محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ۰ۘ مِنْھُمْ مَّنْ كَلَّمَ اللہُ وَرَفَعَ بَعْضَھُمْ دَرَجٰتٍ۰ۭ وَاٰتَيْنَا عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنٰتِ وَاَيَّدْنٰہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ۰ۭ وَلَوْ شَاۗءَ اللہُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِيْنَ مِنْۢ بَعْدِھِمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَتْھُمُ الْبَيِّنٰتُ وَلٰكِنِ اخْتَلَفُوْا فَمِنْھُمْ مَّنْ اٰمَنَ وَمِنْھُمْ مَّنْ كَفَرَ۰ۭ وَلَوْ شَاۗءَ اللہُ مَا اقْتَتَلُوْا۰ۣ وَلٰكِنَّ اللہَ يَفْعَلُ مَا يُرِيْدُ۲۵۳ۧ
وجبریل رسول اللہ فینا ٭ وروح القدس لیس لہ کفاء
کہ جبریل علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے رسول اور روح القدس ہماری تائید کے لیے ہم میں موجود ہیں۔ ان کا مقابلہ کرنا ناممکن ہے اور یا روح سے مراد انجیل ہے کیوں کہ اس میں زیادہ تر روحانی اصلاح سے تعرض کیا گیا ہے ۔
چنانچہ قرآن حکیم کو بھی ''روح اللہ'' کا خطاب دیا گیا ہے ۔ارشاد ہے ۔ وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ رُوْحًامِّنْ اَمْرِنَا۔ اقدس کے معنی مقدس کے ہوں گے ۔ یعنی ایسی کتاب جو تزکیہ وتقدیس کے لیے نازل کی گئی ہو۔ مطلب بہرحال یہ ہے کہ تمام انبیاء کا احترام کرو۔ سب میں فضائل ومزایا کا معتدبہ حصہ ہے (بقیہ صفحہ گزشتہ کا) تمام انبیا ء علیہم السلام میں رسول اللہﷺ کا درجہ کیا ہے ؟ بس یہ سمجھ لو، ان تمام خوبیوں کا جو فرداً فرداً تمام رسل میں پائی جاتی ہیں اگر کسی ایک انسان میں جمع کردی جائیں تو وہ حضورﷺ ہیں۔ ع
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہاداری
اس لیے کہ آپ ﷺسے پہلے جتنے پیغمبر آئے وہ محدود وقت اور متعین گروہوں کے لیے مبعوث ہوکر آئے تھے مگرآپﷺکی نبوت زمان وقوم کی حدود سے باہر ہے ۔آپﷺ ہرقوم اورہرزمانے کے لیے پیغمبرﷺ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپﷺ کے فضائل غیر محدود اور لاتحصیٰ ہیں۔
۲؎ ان آیات میں بتایا کہ باوجود حضورﷺ کی فضیلت ودرجات کے بعض لو گ منکررہے۔ یہ اس لیے کہ کلیتاً کفر کا اٹھ جانا اللہ کی مرضی پر موقوف ہے ۔وہ چاہے تو دنیا میں کوئی اختلاف باقی نہ رہے مگر وہ کسی شخص کو ایمان پر مجبور نہیں کرتا۔ہرشخص اپنے عقیدہ میں آزاد ہے، اس لیے کفر ومخالفت کا ہونا بھی ناگزیر ہے۔
ان رسولوں میں ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت۱؎ دی ہے ۔ کوئی ان میں سے ہے جس سے خدا نے کلام کیا اور کسی کے ان میں درجے بلند کیے اور عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کو ہم نے کھلے نشان دیے اور روح القدس سے ان کی مدد کی اور اگرخدا چاہتا تو ان کے بعد کے لوگ صاف حکم پانے کے بعد ہرگز نہ آپس میں لڑتے لیکن انھوں نے باہم اختلاف ڈالا۔ سو کوئی ان میں سے ایمان لایا اور کوئی کافر ہوا اور خدا چاہتا تو وہ نہ لڑتے لیکن اللہ جو چاہتا ہے سو کرتا ہے ۔۲؎(۲۵۳)
۱؎ نفس نبوت میں تو اللہ تعالیٰ کے تمام رسول برابر کے شریک وسہیم ہیں مگر حالات واستعداد کے ماتحت سب ایک دوسرے سے مختلف اور الگ الگ ہیں ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام وصف خلت میں ممتاز ہیں۔ اتخذ اللہ ابراہیم خلیلا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو شرف مکالمہ سے سرفراز کیا گیا۔وَکَلَّمَ اللّٰہُ مُوْسیٰ تَکْلِیْماًاور حضرت مسیح علیہ السلام کو روح القدس کی تخصیص سے نوازا گیا اور بعض ایسے بھی ہیں جن کا ذکر نہیں کیا گیا مگر ان کے مراتب بھی اعلیٰ وبلند ہیں۔وَرَفَعَ بَعْضَھُمْ دَرَجٰتٍ۔ مقصد یہ ہے کہ سب خدا کے فرستادہ ہیں۔ سب اس کے پیارے ہیں۔ سب کو درجہ ٔمحبوبیت پر فائز کیا گیا ہے، اس لیے ان کے نام نزاع اور جنگ جائز نہیں۔ یہی مقصد ہے اس حدیث کا جس میں حضورﷺ نے فرمایا کہ لا تفصلوا بین الآنبیاء یعنی انبیاء کے درمیان جنگ مفاصلہ بپانہ کرو۔روح القدس سے یا توجبریل علیہ السلام مراد ہیں۔ حضرت حسان رضی اللہ عنہ کا شعر ہے ۔انبیاعلیہم السلام کے درجے
وجبریل رسول اللہ فینا ٭ وروح القدس لیس لہ کفاء
کہ جبریل علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے رسول اور روح القدس ہماری تائید کے لیے ہم میں موجود ہیں۔ ان کا مقابلہ کرنا ناممکن ہے اور یا روح سے مراد انجیل ہے کیوں کہ اس میں زیادہ تر روحانی اصلاح سے تعرض کیا گیا ہے ۔
چنانچہ قرآن حکیم کو بھی ''روح اللہ'' کا خطاب دیا گیا ہے ۔ارشاد ہے ۔ وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ رُوْحًامِّنْ اَمْرِنَا۔ اقدس کے معنی مقدس کے ہوں گے ۔ یعنی ایسی کتاب جو تزکیہ وتقدیس کے لیے نازل کی گئی ہو۔ مطلب بہرحال یہ ہے کہ تمام انبیاء کا احترام کرو۔ سب میں فضائل ومزایا کا معتدبہ حصہ ہے (بقیہ صفحہ گزشتہ کا) تمام انبیا ء علیہم السلام میں رسول اللہﷺ کا درجہ کیا ہے ؟ بس یہ سمجھ لو، ان تمام خوبیوں کا جو فرداً فرداً تمام رسل میں پائی جاتی ہیں اگر کسی ایک انسان میں جمع کردی جائیں تو وہ حضورﷺ ہیں۔ ع
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہاداری
اس لیے کہ آپ ﷺسے پہلے جتنے پیغمبر آئے وہ محدود وقت اور متعین گروہوں کے لیے مبعوث ہوکر آئے تھے مگرآپﷺکی نبوت زمان وقوم کی حدود سے باہر ہے ۔آپﷺ ہرقوم اورہرزمانے کے لیے پیغمبرﷺ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپﷺ کے فضائل غیر محدود اور لاتحصیٰ ہیں۔
۲؎ ان آیات میں بتایا کہ باوجود حضورﷺ کی فضیلت ودرجات کے بعض لو گ منکررہے۔ یہ اس لیے کہ کلیتاً کفر کا اٹھ جانا اللہ کی مرضی پر موقوف ہے ۔وہ چاہے تو دنیا میں کوئی اختلاف باقی نہ رہے مگر وہ کسی شخص کو ایمان پر مجبور نہیں کرتا۔ہرشخص اپنے عقیدہ میں آزاد ہے، اس لیے کفر ومخالفت کا ہونا بھی ناگزیر ہے۔