• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انبیاء اور صحابہ پر بننے والی فلمیں؛ شرعی جائزہ

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
انبیاء اور صحابہ پر بننے والی فلمیں؛ شرعی جائزہ


سید محمد علی​

انبیاء علیہم السلام اور صحابہ کرام﷢ کی تصاویر بنانا بالاتفاق حرام ہے۔ اہل علم کا اس مسئلہ میں اجماع ہے۔ کچھ عرصہ قبل سعودی عرب کی کمپنی ’الشرکۃ العربیۃ للإنتاج السینمائی العالمی‘نے ’محمد رسول اللہ‘ کے عنوان سے ایک فلم بنانے کا معاہدہ کیا۔ جس کے بعد سعودی عرب کے علما سے اس کے متعلق شرعی رہنمائی حاصل کی گئی اور ’ ھیئۃ کبار العلمائ‘نے حضرت محمدﷺ پر فلم بنانے کی حرمت کا فتویٰ جاری کیا۔ اس سے پہلے سعودی لجنۃ دائمہ کے فتاوی جات میں بھی انبیا کرام علیہم السلام اور صحابہ کرام﷢ کی تصویر کشی کی حرمت و بطلان پر کبار علما کا فتویٰ شائع ہوچکا ہے۔ اس سلسلے میں مکہ کی تنظیم ’رابطۃ لِعالم الاسلامی‘ کے ذیلی ادارے ’مجمع الفقہ الاسلامی‘ (Islamic Fiqh Academy) نے بھی اپنی فقہی رائے سے امت کو آگاہ کیا تھا کہ انبیا کی تصاویر اور ویڈیو بنانا مطلقاً حرام اور سنگین جرم ہے۔


شمارہ الاحیاء کے صفحات میں اس مسئلہ کی تنقیح و توضیح کی ضرورت اس لیے سمجھی گئی ہے کہ حال ہی میں ایک ایرانی چینل ’الکوثر‘ پر یوسف علیہ السلام پربنائی گئی فلم کو قسط وار پیش کیا گیا ہے۔ اہل ایران نے اس کے ساتھ حضرت سلیمان علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور اصحاب میں سے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ پر بنائی گئی فلمیں بھی جاری کی ہیں۔ یہ طوفانِ بداطواری محض اس مقام پر تھم نہیں گیا ہے بلکہ اسے غالباً الحاد و کفر کے جس منتہا تک لے جانے کی کوشش و سعی کی گئی تھی، وہ اب ظلم و عدوان کی منزل تک پہنچا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ اس لیے کہ ابن سبا کی قوم نے خدا کے آخری پیغمبر سیدنا محمدﷺ کی تصویر بھی شائع کردی ہے۔ اور جن قارئین کو یہ تصویر دیکھنے کا حادثہ پیش آیا ہے، انہیں اب اس حقیقت کو بھانپ لینے میں بھی کوئی دشواری نہ ہوگی کہ زنادقہ کا یہ گروہ پیغمبرِ اسلام ﷺسے کس درجہ بغض و عداوت رکھتا ہے۔ یہ لوگ ان تصاویر کے ذریعے غیر محسوس انداز سے پیغمبر اسلام ﷺ کی سیرت و شخصیت کا اصل روپ مسخ کردینا چاہتے ہیں۔ یہ اپنے ظنون و اوہام کا پرچار اسلام کے نام پر صرف اسی لیے کرتے ہیں کہ خود میں اسلام سے علانیہ مقابلہ کی ہمت نہیں پاتے، لہٰذا اہل اسلام کی صفوں میں داخل ہوکر ایک غدار کی حیثیت سے ملت اسلام کی کامل شکست اور یہود کی فتح و کامرانی کے منتظر ہیں اور اپنی سازشوں کا جال بچھانے میں مصروف عمل ہیں۔ اسی لیے انبیا و رسل fاور صحابہ کرامj پر فلمیں بنانے کا یہودی ایجنڈا بھی انہوں نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ اول اول تو یہ فلمیں یہود و نصاریٰ کی طرف سے بنائی جاتی رہیں جن کی کہانی زیادہ تر سیدنا مسیح dکی حیات کے گرد گھومتی ہے۔ اور کچھ ایسی ہیں جن میں صحابہ کرام کے فرضی کرداروں کو بھی فلمایا گیا ہے۔ اب یہ سلسلہ چوں کہ بہت پھیل گیا ہے اور جیسا کہ عرض کیا گیا کہ زنادقہ نے اسلام کے لبادے میں یہ حرام عمل بڑے پیمانے پر دینی تعلیم و تبلیغ کے نام پر باقاعدہ جاری کردیا ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ قرآن و سنت کے محکم دلائل کی روشنی میں اس کا تحلیل و تجزیہ پیش کردیا جائے اور اس کے مفاسد اور مضرتوں سے امت مسلمہ کو آگاہ کیا جائے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
مفاسد و نقصانات
1. اس طرح کی فلموں اور تصاویر سے انبیاے کرام علیہم السلام کی تنقیص ہوتی ہے۔ ان کا مقام زوال پذیر ہوجاتا ہے۔ ظاہر ہے جب فرستادگانِ الٰہی کے تذکروں کو مجالسِ لھو و لعب اور غیر سنجیدہ مباحثوں میں گھسیٹا جائے گا تو یہ ان عالی قدر شخصیات سے استہزاء و ٹھٹھا کرنے کے مترادف ہے۔کیونکہ تصاویر اور ویڈیوز کا تعلق ہی ہنسی مذاق اور تماشا (Entertainment) سے ہے اور یہ بات پوری قطعیت سے ثابت ہے کہ یہ ان اعمال میں سے ہے جو انسان کو ملت اسلام سے خارج کردیتے ہیں۔ پیغمبروں کے بارے میں اس نوع کا رویہ اختیار کرنا کھلا کفر ہے، خواہ اس فعل کا مرتکب قولاً یہ اقرار بھی کرتا ہوکہ وہ انبیا پر ایمان رکھنے والا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:
’’ وَلَئِنْ سَاَلْتَہُمْ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّمَا کُنَّا نَخُوْضُ وَنَلْعَبُ ط قُلْ اَبِاللّٰہِ وَاٰیٰتِہٖ وَرَسُوْلِہٖ کُنْتُمْ تَسْتَہْزِئُ وْنَ ۔ لاَ تَعْتَذِرُوْا قَدْ کَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ ط اِنْ نَّعْفُ عَنْ طَآئِفَۃٍ مِّنْکُمْ نُعَذِّبْ طَآئِفَۃً م بِاَنَّہُمْ کَانُوْا مُجْرِمِیْنَ‘‘(التوبہ 9: 65-66)
’’اگر ان سے پوچھو کہ تم کیا باتیں کررہے تھے، تو جھٹ کہہ دیں گے کہ ہم تو ہنسی مذاق اور دل لگی کررہے تھے۔ ان سے کہو!کیا تمہاری ہنسی دل لگی اللہ اور اُس کی آیات اور اُس کے رسول ہی کے ساتھ تھی؟ اب عذرات نہ تراشو۔ تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا ہے۔ ‘‘

2. تمام پیغمبروں کو خدا نے معصوم رکھا ہے۔ عصمت انبیا کا تقاضا ہے کہ ان خدا رسیدہ ہستیوں سے کوئی ایسا فعل صادر نہ ہو جسے اللہ نے محرّمات کی فہرست میں شامل کیا ہے اور کوئی ایسا عمل ترک نہ ہوجائے جس کو شریعت اسلام میں واجب کا درجہ حاصل ہے۔


مگر ان فلموں میں فرضی پیغمبر ایسے خلافِ شریعت کام بھی کرتا ہے جن کا تصور ایک نبی سے تو کجا، زہد و ورع کے بنیادی اوصاف رکھنے والے مسلمان سے بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ان فلموں میں دکھایا گیاہے کہ فرضی نبی غیر محرم عورتوں کے ساتھ بے پردہ گھومتا ہے۔


اسی طرح عصمت ِ انبیا کا یہ بھی تقاضا ہے کہ وہ خلعت ِنبوت و رسالت جس کے ذریعے سے اللہ نے ان کو زینت بخشی ہے، وہ کسی غیر نبی کو نہ پہنایا جائے نہ حقیقتاً اور نہ ڈرامائی اسلوب میں۔ اس معاملے میں بھی ان فلموں سے سخت بگاڑ پیدا ہوگیا ہے۔ وہ لوگ جو انبیا اور صحابہ کرام کا کردار پیش کررہے ہوتے ہیں، یعنی جن کو فرضی نبی یا فرضی صحابی بنایا گیا ہوتا ہے وہ اپنی تمام حرکات و سکنات ایک نبی کے فرضی قالب میں سامنے لاتے ہیں اور فلم کے دوسرے کردار ان کو نبی کے نام مثلاً یوسف یا موسیٰ سے ہی پکارتے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ فلم بینوں کی باہمی گفتگو میں بھی اس فرضی کردار کو نبی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ طرز عمل عصمت انبیا کو پامال کرنے والا ہے۔


3. تاریخ نے جن حضرات کے تذکروں کو اپنے دامن میں جگہ دی ہے، ان میں سے کسی ایک کے بارے میں بھی یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا کہ اس کی پوری زندگی ایک مربوط کہانی کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ انبیا کی صورتحال بہت کچھ مختلف ہے ان کے ٹھیک ٹھیک حالات بس اسی قدر ہمارے سامنے ہیں جن کو خدا کی آخری کتاب نے بیان کردیا ہے۔ اور قرآن مجید کا ایک عام ناظر بخوبی جان لیتا ہے کہ یہ بیانات قصہ گوئی کی قبیل سے نہیں ہیں بلکہ حالات کے پیش نظر مخاطبین کی اصلاح و درستی اور سبق آموزی کے لیے گزشتہ انبیا اور ان کی اقوام کا اتنا ہی تذکرہ کیا جاتا ہے جسے مخاطبین کی موجود صورتحال پر منطبق کرنا حکمت بالغہ کا تقاضا قرار پاتا ہے۔ اس کے علاوہ جو کچھ تاریخی شہادات میں ہے وہ سخت اختلافی اور کم مایہ ہے۔
جہاں تک آخری نبی اور رسول محمد ﷺ کی سیرت کا تعلق ہے، اس کا ہر گوشہ اور پہلو سیرت وحدیث کی کتابوں میں کشادہ ہے۔ مگر وہ بھی اس طرح نہیں ہے کہ ایک مکمل کہانی تیار کی جاسکے۔ کہانی اور قصوں کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ ان میں واقعات کا تسلسل اور ربط برقرار رہے تاکہ قاری اس قسم کی تحریر سے ذوق ادب کی تسکین کا سامان مہیا کرسکے۔ اسی لیے کہانی کی کتابوں، ناولوں، ادبی شہ پاروں اور تاریخی روایات اور سیرت و سوانح کا بنیادی اسلوب نگارش ہی بہت مختلف ہوتا ہے۔ کہانی لکھتے ہوئے مصنف بہت سے واقعات اور بیانات خود سے فرض کرتے ہوئے احاطہ تحریر میں لے آتا ہے، جن کو بربناے حقیقت جانچا جائے تو وہ محض جھوٹی داستان قرار پائیں گے۔ مثال کے طور پر اردو میں لکھے گئے تاریخی ناول اور تاریخی شخصیات پر مرتب کی گئی کہانیاں جو التمش اور نسیم حجازی وغیرہ کی کتابوں میں ہمیں ملتی ہیں، ان میں بیسیوں واقعات مصنفوں کے مخترعات ہیں، حقیقت سے انہیں کوئی علاقہ نہیں۔ جبکہ دوسری طرف تاریخ و سیر کی کتابوں میں مثال کے طور پر شبلی نعمانی و سید سلیمان ندوی کی ’سیرۃ النبی‘ ،مولانا صفی الرحمن مبارک پوری کی ’الرحیق المختوم‘، قاضی سلیمان منصورپوری کی ’رحمۃ اللعالمین‘وغیرہ میں چونکہ روایات و واقعات کی تحقیق و تفحّص کے بعد ہی انہیں درج کیا جاتا ہے، لہٰذا غیر ثابت شدہ بیانات قطعی طور پر مسترد کردیئے جاتے ہیں۔ اس لیے یہ سب کچھ ایسی کہانی کی صورت اختیار نہیں کرتا جس کے تمام واقعات بالترتیب ایک دوسرے سے پیوست ہوں۔
ان فلموں میں چونکہ انبیا و صحابہ کرام کی پوری کہانی فلمائی جاتی ہے، لہٰذا بہت سے واقعات خود سے گھڑ لیے جاتے ہیں۔ حالانکہ انبیا کے حق میں اس طرح کا جھوٹ وضع کرنا غیر معمولی جرم ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے:
’’ من کذب علی متعمدا فلیتبوا مقعدہ من النار ‘‘ (بخاری الجنائز:1291)
’’جس نے میرے بارے میں جان بوجھ کر جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں تیار کرلے۔‘‘
4. ان فلموں میں جو لوگ پیغمبر کے مخالفین اور حق کے منکرین کا کردار ادا کریں گے، اور یہ جو کہانی کی ضرورت ہے، وہ ظاہر ہے کہ لات، منات کی قسمیں اُٹھائیں گے، نبی اور رسول کو دیوانہ اور مجنون کہیں گے، ناروا الفاظ کا استعمال ہوگا اور ائمہ سنت کے حسب تصریح یہ سب وہ اعمال ہیں جن کا محض تلفظ بھی کفر ہے، چنانچہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ ایسے لوگوں کا حکم کیا ہوگا!!


5. ان فلموں کا ایک سنگین پہلو یہ ہے کہ ان میں ایسے مرد اور خواتین انبیا، صحابہ اور صحابیات کا کردار پیش کرتے ہیں جن کو شاید پوری طرح مسلمان بھی نہ کہا جاسکے۔ یہ لوگ وہ ہیں جو معاشرے میں فحاشی اور بے حیائی کی علامت ہیں، ان کا کردار یہ ہے کہ یہ غیر محرم عورتوں کے ساتھ اختلاط ہی نہیں، ملامست کے جرائم میں بھی مبتلا رہتے ہیں۔ ان کی خواتین وہ ہیں جو بالکل بے پردہ رہنے والی اور بے حیائی کا مظہر ہوتی ہیں۔ وہ محافلِ رقص و سرود کی زینت بنتی اور پوری دنیا کے سامنے اپنے اعضاے جسم کی عریاں نمائش کرتی ہیں۔
کس قدر لغو اور بے ہودہ حرکت ہے کہ اس قماش کے لوگوں کو عزب مآب انبیا اور عفت مآب صحابیات اور عائلاتِ انبیا کے روپ میں پردئہ سیمیں پر دکھایا جائے۔ یہ انبیا کی کھلی تذلیل ہے جس پر ایک ایماندار کسی طور خاموش نہیں رہ سکتا۔ چنانچہ ارشاد ہے:
’’ لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُعَزِّرُوْہُ وَتُوَقِّرُوْہُط وَتُسَبِّحُوْہُ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلًا ‘‘ (الفتح48:9)
’’تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان لائواور اُس کا (یعنی رسول کا) ساتھ دو، اُس کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اللہ کی تسبیح کرتے رہو۔‘‘
6. اس طرح کی فلموں سے لگائو کا یقینی نتیجہ یہ ہے کہ قرآن مجید، جو مخزن العلوم ہے، سے تعلق اور تالّف ختم ہوجاتا ہے۔ ایک شخص بجائے اس کے کہ انبیا علیہم السلام کے واقعات قرآن مجید میں پڑھے اور ان سے درس و نصیحت حاصل کرے، وہ کتاب اللہ کو چھوڑکر سی ڈیز، ٹیلی ویژن اور سینما کی طرف متوجہ رہے گا۔ جبکہ اسلام جس نفسیات کو پیدا کرنا چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ مسلمان تمام تر رہنمائی قرآن و سنت سے اخذ کرے اور اس کا دل مسجد میں ہی قرار پائے۔


7. وہ فلمیں جنہیں عیسائیوں یا یہودیوں نے تیار کیا ہے، انہوں نے ان میں اپنے عقائد کی پوری طرح آمیزش کردی ہے۔ حالانکہ قرآن مجید ان عقائد کا رد کرتا ہے۔ مثال کے طور پر سیدنا عیسیٰdکا سولی کے نتیجے میں فوت ہو جانا۔ یہ عقیدہ اسلام کی نگاہ میں بالکل باطل ہے۔ قرآن صراحت سے کہتا ہے :
’’ وَمَا قتََلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ وَلٰکِنْ شُبِّہَ لَھُمْ ‘‘ (النسائ:157)
’’حالانکہ فی الواقع انہوں نے نہ اُس کو قتل کیا نہ صلیب پر چڑھایا، بلکہ معاملہ ان کے لیے مشتبہ کردیا۔‘‘

8. انبیا کی فلمیں تیار کرنا حکمت بالغہ کے خلاف ہے۔ حکمت متقاضی ہے کہ کوئی بھی غیر نبی، نبی کی صورت میں پیش نہ ہو۔ جنات ایسی مخلوق ہے کہ اسے انسانی شکل دھارنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ مگر انبیا کے حق میں جنوں سے یہ صلاحیت و اختیار سلب کر لیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد نبوی ہے:
’’ من رانی فی المنام فقد رانی فان الشیطان لا یتمثل بی ‘‘ (بخاری)
’’جس نے مجھے خواب میں دیکھا اس نے حقیقتاً مجھے ہی دیکھا ہے کیونکہ شیطان میرا روپ نہیں دھار سکتا۔‘‘
جنوں سے اختیار سلب کرنے کی حکمت یہ ہے کہ پیغمبر کی شخصیت کو بے کار محل سے محفوظ رکھا جائے۔ ان فلموں میں اسی حکمت کے خلاف تکلفاً پیغمبر کے روپ میں غیر نبی کو دکھایا جاتا ہے۔
بعض لوگ ان فلموں کے حق میں یہ دلیل رکھتے ہیں کہ ان سے دعوتی مصلحت حاصل کی جاتی ہے۔ یہ فلمیں انبیا اور قرآن کی دعوت کو پھیلانے کا ذریعہ ہیں۔ یہ دلیل نہ صرف یہ کہ شرعی لحاظ سے غیر معتبر، بلکہ صورتِ واقعہ کے خلاف بھی ہے۔ تجربات سے ثابت ہے کہ اس نوع کی فلمیں اور ڈرامے دیکھ کر نہ کوئی پابند ِصوم و صلوٰۃ ہوا ہے اور نہ اخروی کامیابی کی کوئی امنگ اس کے قلب و ذہن میں پیدا ہوئی ہے۔ یہ نعمتیں صرف پیغمبر ﷺ کے اسوہ حسنہ کی کامل پیروی ہی سے حاصل ہوتی ہیں۔ دوسرے یہ کہ ہم نے جن مفاسد کی نشاندہی کی ہے، ان کی موجودگی میں ان فلموں کی تھوڑی بہت مصلحت کی بھی کوئی اہمیت باقی نہیں رہ جاتی۔ کیونکہ فقہا کے ہاں یہ قاعدہ مسلّم ہے کہ ’درء المفاسد مقدم علی جلب المنافع والمصالح‘یعنی منفعت کو قبول کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ مضرتوں سے بچائو حاصل کرلیا جائے۔جب یہ طے ہے کہ اس طرح کی فلموں کے مزعومہ فوائد کے بالمقابل ان کے منفی پہلو کہیں زیادہ سنگین اور تباہ کن ہیں تو انہیں مسلم معاشروں میں کسی طور گوارا نہیں کیا جاسکتا، بلکہ اس طرح کی لغویات کا سختی سے بائیکاٹ ہی تعلیمات اسلام اور مقاصد شریعت کا حقیقی تقاضا ہے۔
-----------------​
 
Top