Sahih Bukhari Hadees # 5038
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سہو و نسیان بھی امت کیلئے تعلیم شریعت کی صورت اور حکمت الہیہ کا تقاضا ہے ،
عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَالَ إِبْرَاهِيمُ: لاَ أَدْرِي زَادَ أَوْ نَقَصَ - فَلَمَّا سَلَّمَ قِيلَ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَحَدَثَ فِي الصَّلاَةِ شَيْءٌ؟ قَالَ: «وَمَا ذَاكَ»، قَالُوا: صَلَّيْتَ كَذَا وَكَذَا، فَثَنَى رِجْلَيْهِ، وَاسْتَقْبَلَ القِبْلَةَ، وَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ، فَلَمَّا أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ، قَالَ: «إِنَّهُ لَوْ حَدَثَ فِي الصَّلاَةِ شَيْءٌ لَنَبَّأْتُكُمْ بِهِ، وَلَكِنْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ، أَنْسَى كَمَا تَنْسَوْنَ، فَإِذَا نَسِيتُ فَذَكِّرُونِي، وَإِذَا شَكَّ أَحَدُكُمْ فِي صَلاَتِهِ، فَلْيَتَحَرَّ الصَّوَابَ فَلْيُتِمَّ عَلَيْهِ، ثُمَّ لِيُسَلِّمْ، ثُمَّ يَسْجُدُ سَجْدَتَيْنِ»
ترجمہ :
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی۔ ابراہیم نے کہا مجھے نہیں معلوم کہ نماز میں زیادتی ہوئی یا کمی۔ پھر جب آپ نے سلام پھیرا تو آپ سے کہا گیا کہ یا رسول اللہ! کیا نماز میں کوئی نیا حکم آیا ہے؟ آپ نے فرمایا آخر کیا بات ہے؟ لوگوں نے کہا آپ نے اتنی اتنی رکعتیں پڑھی ہیں۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں پاؤں پھیرے اور قبلہ کی طرف منہ کر لیا اور ( سہو کے ) دو سجدے کئے اور سلام پھیرا۔ پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ اگر نماز میں کوئی نیا حکم نازل ہوا ہوتا تو میں تمہیں پہلے ہی ضرور کہہ دیتا ، لیکن میں تو تمہارے ہی جیسا آدمی ہوں، جس طرح تم بھولتے ہو میں بھی بھول جاتا ہوں۔ اس لیے جب میں بھول جایا کروں تو تم مجھے یاد دلایا کرو اور اگر کسی کو نماز میں شک ہو جائے تو اس وقت ٹھیک بات سوچ لے اور اسی کے مطابق نماز پوری کرے پھر سلام پھیر کر دو سجدے ( سہو کے ) کر لے۔
صحیح بخاری ،(کتاب الصلوٰۃ ح401 )صحیح مسلم باب السہو فی الصلاۃ ،سنن ابی داود (1020)سنن النسائی 1242)سنن ابن ماجہ 2103)مسند ابی دود طیالسی 269 )
اور قرآن بھولنے کی دوسری روایت :
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ سَمِعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا يَقْرَأُ فِي سُورَةٍ بِاللَّيْلِ فَقَالَ يَرْحَمُهُ اللَّهُ لَقَدْ أَذْكَرَنِي كَذَا وَكَذَا آيَةً كُنْتُ أُنْسِيتُهَا مِنْ سُورَةِ كَذَا وَكَذَا
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاحب کو رات کے وقت ایک سورت پڑھتے ہوئے سنا تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس صحابی کو رحمتوں سے نوازے ، اس نے مجھے فلاں آیتیں یاد دلا دیں جو مجھے فلاں فلاں سورتوں میں سے بھلا دی گئی تھیں ۔(صحیح بخاری ،فضائل القرآن ،5038 )
علامہ احمد بن علی ابن حجرؒ عسقلانی (المتوفی 852ھ) اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
قال الإسماعيلي النسيان من النبي صلى الله عليه وسلم لشيء من القرآن يكون على قسمين أحدهما نسيانه الذي يتذكره عن قرب وذلك قائم بالطباع البشرية وعليه يدل قوله صلى الله عليه وسلم في حديث بن مسعود في السهو إنما أنا بشر مثلكم أنسى كما تنسون والثاني أن يرفعه الله عن قلبه على إرادة نسخ تلاوته وهو المشار إليه بالاستثناء في قوله تعالى سنقرئك فلا تنسى إلا ما شاء الله
وفي الحديث حجة لمن أجاز النسيان على النبي صلى الله عليه وسلم فيما لبس طريقه البلاغ مطلقا وكذا فيما طريقه البلاغ لكن بشرطين أحدهما أنه بعد ما يقع منه تبليغه والآخر أنه لا يستمر على نسيانه بل يحصل له تذكره إما بنفسه وإما بغيره وهل يشترط في هذا الفور قولان فأما قبل تبليغه فلا يجوز عليه فيه النسيان أصلا۔۔۔۔ "
ترجمہ :
شيخ الإسلام، ابو بكر احمد بن إبراهيم الإسماعيلي (المتوفی 371) فرماتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا قرآن میں نسیان دو طرح کا تھا ایک ایسا نسیان جو عارضی وقتی تھا یہ جلد ہی یاد آ جاتا تھا جیسا کہ بشری طبیعت کا اقتضاء ہے ، اس نسیان پر سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی نماز میں سہو کی حدیث دلیل ہے جس میں آپ ﷺ فرماتے ہیں:
(إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ أَنْسَى كَمَا تَنْسَوْنَ) " میں بھی بشر ہوں ،میں ویسے ہی کوئی چیز بھول جاتا ہوں جیسے تم بھول جاتے ہو ،تو جب میں کچھ بھول جاؤں تو مجھے یاد دلا دیا کرو ‘‘
دوسرا نسیان یہ ہے کہ اللہ تعالی کسی آیت کی تلاوت کو منسوخ کرنے کیلئے آپ کے دل ہی سے اٹھالے ،اسی نسیان نسخ کی طرف اس آیت میں استثناء کے ساتھ اشارہ کیا :
(سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسَى إِلَّا مَا شَاءَ الله) " یعنی ہم آپ کو قرآن پڑھائیں گے ،تو آپ نہ بھولیں گے ،سوائے اس کے جو اللہ چاہے گا "
امام ابوبکر اسماعیلی ان دو قسموں میں پہلی قسم کا نسیان تو عارضی اور وقتی ہے ، جلد ہی اس کا ازالہ ہوجاتا تھا ،اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے (
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَأَنا لَهُ لحافظون (الحجر:9 )"
ہم نے ہی اس قرآن کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں "
اور دوسرے نسیان نسخ کا ذکر سورۃ البقرۃ (106) کی اس آیت شریفہ میں ہے :
مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ ننسها نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا "
ہم جب بھی کسی آیت کو منسوخ کرتے یا اسے بھلا دیتے ہیں تو اس جیسی یا اس سے بہتر آیت لاتے (بھی) ہیں۔
یہ دلیل ان حضرات کی قراء ت پر ہےجنہوں نے نون پر پیش پڑھی تھی ۔
اور بخاری کی اس حدیث میں آنجناب کی نسبت وقوع نسیان کے مجیزین کیلئے حجت ہے، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن دو شرطوں کے ساتھ ایک یہ کہ آپ ان آیات کو سنا چکے ہوں یعنی ان کا اعلان ہو چکا ہو ۔دوسری شرط یہ ہے کہ یہ نسیان ہمیشہ نہ رہے بلکہ خود ہی یاد آجائے یا کوئی دوسرا یاد کرادے ،اور جن آیات کی ابھی تبلیغ ہی نہ ہوئی ہو (یعنی ابھی کسی کو سنائی نہ ہوں ) ان کو آپ بھول نہیں سکتے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔