٰ نے اس کواس علم اور ہدایت سے بہرور کیا، جس کو لے کر میں آیا ہوں؛ چنانچہ اس نے علم دین سیکھا اور سکھایا اور اس آدمی کی مثال ہے جس نے اس (دین) کو سراُٹھاکر بھی نہ دیکھا اور (اس آدمی کی مثال ہے) جس نے اس ہدایتِ ربانی کو بالکل ہی نہیں قبول کیا، جس کو دے کر اللہ تعالیٰ نے مجھے مبعوث فرمایا ہے۔

اس حدیث شریف میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے اس میں تشبیہ کی دوقسمیں استعمال فرمائی ہیں:

۱۔معقول کو محسوس سے تشبیہ: یعنی ہدایت اور علم کوبارش سے تشبیہ دی گئی ہے، ہدایتِ الہٰی اور علمِ ربانی دونوں چیزیں عقل سے ہی سمجھی جاسکتی ہیں، نہ تو ہاتھ سے ان کو چھوا جاسکتا ہے اور نہ ہی زبان سے چکھا، نہ آنکھ سے دیکھا اور ناک سے سونگھا جاسکتا ہے؛ بلکہ اِن چیزوں کو صرف دماغ اور عقل سے سمجھنا ممکن ہے، رہی بارش تونگاہوں کے سامنے ہوتی ہے، اس کو محسوس کرنا کوئی دشوار نہیں۔

(الف)جس طرح ہم موسلادھار بارش کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور اس میں کوئی شبہ نہیں کرتے؛ اِسی طرح اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی ہدایت یقینی ہے، اس میں کوئی شبہ نہیں ہے۔

(ب)جس طرح بارش روئے زمین کے ہرحصہ کے لیے عام ہوتی ہے؛ اِسی طرح ہدایتِ الہٰی اور علمِ ربانی بھی ہرایک کے لیے عام ہے، ہرایک کے فائدہ اور نفع کے لیے آسمان سے نازل ہوئے ہیں۔

(ج)جس طرح بارش روئے زمین کے لیے حیات بخش ہوتی ہے؛ اِسی طرح ہدایتِ الہٰی بھی روحِ انسانی کے لیے حیات بخش اور فائدہ مند ہے۔

(د)جس طرح بارش کے بعد روئے زمین کو ہرابھرا، جاذبِ نظر لباس نصیب ہوجاتا ہے؛ اِسی طرح ہدایتِ الہٰی اور علمِ ربانی افرادِ انسانی کو عزت اور قدرومنزلت کا دیدہ زیب لباس عطا کرتے ہیں۔

(ھ)جس طرح بارش سے زمین کی پیاس بجھتی ہے؛ اِسی طرح ہدایت اور علم کے متلاشی اور پیاسے انسانوں کو منزلِ مقصود ملتا اور ان کی تشنہ کامی دُور ہوتی ہے...... وغیرہ وغیرہ اور نہ جانے کتنی وجوہِ تشبیہ ہیں۔

۲۔محسوس کو محسوس سے تشبیہ: اِسی طرح اس حدیثِ شریف میں "انسان کو زمین" سے تشبیہ دی گئی ہے اور یہ دونوں محض عقلی اور ظنی نہیں ہیں؛ بلکہ محسوس ومعلوم ہیں، دونوں کا وجود مجسم اور مسلم ہے۔

(الف)جس طرح بارش بادل سے زمین پر برستی ہے؛ اِسی طرح ہدایتِ ربانی اور علمِ الہٰی کا نزول انسانوں پر ہوا ہے۔

(ب)جس طرح بارش سے زمین کو اپنی صلاحیت کے مطابق فائدہ پہونچتا ہے؛ اِسی کے لحاظ سے اس میں روئیدگی پیدا ہوتی ہے؛ اِسی طرح اللہ کے دین اور اس کی بھیجی ہوئی ہدایت سے انسانوں کو ان کی استعداد اور صلاحیتِ قبول کے مطابق ہی فائدہ پہونچتا ہے۔

(ج)جس طرح زمین کی متعدد قسمیں ہیں؛ اِسی طرح انسانوں کی بھی متعدد قسمیں ہوتی ہیں۔

مذکورہ حدیث شریف میں رسول اللہﷺ نے زمین کی طرح انسانوں کی بھی تین قسمیں ارشاد فرمائی ہیں:

۱۔بعض زمین نہایت زرخیز ہوتی ہے، پانی پڑتے ہی اس میں روئیدگی شروع ہوجاتی ہے، بارونق اور خوش منظر ہریالی اُگ آتی ہے، ہرطرف سرسبزوشاداب مناظر نظر آنے لگتے ہیں، جاذبِ نظر سبزہ زار، دِلوں کو اپنی طرف کھینچنے لگتے ہیں، ان سبزہ زاروں پر بیٹھ کر اَنگ اَنگ میں طرب وسرور اور روئیں روئیں میں خنکی اور ٹھنڈک محسوس ہونے لگتی ہیں، آدمی شہر اور آبادی کے ہنگاموں اور آلودہ ماحول کو چھوڑ کر سبزہ زاروں میں جاکر اپنے دِلوں کو شادکام کرتے ہیں، جسم کے مسامات سے تازی، صحت بخش اور جراثیم کش ہوائیں داخل ہوتی ہیں اور سانس کے ذریعہ اندر کی آلودہ اور مسموم ہوائیں باہر نکل آتی ہیں؛ اِسی طرح تروتازہ ہوکر وہاں سے واپس ہوتے؛ پھرتازہ دم اپنی مصروفیات میں لگ جاتے ہیں۔

یہی حال اُن نفوسِ قدسیہ کا ہے، جن کے قلوب نہایت صاف وشفاف ہوتے ہیں، معرفتِ الہٰی کی بارش سے بہت جلد سیراب ہوکر ترقی کے منازل طے کرنے لگتے ہیں، معرفتِ الہٰی کے نور سے منور ہوجاتے ہیں، ان کے اثرات ان کے چہرے مہرے، ہاتھ پیر اور دیگراعضاء پر عیاں نظر آنے لگتے ہیں، وہ ایک پَل کے لیے بھی حکمِ ربی سے انحراف نہیں کرتے، ان کا باطن فیضانِ الہٰی سے لبریز رہتا ہے، وہ خود سرسبزوشاداب رہتے اور دُوسروں کو بھی ہرابھرا اور بافیض دیکھنا چاہتے ہیں، انھوں نے جو جام پیا ہے وہی ہردوسرے کو پلانا چاہتے ہیں، خلقِ خدا ان کی طرف ہرچہار جانب سے کھینچ کھینچ کر پہونچتی ہے، وہ شمع ہوتے ہیں، جن کے گرد پروانے اپنی جانیں نثار وقربان کرتے رہتے ہیں، ان کے یہاں قلب کی آلودگی دُور ہوتی ہے، وہیں ہردردکا درما اور ہردکھ کا علاج ہوتا ہے، ان کی صحبت صحت بخش اور جراثیم کش ہوتی ہے، وہیں جسم کو ٹھنڈک اور قلب وروح کو راحت وسکون ملتا ہے۔

اور جس طرح اُوپر ذکر کردہ خصوصیات ہرزمین میں متفاوت اور الگ الگ پائی جاتی ہیں، کوئی زمین بہت زیادہ زرخیز ہوتی ہے اور کوئی کم اور کوئی اس سے بھی کم؛ یہی حال ہدایاتِ ربانی کے قبول کرنے والے نفوس کا بھی ہے کہ کسی نے بدرجۂ اتم قبول کیا اور اس کے مثبت اثرات بھی ظاہر ہوئے اور کسی نے اس سے کم اور کسی نے بالکل معمولی اثر قبول کیا اور اسی کے اثرات اُن پر ظاہر ہوئے۔

۲۔زمین کی بعض قسمیں بنجراور بے کار ہوتی ہیں، ان میں پیداوار بالکل نہیں ہوتی؛ البتہ بارش کا پانی جمع رہ جاتا ہے، اس پانی سے اس زمین کا تو کوئی فائدہ نہیں ہوتا، نہ تو غلے اگتے ہیں اور نہ ہی ہریالیاں جنم لیتی ہیں؛ البتہ لوگ جمع شدہ پانی کو استعمال کرتے ہیں، خود پیتے اور جانوروں کو پلاتے ہیں؛ اِسی طرح کھیت اور باغات سیراب کرتے ہیں، انسانوں میں بھی بہت سارے ایسے لوگ ہیں، جن کے پاس اللہ کا دین پہونچا؛ انھوں نے ہدایاتِ ربانی کا ذخیرہ جمع کرلیا اور بہت سارے لوگوں نے ان کے پاس جمع کردہ ذخائر سے فائدہ بھی اُٹھائے؛ لیکن وہ خود ان ہدایات پر عمل پیرا نہ ہوئے، آج بھی اس کی مثالیں موجود ہیں، بہت سارے بے عمل علماء اور اسلام دُشمن عناصر، مثلاً مستشرقین علمِ دین حاصل کرتے ہیں اور اس کے مطالعہ وتکرار اور تدریس وتحقیق میں اپنے اوقات صرف کرتے ہیں؛ مگرذرہ برابر احکامِ الہٰی پر عمل نہیں کرتے؛ حتی کہ خدائے وحدہٗ پر ایمان لانے سے بھی انکار کرتے ہیں، حقیقت میں یہی بے عمل علماء بنجرزمین کی مثال ہیں، جن میں جمع شدہ پانی سے سارا عالم سیراب ہورہا ہے اور وہ خود پیاسے کے پیاسے ہیں، اپنی تشنہ لبی اُس آبِ زلال سے دُور نہیں کرتے، انہی کی مثال اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے:
"مَثَلُ الَّذِينَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا"۔(الجمعۃ:۱۵)
جن لوگوں پرتورات لادی گئی؛ پھران لوگوں نے اس کو نہیں اُٹھایا، ان کی مثال ایسے گدھے جیسی ہے، جوپیٹھ پر کتابیں لے کر چلتا ہے (لیکن پیٹھ پر لدی کتابوں کے مضامین سے اس کو کوئی واقفیت نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ اس پر عمل کرنے کی کبھی سوچتا ہے)۔

۳۔زمین کی بعض قسم تو ایسی بھی ہوتی ہے کہ اس پر بارش کا پانی ٹھہرتا ہی نہیں، جس کی وجہ سے اس پر کسی طرح کی روئیدگی اور سبزہ ظاہر نہیں ہوتا، وہ ہمیشہ بے آب وگیاہ رہتی ہے؛ بالکل یہی حال بعض نافرمان انسانوں کا ہے کہ وہ سرے سے خدائے وحدہٗ کے دین کی طرف سراُٹھاکر نہیں دیکھتے اور قبول کرنا تو دُور کی بات ہے، ان کے پاس ہدایاتِ ربّانی کی بارش کا ایک قطرہ بھی نہیں رُکتا اور نہ تو وہ علمِ ایزدی سے بہرور ہوتے ہیں اور نہ ہی عمل کی نوبت آتی ہے۔

غور کیجئے! کہ رسول اللہﷺ نے اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ آخری پیغام اور دینِ اسلام کوکس بلیغ انداز میں سمجھایا اور کس طرح غیرمحسوس کومحسوس سے اور محسوس کو محسوس سے تشبیہ دے کر سادے اور مؤثر انداز میں کتنی اُونچی باتیں سمجھادیں، یہ بس آپ ہی کا حصہ تھا، اس درجہ کی فصاحت وبلاغت کسی اور کے بس کی بات نہیں، صلی اللہ علیہ وسلم۔

مخاطب کو شوق دِلاکر کوئی بات بتانا

باتیں ہرطرح کی ہوتی ہیں، بعض اہم بعض غیراہم، غیراہم باتیں سادے انداز میں کہی جاتی ہیں اور اہم گفتگو کے لیے مخاطب کو متوجہ کرنا بہتر اور مؤثر ثابت ہوتا ہے، باتیں دل میں بیٹھ جاتی ہیں اور اگر کوئی بات بہت زیادہ اہم ہو تو مخاطب کو متوجہ کرنے کے ساتھ ہی شوق دلاکر؛ بلکہ سراپا اشتیاق بناکر بتانا اس سے زیادہ مؤثر ہوتا ہے؛ اس طرح کہی جانے والی باتیں تویادرہتی ہی ہیں، موقع ومحل کے ساتھ اندازِ بیان بھی ذہن ودماغ میں پیوست ہوجاتا ہے، اس انداز کو اہلِ بلاغت نے نہایت ہی نتیجہ خیز بتایا ہے، رسولِ اکرمﷺ بعض موقعوں سے مخاطب کو شوق دِلاکر اور بعض موقعوں سے مخطاب کو سراپا اشتیاق بناکر گفتگو فرماتے تھے۔

ایک مرتبہ حضرت معاذ بن جبلؓ سے رسول اللہﷺ نے دَورانِ سفر اسی انداز میں گفتگو فرمائی:
"عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ بَيْنَا أَنَارَدِيفُ النَّبِيِّﷺ لَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ إِلَّاأَخِرَةُ الرَّحْلِ فَقَالَ يَامُعَاذُ بْنَ جَبَلٍ قُلْتُ لَبَّيْكَ رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ ثُمَّ سَارَ سَاعَةً ثُمَّ قَالَ يَامُعَاذُ قُلْتُ لَبَّيْكَ رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ ثُمَّ سَارَ سَاعَةً ثُمَّ قَالَ يَا مُعَاذُ قُلْتُ لَبَّيْكَ رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ قَالَ هَلْ تَدْرِي مَاحَقُّ اللَّهِ عَلَى عِبَادِهِ قُلْتُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ حَقُّ اللَّهِ عَلَى عِبَادِهِ أَنْ يَعْبُدُوهُ وَلَايُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ثُمَّ سَارَ سَاعَةً ثُمَّ قَالَ يَامُعَاذُ بْنَ جَبَلٍ قُلْتُ لَبَّيْكَ رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ فَقَالَ هَلْ تَدْرِي مَاحَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ إِذَافَعَلُوهُ قُلْتُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ حَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ أَنْ لَايُعَذِّبَهُمْ"۔
(بخاری، کتاب اللباس، بَاب إِرْدَافِ الرَّجُلِ خَلْفَ الرَّجُلِ، حدیث نمبر:۵۵۱۰)
خود معاذ بن جبلؓ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کے پیچھے سوار تھا، میرے اور آپﷺ کے درمیان سوائے کجاوے کے پچھلے حصہ کی لکڑی کے اور کوئی چیز نہ تھی، آپﷺ نے ارشاد فرمایا: اے معاذؓ! میں نے کہا: یارسول اللہﷺ ! میں خدمت میں حاضر ہوں؛ پھرتھوڑی دیر چلے اور ارشاد فرمایا: اے معاذؓ! میں نے کہا: یارسول اللہﷺ ! میں خدمتِ اقدس میں حاضر ہوں؛ پھرتھوڑی دیر چلے اور ارشاد فرمایا: اے معاذ بن جبلؓ! میں نے کہا: یارسول اللہﷺ ! میں خدمتِ اقدس میں حاضر ہوں، اس کے بعد آپﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ بندوں پراللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں؛ پھرآپﷺ نے ارشاد فرمایا: بندوں پر اللہ تعالیٰ کا حق یہ ہے کہ وہ سب مل کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں؛ پھرتھوڑی دیر چلے اور ارشاد فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ جب بندے اس حکم کو بجالائیں تو اللہ تعالیٰ پر کیا حق ہے؟ میں نے کہا: اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ ہی زیادہ جانتے ہیں، تو اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ پر بندوں کا حق یہ ہے کہ وہ بندوں کو عذاب نہ دیں"۔

پوری شریعت کا نچوڑ بس یہی دوباتیں ہیں کہ انسان اللہ کی عبادت کرے اوامر کوانجام دے اور نواہی سے بچنے کا پورا اہتمام کرے، صرف اللہ کی عبادت کرے؛ ہرلمحہ اسی کے حکم کی بجاآوری میں صرف ہو، شرک اور شائبۂ شرک سے بھی اپنے آپ کو بچائے رہے اور اللہ سے کیے ہوئے عہد کو پورا کرے، تویقیناً اللہ تعالیٰ اپنا وعدۂ نجات کو بھی پورا فرمائیں گے؛ یہی مقصودِ زندگی ہے اور مطلوبِ بندگی بھی؛ اِسی اہمیت کی بناء پر اللہ کے رسولﷺ نے حضرت معاذؓ کو بار بار مخاطب فرمایا اور آخری بار کنیت کے ساتھ مخاطب کیا؛ تاکہ وہ سراپا شوق بن کر ان باتوں کو سنیں اور گرہ باندھ لیں، کیا ہی مؤثر انداز تھا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
Top