• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انتہاپسندی ‘فرقہ واریت اور تشدد کے انسداد میں اسلامی جامعات کا کردار((ظفراقبال ظفر))

ظفر اقبال

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 22، 2015
پیغامات
281
ری ایکشن اسکور
21
پوائنٹ
104
! انتہاپسندی ‘فرقہ واریت اور تشدد کے انسداد میں اسلامی جامعات کا کردار
زندگی اللہ کی نعمت ہے او راس نعمت کا حق ادا کرنے کے لیے لازمی ہے کہ اسے خالق کی رضا کے مطابق گزارا جائے۔ اللہ کے حق بھی ادا کئے جائیں اور اللہ کے بندوں کے بھی۔ اللہ کے حقوق تو ایک شخص اپنی انفرادی زندگی میں ادا کرتا ہے۔ لیکن اللہ کے بندوں کے حق ادا کرنے کے لیے بعض اوقات انفرادی کوششیں کافی نہیں ہوتیں‘ بلکہ اجتماعی کوششوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔جامعہ لاہور الاسلامیہ دینی اور عصری تعلیم کے امتزاج سے دور حاضر کے معیار کے مطابق اعلیٰ تعلیمی اور تربیتی ادارہ ہے ۔جس میں پاکستان کے مروج دینی اور دنیاوی نصاب ہائے تعلیم کا امتزاج کرکے ایک مثالی نصاب و نظام تشکیل دیا گیاہے۔ جو معاشرے کی اصلاح اور پیغام الہی کی ترویج و اشاعت کے لیے ہمہ وقت آپنی خدمات سر انجام دے رہا اور معاشرے کی اصلاح کے لیے ایسے افراد تیار کر کے مختلف فورمز پر دینی خدمات سر انجام دے رہا ہے۔دینی اور عصری تقاضوں سے مطابق تعلیم و تربیت سے اراستہ افراد مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کام کر رہے ہیں ۔ جامعہ لاہور الاسلامیہ جو عالم اسلام اور عرب کی مشہور یونیورسٹیوں سے ہم آہنگ ہے۔ اسی وجہ سے جامعہ ہذا کا مدینہ یونیورسٹی کےعلاوہ دیگر بین الاقوامی یونیورسٹیوں کے ساتھ معادلہ ہے۔ جامعہ کے طلبہ کوہر سال اعلیٰ تعلیم کے لیے ان یونیورسٹیوں میں داخلہ دیا جاتا ہے۔اس کے ساتھ ہی جامعہ لاہور الاسلامیہ کے منتظیمن شب و روز طلباء کی تعلیمی بہتری کے لیے مختلف منصوبہ جات اور عصر حاضر کے جدید تقاضوں کے پیش نظر جدید چیلنجز سے نمٹنے اور نئے رونما ہونے والے فتنوں کے انسداد اور ان فتنوں کی پہچان کے لیے مختلف اوقات میں ورکشاپس‘سیمینار ‘اور مختلف کورسز کا اہتمام کرتے ہیں ۔حال ہی میں منعقد ہونے والے سیمینار جو کہ بروز ہفتہ 14 جنوری 2017ء کوجامعہ لاہور الاسلامیہ میں منعقد ہوا جس کا موضوع تھا۔(انتہاء پسندی، فرقہ واریت اور تشدد کے انسداد میں اسلامی جامعات کا کردار)یہ سیمینار
اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ اور اسلامک ہیومن رائٹس فورم (لاہور اسلامک یونیورسٹی) کے زیر اہتمام منعقد کیا گیا۔ جس میں اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے سربراہ
پروفیسر ڈاکٹر احمد یوسف الدریویش مہمان خصوصی تھے۔سیمینار کا آغاز ساڑھے تین بجے ہوا جو کہ رات تقریبا آٹھ بجے تک جاری رہا ۔
سیمینار کا شیڈول کچھ اس طرح تھا کہ:
اسٹیج سیکٹری كی خدمات جامعہ لاہور الاسلامیہ کے مدیر التعلیم ڈاکٹر حافظ حسن مدنی صاحب نے سر انجام دیں۔
تلاوت قرآن کریم کی سعادت :
ڈاکٹر حافظ حمزہ مدنی (مدیر کلیۃ القرآن) جامعۃ لاہور الاسلامیہ نے حاصل کی ۔
قاری صاحب نے تلاوت کلام پاک کا آغاز سورہ (ق) کی آیت نمبر:38

وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَمَا مَسَّنَا مِن لُّغُوبٍ (38) فَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوبِ (39) وَمِنَ اللَّيْلِ فَسَبِّحْهُ وَأَدْبَارَ السُّجُودِ (40) وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنَادِ الْمُنَادِ مِن مَّكَانٍ قَرِيبٍ (41) يَوْمَ يَسْمَعُونَ الصَّيْحَةَ بِالْحَقِّ ۚ ذَٰلِكَ يَوْمُ الْخُرُوجِ (42) إِنَّا نَحْنُ نُحْيِي وَنُمِيتُ وَإِلَيْنَا الْمَصِيرُ (43) يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِرَاعًا ۚ ذَٰلِكَ حَشْرٌ عَلَيْنَا يَسِيرٌ (44) نَّحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُونَ ۖ وَمَا أَنتَ عَلَيْهِم بِجَبَّارٍ ۖ فَذَكِّرْ بِالْقُرْآنِ مَن يَخَافُ وَعِيدِ تک تلاوت فرمائی۔
تلاوت کلام پاک کے بعد ڈاکٹر حافظ حسن مدنی صاحب نے آنے والے معزز مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور سامعین کا شکریہ ادا کیا کہ وہ اس سیمینار میں شرکت کے لیے آئے ۔اس کے متصل ہی ڈاکٹر صاحب نے موضوع کی اہمیت وافادیت اور موجودہ حالات میں ایسے موضوعات کے انتخاب کا مقصد بھی واضع کیا ۔کہ ایسے پروگرام منعقد کرنے کا مقصد کیا ہوتا ہے۔اس کے ساتھ ہی
سیمینار کا شیڈول یہ طے پایا کہ اس سیمینار کے دو سیشن ہونگے ۔پہلا سیشن تین خطابات پر مشتمل ہو گا ۔دوسرا سیشن نماز مغرب کے بعد شروع ہوگا جس میں نماز مغرب کے فوری بعد مسابقہ اور مباحثہ ہو گا جس میں شرکاء مجلس موضوع کے حوالے سے آپنے خیالات اور آپنی آراء پیش کریں گے۔اس کے بعد کھانہ ہو گا اوراس کے بعد نماز عشاء ادا کرنے کے ساتھ ہی شرکائے مجلس کو جانے کی اجازت ہو گی ۔
ڈاکٹر صاحب نے سامعین کومخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ:
عقائد اور نظریات میں تبدیلی دیر پا ہوسکتی ہے اس میں جبر کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ۔اس لیے کسی بھی تبدیلی کے لیے تعلیمی اور نظریاتی اصلاح بنیادی حثیت رکھتی ہے۔اس کے ساتھ خطابات کا سلسلہ شروع ہوا ۔

پہلا خطاب : ڈاکٹر احسان الحق صاحب
(سیمینار کےاغراض و مقاصد)عنوان:
ڈاکٹر حافظ حسن مدنی صاحب نے اس سیمینار کے پہلے مقرر ڈاکٹر احسان الحق صاحب کو دعوت خطاب دیا جن کا موضوع تھا ۔ (سیمینار کے اغراض و مقاصد)ڈاکٹر صاحب نے سامعین کی خدمت میں ہدیہ سلام پیش کیا اور حمدوثناء کے بعد اقبال انسٹی ٹیوٹ اینڈ ریسرچ (آئی آر ای ) کا تعارف پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ :
اقبال انسٹی ٹیوٹ انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کا ایک ریسرچ کا شعبہ ہے جو کہ 2007 ءمیں قائم ہوا ۔جس کے پہلےڈپٹی ڈریکٹر ڈاکٹر مختار احمد صاحب مقرر ہوئے ۔ان کی وفات کے بعد ڈاکٹر حسن میمون اس شعبہ کے ڈپٹی ڈریکٹر مقرر ہوئے جو اس شعبہ کے مقصد اور اس کے قیام کے مقاصد کو لے کر ڈاکٹر صاحب کے مشن کو تاحال جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ آج کا سیمینار اسی مشن کی ایک کڑی ہے ۔اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے انٹر نیشنل اسلامک یونیوسٹی اسلام آباد کے وائس چانسلر ڈاکٹر احمد یوسف الدریویش کا تعارف کرواتے ہوئے ۔اقبال انسٹی ٹیوٹ کے مشن اور کامیابی کے لیے ڈاکٹر احمد یوسف الدریویش کی خدمات اور مساعی جمیلہ کو قابل ذکر خیال کیا ۔
پہلےخطاب کے اختتام پر ڈاکٹر حافظ حسن مدنی صاحب نے فرمایا کہ:
یقینًا بڑی مسرت کی بات ہے کہ تین مختلف جامعات کے سرپرستوں کی سیمینار میں تشریف آوری بڑی خوشی کی بات ہے۔جن میں جامعہ لاہور الاسلامیہ کے سرپرست اعلیٰ ڈاکٹر حافظ عبد الرحمان مدنی صاحب ۔سرگودہ یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر اکرم چوہدری صاحب ۔انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے وائس چانسلر ڈاکٹر احمد یوسف الدریویش صاحب قابل ذکر ہیں ۔

دوسرا خطاب : ڈاکٹر حافظ عبد الرحمان مدنی صاحب
اس سیمینار کے دوسرے اور پہلے سیشن کے پہلے مقرر جامعہ لاہور الاسلامیہ کے سرپرست اعلیٰ ڈاکٹر حافظ عبد الرحمان مدنی صاحب کو ڈاکٹر حافظ حسن مدنی صاحب نے خطاب کی دعوت دی ۔جن کا موضوع تھا۔
(امت مسلمہ کے مسالک و مذاہب اور سیکولرزم ہمیں کس سمت لیجا رہا ہے؟)
مدنی صاحب نے آپنی گفتگو کا آغاز قرآن مجید سے مندرجہ ذیل آیت مبارکہ سے کیا۔

آیت: كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ وَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ إِلَّا الَّذِينَ أُوتُوهُ مِن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ ۗ وَاللَّهُ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ۔(سورۃ البقرۃ:213)
مدنی صاحب نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ:
اسلام دین برحق ہےاور حق کو دنیا میں نافذ العمل بنانا اس دین اسلام کا سب سے بڑا مشن اور مقصد ہے ۔جبکہ موجودہ حالات میں جبکہ سیکولرزم دین اسلام کے حقیقی ہئیت اور شکل کو مسخ کرنے کے درپہ ہے ۔جس کا دعوی ہے کہ مسالک علم اور دلیل کی بات کرتے ہیں۔ جبکہ مذہب جذبات اور عقیدت کی بات کرتا ہے ۔اس پر مدنی صاحب نے فرمایاکہ ہم جانے کی کوشش کرتے ہیں کہ سیکولرزم کے اس دعوئے کو ہم نے کس حد تک قبول کر لیا ہے؟
شیخ محترم مدنی صاحب نے آپنے خطاب میں فرمایا کہ پاکستان میں 1500 کے قریب دینی جامعات ہیں اور سب کی سب محکمہ تعلیم کی بجائے وزیر مذہبی امور سے رجسٹرڈ ہیں ۔کیونکہ محکمہ تعلیم ان جامعات کو تعلیمی ادارے تسلیم نہیں کرتا ہے۔مدنی صاحب نے آپنے خطاب میں فرمایاکہ :
1857ءسےتمام دینی جامعات کا نصاب تعلیم اورسوچ ایک تھی ۔کسی مسلک کی کوئی تفریق نہیں تھی ۔1857ء کے بعد برطانوی سامراج نے مسلمانوں میں اتحاد کو ختم کرنے کے لیے شعیہ سنی تفریق پیدا کی جو کہ اختلافات کی صورت میں وقت گزرنے کے ساتھ باہم دست و گریباں ہونے کی وجہ سے تشدد اور انتہاپسندی کی صورت اختیار کر گئی۔اس وقت دنیا میں دو بلاک بنائے گئے ۔ایک بلاک(ایران)جو’’فقہ جعفری‘‘ کو آپنے ملک کا آئین بنانے میں لگ گیا ۔ دوسرا بلاک (افغانستان) میں ’’فقہ حنفی‘‘کو ملک کا آئین تسلیم کرنے میں کامیاب ہوا ۔ اس سے باقی تمام فقہیں ختم ہو کررہ گئیں ۔جبکہ فقہ جعفری فقہ شافعی کے بلکل قریب تھی ۔

چیلنج: آج جو سب سے بڑا چیلنج ہمیں درپیش ہے وہ یہ ہے کہ : (سیکولرزم کے مذکورہ دعووں کا رد کیسے کیا جائے؟)
چیلنج:سیکولرزم کو اکثر اور غالب ہونے کی وجہ سے قبول کیا جائے یا کہ دلیل کی بنیاد پر قبول کیا جائے۔؟
مثال:حضرت داؤد ﷤ کے پاس ایک کیس لایا گیا کہ ایک آدمی کی 99 دنبیاں تھیں ایک کی ایک دنبی تھی ۔ننانوے والے نے ایک دنبی لینے کا کیس حضرت داؤد ﷤ کے سامنے دائر کیا ۔
حضرت داؤد ﷤ نے فرمایا:

آیت:
قَالَ لَقَدْ ظَلَمَكَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِكَ إِلَىٰ نِعَاجِهِ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْخُلَطَاءِ لَيَبْغِي بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَقَلِيلٌ مَّا هُ وَظَنَّ دَاوُودُ أَنَّمَا فَتَنَّاهُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهُ وَخَرَّ رَاكِعًا وَأَنَابَ (سورۃ ص:24)
یعنی کہ فیصلہ کرتے وقت حق اور دلیل کو دیکھا جاتا ہے ناکہ اکثریت کو۔
مدنی صاحب حافظہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ:
تعلیمی ادراوں میں فرقہ بندی کی بجائے دلیل کی حکمرانی ہونی چاہیے اورتعلیمی اداروں ‘عدالتوں کو فرقہ پرستی کا شکار نہیں ہونا چاہیے ۔آخر میں اس آیت کریمہ سے آپنی بات کو ختم کیا کہ :

آیت : يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُم بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَىٰ فَيُضِلَّكَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَضِلُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا نَسُوا يَوْمَ الْحِسَابِ(سورۃ ص آیت نمبر26)
مدنی صاحب فرمائے لگے کہ:
یہ قرآنی فیصلہ ہے کہ اللہ تعالیٰ داؤد ﷤ کو فرما رہے ہیں کہ لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلے کرو۔
مدنی صاحب کے خطاب کے بعد 5 منٹ کا وقفہ دیا گیا کہ کوئی صاحب رائے پیش کرنا چاہے تو کر سکتا ہے ۔
لاہور یونیورسٹی سے آئے مہمان ڈاکٹر مختار احمدسالک صاحب نے مائیک پکڑ کر سامعین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
تمام مذاہب اخلاقیات پرتو متفق اورانتہا پسندی کے مخالف ہیں۔ تو ہمیں کئی طرح کے چیلنجز درپیش ہیں ۔ مثلاً

چیلنج: سیکولرزم انتہا پسندی کا خاتمہ اور سوشل میڈیا پر پیدا ہونے والی نظریاتی جنگ کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟
سالک صاحب آپنی گفتگو میں فرمانے لگے کہ : آج سیکولر قوتیں ہمیں آپس میں لڑا کر ایک قسم کی خانہ جنگی کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں ۔ہمیں ان کی سازشوں کو سمجھنا اور اتحاد کو قائم کرنا ہو گا ۔کیونکہ سیکولر قوتیں ہمیں باہم دست و گریباں کر کے ہمارے وسائل پر قبضہ جمانے کے در پہ ہیں ۔ان کا مقابلہ ہمیں حکمت عملی کے ساتھ کرنا ہو گا اور ایک دوسرے کا ساتھ دینا ہوگا۔(
وتعاونو على البر والتقوى ولا تعاونو على الاثم والعدوان...........سورۃ المائدۃ:2)مزید فراتے ہیں کہ(فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا...سورۃ النساء:59)

تیسراخطاب :ایس ایم ظفر صاحب
عنوان :(اتحاد امت مسلمہ میں اعتدال اور میانہ روی کی اہمیت اور تقاضے)
ظفر صاحب نے شروع میں سامعین اور انتظامیہ کا شکریہ ادا کیا کہ ان کو اس پروگرام میں انہوں نے دعوت دی ۔اس کے بعد اسلام آباد سے آئے مہمانوں کو خوش آمدید کہا ۔
ظفر صاحب نے آپنی گفتگو کا آغاز اس بات سے کیا کہ اسلام کی دو بڑی بنیادیں ہیں ۔
٭احترام آدمیت ٭برداشت
مزید فرمانے لگے کہ انسان میں اڑگ برداشت پیدا ہو جائے تو تمام قسم کے جھگڑے ختم ہو جائیں ۔اس کے ساتھ ایک امام کا قول نقل ارشاد فرماتے ہیں کہ :

معنى قول الشافعي إذا صح الحديث فهو مذهبي
قال الإمام النووي رحمه الله في مقدمة شرحه على الوسيط للغزالي:
صح عن الشافعي رحمه الله أنه قال: إذا وجدتم في كتابي هذا خلاف سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم فقولو بالسنة ودعوا قولي ‘(وفي رواية )إذا صح الحديث خلاف قولي، فاعملوا بالحديث واتركوا قولي) أو قال( فهو مذهبي)
)
یعنی کہ اگر میرے قول سے ہٹ کر صحیح بات مل جائے تو اس بات کو لے ل و اور میرے قول کو رد کر دو۔
اس کے بعد فرمانے لگےکہ:
ایک اور امام نے فرمایا کہ بڑی سوچ اور تحقیق کے بعد بھی میں یہ ہی سمجھتا ہوں کہ میں حق بات سے کوسوں دور ہوں۔

سوال:احترام آدمیت اور برداشت کیسے پیدا کی جائے۔؟
سوال: فطرت کے مخالف چیز کو اسلام کیسے ختم کرتا ہے۔؟
جواب: جواب میں ظفر صاحب فرمانے لگے کہ یہ دونوں چیزیں علم سے حاصل ہونگی ۔علم ہو گا تو برداشت بھی پیدا ہو گی ۔علم ہو گا تو احترام آدمیت آئے گی ۔ کیونکہ یہ سب چیزیں علم سے آتی ہیں اور فطرتی جذبات بھی علم کے تابع ہو جاتے ہیں ۔افسوس کہ مسلمانوں نے علم کا دائرہ کار محدمد کر دیا ہے ۔حدیث ہے کہ علم حاصل کرو چاہئے چین جانا پڑے حالانکہ چین سے ہمیں کوئی شریعت تو نہیں ملنی ۔مگر اس سے مراد ہے کہ قرآن و حدیث کے علاوہ دیگر علوم و فنون بھی سیکھوں مثلاً:سائنسی تحقیقات کا علم‘علم فلکیات ‘علمالریاضیات‘علم الحیوان‘ اور جدید علوم و فنون کی معرفت بھی مسلمانوں کی ہی ذمہ داری ہے ۔
اقبال : شاید ابھی یہ کائنات نہ مکمل ہے ۔
کہ کن فیکون کی آواز آ رہی ہے دم دم۔
ظفر صاحب علم کی اہمیت کو واضع کرتے ہوئے جدید مغربی مفکرین جن میں’’ نیوٹن اور آنسٹائن‘‘کا قول نقل کرتے ہیں کہ: انہوں نےفرمایا کہ
ہم اتنی ترقی کرنے کے بعد بھی گویا علم کے سمندر کے کنارے کھڑے سپیاں گن رہے ہیں ناجانے اس سمند کی گہرائی میں کیا کچھ ہماری نگاہوں سے پوشیدہ پڑا ہے۔اس کے بعد فرمانے لگے کہ جہالت علم کے نہ ہونے کے سبب اتنی ذیادہ خطرناک نہیں جتن خطرناک علم کے آ جانے پر انسان کہے کہ جو میں کہہ رہا ہوں وہ ہی درست ہے۔علم آ جانے سے جہالت تو ختم ہو جاتی ہے مگر جاہلیت بڑھتی جاتی ہے۔
نوٹ: ظفر صاجب کے خطاب کے بعد مدنی صاحب نے فرمایا کہ جامعہ لاہور الاسلامیہ کا جب سعودی یونیورسٹی سے معادلہ ہوا تو اس وقت سے ظفر صاحب اس ادارے کے ڈریکٹر رجسٹرڈ ہیں ۔اس کے بعد طفر صاحب کہنے لگے کہ مدنی صاحب میرے استاد ہیں ۔بقول مدنی صاحب کہ ظفر صاحب فرمانے لگے ۔
مدنی صاحب کے پاس1971ء میں نماز فجر کے بعدایک سال تک ماڈل ٹاؤن جا کر مدنی صاحب سے قرآن و تفسیر پڑھتا رہا اور مدنی صاحب ساتھ مجھے چائے بھی پیلاتے تھے۔
 
Last edited:
Top