انعامی بانڈز کے حرام اور ناجائز ہونے پر اہل علم کا اتفاق ہے کیونکہ اس میں سود اور جوا دونوں شامل ہیں۔
1۔ سود تو اس میں اس لیے شامل ہے کہ ان انعامی بانڈز سے حاصل شدہ رقم سے سودی قرضے جاری کیے جاتے ہیں اور ان قرضوں کی بدولت جو سود حاصل ہوتا ہے ، اس سود کا ایک حصہ بانڈز ہولڈرز میں بطور انعام تقسیم کیا جاتا ہے جبکہ اس سود کا بقیہ حصہ بینکوں کے کھاتے میں بطور منافع چلا جاتا ہے۔یہاں اصل سوال یہ تھا کہ انعامی بانڈز سے حاصل شدہ رقم کا بینک کیا کرتے ہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ سودی قرضے جاری کرتے ہیں اور یہ بالکل واضح ہے۔
2۔ ان بانڈز میں جوا اس لیے شامل ہے کہ جب آپ ایک ہزار کے بانڈ پر پچاس یا سو گنا زائدرقم بغیر کسی محنت یا کاروبار کے حاصل کرتے ہیں تو یہ جوا ہی کی ایک قسم ہے۔جوا کی بعض صورتیں ایسی ہوتی ہیں جن میں کچھ لوگ ہارتے ہیں اور کچھ جیتتے ہیں جبکہ بعض قسموں میں کچھ جیتتے ہیں اور ہارنے والا کوئی نہیں ہوتا ہے جیسا کہ انعامی بانڈز میں ہے۔
3۔ جب اس جوئے میں کوئی ہارتا نہیں ہے تو جیتنے والے کو انعام کہاں سے ملتا ہے؟ تو اس کا جواب اوپر نقل ہو چکا ہے کہ یہ انعام سب شرکاء کے بانڈز سے حاصل شدہ رقم کو سودی قرضوں پر جار ی کرتے ہوئے اس سے حاصل شدہ سود سے نکالا جاتا ہے۔ اب چونکہ انعام کسی تیسری پارٹی کی طرف سے نہیں آیا ہے بلکہ شرکا ء ہی کی رقم سے حاصل شدہ سود سے نکالا گیا ہے لہذا یہ جوا ہے نہ کہ انعام۔
4۔ رفیق طاہر صاحب نے ایک اچھی بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ انعامی بانڈز میں اس چیز کی خرید وفروخت ہوتی ہے ، جس کا انسان مالک نہیں ہوتا ہے ۔ یعنی بانڈز حقیقی زر نہیں ہے بلکہ حقیقی زر کی ایک رسید ہے ۔راقم نے اپنے ایک مضمون میں حقیقی زر اور زر اعتبار کے تاریخی پس منظر کو یوں بیان کیا ہے:
بینک اٹلی زبان کے لفظ 'banko' سے ماخوذ ہے۔جس کا معنی' میز' ہے۔شروع شروع میں جب ا س ادارے کا آغاز ہوا تھا تو اس کو چلانے والے حضرات کھاتے داروں کے حساب و کتاب کے لیے ایک میز کو اپنے سامنے رکھتے تھے کہ جس پر سبز رنگ کا کپڑا پڑا ہوتا تھا 'اسی سے لفظ بینک وجود میں آیا ہے ۔کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلا ماڈرن بینک اٹلی (جینوا) میں ١٤٠٧ء میں وجود میں آیا جس کا نام 'بینک آف سینٹ جارج ' تھا۔(
http://en.wikipedia.org)ایک جدید بینک کی عام طور پر یہ تعریف کی جاتی ہے :
''بینک قرضوں کا کاروبار کرتا ہے۔عوام سے امانتیں وصول کرتا ہے' اور ضرورت مند افراد کو قرضے فراہم کرتا ہے' بینک کے جاری کردہ زرِ اعتبار(مال ِ حکمی) کو عام لوگ بلا حیل و حجت قبول کر لیتے ہیں ۔اس لیے بینک زر کی تخلیق بھی کرتا ہے''۔(اسلامی معاشیات:ص٣٠٥،علمی کتاب خانہ، لاہور)
زرِ اعتبار سے مرادوہ زر(مال) ہے جو حقیقی نہ ہو مثلاً کرنسی نوٹ' بانڈز' بینک کے چیکس(cheques )وغیرہ۔اس کے بالمقابل حقیقی زر سے مراد وہ سونا ہے جو ان کرنسی نوٹ ' بانڈز یا چیکس وغیرہ کے پیچھے موجود ہوتا ہے اور یہ ایک طرح کی اس سونے کی رسیدوں کی مختلف شکلیں ہوتی ہیں جنہیں لوگوں کے معاشی مسائل حل کرنے کے لیے سہولت کے پہلو سے جاری کیا جاتاہے۔پہلے پہل کرنسی نوٹ اس وقت جاری کیے جاتے تھے جبکہ ان کے پیچھے ان کی مالیت کا سونا موجود ہوتا تھا جبکہ اب یہ شرط اٹھالی گئی ہے اور کوئی بھی ملک سونے کی موجودگی کے بغیر بھی کرنسی نوٹ چھاپ سکتا ہے۔
جدید بینکنگ کی تاریخ
جدید بینکنگ کا آغاز کیسے ہوا ؟ اس بارے میں مولانا مودودی نے اپنی کتاب'سود' میں عمدہ بحث کی ہے۔(سود : ص ١٢٩۔١٤١،اسلامک پبلیکیشنز،لاہور، مئی ١٩٨٧ئ) مولانا نے جدید بینکنگ کی تاریخ کو تین حصوں میں تقسیم کیاہے جس کا خلاصہ ہم اپنے الفاظ میں یہاں نقل کر رہے ہیں۔
ابتدائی مرحلہ
مغربی ممالک میں شروع شروع میں جبکہ ابھی تک کاغذی نوٹ ایجاد نہیں ہوئے تھے' لوگ اپنی قیمتی امانتیں ' سو نااور چاندی وغیرہ سناروں کے پاس بطور امانت رکھوا دیتے تھے۔سنار ہر امانت دار کو اس کی امانت کے بقدر سونے کی ایک رسید جاری کر دیتا تھا جس میں یہ تصریح ہوتی کہ فلاں شخص کااتنا سونا میرے پاس بطور امانت محفوظ ہے ۔آہستہ آہستہ یہ امانتی رسیدیں خرید و فروخت اور قرضوں کی ادائیگی کے لیے استعمال ہونے لگیں اور لوگ ان رسیدوں پر اعتماد کرنے لگے جس کی وجہ سے ایک شخص کو سنار کے پاس سے سونا نکلوانے کی ضرورت بہت کم پڑتی تھی۔ تجربے سے سناروں کو یہ محسوس ہوا کہ لوگوں کا جو سوناان کے پاس بطورامانت محفوظ ہے لوگ اس کا دسواں حصہ ان سے نکلواتے ہیں اور نو حصے سونا ان کے پاس بے کار پڑا رہتا ہے ۔اب سناروں نے اس امانتی سونے کو دوسرے لوگوں کو سود پر ادھار دینا شروع کر دیا اور صرف اسی پر اکتفا نہیں کیابلکہ اس نو حصے سونے کی رسیدیں بھی سود پر آگے جاری کرنا شروع کر دیں یعنی وہ سونا پھر ان کے پاس موجود تھا لیکن ان کی رسیدیں وہ سود پر جاری کر رہے تھے۔یہ ایک قسم کا دھوکا' فراڈ اور لوگوں کی امانتوں کا غلط استعمال تھا۔
دوسرا مرحلہ
دوسرے مرحلے میں ان سناروں نے اپنے کاروبار کو وسیع کرنے کے لیے معاشرے کے متوسط اور خوش حال طبقوں کی طرف رجوع کیااور ان سے کہا کہ آپ اپنا سرمایہ کاروبار میں لگانے کی بجائے ہمارے پاس بطور امانت رکھوا دیں ہم آپ کو اس پرسود ادا کریں گے۔اسی طرح سنارے کم شرح سود پر لوگوں سے ان کا سونا وغیرہ لے لیتے تھے اور زیادہ شرح سود پر دوسرے لوگوں کو دے کر اپنا منافع درمیان میں رکھ لیتے تھے۔بہت سارے لوگوں نے سوچا کہ کاروبار میں نقصان کا اندیشہ بھی ہے ۔وقت بھی لگے گااور محنت بھی کرنا پڑے گی ۔حساب کتاب بھی رکھناہوگااورنفع میں اتار چڑھاؤ بھی رہتا ہے۔ان سب باتوں کو سوچتے ہوئے لوگوں میں اس طرف رجحان بڑھنے لگا کہ اپنا کاروبار شروع کرنے کی بجائے اپنا سونا وغیرہ سناروں کے پاس رکھوا کر ایک متعین شرح سود حاصل کی جائے کہ جس میں اصل زر بھی محفوظ رہے گا اور محنت بھی نہ کرنا پڑے گی' وقت بھی بچ جائے گا اور نقصان کے اندیشوں سے بھی بچے رہیں گے۔اس طرح معاشرے کے تقریبا ٩٠ فی صد سرمایے پر ان سناروں کا قبضہ ہوتا چلا گیا۔
تیسرا مرحلہ
تیسرے مرحلے میں سناروں نے اپنے کاروبار کو اجتماعی شکل دینا شروع کر دی۔پہلے جوکام وہ انفرادی سطح پر کرتے تھے اب انہوں نے وہ گروپ کی شکل میں کر نا شروع کر دیا اس مرحلے میں جدیدبینک وجود میں آنا شروع ہو گئے۔ بینک اگرچہ چھوٹے بڑے بہت سے کام کرتا ہے لیکن اس کا اصل کام آج بھی یہی ہے کہ کم شرح سود پر لوگوں سے ان کی رقوم بطور امانت لینا اور زیادہ شرح سود پر مختلف افراد' کمپنیوں اور اداروں کو قرضے جاری کرنا۔بینک کے ادارے میں دو طرح کا سرمایہ ہوتاہے ایک ان افراد کا سرمایہ کہ جو مل کر ایک بینک بناتے ہیں اور دوسرا ان کھاتے داروں کا سرمایہ جوبینک میں اپنی رقوم بطور امانت رکھواتے ہیں۔بینک کا اصل سرمایہ دوسری قسم کا ہوتا ہے جو کل سرمایے کا تقریباً ٩٠ سے ٩٥ فی صد ہوتا ہے۔