• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انسانی صفات قرآن کے آئینے میں

شمولیت
اگست 28، 2019
پیغامات
49
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
35
بسم اللہ الرحمن الرحیم

انسانی صفات قرآن کے آئینے میں​


ابومعاویہ شارب بن شاکرالسلفی

الحمدللہ وحدہ والصلاۃ والسلام علی من لانبی بعدہ۔أمابعد:

محترم قارئین!اختصارکے ساتھ ہم نےاس مضمون میں(19) انسان کےان صفات کو شمارکیا ہے جو عام طورسےمنجملہ تمام انسانوں میں پائی جاتی ہیں۔ تفصیل کےلئے دیکھیں(انسان اپنی صفات کےآئینے میں)

(1) کمزوری:فرمان باری تعالی ہے:’’ وَخُلِقَ الْإِنْسَانُ ضَعِيفًا ‘‘ انسان کو کمزور پیداکیاگیاہے۔ (النساء:28)

(2) تکلیف پر ناامیدہونا:فرمان باری تعالی ہے:’’ وَلَئِن أَذَقنَا الإِنسـٰنَ مِنّا رَ‌حمَةً ثُمَّ نَزَعنـٰها مِنهُ إِنَّهُ لَيَـٔوسٌ كَفورٌ‌ ‘‘ (سورہ ھود:9)، اوراگرہم انسان کو اپنی کسی نعمت کا ذائقہ چکھاکرپھراسے اس سے لےلیں تو وہ بہت ہی ناامیداور بڑاہی ناشکرابن جاتاہے۔مزید فرمایا کہ’’ وَاِذَامَسَّہُ الشَّرُّکَانَ یَؤُسًا‘‘ اور جب اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تووہ مایوس ہوجاتاہے۔(الاسراء:83)

(3) نعمتوں کی ناشکری کرنا: فرمان باری تعالی ہے:’’ وَإِذا مَسَّ النّاسَ ضُرٌّ‌ دَعَوا رَ‌بَّهُم مُنِيبِينَ إِلَيهِ ثُمَّ إِذَا أَذَاقَهُم مِنهُ رَ‌حمَةً إِذا فَر‌يقٌ مِنهُم بِرَ‌بِّهِم يُشرِ‌كونَ ‘‘ اور لوگوں کو جب کبھی کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو اپنے رب کی طرف (پوری طرح)رجوع ہوکردعائیں کرتے ہیں ،پھرجب وہ اپنی طرف سے رحمت کا ذائقہ چکھاتاہے تو ان میں سے ایک جماعت اپنے رب کے ساتھ شرک کرنے لگتی ہے۔ (الروم:33)

(4) راحت وآرام کے ملنےپرخوش ہونا: فرمان باری تعالی ہے:’’ وَإِذا أَذَقنَا النّاسَ رَ‌حمَةً فَرِ‌حوا بِهَا وَإِن تُصِبهُم سَيِّئَةٌ بِما قَدَّمَت أَيديهِم إِذا هُم يَقنَطونَ ‘‘ اور جب ہم لوگوں کورحمت کا مزہ چکھاتے ہیں تو وہ خوب خوش ہوجاتے ہیں اور اگر انہیں ان کے ہاتھوں کے کرتوت کی وجہ سے کوئی برائی پہنچے تو ایک دم وہ محض ناامید ہوجاتے ہیں۔ (الروم:36)

(5) تکبرکرنا: فرمان باری تعالی ہے: ’’ وَلَئِن أَذَقنـٰهُ نَعمَاءَ بَعدَ ضَرّ‌اءَ مَسَّتهُ لَيَقولَنَّ ذَهَبَ السَّيِّـٔاتُ عَنِّى إِنَّهُ لَفَرِ‌حٌ فَخورٌ‌ ‘‘ اور اگرہم اسے کوئی نعمت چکھائیں اس سختی کے بعد جو اسے پہنچ چکی تھی تو وہ کہنے لگتاہے کہ بس برائیاں مجھ سے جاتی رہیں،یقیناوہ بڑاہی اترانے والاشیخی خور ہے۔ (سورہ ہود:10)

(6) شرارت واسراف: فرمان باری تعالی ہے: ’’ وَإِذا مَسَّ الإِنسـٰنَ الضُّرُّ‌ دَعانا لِجَنبِهِ أَو قاعِدًا أَو قائِمًا فَلَمّا كَشَفنا عَنهُ ضُرَّ‌هُ مَرَّ‌ كَأَن لَم يَدعُنا إِلىٰ ضُرٍّ‌ مَسَّهُ كَذ‌ٰلِكَ زُيِّنَ لِلمُسرِ‌فينَ ما كانوا يَعمَلونَ ‘‘ اور جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ہم کو پکارتاہے لیٹے بھی،بیٹھے بھی،کھڑے بھی،پھرجب ہم اس کی تکلیف اس سے ہٹادیتے ہیں تو وہ ایسا ہوجاتاہے کہ گویا اس نے اپنی تکلیف کے لئے جو اسے پہنچی تھی کبھی ہمیں پکاراہی نہ تھا،ان حدسےگذرنے والوں کے اعمال کو ان کے لئے اسی طرح خوشنمابنادیاگیاہے۔(یونس:12)

(7) ظلم وناشکری: فرمان باری تعالی ہے:’’ إِنَّ الإِنسـٰنَ لَظَلومٌ كَفّارٌ‌ ‘‘ یقیناانسان بڑاہی بے انصاف اور ناشکراہے۔(ابراہیم:34)،دوسری جگہ فرمایاکہ’’ إِنَّ الإِنسـٰنَ لَكَفورٌ‌ مُبينٌ ‘‘ یقیناانسان کھلم کھلا ناشکراہے۔ (الزخرف:15)

(8) جھگڑالو: فرمان باری تعالی ہے: ’’ خَلَقَ الإِنسـٰنَ مِن نُطفَةٍ فَإِذا هُوَ خَصيمٌ مُبينٌ ‘‘ اللہ نے انسان کو نطفے سے پیداکیاپھروہ صریح جھگڑالوبن بیٹھا۔(النحل:4) دوسری جگہ فرمایاکہ ’’ وَكانَ الإِنسـٰنُ أَكثَرَ‌ شَىءٍ جَدَلًا ‘‘ لیکن انسان سب سے زیادہ جھگڑالو ہے۔ (الکھف:54)

(9) عجلت وجلدبازی:فرمان باری تعالی ہے:’’ وَكانَ الإِنسـٰنُ عَجولًا‘‘ (الاسراء:11) انسان ہے ہی بڑاجلدباز۔مزیدفرمایاکہ ’’ خُلِقَ الإِنسـٰنُ مِن عَجَلٍ ‘‘ انسان جلدبازمخلوق ہے۔ (الأنبياء:37)

(10) بخل وکنجوسی:فرمان باری تعالی ہے:’’ قُل لَو أَنتُم تَملِكونَ خَزائِنَ رَ‌حمَةِ رَ‌بّى إِذًا لَأَمسَكتُم خَشيَةَ الإِنفاقِ وَكانَ الإِنسـٰنُ قَتورً‌ا ‘‘ کہہ دیجئے کہ اگربالفرض تم میرے رب کی رحمتوں کےک خزانوں کے مالک بن جاتے توتم اس وقت بھی اس کے خرچ ہوجانے کے خوف سے اس کو روکے رکھتے اور انسان ہے ہی تنگ دل۔ (الاسراء:100)

(11) جہالت ونادانی: فرمان باری تعالی ہے: ’’ إِنّا عَرَ‌ضنَا الأَمانَةَ عَلَى السَّمـٰو‌ٰتِ وَالأَر‌ضِ وَالجِبالِ فَأَبَينَ أَن يَحمِلنَها وَأَشفَقنَ مِنها وَحَمَلَهَا الإِنسـٰنُ إِنَّهُ كانَ ظَلومًا جَهولًا ‘‘ ہم نے اپنی امانت کو آسمانوں پر زمین پراور پہاڑوں پرپیش کیالیکن سب نے اس کے اٹھانے سے انکارکردیااور اس سے ڈرگئے (مگر) انسان نے اسے اٹھالیا،وہ بڑاہی ظالم جاہل ہے۔ (الاحزاب:72)

(12) بھول ونسیان: فرمان باری تعالی ہے: ’’ وَإِذا مَسَّ الإِنسـٰنَ ضُرٌّ‌ دَعا رَ‌بَّهُ مُنيبًا إِلَيهِ ثُمَّ إِذا خَوَّلَهُ نِعمَةً مِنهُ نَسِىَ ما كانَ يَدعوا إِلَيهِ مِن قَبلُ وَجَعَلَ لِلَّهِ أَندادًا لِيُضِلَّ عَن سَبيلِهِ قُل تَمَتَّع بِكُفرِ‌كَ قَليلًا إِنَّكَ مِن أَصحـٰبِ النّارِ‌‘‘ اور انسان کو جب کبھی کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ خوب رجوع ہوکراپنے رب کو پکارتاہے، پھر جب اللہ تعالی اسے اپنے پاس سے نعمت عطافرمادیتاہےتو وہ اس سے پہلے جو دعاکرتاتھااسے (بالکل)بھول جاتاہے اور اللہ تعالی کے شریک مقررکرنے لگتاہے جس سے (اوروں کوبھی) اس کی راہ سے بہکائے،آپ کہہ دیجئے کہ اپنے کفرکافائدہ کچھ دن اور اٹھالو،(آخر)تو دوزخیوں میں ہونے والاہے۔ (الزمر:8) مزیدفرمایاکہ’’ وَلَقَد عَهِدنا إِلىٰ ءادَمَ مِن قَبلُ فَنَسِىَ وَلَم نَجِد لَهُ عَزمًا ‘‘ اورہم نے آدم کو پہلے ہی تاکیدی حکم دے دیا تھا لیکن وہ بھول گیااور ہم نے اس میں کوئی عزم نہیں پایا۔ (طہ:115)

(13) بے صبری وبےقراری: فرمان باری تعالی ہے: ’’ إِنَّ الإِنسـٰنَ خُلِقَ هَلوعًا‘‘ بے شک انسان بڑے کچے دل والابنایاگیاہے، ’’ إِذا مَسَّهُ الشَّرُّ‌ جَزوعًا ‘‘ جب اسے مصیبت پہنچتی ہے تو ہڑبڑااٹھتاہے، ’’ وَإِذا مَسَّهُ الخَيرُ‌ مَنوعًا ‘‘ اور جب راحت ملتی ہے تو بخل کرنے لگتاہے۔ (المعارج:19-21)

(14) کاوش ومحنت: فرمان باری تعالی ہے: ’’ يـٰأَيُّهَا الإِنسـٰنُ إِنَّكَ كادِحٌ إِلىٰ رَ‌بِّكَ كَدحًا فَمُلـٰقيهِ ‘‘ اے انسان!تواپنے رب سے ملنے تک یہ کوشش اور تمام کام اور محنتیں کرکے اس سے ملاقات کرنے والاہے۔ (الانشقاق:6)، ’’ لَقَد خَلَقنَا الإِنسـٰنَ فى كَبَدٍ ‘‘ یقیناہم نے انسان کو (بڑی)مشقت میں پیداکیاہے۔ (البلد:4)

(15) سرکشی وناشکری: فرمان باری تعالی ہے: ’’ كَلّا إِنَّ الإِنسـٰنَ لَيَطغىٰ ، أَن رَ‌ءاهُ استَغنىٰ ‘‘ سچ مچ انسان تو آپے سے باہرہوجاتاہے،اس لئے کہ وہ اپنے آپ کو بے پرواسمجھتاہے۔ (العلق:6-7)، مزید فرمایاکہ’’ إِنَّ الإِنسـٰنَ لِرَ‌بِّهِ لَكَنودٌ ‘‘ یقیناانسان اپنے رب کا بڑاناشکرہے۔ (العادیات:6)

(16) غفلت ولاپراہی: فرمان باری تعالی ہے:’’ اقتَرَ‌بَ لِلنّاسِ حِسابُهُم وَهُم فى غَفلَةٍ مُعرِ‌ضونَ‘‘ لوگوں کے حساب کا وقت قریب آگیا،پھربھی وہ بےخبری میں منہ پھیرے ہوئے ہیں۔(الأنبياء:1)، مزید فرمایاکہ’’ وَإِنَّ كَثيرً‌ا مِنَ النّاسِ عَن ءايـٰتِنا لَغـٰفِلونَ‘‘ اور حقیقت یہ ہے کہ بہت سے آدمی ہماری نشانیوں سے غافل ہیں۔ (یونس:92)

(17) فریب نفس وغرورمیں مبتلاہونا: فرمان باری تعالی ہے: ’’ يـٰأَيُّهَا الإِنسـٰنُ ما غَرَّ‌كَ بِرَ‌بِّكَ الكَر‌يمِ ‘‘ اے انسان!تجھے اپنے رب کریم سے کس چیزنے بہکایا؟ (الانفطار:6) ایک اور جگہ فرمان باری تعالی ہےکہ ’’ وَلـٰكِنَّكُم فَتَنتُم أَنفُسَكُم وَتَرَ‌بَّصتُم وَار‌تَبتُم وَغَرَّ‌تكُمُ الأَمانِىُّ حَتّىٰ جاءَ أَمرُ‌ اللَّهِ وَغَرَّ‌كُم بِاللَّهِ الغَر‌ورُ‌ ‘‘ اہل ایمان منافقوں سےپل صراط عبورکرنے کے وقت کہیں گے کہ) اورلیکن تم نے اپنے آپ کو فتنہ میں پھنسارکھاتھااور انتظارمیں ہی رہے اور شک وشبہ کرتے رہےاور تمہیں تمہاری فضول تمناؤں نے دھوکے میں ہی رکھا،یہاں تک کہ اللہ کا حکم آپہنچااور تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکہ دینے والے نے دھوکے میں ہی رکھا۔ (الحدید:14)

(18) وسوسوں میں مبتلا ہونا: فرمان باری تعالی ہے: ’’ وَلَقَد خَلَقنَا الإِنسـٰنَ وَنَعلَمُ ما تُوَسوِسُ بِهِ نَفسُهُ وَنَحنُ أَقرَ‌بُ إِلَيهِ مِن حَبلِ الوَر‌يدِ‘‘ اورہم نے انسان کو پیداکیااور اس کے دل میں جوخیالات اٹھتے ہیں ہم ان سے واقف ہیں۔ (ق:16)

(19) گھاٹا ونقصان:فرمان باری تعالی ہے: ’’ إِنَّ الإِنسـٰنَ لَفى خُسرٍ‌‘‘ بے شک (بالیقین) انسان سرتاسرنقصان میں ہے۔(العصر:2)
 
Top