makki pakistani
سینئر رکن
- شمولیت
- مئی 25، 2011
- پیغامات
- 1,323
- ری ایکشن اسکور
- 3,040
- پوائنٹ
- 282
جو ہوا ہماری توقعات کے عین مطابق ہوا۔ ’’شیخ الاسلام‘‘ کے ماضی سے ہم اچھی طرح واقف ہیں۔ اُنہیں دیکھ کر بے ساختہ وہ ’’تھانیدار ‘‘ یاد آجاتا ہے جو دونوں ’’پارٹیوں‘‘ سے پیسے پکڑ لیتا ہے۔ اِسی واسطے اُن کی پوری مہم کے دوران ایک لفظ اُن کے حق میں لکھنے یا بولنے کو جی نہیں چاہا۔ البتہ اُن قلم کاروں پر مجھے حیرت ہوتی تھی جو اچانک اُسے ’’نجات دہندہ‘‘ قرار دینے لگے تھے۔ ایسے ہی قلم کار ایک چینل پر اِس ’’مقولہ‘‘ کی یاد تازہ کر رہے تھے کہ ’’یہ مت دیکھو کون کہہ رہا ہے، یہ دیکھو کہ کیا کہہ رہا ہے ‘‘۔۔۔اِس مقولے کی ساکھ بھی ’’شیخ الاسلام‘‘ نے ’’راکھ‘‘ میں ملا دی۔ اب کوئی یہ نہیں دیکھے گا کہ کیا کہا جا رہا ہے، سب یہی دیکھیں گے کہ کہہ کون رہا ہے؟ اور یہ محاورہ یا مقولہ بھی اب شاید زندہ نہ رہے کہ ’’مرد کی کوئی زبان ہوتی ہے ‘‘۔۔۔۔’’شیخ الاسلام‘‘کے پاکستان واپس آنے سے قبل ہم رحمان ملک کو سب سے بڑا جھوٹا سمجھتے تھے۔ سچی بات ہے ہمیں تو اب وہ ایک ’’فرشتے‘‘ کی طرح دِکھائی دینے لگے ہیں اور ظاہر ہے اِس کا ’’کریڈٹ‘‘ ’’شیخ الاسلام‘‘ کو ہی جاتا ہے۔ وہ ریاست بچانے آئے تھے اور بددیانت ترین حکمرانوں کی سیاست بچا کر اور اُس میں سے اپنا مال کما کر چلتے بنے۔ منافقت کی انتہا ہوگئی۔ اُن کے ’’پاکستانی‘‘ ہونے پر پاکستان تو یقیناًشرمندہ تھا سرشرم سے ’’کینیڈا‘‘ کا بھی جھکا ہو گا کیوں ایسے جھوٹے شخص کو اپنے شہری ہونے کا ’’اعزاز‘‘ بخشا؟اُن کا ماضی ’’داغدار‘‘ نہ ہوتا تو اٹھارہ کروڑ میں سے اٹھارہ لاکھ عوام ضرور اُن کے ساتھ نکلتے۔ اور جو چند ہزار ’’مریدین‘‘ اُن کے ساتھ نکلے اُن کے جذبات کو بھی فروخت کر دیا گیا۔ ایسے تو کوئی ’’حلوہ‘‘ نہیں بیچتا جیسے ’’مولوی کینیڈی‘‘ نے اپنے مریدوں کا ’’جلوہ‘‘ بیچ دیا۔ سردیوں کی یخ بستہ راتوں کو ’’سیون سٹار کنٹینر ‘‘ کے سامنے ٹھٹھرنے والوں کے جذبات یقیناًقابل قدر ہیں مگر افسوس ایک بھی اُن میں ایسا نہیں نکلا ’’انقلاب فروش‘‘ کے سامنے جو احتجاج کرتا اور کہتا ’’یہی گل کھلانے تھے تو کیوں اتنے دِنوں تک ہمیں عذاب میں مبتلا کئے رکھا؟ دھرنا کتنے میں بکا اور دھرنے سے قبل ’’بیرونی قوتوں‘‘ سے سودا کتنے میں طے ہوا؟ ’’شیخ الاسلام‘‘ ہی جانتے ہیں۔’’مومنین‘‘ کے ساتھ المیہ یہ ہوا ایک بار پھر وہ ’’ڈسے‘‘ گئے!
سارے اندازے ہی غلط ثابت ہوگئے۔ کہانی اُلجھی نہیں اُلجھائی گئی تھی۔ مگر ’’تماشا ‘‘ ختم ہونے پر ’’عقدہ‘‘ یہ کھلا کہانی اُسی کردار نے اُلجھائی تھی جس کی سیاست سمجھنے کے لئے بقول جاوید ہاشمی کم از کم پی ایچ ڈی کی ڈگری تو ضرور پاس ہونی چاہئے۔ کہانی ’’کسی اور ‘‘ نے اُلجھائی ہوتی تو تماشا اتنی جلدی ختم نہ ہوتا۔ پھر لوگ بھی ’’شیخ الاسلام‘‘ کے فرمان کے مطابق چار ملین ہی وہاں ہوتے۔ پاکستان کی ’’فوج ظفر موج‘‘ اتنی کمزور نہیں ہوئی کہ چار ملین افراد کا اہتمام بھی نہ کر سکے۔ سو اب کے بار ہمارا ہی نہیں ہماری عدلیہ کا اندازہ بھی غلط ثابت ہوگیا۔ دھرنے کے دوسرے یا شاید تیسرے روز ’’شیخ الاسلام‘‘ کے خطاب کے دوران وزیراعظم کو گرفتار کرنے کا فیصلہ سن کر کم از کم ہم تو یہی سمجھے تھے کرپٹ سرکار جانے والی ہے اور عدلیہ نے سوچا ہوگا یہ ’’کریڈٹ‘‘ ’’شیخ الاسلام‘‘ کہیں اکیلے ہی نہ لے کر بھاگ جائیں۔ سو اپنا حصہ بھی فوری طو رپر عدلیہ نے ڈال دیا!
راجہ رینٹل تو دور کی بات ہے ایک ساتھی بھی اُس کا ابھی تک گرفتار نہیں ہوا اور سپریم کورٹ کا فیصلہ سننے کے بعد ہم ایسے ہی جشن منانے لگے تھے کہ ’’شیخ الاسلام‘‘کا ’’انقلاب‘‘ رنگ لانے لگا ہے۔ بلکہ سچی بات ہے کفِ افسوس سے ہاتھ بھی ملنے لگے تھے کہ کیوں اِس ’’انقلاب‘‘ میں اپنا حصہ ہم نہیں ڈال سکے۔ زرداری حکومت کا عذاب ’’شیخ الاسلام‘‘ کے ’’انقلاب‘‘ پر حاوی ہوگیا۔ اور یہی وہ دولت و سیاست ہے جس کے بل بوتے پر ’’ایک زرداری سب پر بھاری‘‘ یا ’’اگلی باری پھر زرداری‘‘ کے نعرے پورے یقین و اعتماد کے ساتھ لگتے ہیں تو نہ چاہتے ہوئے بھی ہمیں یقین کرنا پڑتا ہے۔ ’’شیخ الاسلام‘‘ فرماتے ہیں ’’ہم جیت گئے ‘‘۔۔۔یہ بات وہ ایسے فرما رہے تھے جیسے کوئی ’’جوا‘‘ جیت گیا ہو۔ دوسری طرف یہی بات بددیانت ترین حکمران بھی فرما رہے ہیں۔ یہ مکرو فریب کی کوئی ’’ریس‘‘ تھی تو واقعی دونوں جیت گئے !
عدلیہ اور فوج کے حق میں بار بار تقریریں کرکے اور بیانات جاری کرکے اپنی طرف سے ’’شیخ الاسلام‘‘ نے پوری کوشش کی کہ اِن ’’اداروں‘‘ کی حمایت حاصل کر سکیں۔’’افسوس‘‘ دونوں اداروں نے اُنہیں منہ نہیں لگایا اور بالآخر اُسی پارٹی کے منہ اُنہیں لگنا پڑا جو کسی کو منہ دِکھانے کے قابل نہیں رہی۔ خود’’شیخ الاسلام‘‘ بھی کسی کو منہ دِکھانے کے قابل نہیں رہے۔ سو خوب گزرے گی جب مل بیٹھیں گے دیوانے دو۔ کل ایک دوست کہہ رہا تھا اب کس منہ سے ’’شیخ الاسلام‘‘انقلاب کی بات کریں گے؟ عرض کیا جس منہ سے وہ جھوٹ بول لیتے ہیں۔۔۔سب کچھ میڈیا کے سامنے نہ ہو رہا ہوتا تو ممکن ہے یہ بھی وہ فرما دیتے ’’صدر زرداری اپنے وزیراعظم اور وزیر داخلہ کو ساتھ لے کر آئے اور میری ’’جوتیوں‘‘ میں بیٹھ کر گزارش کی کہ ’’ڈھونگ مارچ‘‘ ختم کر دیں۔ میں نے پھر بھی اُن کی بات نہیں مانی۔ مگر رات جب کسی نے میرے ’’خواب ‘‘ میں آکر کہا ’’اے طاہر ’’ڈھونگ مارچ ‘‘ ختم کر دو‘‘ ۔۔۔تو میں انکار نہ کر سکا‘‘!
’’ڈھونگ مارچ ‘‘ کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے ’’شیخ الاسلام‘‘ اتنے خوش دِکھائی دے رہے تھے جیسے ’’قارون کا خزانہ‘‘ اُنہیں مل گیا ہو۔ ’’ڈھونگ مارچ ‘‘ میں جتنا ’’خرچا‘‘ اُن کا آیا تھا اُس سے دوگنا چوگنا تو ضرور اُنہیں مل گیا ہوگا۔ اُنہیں چاہئے خواتین کے وہ زیورات اب ضرور واپس کر دیں جو تبدیلی یا انقلاب کی آڑ میں وصول کرتے ہوئے اُنہیں ذرا شرمندگی نہیں ہو رہی تھی کہ یہ میں کیا کر رہا ہوں؟ وہ فرماتے تھے ’’تبدیلی آکر رہے گی‘‘۔۔۔ تبدیلی اُن کے رویے میں آکر رہی۔ اپنی نقلیں اُتارنے والے وفاقی وزیر کو اپنے ’’فائیو سٹار کنٹینر‘‘ میں خوش آمدید کہتے ہوئے بھی وہ پھولے نہیں سما رہے تھے۔ ناراضگی اُن کی صرف رحمان ملک سے ہے اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مسلسل اُنہیں جھوٹا کہتا ہے حالانکہ وہ خود بہت جھوٹا ہے۔ اور شاید یہی دُکھ ’’شیخ الاسلام‘‘ کو ہے کہ اُن جیسا ایک شخص اُن کے مقابلے پر کیوں اُترا ہوا ہے۔ رحمان ملک اور ’’شیخ الاسلام‘‘ میں فرق یہ ہے کہ ایک کو سچ بولتے ہوئے شرم آتی ہے دوسرے کو جھوٹ بولتے ہوئے نہیں آتی!
چار پانچ روز کے مسلسل تماشے کے نتیجے میں جتنا ’’نقصان‘‘ پاکستان کو ہوا ’’شیخ الاسلام‘‘ کو اُتنا ہی ’’فائدہ‘‘ ہو گیا ہوگا۔ اِس ’’فائدے‘‘ سے صدر زرداری کو کتنا حصہ ملتا ہے؟ اِس کے بارے میں تو کچھ نہیں کہا جا سکتا البتہ اِتنا ضرور ہوا ہوگا کہ مالی لحاظ سے ’’شیخ الاسلام‘‘ اب صدر زرداری کے ساتھ ساتھ ’’شریف برادران‘‘ کے برابر بھی آگئے ہوں گے۔ سیاستدانوں کی اطلاع کے لئے عرض ہے اب مال بنانے کے ’’سائنٹیفک طریقے‘‘ اُنہوں نے سیکھنے ہوں تو ’’شیخ الاسلام‘‘ سے بہتر چوائس کوئی نہیں ہو سکتی۔’’شیخ الاسلام‘‘ کے پیچھے گر امریکہ تھا تو اُسے بھی اب زرداری نے آگے لگا لیا ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ ’’شیخ الاسلام‘‘ تو واپس کینیڈا چلے جائیں گے۔ ممکن ہے اُس سے پہلے ’’امریکہ ‘‘ بھی جائیں۔ اصل مسئلہ پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام کا ہے۔ وہ کدھر جائیں؟؟؟
بشکریہ؛توفیق بٹ۔(کالم نگار سے معذرت کے ساتھ عنوان اگر یوں ہوتا"شرم تمہیں مگر نہیں آے گی)
سارے اندازے ہی غلط ثابت ہوگئے۔ کہانی اُلجھی نہیں اُلجھائی گئی تھی۔ مگر ’’تماشا ‘‘ ختم ہونے پر ’’عقدہ‘‘ یہ کھلا کہانی اُسی کردار نے اُلجھائی تھی جس کی سیاست سمجھنے کے لئے بقول جاوید ہاشمی کم از کم پی ایچ ڈی کی ڈگری تو ضرور پاس ہونی چاہئے۔ کہانی ’’کسی اور ‘‘ نے اُلجھائی ہوتی تو تماشا اتنی جلدی ختم نہ ہوتا۔ پھر لوگ بھی ’’شیخ الاسلام‘‘ کے فرمان کے مطابق چار ملین ہی وہاں ہوتے۔ پاکستان کی ’’فوج ظفر موج‘‘ اتنی کمزور نہیں ہوئی کہ چار ملین افراد کا اہتمام بھی نہ کر سکے۔ سو اب کے بار ہمارا ہی نہیں ہماری عدلیہ کا اندازہ بھی غلط ثابت ہوگیا۔ دھرنے کے دوسرے یا شاید تیسرے روز ’’شیخ الاسلام‘‘ کے خطاب کے دوران وزیراعظم کو گرفتار کرنے کا فیصلہ سن کر کم از کم ہم تو یہی سمجھے تھے کرپٹ سرکار جانے والی ہے اور عدلیہ نے سوچا ہوگا یہ ’’کریڈٹ‘‘ ’’شیخ الاسلام‘‘ کہیں اکیلے ہی نہ لے کر بھاگ جائیں۔ سو اپنا حصہ بھی فوری طو رپر عدلیہ نے ڈال دیا!
راجہ رینٹل تو دور کی بات ہے ایک ساتھی بھی اُس کا ابھی تک گرفتار نہیں ہوا اور سپریم کورٹ کا فیصلہ سننے کے بعد ہم ایسے ہی جشن منانے لگے تھے کہ ’’شیخ الاسلام‘‘کا ’’انقلاب‘‘ رنگ لانے لگا ہے۔ بلکہ سچی بات ہے کفِ افسوس سے ہاتھ بھی ملنے لگے تھے کہ کیوں اِس ’’انقلاب‘‘ میں اپنا حصہ ہم نہیں ڈال سکے۔ زرداری حکومت کا عذاب ’’شیخ الاسلام‘‘ کے ’’انقلاب‘‘ پر حاوی ہوگیا۔ اور یہی وہ دولت و سیاست ہے جس کے بل بوتے پر ’’ایک زرداری سب پر بھاری‘‘ یا ’’اگلی باری پھر زرداری‘‘ کے نعرے پورے یقین و اعتماد کے ساتھ لگتے ہیں تو نہ چاہتے ہوئے بھی ہمیں یقین کرنا پڑتا ہے۔ ’’شیخ الاسلام‘‘ فرماتے ہیں ’’ہم جیت گئے ‘‘۔۔۔یہ بات وہ ایسے فرما رہے تھے جیسے کوئی ’’جوا‘‘ جیت گیا ہو۔ دوسری طرف یہی بات بددیانت ترین حکمران بھی فرما رہے ہیں۔ یہ مکرو فریب کی کوئی ’’ریس‘‘ تھی تو واقعی دونوں جیت گئے !
عدلیہ اور فوج کے حق میں بار بار تقریریں کرکے اور بیانات جاری کرکے اپنی طرف سے ’’شیخ الاسلام‘‘ نے پوری کوشش کی کہ اِن ’’اداروں‘‘ کی حمایت حاصل کر سکیں۔’’افسوس‘‘ دونوں اداروں نے اُنہیں منہ نہیں لگایا اور بالآخر اُسی پارٹی کے منہ اُنہیں لگنا پڑا جو کسی کو منہ دِکھانے کے قابل نہیں رہی۔ خود’’شیخ الاسلام‘‘ بھی کسی کو منہ دِکھانے کے قابل نہیں رہے۔ سو خوب گزرے گی جب مل بیٹھیں گے دیوانے دو۔ کل ایک دوست کہہ رہا تھا اب کس منہ سے ’’شیخ الاسلام‘‘انقلاب کی بات کریں گے؟ عرض کیا جس منہ سے وہ جھوٹ بول لیتے ہیں۔۔۔سب کچھ میڈیا کے سامنے نہ ہو رہا ہوتا تو ممکن ہے یہ بھی وہ فرما دیتے ’’صدر زرداری اپنے وزیراعظم اور وزیر داخلہ کو ساتھ لے کر آئے اور میری ’’جوتیوں‘‘ میں بیٹھ کر گزارش کی کہ ’’ڈھونگ مارچ‘‘ ختم کر دیں۔ میں نے پھر بھی اُن کی بات نہیں مانی۔ مگر رات جب کسی نے میرے ’’خواب ‘‘ میں آکر کہا ’’اے طاہر ’’ڈھونگ مارچ ‘‘ ختم کر دو‘‘ ۔۔۔تو میں انکار نہ کر سکا‘‘!
’’ڈھونگ مارچ ‘‘ کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے ’’شیخ الاسلام‘‘ اتنے خوش دِکھائی دے رہے تھے جیسے ’’قارون کا خزانہ‘‘ اُنہیں مل گیا ہو۔ ’’ڈھونگ مارچ ‘‘ میں جتنا ’’خرچا‘‘ اُن کا آیا تھا اُس سے دوگنا چوگنا تو ضرور اُنہیں مل گیا ہوگا۔ اُنہیں چاہئے خواتین کے وہ زیورات اب ضرور واپس کر دیں جو تبدیلی یا انقلاب کی آڑ میں وصول کرتے ہوئے اُنہیں ذرا شرمندگی نہیں ہو رہی تھی کہ یہ میں کیا کر رہا ہوں؟ وہ فرماتے تھے ’’تبدیلی آکر رہے گی‘‘۔۔۔ تبدیلی اُن کے رویے میں آکر رہی۔ اپنی نقلیں اُتارنے والے وفاقی وزیر کو اپنے ’’فائیو سٹار کنٹینر‘‘ میں خوش آمدید کہتے ہوئے بھی وہ پھولے نہیں سما رہے تھے۔ ناراضگی اُن کی صرف رحمان ملک سے ہے اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مسلسل اُنہیں جھوٹا کہتا ہے حالانکہ وہ خود بہت جھوٹا ہے۔ اور شاید یہی دُکھ ’’شیخ الاسلام‘‘ کو ہے کہ اُن جیسا ایک شخص اُن کے مقابلے پر کیوں اُترا ہوا ہے۔ رحمان ملک اور ’’شیخ الاسلام‘‘ میں فرق یہ ہے کہ ایک کو سچ بولتے ہوئے شرم آتی ہے دوسرے کو جھوٹ بولتے ہوئے نہیں آتی!
چار پانچ روز کے مسلسل تماشے کے نتیجے میں جتنا ’’نقصان‘‘ پاکستان کو ہوا ’’شیخ الاسلام‘‘ کو اُتنا ہی ’’فائدہ‘‘ ہو گیا ہوگا۔ اِس ’’فائدے‘‘ سے صدر زرداری کو کتنا حصہ ملتا ہے؟ اِس کے بارے میں تو کچھ نہیں کہا جا سکتا البتہ اِتنا ضرور ہوا ہوگا کہ مالی لحاظ سے ’’شیخ الاسلام‘‘ اب صدر زرداری کے ساتھ ساتھ ’’شریف برادران‘‘ کے برابر بھی آگئے ہوں گے۔ سیاستدانوں کی اطلاع کے لئے عرض ہے اب مال بنانے کے ’’سائنٹیفک طریقے‘‘ اُنہوں نے سیکھنے ہوں تو ’’شیخ الاسلام‘‘ سے بہتر چوائس کوئی نہیں ہو سکتی۔’’شیخ الاسلام‘‘ کے پیچھے گر امریکہ تھا تو اُسے بھی اب زرداری نے آگے لگا لیا ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ ’’شیخ الاسلام‘‘ تو واپس کینیڈا چلے جائیں گے۔ ممکن ہے اُس سے پہلے ’’امریکہ ‘‘ بھی جائیں۔ اصل مسئلہ پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام کا ہے۔ وہ کدھر جائیں؟؟؟
بشکریہ؛توفیق بٹ۔(کالم نگار سے معذرت کے ساتھ عنوان اگر یوں ہوتا"شرم تمہیں مگر نہیں آے گی)