• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انفاق فی سبیل اللہ کی ایک حیرت انگیز مثال

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
انفاق فی سبیل اللہ کی ایک حیرت انگیز مثال
بشریٰ ارشد تیمی، سلفیہ یونانی میڈیکل کالج ، دربھنگہ

اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اور محتا جوں اور فقیروں کی حاجت روائی کرنا اللہ رب العالمین کے نزدیک پسندیدہ اعمال میں سے ایک ہے ۔ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے جگہ جگہ اسکی فضیلت و اہمیت اور دنیا و آخرت میں اسکے فوائدوثمرات اور اجر و ثواب کو اجاگر کیا ہے ۔ سورہٗ بقرہ میں اس چیز کو بڑی تفصیل کے ساتھ نہایت ہی موثر اسلوب میں بیان فرمایا گیاہے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے صدقہ و خیرات کرنے والوں سے عظیم الشان بدلے کا وعدہ کرتے ہوئے انکے صدقہ کو ایسے دانے سے تشبیہ دی ہے جس میں سات بالیاں نکلیں ، پھر ہر ایک بالی میں سوسو دانے نکلیں ۔ لیکن صدقہ خیرات کے اس ثواب کا مستحق وہی لوگ ہوں گے جو صدق دل اور خلوص نیت کے ساتھ محض رب کی رضامندی کی خاطر صدقہ و خیرات کرے ۔ جو لوگ ریا کاری کے لئے ، لوگوں میں بڑا بننے کے لئے صدقہ وخیرات کرے،ا س کے صدقہ کی مثال قرآن شریف میں یوں دی گئی ہے ، جیسے ایک صاف اور چکنا پتھر ہو جس پر مٹی کی تہ جمی ہو ئی ہو، پھر زوردار بارش ہو ئی تو جو بھی مٹی پتھر پہ تھی سب بہہ گئی ، اور پتھر باقی رہ گیا ۔ گویا جو لوگ ریا کاری کی خاطر صدقہ کریں ، انکے صدقہ کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ اور نہ ہی وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے کسی بھی اجر وثواب کے مستحق ہوں گے ۔
صدقہ وخیرات کے معاملے میں اگر زریں و راہنما مثالوں کو تلاشا جائے تو دور نبوی اور دور خلافت راشدہ سب سے نمایاں ہیں ۔ یاد کیجیئے جب رسولﷺنے اپنے ساتھی مسلمانوں کے ساتھ مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تھی ، اس وقت ان کے پاس ایمان کی دولت کے سوا کچھ نہ تھا ، مال و دولت کے اعتبار سے بالکل تہی دامن تھے۔ تب مدینہ کے مسلمانوںنے آگے بڑھ کر جس طرح ان کی مدد کی اور گھر بار ، مال و دولت ، تجارت و کاروبار ، زمین و جائیداد ، غلام و نوکر ہر چیز میں ان کو شریک بنا کر اخوت و ہمدردی اور انفاق فی سبیل اللہ کی ایسی مثال قائم کی جس پر دنیا آج بھی انگشت بدنداں ہے۔ اللہ کے ان ہی نیک بندوں کے جود و سخا اور صدقہ فی سبیل اللہ کی ایک حیرت انگیز و عبرت انگیز مثال کو پیش کرنا اس مضمون میں میرا مقصد ہے ۔
 
  • پسند
Reactions: Dua

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرنے والے اس واقعہ سے بخوبی واقف ہوں گے کہ جب رسول اکرم ﷺ نے اپنے صحابہ کرام ؓکے ساتھ مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تھی ، تب وہ مالی اعتبار سے بالکل تہی دست تھے ۔ ان مشکل حالات میں مسلمانوں کے ساتھ ایک مشکل یہ بھی تھی کہ مدینہ منورہ میں پینے کے صاف پانی کی بڑی قلت تھی ۔ ایک یہودی کا کنواں تھا ، جو مسلمانوں کو پانی مہنگے داموں فروخت کرتا تھا ۔ اس کنویں کا نام ــــ بئیر رومہ یعنی رومہ کا کنواں تھا ۔ مسلمانوں نے رسول اکرم ﷺ کے سامنے اپنی اس پریشانی کو پیش کیا ۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : کون ہے جو یہ کنواں خریدے اور مسلمانوں کے لئے وقف کر دے ، ایسا کرنے والے کو اللہ تعالیٰ جنت میں چشمہ عطا فرما ئے گا ۔ حضرت عثمان بن عفان ؓ ، یہودی کے پاس گئے اور کنواں خریدنے کی خواہش کا اظہار کیا ۔ کنواں چونکہ منافع بخش آمدنی کا ذریعہ تھا ، اس لئے یہودی نے اسے فروخت کرنے سے انکار کر دیا ۔ حضرت عثمان ؓنے یہ تدبیر کی کہ یہودی سے کہا کہ پورا کنواں نہ سہی ، آدھا کنواں مجھے فروخت کر دو ۔ آدھا کنواں فروخت کرنے پر ایک دن کنویں کا پانی تمہارا اور دوسرے دن میرا ہوگا ۔ یہودی لالچ میں آگیا ۔اس نے سوچا کہ حضرت عثمانؓ اپنے دن میں پانی زیادہ پیسوں میں فروخت کریں گے ،اس طرح مزید منافع کمانے کا موقع مل جائے گا ۔ اس نے آدھا کنواں حضرت عثمان ؓ کو فروخت کر دیا ۔
 
  • پسند
Reactions: Dua

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
حضرت عثمان ؓ نے اپنے دن میں مسلمانوں کو کنویں سے مفت پانی لینے کی اجازت دے دی ۔ لوگ حضرت عثمانؓ کے دن کنواں سے پانی لیتے اور اگلے دن کے لئے بھی ذخیرہ کر لیتے ۔ جس دن یہودی کی باری ہوتی ، اس دن کو ئی بھی شخص پانی لینے نہیں جاتا ۔ یہودی نے دیکھا کہ اس کا منصوبہ ناکام ہو گیا ہے اور تجا رت ماند پڑ گئی ہے تو اس نے حضرت عثمان ؓ سے باقی آدھا کنواں بھی خریدنے کی گذارش کی۔ حضرت عثمان ؓ راضی ہو گئے اور پورا کنواں خرید کر مسلمانوں کے لئے وقف کر دیا ۔
وقت گذرتا گیا اوریہ کنواں مسلمانوں کو سیراب کرتا رہا یہاں تک کہ کنویں کے ارد گرد کھجوروں کا باغ بن گیا ۔ حضرت عثمانؓ کے دور خلافت میں اس باغ کی دیکھ بھال ہوئی ۔ بعد ازاں سعودی حکومت کے عہد میں اس باغ میں کھجوروں کے درختوں کی تعداد ۱۵۵۰ ہو گئی ۔
یہ باغ میو نسپلٹی میں حضرت عثمان ؓ کے نام پر رجسٹر ڈ ہوا ۔ وزارت زراعت یہاں کے کھجوروں کو بازار میں فروخت کرتی اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی حضرت عثمان بن عفان ؓ کے نام پر بینک میں جمع کرتی رہی یہاں تک کہ اکائو نٹ میں اتنی رقم جمع ہو گئی کہ مرکزی علاقہ میں ایک پلاٹ لے لیا گیا جہاں فندق عثمان بن عفان ؓ کے نام پر ایک رہائشی ہوٹل تعمیر کیا جانے لگا ۔ اس ہو ٹل سے سالانہ ۵۰ ملین ریال آمدنی متوقع ہے ۔ اس کاآدھا حصہ یتیموں اور غرباء میں تقسیم ہوگا ۔ جبکہ دوسرا آدھا حصہ حضرت عثمان ؓ کے اکائو نٹ میں جمع ہوگا ۔
(انقلاب ، جمعہ میگزین)
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
اس واقعہ میں تمام مسلمانوں کے لئے بہت بڑا سبق ہے ۔اندازہ کیجیئے کہ حضرت عثمان ؓ کے اس مقدس عمل کو اللہ تعالیٰ نے کیسے قبول فرمایا اور اس میں ایسی برکت عطا فرمائی کہ قیامت تک کے لئے یہ ان کے لئے صدقہ جاریہ بن گیا ۔ آج ہمارے سماج میں بہت سے مسلمان ایسے ہیں ، جو بنیا دی ضرورتوں تک کے لئے بھی دوسروں کے محتاج ہیں ۔ اور وہیں ہمارے سماج میں بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں ، جن کے یہاں ان کی ضرورت سے زیا دہ دولت ہے ۔ ایسے میں سماج کے توازن کو برقرار رکھنے اور سماج کے ہر فرد کی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کا مقصد سامنے رکھتے ہوئے نہایت ضروری ہے کہ ہم صدقہ و خیرات کی اہمیت و فضیلت سے آگاہ ہوں ، اور اس نیک عمل میں شریک ہو کر اللہ کے نزدیک اجر و ثواب کے مستحق بنیں ۔ اگر ہم ایسا کریں گے ، تو بہت سے ایسے مسائل کا حل ممکن ہے جن سے آج مسلم سماج دوچار ہے ۔ مثلا مسلمانوں کا تعلیمی میدان میں تخلف ، اقتصادی و معاشی طور پر کمزور ہونا ، سیاسی سطح پر بے بس ہونا وغیرہ ۔ علاوہ ازیں حال کی بات کریں تو مظفر نگر فسادات کے بعد وہاں کے بہت سے مسلمان اپنا گھر بار چھوڑ کر سرکاری کیمپوں میں رہنے کو مجبور ہیں ۔ بلکہ حالیہ خبروں کے مطابق اب ان کو کیمپوں میں سے بھی نکالنے کی تیاریا ں کی جا رہی ہیں ۔ کڑاکے کی اس سردی میں وہ تن پر پھٹا پرانا لپیٹے ٹھٹھرتے ہوئے اپنے شب و روز گذار رہے ہیں ۔ غذائی کمی کا مسئلہ الگ ہے ۔مختلف قسم کی بیماریوں نے الگ حملہ کر رکھا ہے ۔ اب تک غذائی کمی اور بیماری کیوجہ سے کتنے بوڑھوں اور بچوں کی موت ہو چکی ہے ۔ یوں تو ان حالات میں بہت سی مسلم جماعتوں اور کمیٹیوں نے آگے بڑھ کر ان کے مسائل کو کم کرنے کی کوششیں کی ہیں ۔ لیکن ابھی بھی ضرورت ہے کہ تمام مسلمان بطور خاص ہندوستانی مسلمان ایک ساتھ مل کر ان کی مدد کی خاطر آگے آئیں ۔ اور جس سے جہاں تک ہو سکے ، انکا سہارا بننے کی کوشش کرے ۔ اللہ ہم سب کو نیک توفیق دے ۔ آمین ۔
 
Top