• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انسانی فطرت اور دنیاوی مال و متاع

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
دنیاوی مال و اسباب سے محبت
زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ مِنَ النِّسَاۗءِ وَالْبَنِيْنَ وَالْقَنَاطِيْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّھَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْاَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ۭ ذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ۚ وَاللّٰهُ عِنْدَهٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ 14؀(سورۃ آل عمران آیت ۱۴ )
ترجمہ :

لوگوں کے لیے خواہشات نفس سے محبت، جیسے عورتوں سے، بیٹوں سے، سونے اور چاندی کے جمع کردہ خزانوں سے، نشان زدہ (عمدہ قسم کے) گھوڑوں مویشیوں اور کھیتی سے محبت دلفریب بنا دی گئی ہے۔ یہ سب کچھ دنیوی [١٥] زندگی کا سامان ہے اور جو بہتر ٹھکانا ہے وہ اللہ ہی کے پاس ہے ‘‘

تفسیر تیسیر القرآن علامہ عبد الرحمن کیلانی رحمۃ اللہ علیہ
[١٥] اس آیت میں جن جن اشیاء کا نام لیا گیا ہے۔ ان کی محبت انسان کے دل میں فطری طور پر جاگزیں ہے اور انہی چیزوں سے انسان کی اس دنیا میں آزمائش ہوتی ہے اور انسانوں کی اکثریت اس امتحان میں فیل ہی ہوتی رہی ہے۔ ان چیزوں میں سے کوئی چیز بھی ایسی نہیں جو بذات خود بری ہو ۔ اور ان سے محبت کرنا بھی ایک فطری امر ہے اور فطری امر بھی بذات خود برا نہیں ہوتا۔
اگر ان چیزوں کی محبت انسان کے دل میں نہ ڈالی جاتی تو اس دنیا کی رنگینیاں، یہ لہلہاتے کھیت اور باغات اور تہذیب و تمدن کے نظارے کچھ بھی نظر نہ آتا۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نہ تو یہ چیزیں بذات خود بری ہیں اور نہ ہی ان سے محبت اور ان کا حصول بری چیز ہے۔ بری چیز یہ ہے کہ انسان ان چیزوں کی محبت اور حصول میں اس قدر غرق ہوجائے کہ اسے آخرت یاد ہی نہ رہے۔ البتہ جن لوگوں کے دلوں میں اللہ کا خوف اور فکر آخرت موجود ہوتی ہے۔ وہ انہیں چیزوں کو اسی طرح حاصل کرتے اور انہیں استعمال کرتے ہیں کہ انہیں انہی چیزوں سے دنیا کی راحت و سکون بھی نصیب ہوتا ہے اور آخرت میں بھی یہی چیزوں اس کی نجات کا ذریعہ بن جاتی ہیں اور اس طرح ہی انسان کو بہتر ٹھکانا میسر آسکتا ہے جو اللہ کے پاس ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور حافظ صلاح الدین یوسف صاحب حفظہ اللہ تعالی

تفسیر احسن البیان میں لکھتے ہیں :
١٤۔ ١ شَھَوَات سے مراد یہاں مشتبھات ہیں یعنی وہ چیزیں جو طبعی طور پر انسان کو مرغوب اور پسندیدہ ہیں اس لئے ان میں رغبت اور ان کی محبت ناپسندیدہ نہیں ہے بشرطیکہ اعتدال کے اندر اور شریعت کے دائرے میں رہے۔ ان کی تزیین بھی اللہ کی طرف سے آزمائش ہے سب سے پہلے عورت کا ذکر کیا ہے کیونکہ یہ ہر بالغ انسان کی سب سے بڑی ضرورت بھی ہے اور سب سے زیادہ مرغوب بھی۔ خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے عورت اور خوشبو مجھے محبوب ہے اسی طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نیک عورت کو دنیا کی سب سے بہتر متاع قرار دیا ہے اس لئے اس کی محبت شریعت کے دائرے سے تجاوز نہ کرے تو یہ بہترین رفیق زندگی بھی ہے اور زاد آخرت بھی ورنہ یہی عورت مرد کے لئے سب سے بڑا فتنہ ہے فرمان رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے میرے بعد جو فتنے رونما ہونگے ان میں مردوں کے لئے سب سے بڑا فتنہ عورتوں کا ہے۔ اسی طرح بیٹوں کی محبت ہے اگر اس مقصد کے لئے مسلمانوں کی قوت میں اضافہ اور بقا و تکثیر نسل ہے تو محمود ہے ورنہ مذموم۔
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان (بہت محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جننے والی عورت سے شادی کرو اس لئے کہ میں قیامت والے دن دوسری امتوں کے مقابلے میں اپنی امت کی کثرت پر فخر کروں گا)
اس آیت سے رھبانیت کی تردید اور تحریک خاندانی منصوبہ بندی کی تردید بھی ثابت ہوتی ہے مال ودولت سے بھی مقصود قیام معیشت صلہ رحمی صدقہ و خیرات اور امور پر خرچ کرنا اور سوال سے بچنا ہے تاکہ اللہ کی رضا حاصل ہو تو اس کی محبت بھی عین مطلوب ہے ورنہ مذموم۔ گھوڑوں سے مقصد جہاد کی تیاری دیگر جانوروں سے کھیتی باڑی اور بار برداری کا کام لینا اور زمین سے اس کی پیداوار حاصل کرنا ہو تو یہ سب پسندیدہ ہیں اور اگر مقصود محض دنیا کمانا اور پھر اس پر فخر اور غرور کا اظہار کرنا اور یاد الٰہی سے غافل ہو کر عیش و عشرت سے زندگی گزارنا ہے تو سب مفید چیزیں اس کے لئے وبال جان ثابت ہونگی۔ خزانے یعنی سونے چاندی اور مال و دولت کی فروانی اور کثرت اور وہ گھوڑے جو چراگاہ میں چرنے کے لئے چھوڑے گئے ہوں یا جہاد کے لئے تیار کئے گئے ہوں یا نشان زدہ، جن پر امتیاز کے لئے نشان یا نمبر لگا دیا جائے (فتح القدیر و ابن کثیر)
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ مِنَ النِّسَاۗءِ وَالْبَنِيْنَ وَالْقَنَاطِيْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّھَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْاَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ۭ ذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ۚ وَاللّٰهُ عِنْدَهٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ 14؀(سورۃ آل عمران آیت ۱۴ )
ترجمہ :

لوگوں کے لیے خواہشات نفس سے محبت، جیسے عورتوں سے، بیٹوں سے، سونے اور چاندی کے جمع کردہ خزانوں سے، نشان زدہ (عمدہ قسم کے) گھوڑوں مویشیوں اور کھیتی سے محبت دلفریب بنا دی گئی ہے۔ یہ سب کچھ دنیوی [١٥] زندگی کا سامان ہے اور جو بہتر ٹھکانا ہے وہ اللہ ہی کے پاس ہے ‘‘

تفسیر سعدی (شیخ عبد الرحمن ناصر السعدی )
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے لوگوں کے لئے دنیوی مرغوب چیزوں کی محبت مزین کر دی ہے۔ ان میں سے مذکورہ بالا اشیاء کو خاص طور پر ذکر کیا ہے کہ دنیا کی مرغوب چیزوں میں سے یہ سب سے بڑھ کر ہیں۔ باقی سب ان کے تابع ہیں۔
جیسے ارشاد ہے : (انا جعلنا ما علی الارض زینۃ لھا) (الکھف :8/18’’ ہم نے زمین پر جو کچھ ہے اسے زمین کی زینت بنایا ہے‘‘ چونکہ یہ چیزیں مزین کر دی گئیں ہیں اور ان میں دلوں کو مائل کرنے کا وصف ہے۔ اس لئے لوگوں کے دل ان کی طرف مائل ہوگئے اور عملی طور پر لوگوں کی دو قسمیں ہوگئیں۔
ایک قسم کے لوگ وہ ہیں جنہوں نے انہی مادی اشیاء کو اپنا مقصود بنا لیا، ان کی سوچیں، ان کے خیالات، ان کے ظاہری اور باطنی اعمال اسی کے لئے خاص ہو کر رہ گئے۔ اسی دنیوی مال و متاع میں مشغول ہو کر وہ اپنی تخلیق کے مقصد کو بھول گئے۔ دنیا سے ان کا وہ تعلق رہا جو چرنے والے مویشیوں کا ہوتا ہے۔ وہ اس کی لذتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یہ پروا نہیں کرتے کہ انہوں نے یہ کیسے حاصل کی اور کہاں خرچ کی۔ دنیا ان کے لئے مشقت و عذاب کے مقام (جہنم) کی طرف لے جانے والے سفر کا سامان بن جاتی ہے۔ دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جنہوں نے اس کا اصل مقصود سمجھ لیا کہ اسے تو اللہ نے بندوں کے لئے آزمائش کا ذریعہ بنایا ہے تاکہ یہ ظاہر ہوجائے کہ کون اپنی خواہش نفس اور دنیوی لذت پر اللہ نے بندوں کے لئے آزمائش کا ذریعہ بنایا ہے تاکہ یہ ظاہر ہوجائے کہ کون اپنی خواہش نفس اور دنیوی لذت پر اللہ کی اطاعت اور رضا کو ترجیح دیتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے دنیا کو آخرت کے حصول کا ذریعہ بنا لیا۔ وہ اس سے فائدہ تو اٹھاتے ہیں، لیکن اس طرح کہ وہ اللہ کی رضا کے حصول میں مدد گار ثابت ہو۔ ان کے بدن تو اس کے ساتھ ہوتے ہیں، لیکن دل اس سے دور ہوتے ہیں، انہیں معلوم ہے کہ اس کی حقیقت وہی ہے جو اللہ نے ان لافاظ میں بیان فرمائی : (ذلک متاع الحیوۃ الدینا)’’ یہ تو دنیا کی زندگی کا مال و متاع ہے‘‘ انہوں نے اسے آخرت تک پہنچنے کا ذریعہ سمجھا۔ اسے ایک بازار جانا جس میں انہیں اخروی نفع عظیم کی امید ہے۔ ان کے لئے دنیا آخرت کے سفر کے لئے زاد راہ بن گئی۔

علاوہ ازیں اس آیت میں ان ناداروں کو تسلی دی گئی ہے، جو اپنی ایسی خواہشات پوری نہیں کرسکتے جو دولت مند پوری کرسکتے ہیں اور اس کے دھوکے میں گرفتار ہوجانے والوں کو تنبیہ ہے اور روشن عقل والوں کو اس کی محبت سے روکا گیا ہے۔ یہ موضوع اس طرح مکمل ہوا ہے کہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے دارلقرار (ہمیشہ رہنے والا گھر) اور نیک متقیوں کا انجام بیان فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ یہ اخروی نعمتیں ان مذکورہ (دنیوی) اشیاء سے بہتر ہیں۔ یعنی بلند و بالا درختوں کے باغات، جن میں نفیس محلات، اور اونچے اونچے بالا خانے ہیں، طرح طرح کے پھلوں سے لدے ہوئے پھل دار درخت ہیں، ان کی مرضی کے مطابق چلنے والی نہریں ہیں، ہر ظاہری و باطنی عیب و نجاست سے پاک بیویاں ہیں، اور ان تمام نعمتوں کے ساتھ ہمیشہ کی زندگی، یہ نعمتوں کی انتہا ہے اور پھر اللہ کی خشونودی جس سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں۔ ذرا اس شان دار جہان کا اس حقیر جہان سے مقابلہ و موازنہ تو کیجیے۔ پھر اپنے لئے بہتر متبادل کا انتخاب کرلیجیے۔ اپنے دل کو ان دونوں کا فرق سمجھا ئیے۔(واللہ بصیر بالعباد)’’
 
Top