شیخ محترم نے چوتھا اور آخری اثر حضرت عبد اللہ بن جابر البیاضی رضی اللہ عنہ کا پیش فرمایا ہے:
رأيت عبد الله بن جابر البياضي صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم يضع إحدى يديه على ذراعه في الصلاة
شیخ فرماتے ہیں: "اب اگر دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے "ذراع" (کہنی کے بیچ سے انگلی تک کے پورے حصے) پر رکھیں گے تو دونوں ہاتھ خود بخود سینے پر آجائیں گے۔"
معروض تو پرانی ہی ہے کہ "ذراع" کا مکمل معنی لے کر "ید" کا مکمل معنی کیوں چھوڑ دیتے ہیں؟ اگر ید کا بھی مکمل معنی لیں تو ان کو کبھی ایک دوسرے پر رکھنا ہی ممکن نہ ہو۔ لیکن ہم شیخ محترم سے چپکے سے یہ بھی عرض کرنا چاہتے ہیں کہ ہم نے خود بھی یہ تجربہ کر کے دیکھا اور ادھر ادھر کے اور افراد سے بھی کروایا لیکن کسی کے ہاتھ شیخ محترم کے قول کے مطابق سینے پر نہیں پہنچے بلکہ پیٹ کے اوپری حصے تک ہی پہنچ پائے۔ جب تک ہاتھ اوپر اٹھائے نہ جائیں، کندھے سکیڑے نہ جائیں یا بازو کسی پیدائشی نقص کی وجہ سے عام سائز سے چھوٹے نہ ہوں ان کا سینے تک اس طرح پہنچنا ناممکن ہے۔ چونکہ آپس کی بات چل رہی ہے اس لیے ہم شیخ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ سینہ وہ ہوتا ہے جس میں پسلیاں ہوتی ہیں اور پسلیوں کے نیچے کا نرم حصہ پیٹ کہلاتا ہے۔
بہرحال یہ آپس کی بات ہے اور ہم کسی کو نہیں بتائیں گے کہ ہاتھ سینے تک نہیں پہنچ رہے۔ ممکن ہے کہ شیخ کے علاقے کے لوگوں کے بازو چھوٹے ہی ہوتے ہوں لیکن شیخ کو ایسی دلیل دینی چاہیے جو ساری دنیا کے لوگوں کے لیے ہو نہ کہ صرف ان کے اپنے علاقے کے افراد کے لیے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ شیخ محترم کے پیش کردہ چاروں آثار میں سے کوئی ایک بھی ان کے موقف پر دلیل بننے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ شیخ جابجا حنفیوں اور دیوبندیوں کے اقوال سے دلیلیں دیتے ہیں۔ ہم عرض کرتے ہیں کہ شیخ نے اگر اپنا مسلک ثابت کرنا ہے تو پھر اہل دیوبند یا احناف کے اقوال سے دلیل کا انہیں کیا فائدہ ہے؟ اور اگر شیخ کا مقصود الزام خصم ہے یعنی احناف کو یہ بتانا ہے کہ ان کے علماء کا بھی یہ قول ہے تو احناف اپنے علماء کی "تحت السرۃ" کی ترجیح کو بھی مانتے ہیں۔ وہ آدھے کو مان کر آدھے کا انکار نہیں کرتے، اس لیے ان اقوال و دلائل کا کوئی فائدہ نہیں۔
ہم بات کر رہے تھے اس پر کہ کیا سینے پر ہاتھ باندھنا کسی عالم کا قول ہے؟ اس کے ضمن میں آثار صحابہ کی بات آئی تھی۔ آگے محترم شیخ فرماتے ہیں: "نیز گزشتہ سطور میں ہم بتا چکے ہیں کہ امام شافعیؒ سے بھی یہ قول منقول ہے، بلکہ بعض روایات کے مطابق امام احمدؒ سے بھی یہ قول منقول ہے اور معنوی طور پر یہی قول امام مالکؒ سے بھی منقول ہے۔"
ہم بھی اسی انداز میں عرض کرتے ہیں: گزشتہ سطور میں ہم نہ صرف بتا چکے ہیں بلکہ ثابت بھی کر چکے ہیں کہ ائمہ ثلاثہ میں سے کسی کا قول بھی سینے پر ہاتھ باندھنے کا نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس امام احمدؒ کی مضبوط روایت ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کی ہے۔
شیخ آگے فرماتے ہیں: "علاوہ بریں امام بیہقیؒ نے اپنی سنن میں سینے پر ہاتھ باندھنے کا باب قائم کیا ہے۔"
عرض ہے کہ امام بیہقیؒ متفقہ طور پر شافعی عالم ہیں۔ انہیں ابن الملقنؒ، ابن خلکانؒ، سبکیؒ، ابن کثیرؒ، نواب صدیق حسن خانؒ اور حاجی خلیفہؒ نے باقاعدہ طور پر شافعی قرار دیا ہے۔ علامہ ذہبیؒ اور ابن الملقنؒ نے ان کے شافعی ہونے پر اقوال نقل کیے ہیں۔ ان کو بعض نے امام الحدیث کہا ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنی خدمات کی وجہ سے حدیث کے حوالے سے یہ امام ہیں اور مسلک کے حوالے سے یہ شافعی فقیہ ہیں۔ انہوں نے جو باب قائم کیا ہے یہ مجمل ہے اور شوافع کے نزدیک "علی الصدر" کا مطلب ہم واضح کر چکے ہیں کہ وہ علی الصدر کی روایات کو "فوق السرۃ" اور "تحت الصدر" پر محمول کرتے ہیں۔ اس لیے ان کے یہاںبھی "علی الصدر" کا یہی مطلب ہوگا جب تک کہ ان کی جانب سے اس کے خلاف صراحت نہ آ جائے۔
چوتھی دلیل کے تحت شیخ فرماتے ہیں: "سینے پر ہاتھ باندھنا اجتہادی معاملہ نہیں ہے بلکہ اس بارے میں میں نص صریح موجود ہے جس کے سامنے اجتہاد کی کوئی گنجائش ہی موجود نہیں ہے۔"
شیخ محترم! نص صریح کے ثبوت پر ہی تو بات چل رہی ہے۔ ہم دعوی کرتے ہیں کہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے پر نص صریح ہے جو مصنف ابن ابی شیبہ میں موجود ہے۔ شیخ نے اس پر تحریف کا جو الزام لگایا ہے وہ سراسر غلط ہے۔ ہم ان شاء اللہ آگے اس روایت کے بارے میں بات کریں گے۔