• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انسانوں کے دو گروہ ایک توحید کا علمبردار دوسرا اللہ کی و حدانیت کے انکاری

شمولیت
اگست 16، 2017
پیغامات
112
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
55
انسانوں کے دو گروہ ایک توحید کا علمبردار دوسرا اللہ کی و حدانیت کے انکاری

ترتیب و تدوین: شیخ ابو محمد الیاس المہاجر

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
جب سے آدم علیہ الاسلام نے اس دنیا میں قدم رکھا تو اس کے بعد انسانوں کے دو گروہ وجود میں آگئے۔ ایک توحید کا علمبردار اور اللہ رب العزت کا وفادار گروہ ہے جوکہ ’’مسلمان‘‘ کہلایا اور دوسرا اللہ کی و حدانیت کے انکاری اور اس سے باغی گروہ ہے جس کو شرعی اصطلاح میں’’ کافر ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس حقیقت کو قرآن یوں بیان کرتا ہے:

ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ فَمِنْکُمْ کَافِرٌ وَّمِنْکُمْ مُّؤْمِنٌ
’’وہی اللہ ہے جس نے تمہیں پیدا کیا پھر تم میں سے کوئی کافرہے اور کوئی مومن‘‘
[سورۃ التغابن، آیت:۲]

تو جو لوگ اللہ کی وحدانیت کے اور اس کے رسولوں کے اور ان کی لائی ہوئی شریعت کے کافر ہو گئے تو اللہ کی نگاہ میں وہ سب سے بدترین مخلوق ٹھہرے، اور جنہوں نے اللہ کی واحدانیت کا اور رسولوں کی رسالت کا اقرار کیا اور اللہ کی عطا کردہ شریعت کی پاسداری کی تو وہ سب سے بہترین مخلوق قرار پائے۔ قرآن اس حقیقت کو یوں بیان کرتا ہے:

اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ وَالْمُشْرِکِیْنَ فِیْ نَارِ جَھَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا اُولٰٓئِکَ ھُمْ شَرُّ الْبَرِیَّةِ اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اُولٰٓئِکَ ھُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ
’’بے شک جنہوں نے کفر کیا چاہے وہ اہل کتاب میں سے ہوں یا مشرکین میں سے تو وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ رہیں گے اور یہی لوگ سب سے بدترین مخلوق ہیں۔ بے شک جو لوگ ایمان لائے اور صالح اعمال کئے تو وہی لوگ بہترین مخلوق ہیں۔‘‘
[سورۃ البینة، آیت :۶-۷]

حقیقت میں بہترین مخلوق تو وہ قرار پائے جو ایمان لے آئے مگر جنہوں نے انکار کیا تو وہ تمام مخلوقات میں حتیٰ کہ جانوروں سے بھی بدترین مخلوق ٹھہرے۔ اسی حقیقت کو قرآن یوں بیان کرتا ہے:

اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰہِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَھُمْ لاَ یُؤْمِنُوْنَ
’’بے شک اللہ کے نزدیک مخلوق میں سب سے بدترین وہ ہیں جو کفر کریں، پھر وہ ایمان نہ لائیں۔‘‘
[سورۃ الانفال، آیت :۵۵]

اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ

’’یہ (کافر) جانوروں کی مانند ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر۔‘‘
[سورۃ الاعراف، آیت :۱۷۹]

اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کے قبیلے بنو قریظہ کو مخاطب کرکے فرمایا تھا:

یا اخوة القردة والخنازیر
’’اے بندراور خنزیروں کے بھائیوں!‘‘۔
[المستدرک علی الصحیحین للحاکم، ج۱۰، ص:۱۱۷، رقم الحدیث:۴۳۰۱]

حضرت عمر رضی اللہ عنہ سنے صلح حدیبیہ کے وقت حضرت ابو جندل رضی اللہ عنہ کو جب ان کے باپ ان کو قید کر کے واپس مکہ لے جارہے تھے تو ان کی طرف تلوار کا دستہ کرکے ارشاد فرمایا تھا:

أَنَّ دَمَ الْکَافِرِ عِنْدَ اللَّہِ کَدَمِ الْکَلْبِ
’’اور بے شک کافر کا خون اللہ کے نزدیک کتے کے خون جیساہے (کہ جس کے مارنے میں کوئی حرج نہیں)۔‘‘
[فتح الوھاب، ج۲، ص:۳۲۰]

ان حقائق کے نتیجے میں یہ بات واضح ہوئی کہ حقیقت میں اس دنیا میں اُس انسان کو جینے کا حق حاصل ہے جوکہ کلمہ توحید یعنی اللہ کی واحدانیت اور اس کے رسولوں کی رسالت کا اقرار کرتے ہوئے اسلام کے دائرے کے اندر آجائے، تو جس نے یہ اقرار کیا تو اس کا مال وجان اور عزت محفوظ ومامون ہوگئی اور جس نے ایسا نہ کیا تو اس کے مال وجان اور عزت کی کوئی حیثیت اور حرمت نہیں۔ یہی وہ حقیقت تھی جس کو سمجھانے کے لئے انبیاء و رسل آتے رہے اور یہی وہ منہج تھا جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی کاربند ہوئے:

أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا: لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَمَنْ قَالَهَا فَقَدْ عَصَمَ مِنِّي مَالَهُ وَنَفْسَهُ إِلَّا بِحَقِّهِ، وَحِسَابُهُ عَلَى اللَّهِ
’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں یہاں تک کہ وہ لاالہ الا اللہ کہہ دیں۔ پس جس نے لا الہ الا اللہ کہہ دیا تو اس نے اپنے مال اور جان کو مجھ سے بچالیا، مگر یہ کہ کسی حق کے بدلے میں، اور اس کا باقی حساب اللہ پر رہے گا۔‘‘
[‌صحيح البخاري، كِتَابُ الزَّكَاةِ، بَابُ وُجُوبِ الزَّكَاةِ، حدیث: ۱۳۹۹]
 
Top