• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اندھا دھند دھماکے ، شریعت کے میزان میں

شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
مولانا ابو عمیر سلفی حفظ اللہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم​

پیش لفظ​

نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم امابعد!

دین اسلام افراط و تفریط کے درمیان معتدل ہے۔ اسکی رات بھی دن کی طرح روشن اور واضح ہے۔ قرآن کریم میں ہر چیز کا بیان موجود ہے اور اسکی تفصیل، تفسیر و تشریح احادیث نبویﷺ میں وارد ہے
جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
’’یہ قرآن گھڑی ہوئی بات نہیں بلکہ اپنے سے پہلے کتابوں کی تصدیق اور ہر چیز کی تفصیل ہے اور ایمان لانے والوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے‘‘۔
(سورہ یوسف: ۱۱۱)

آج امت جس مشکل میں گھری اور پھنسی ہوئی ہے، خاص طور پر پاکستان جن پریشانیوں میں گھرا ہوا ہے، جتنی قتل و غارت گری یہاں ہو رہی ہے باوجودیکہ پاکستان دارلحرب نہیں ہے۔ اس سب کچھ کے پیچھے گولی کافر کی اور کندھا مسلمان کا استعمال ہو رہا ہے۔ اور اس میں خطا کاروں اور مجرموں سے کہیں زیادہ معصوم لوگوں کا خون بہایا جا رہا ہے ۔ کتنی مساجد ان بے گناہ نمازیوں کے خون سے رنگیں ہوئی ہیں کہ جن کا اس جنگ و جدل سے کوئی تعلق نہیں۔ انکا خون ان بے بصیرت و عجلت پسند مفتیان کے سر ہے جو کم علم بھی ہیں اور کم فہم بھی! جبکہ،
’’ایک بے گناہ جان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے‘‘
(المائدہ:۳۲)

اور اگر جان بوجھ کر قتل کرے تو اسکی سزا اسلام میں وارد ہے۔
اللہ تعالی فرماتے ہیں:
’’اور اگر جان بوجھ کر قتل کرے تو اسکی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اس پر اللہ کا غضب ہے، اسے اللہ نے لعنت کی اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے‘‘ ۔
(النساء:۹۳)

’’اور اگر غلطی (قتل خطا)سے کسی بے گناہ مسلمان کو قتل کرے تو اس کا کفّارہ ادا کرنا فرض ہے۔ ایک مسلمان غلام کی گردن آزاد کرے اور مقتول کے ورثاء کو خون بہا ادا کرے‘‘
(النساء:۹۲)

یعنی دونوں صورتوں میں قاتل مجرم ہے!
رسو ل اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع ـ10ہجری ،9ذی الحجۃ ـکومیدان عرفات میں ایک لاکھ چو بیس ہزار کے قریب مسلمانوں کو مخاطب فرماکر نصیحت فرمائی ۔
لوگو! میری بات سن لو ! کیونکہ میں نہیں جانتا،شاید اس سال کے بعد تمہیں اس مقام پر کبھی نہ مل سکو ں۔
(ابن ہشام )

’’تمہارا خون اور تمہارا مال ایک دوسرے پر اسی طر ح حرام ہے جس طر ح تمہارے آج کے دن کی،رواں مہینے کی اور موجودہ شہر کی حرمت ہے ‘‘
(مسلم)
یوم النحرـ10ذوالحجۃ کو بھی رسو ل اللہ ﷺ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا:اس میں بھی آپ نے کل کی (پچھلی ) باتیں دہرائیں ۔یہ پوچھنے کے بعد کہ یہ کو نسا مہینہ ،کونسا شہر اور کونسا دن ہے ؟فرمایا:
’’اچھا تو سنو کہ تمہارا خون ،تمہارامال اور تمہاری آبرو ایک دوسرے پر ایسے ہی حرام ہے جیسے اس شہر،اس مہینے اور اس دن کی حرمت ہے۔‘‘
(بخاری ،مسلم)

ایک حدیث میں یہ الفاظ ہیں :
’’مسلمان کا خون ،مال اور آبرو دوسرے مسلمان پر حرام ہے‘‘
(مسلم )

’’کسی کافر کا(بلاوجہ) قتل بھی جائز نہیں ،جس نے کسی ذمی (اسلامی ریاست میں معاہدے کے تحت رہنے والا کافر )کو قتل کیاوہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پا سکے گا‘‘
(بخاری )

یہ شہید نمازی بے چارے زبان ِخاموشی سے کہتے ہوں گے او مسلمانو!تم ہم سے کس بات کا انتقام اور بدلہ لے رہے ہو ؟صرف اس جرم میں ہمیں ٹکرے ٹکرے کر ڈالا کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس پر بھی جو ہماری طرف اتارا گیااور جو اس سے پہلے اتارا گیا؟مساجد بھی نوحہ کناں ہیں کہ ہمیں کیو ں بارود کی نذر کیا گیا؟ ہمارے اندر بتوں کی پوجاتو نہیں ہو رہی ،ہم ہندوستا ن کی سر زمین پر تعمیر نہیں کی گئیں کہ بابری مسجد کی طرح ہمیں تباہ کیا گیا ؟افسوس تو یہ ہے کہ بابری مسجد ہندوؤں کے ناپاک ہاتھوں تباہ ہو ئی ،ہماری مساجد اپنوں کے ہاتھوں ظلم کاشکار ہیں ۔
’’اے اہل کتاب‘‘اپنے دین میں ناحق حد سے نہ بڑھو اور اس قوم کی خواہشات کے پیچھے مت چلو جو اس سے پہلے گمراہ ہو چکے اور انہوں نے بہت سوں کو گمراہ کیا اور وہ سیدھے راستے سے بھٹک گئے ۔
اللھم أرنا الحق حقا ً وارزقنا اتباعہ وأرناالباطل باطلاًوارزقنااجتنابہ
ابو عمیر
۲ محرم الحرام ۱۴۳۳ ہجری​


بسم اللہ الرحمن الرحیم​
الحمداللہ و الصلاۃ و السلام علی رسول اللہ اما بعد!

ان دھماکوں کے جواز کے بارے میں بات چیت سے مقصودوہ دھماکے نہیں جو جنگوں میں ہوتے ہیں یا جو دو بدو لڑنے والی افواج کے مابین ہوتا ہے، یہ اپنے جواز اور شرعی ضوابط کے اعتبار سے مختلف ہے۔ بلکہ یہ ان دھماکوں کے بارے میں گفتگو ہے جو مسلم ممالک ومعاشروں میں ہوتے ہیں، جن کا مقصد کسی معین شخص کو نقصان پہنچانا ہوتا ہے، اس کے ساتھ اس اندھا دھند دھماکے کے قریب (بے گناہ) لوگ بھی متاثر ہوتے ہیں۔
اندھا دھند دھماکے کرنے والوں کے اہداف ومقاصد:
1- بعض ایسے افراد کا قتل جن کو وہ ہلاک کرنا چاہتے ہیں خواہ ان کے علاوہ بھی لوگ مارے جائیں۔
2- دہشت اور گھبراہٹ کے واقعات میں موجود بڑی تعداد کی ہلاکت۔
3- بعض املاک اور عمارتوں کی تباہی، اگرچہ اس دھماکہ سےنامعلوم افراد کا قتل ہی کیوں نہ ہو۔
مذکورہ تفصیل سے واضح ہوتا ہے کہ ان دھماکوں میں بے گناہ لوگ بھی مارے جاتے ہیں ۔ان میں مسلمان، اہل کتاب ،سیاح یا غیر ملکی بھی ہوتے ہیں جو شرعا قابل اعتبار امان کے ذریعے ملک میں داخل ہوۓ۔
ان دھماکوں کی حرمت پر شرعی دلائل:
1- ان دھماکوں کی نذر ہونے والوں میں کئی ایک عام مسلمان بھی ہوتے ہیں جنھوں نے کوئی گناہ نہیں کیا ہوتا کہ ان کا قتل مباح ہو۔ دھماکے کرنے والوں کو یقینی علم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کی ہلاکت قتل عمد میں آتی ہے، اور یہ شرعا حرام ہے۔ فرمان باری تعالی ہے:
(وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا متَعَمِّدًا۔۔۔ ) (النساء:93)
(اورجو شخص کسی مسلمان کو قصداً قتل کرے۔۔۔)۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے :
’’کسی مسلمان کا خون حلال نہیں، سواۓ تین میں سے ایک کے، ‘‘ (سنن النسائی:3989)۔
[یعنی اس صحیح روایت کے مطابق مرتد، شادی شدہ زانی و زانیہ اور کسی کو ناحق قتل کرنے کے بدلے(قصاص میں) کے سوا مسلمان کا خون بہانےکی کوئی جائز صورت نہیں۔]
وہ کون سا حق ہے جس کی بنا پر ان دھماکوں کی جگہ موجود عام مسلمانوں کا خون مباح ہو جاتا ہے؟۔
2- دھماکے کی جگہ موجود اہل ذمہ کو ہدف بنانابھی جائز نہیں، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے (جس نے معاہد کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو نہیں سونگھے گا اگرچہ اس کی خوشبو چالیس سال کی مسافت پر پائی جاتی ہے) (صحیح بخاری:6403)۔
3- امان کے ذریعے یا امان کے شبہ کی وجہ سے ملک میں داخل ہونے والوں کا شریعت کی رو سے قتل جائز نہیں۔ اللہ تعالی کے اس فرمان کے مطابق ،ان دھماکوں کے ذریعے ان کو قتل کا ہدف بنانا منع ہے
(وَإِنْ أَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ۔۔۔) (سورۃ التوبہ:6)
(اور اگر مشرکوں میں سے کوئی بھی آپ سے پناہ کا خواست گار ہو تو اسے پناہ دے دیں۔۔۔)۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:
(مسلمانوں کا ذمہ ایک جیسا ہے ان کا ادنی شخص بھی (اس کے پہرے کی) کوشش کرتا ہے، جس نے کسی مسلمان کو شرمندہ کیا تو اس پر اللہ تعالی، ملائکہ اور تمام لوگوں کی لعنت ہو اس سے انصاف (منصفانہ فیصلہ) اور نہ ہی مال (صدقات و خیرات) قبول کیا جاۓ گا) (سنن ابو داود:139)۔
4- غیر مسلم بچوں اور خواتین کے قتل کا ارادہ جائز نہیں جب تک وہ جنگ میں حصہ دار نہ ہوں، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نہی کے مطابق جنگ کے دوران میں بھی ان کو قتل کرنا حرام ہے، تو ایسے دھماکوں میں ان کے مباح کا قول کیسے درست ہو سکتا ہے؟ ان کے ساتھ،تو عملا کوئی جنگ نہیں ہو رہی ہوتی۔
5- ان دھماکوں میں ایسے لوگوں کی جائيداد تباہ ہو جاتی ہے جنہوں نے کوئي جرم نہیں کیا ہوتا کہ جس کی وجہ سے اس کو تباہ کرنا مباح ہو، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا (پس تمہارے خون، مال اور عزتیں تمہارے مابین حرام ہیں۔۔۔) (سنن ابن ماجہ:3046)۔
مسلم ممالک میں اندھا دھند دھماکوں کے جواز کے قائلین کے دلائل اور ان کا رد
أ۔ حقیقت پسندانہ دلیل:
کہتے ہیں کہ عام مسلمانوں کے دھماکے کی نذر ہونے میں کوئي حرج نہیں، ان مرنے والوں کے خون کی کوئي قیمت نہیں کیونکہ اسلامی قومیں (عوام) اسلام سے مرتد ہوچکی ہیں، اس لیے ان اندھا دھند دھماکوں کے ذریعے ان کی جان کو ہدف بنانے یا اگر یہ (عوام) لپیٹ میں آ جائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
ب۔ شرعی دلائل:
1۔ مشرکین پر رات کو ہلہ بولنے کی دلیل، یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان پر رات کو حملہ کیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا گیا کہ مشرکین میں سے بعض اپنے گھروں میں سو رہے ہوں گے اس طرح ان کی خواتین اور اولاد کو بھی نقصان پہنچے گا؟ آپ نے فرمایا (وہ بھی انہیں میں سے ہیں) اسی طرح یہ دھماکے بھی بغیر کسی انتباہ کے جائز ہیں اگرچہ ، خواتین اور ان کی طرح وہ بھی ہلاک ہوجائيں جن کا قتل جائز نہیں ۔
2۔ جنگجوؤں پر منجنیق سے سنگ باری اور قلعوں کا محاصرہ کرنے کی دلیل: یہ دلیل دیتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل طائف پر منجنیق سے ضرب کاری کی؛ حالانکہہ منجنیق بے دریغ ہلاکت خیز ہوتی ہےاس کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے استعمال کیا، دھماکوں کی بھی یہی صورت ہے۔
3۔ بعض علماء کے اقوال سے دلیل:
ڈھال بناۓ جانے والے مسلمان کا قتل جائز ہے؛ اسی طرح دھماکوں کے ذریعے غیر مستحق کو ہدف بنانے میں بھی کوئي حرج نہیں، اگرچہ اس سے وہاں موجود بے گناہ لوگوں کی ہلاکت ہی واقع ہو جیساکہ چوکیدار، دھماکے کے وقت جو ان کے ساتھ موافقت رکھتا ہو یا انکے ساتھ موجود ہو، کیونکہ یہ سب ڈھال کی مانند ہیں۔ کافر تک رسائی ان کو قتل کیے بغیر ناممکن ہے۔

گذشتہ دلائل کا رد / جواب
اول: حقیقت پسندانہ دلیل کی غلطی کا بیان:
1۔ یہ کہنا کہ سارے مسلمان مرتد ہوچکے ہیں اس کی کوئی دلیل نہیں، امر واقع اس کی تکذیب کرتا ہے۔ کیوں کہ مسلمانوں کی اکثریت شرعی واجبات پر عمل کرتی ہے، وہ ایسی کفریہ باتوں میں ملوث نہیں ہیں جو انہیں عمدًا یا عملاً یا خواہش و مرضی کے ساتھ ملت سے خارج کردیا جاۓ، تمام مسلم خطے اور اسلامی تحریکیں انکی اکثریت اہل سنت و جماعت کے عقیدے کی پابند ہیں۔
2۔ اس بات پر اعتماد کہ مسلمانوں میں گناہ اور نافرمانیاں عام ہوچکی ہیں اس وجہ سے ان کا اسلام سے مرتد ہونے کا قول درست نہیں؛ کیونکہ اہل سنت وجماعت کے مذہب کے مطابق نافرمانی کے عمل کا مرتکب ملت اسلام سے خارج نہیں ہوجاتا۔ نافرمانیوں سے ایمان ختم نہیں ہوتا بلکہ ناقص ہوجاتا ہے۔
فرمان باری تعالی ہے (اور آدم علیہ السلام) سے اپنے رب کے حکم (کو سمجھنے) میں فروگذاشت ہوئی، سو وہ (وَعَصَىٰ آدَمُ رَبَّهُ فَغَوَىٰ)(سورۃ طہ:121):
(جنت میں دائمی زندگی کی) مراد نہ پا سکے)۔
3۔ بعض مسلمانوکےکا مشرکانہ افعال (مثال کے طور پر غیر اللہ کے نام پر ذبح، نذر اور دعا) میں پڑنے پر اعتماد کرنا درست نہیں۔ یہ لوگ ایسے افعال میں اس جہالت کی وجہ سے گرتے ہیں جو عذر شمار ہوتی ہے اور ان کو کفر کے حکم کے ساتھ نتھی کرنے سے منع کرتی ہے۔تمام عوام کی تکفیر کے قول پر اعتماد کرنا درست نہیں۔
4۔ غیر مسلموں کے ساتھ بعض افراد کی حرام دوستی پر اعتماد کرتے ہوۓ ساری عوام کی تکفیر جائز نہیں، کیوں کہ یہ دوستی اس محبت میں داخل نہیں ہوتی جو کفر کو واجب کرتی ہے اگرچہ اس سے گناہ لازم آتا ہے، یہ ممنوعہ دوستی کی اس قسم سے ہے جس کی زد میں صحابی حاطب بن ابی بلتعہؓ آگۓ تھے۔
ایسی کوئی شرعی دلیل نہیں پائی جاتی جس کی وجہ سے ایسا کرنے والے کوملت اسلامیہ پر زیادتی کرنے والا کہا جاۓ۔
دوم: اس شرعی استدلال کی خطا (غلطی) کا بیان، جس کو اندھا دھند دھماکوں کی تائید کرنے والوں نے دلیل بنایا ہے:
1۔ ان دھماکوں کی اباحت کے لیے رات کو ہلہ بولنے کے جواز سے استدلال کی غلطی کا بیان: اس کو اجمالی طور پر اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ جن لوگوں پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےحملہ کیا تھا وہ بنو مصطلق وغیرہ جیسی مشرک قوم تھے، ان کے گھر دوسروں سے نمایاں تھے۔ اس سے اسلامی ملکوں میں دھماکوں کے جواز کا کیسے استدلال کی جا سکتا ہے؛ علاوہ ازیں نامور علماء وضاحت کرچکے ہیں کہ مشرکین پر رات کو حملہ کرنا جائز ہے اگرچہ اس میں بعض خواتین اور بچے بھی قتل ہوجائیں، لیکن انہوں نے یہ شرط عائد کی ہے کہ خواتین اور بچوں کے قتل کا ارادہ نہ کیا جاۓ اور یہ امام احمد اورامام شافعی نے کہا ہے، تو پھر وہ کون ہیں جو یہ دھماکے کرتے ہیں اور اپنی آنکھوں سے یہ دیکھتے ہیں کہ نشانہ بناۓ جانے والے ٹھکانے میں مسلمان پاۓ جاتے ہیں اور وہ اپنی آنکھوں سے بعض غیر مسلم خواتین اور بچوں کو بھی دیکھتے ہیں کہ وہ بھی اس جگہ موجود ہیں اور اس کے بعد بھی دھماکے کرتے ہیں۔ مسلمان کو کافروں کے ساتھ ملانے کی صورت جائز نہیں، رات کو حملہ کرنے میں مسلمان کا ارادہ کیا جائے یا کسی دوسرے کا، فرمان باری تعالی ہے (وَلَوْلَا رِجَالٌ مُّؤْمِنُونَ وَنِسَاء مُّؤْمِنَاتٌ لَّمْ تَعْلَمُوهُمْ أَن تَطَؤُوهُمْ) (الفتح:25):

(اور اگر کئی ایسے مومن مرد اور مومن عورتیں (مکہّ میں موجود نہ ہوتیں) جنہیں تم جانتے بھی نہیں ہو کہ تم انہیں پامال کر ڈالو گے۔۔۔)۔
امام قرطبیؒ فرماتے ہیں:
"مومن کی حرمت میں کافر کی رعایت کرنے پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی"
(تفسير القرطبي:16/286)۔

ابن قاسم سے پوچھا گیا: مشرکین کے ایسے قلعے جن میں مسلمان قیدی بھی ہوں اور اہل اسلام نے ان کا محاصرہ کر رکھا ہو، کیا ایسے قلعے کو آگ لگا نا جائز ہے؟ جواب دیا میں نے امام مالکؒ سے سنا اپنی سواری
پر ،مشرکین کے افراد کے بارے میں پوچھا گیا، مالک نے کہا: میری راۓ میں ایسا نہیں کرنا چاہیے یعنی اللہ تعالی کے اس فرمان کے مطابق میری راۓ میں ان کو نہیں جلانا چاہیے
(لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا) (الفتح:25):

(اور اگر کئی ایسے مومن مرد اور مومن عورتیں (مکہّ میں موجود نہ ہوتیں) جنہیں تم جانتے بھی نہیں ہو کہ تم انہیں پامال کر ڈالو گے)۔ اور اب اس جائزے کے بعد: کیا رات کو مسلمانوں پر ہلہ بولنا جائز ہے، اور کیا غیر مسلم افراد اور بچوں کوقتل کرنے کا ارادہ کرنا اور دھماکے کی جگہ ان کا پہلے سے علم ہونے کے باوجو رات کو ہلہ بولنے کا دعوی جائز ہے؟۔

اس کا جواب یقینی طور پر نفی میں ہوگا اور یہ شرعا بھی جائز نہیں ہے، ان کاروائيوں کو جائز کہنے والوں کی غلطی اس دور میں عملا رات کو ہلہ بولنے کے احکام کو نہ سمجھنے کی خطا میں پوشیدہ ہے۔
2۔ منجنیق کے ذریعے ضرب کاری کے جواز سے استدلال میں غلطی کا بیان: یہ استدلال مبنی بر خطا ہے کیونکہ حکم شرعی کا اطلاق مختلف واقعات پر درست نہیں؛ اس لیے کہ اہل طائف کے جن لوگوں کے خلاف ضرب کاری کے لیے منجنیق استعمال کی گئی وہ اپنے کفر میں نمایاں تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے مابین جنگ جاری تھی۔آج کے دھماکوں میں کافروں کی نمایاں صف کو نشانہ نہیں بنایا جاسکتا اور نہ ہی ہلاک کیے جانے والا ،اس کا ہدف مباح الدم ہی ہوتا ہے، بلکہ وہ غالبا ملی جلی صف میں شامل ہوتا ہے جس میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کا قتل جائز نہیں ہوتا۔ مثال کے طورپر مسلمان، امان لینے والے، اہل کتاب اور خواتین و بچے۔

اوپر کی بحث سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ دور کی مسلم عوام کے بارے میں یہ حکم استعمال کرنا خطا ہے۔
3۔ ڈھال بناۓ گۓ مسلمان کو نشانہ بنانے کے جواز سے استدلال کی خطا کا بیان:
یہ استدلال دو وجوہات کی وجہ سے غلط ہے:
اول: ڈھال اور ڈھال بناۓ جانے والے کا عدم وجود۔
دوم: ان شرعی ضوابط سے روگردانی ،کہ علماء نے جن ضوابط کی روشنی میں، ڈھال بناۓ گۓ مسلمان کو نشانہ بنانے کے جواز کی راۓ دی ہے:
1۔ ڈھال بناۓ گۓ مسلمان کا قتل اصل میں قاضی کی استثناء میں سے ہے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق (وہ ذات جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے مومن کا قتل اللہ تعالی کے نزدیک ساری دنیا کے زوال سے بھی بڑا ہے۔) (سنن النسائی:3921)۔
اور اللہ تعالی کا فرمان ہے :
(وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا۔۔۔) (النساء:93)
(اور جو شخص کسی مسلمان کو قصداً قتل کرے۔۔۔)۔
اگر بات ایسے ہی ہے تو۔۔۔ کس شرعی دلیل کے ساتھـ ڈھال بناۓ گۓ مسلمان کا قتل مباح ہوگا؟ اندھا دھند دھماکوں کے جواز کے قائلین کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں۔

ابن عربیؒ فرماتے ہیں: "ممنوعہ چیز کے ذریعے مباح تک رسائی حاصل کرنا جائز نہیں بالخصوص مسلمان کی جان لینے کے لیے"، اس کا مطلب یہ ہوا ڈھال کو نشانہ بنانا سواۓ معین حالات کے جائز نہیں جس پر مصلحت کا دارومدار ہو، یہ صفات امام غزالی نے بیان کی ہیں کہ مصلحت "کلیۃ ضروری اور یقینی ہو"؛ علاوہ ازیں اگر ڈھال بناۓ گۓ مسلمان کے عدم قتل سے کفار تمام مسلمانوں پر مسلط ہو جائیں اور پھر وہ قیدیوں کو قتل کردیں گے تب کہا جاسکتا ہے کہ یہ ڈھال بنایا گیاقیدی ہر حال میں قتل ہوجاۓ گا، پس سارے مسلمانوں کی حفاظت کے لیے قتل کو کم کرنے میں شرعی مقصود کے زیادہ قریب ہے۔
2۔ ڈھال بناۓ گۓ مسلمان کو نشانہ بنانے کے جواز پر قیاس شرعی ضوابط کی پابندی کے بغیر درست نہیں، جن میں:
أ۔ ڈھال بناۓ گئے مسلمان کی صف (قطار) میں موجودگی مجبوری ہو۔
ب۔ حالت جنگ کا زمانہ ہوتاکہ ڈھال بناۓ گۓ مسلمان کے نشانے کاہدف جائز ہو۔ امام رملی کہتے ہیں: "لڑائی ٹھن جانے کی صورت میں ان کو ڈھال بنالیں اور ہم ان کو نشانہ بنانے کے لیے مجبور ہوں، اگر ہم نے ان سے چشم پوشی کی تودشمن ہم پر چڑھ دوڑیں گے یا ان کی دھونس ہم پر چھا جاۓ گی تو درست بات یہ ہے کہ ان کو نشانہ بناناجائز ہے"۔
ج۔ مطلوبہ مصلحت کے حصول کےلیے ڈھال بناۓ گۓ مسلمان کو نشانہ بناۓ بغیر کوئي دوسرا ذریعہ نہ پایا جاتا ہو، اس میں کوئي شک نہيں کہ ایسے کئي وسائل ہیں کہ اندھادھند دھماکے کرنے والوں کی نظر میں جس کو قتل کیاجانا چاہیے،ان تک رسائی کے لیے ان کو استعمال میں لاسکتے ہیں۔
د۔ ڈھال کو نشانہ بنانے کی مسلمانوں کو زبردست ضرورت ہو، جیسا کہ امام غزالیؒ نے محدد کیا ہے کہ مصلحت "بالکل ضروری اور یقینی ہو"؛ ہم ان دھماکے کرنے والے اصحاب سے یہ پوچھ سکتے ہیں کہ کہاں ہے کلیۃ ضروری اور یقینی مصلحت ،جو ان اندھا دھند دھماکوں کے نہ ہونے سے ضائع ہوجاۓ گی؟۔
گذشتہ جائزے سے ظاہر ہوتا ہے:
اندھا دھند دھماکوں میں کوئي ڈھال ہے اور نہ ہی ڈھال بنایاجانے والا، نہ ہی دھماکوں کی جگہ حالت جنگ ہے جس کا مسلمانوں کو ادراک ہو اور نہ ہی کوئی ضروری یقینی مصلحت ہے جو مسلمانوں کے اکثریتی بھیڑاور رش والی جگہوں میں یہ دھماکے کرنے کا تقاضا کرتی ہے، دھماکے کرنے والوں کو اس بات کا پتا ہوتاہے کہ یہاں پر مسلمان پاۓ جاتے ہیں اور وہ دھماکے کی جگہ انہیں دیکھ بھی رہے ہوتے ہیں۔ جبکہ وہ ان کے بچاؤ یا ان کی واپسی تک دھماکہ ملتوی کرنے کی طاقت بھی رکھتے ہیں۔

خاتمہ​
ہماری راۓ میں:
یہ دھماکے کئی ایک نقصانات کا باعث بنتے ہیں؛ بے گناہ مسلمانوں یا غیر مسلموں کا قتل، دھماکے کرنے والوں کے ساتھـ عوامی غم و غصہ، اور اسلام کی تصویر مشتبہ کرنے کے لیے ان کا ناجائز فائدہ، کوئي ایسی حقیقی مصلحت نہیں جس کی امید ہو اور نہ ہی کوئي نقصان کہ جس کی وجہ سے یہ دھماکے ضروری ہوں، اور نہ ہی حالت جنگ، کہ دھماکے کرنے پر کامیابی موقوف ہو، نہ ڈھال یاڈھال بنانے والاپایا جاتا ہے۔

اس تفصیل سے ہمارے اسلامی ملکوں میں بےڈھنگے حملوں کے جواز کے قول کی خطا واضح ہوجاتی ہے جس کے جواز کی بنیاد ،منجنیق سے نشانہ لگانے یا رات کو ہلہ بولنے یاڈھال بناۓ گۓ مسلمان کو نشانہ بنانے پر رکھی گئی ہے۔

ہم امام قرطبیؒ کی راۓ کا ذکر ضروری سمجھتے ہیں "مسلمانوں کا خون بہانا ممنوع ہے، یقین کے بغیر مباح نہیں کیا جا سکتا، اور اختلاف کے ساتھـ یقین نہیں ہوتا" بعض کا اس بات کو ذریعہ بنانا درست نہیں کہ وہ کسی عالم کے قول پر اعتماد کرتے ہیں جبکہ انہوں نے اس کے کلام پر باریک بینی سے غور ہی نہیں کیا، یا اس کلام کے محل وقوع میں ٹھوکر کھا گئے، کیونکہ مسلمان کی جان جواز کے یقین کے بغیر نہیں لی جا سکتی، کسی ایک عالم یا دوسرے کا جمہور علماء امت کے ساتھـ اختلاف کی وجہ سے کسی بھی صورت میں یہ اقدام جائز نہیں ہے۔

اللہ تعالی مسلمانوں کے حال پر رحم فرمائے، اور جہاد فی سبیل اللہ کی بنیادوں اور اصول ضوابط کو پوری طرح سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ جہاد میں دہشت گردی کی آمیزش نہ ہو سکے۔

آمین یا رب المسلمین!
التفجيــرات العشوائيــة فى الميــزان 6-​
4

کتاب کا پی ڈی ایف فارمیٹ: اندھا دھند دھماکے ، شریعت کے میزان میں
 
شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
جو بھی دہشت گردی ہے اس جہاں میں اس وقت ، چاہے کفار کی جانب سے یا نام نہاد دینی و جہادی حلقوں کی جانب سے ، سب قابل مذمت ہے۔
 
Top