- شمولیت
- ستمبر 26، 2011
- پیغامات
- 2,767
- ری ایکشن اسکور
- 5,409
- پوائنٹ
- 562
ایک فورم پر مہ جبین بہن کا انٹرویو پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ اس انٹرویو میں انہوں نے بہت اچھی اچھی باتیں کی ہیں۔ اس انٹرویو کے اقتسابات پیش خدمت ہیں۔
زندگی کا ایک طویل سفر طے کر لیا اور اب پیچھے مڑکر دیکھتی ہوں تو یوں لگتا ہے کہ ابھی کل کی بات ہے۔ جن بچوں کو کل گود میں اٹھاتے تھے آج وہ شادی کے لائق ہو چکے ہیں، اب ساس بننے کے دن آگئے،سب دعا کریں کہ میں ایک شفیق ساس بنوں میری بہو بھی خوش اخلاق اور ملنسار ہو آمینپھول ویسے تو گلاب اور موتیا اچھا لگتا ہے لیکن شاعرانہ انداز میں کنول کا پھول اچھا لگتا ہے کہ جو کیچڑ میں کھلنے کے باوجود بھی خوبصورت ہوتا ہے (یہ ایک تشبیہ ہے کہ ہم اس پھول کو دیکھ کر سوچیں کہ خوبصورتی ایسی جگہ بھی ہو سکتی ہےجہاں کا گمان بھی نہ ہو اور اس کو دیکھ کر یہ بھی ذہن میں آتا ہے خوبصورتی کی کوئی مخصوص جگہ نہیں ہے یہ ہر جگہ ہو سکتی ہے، جہاں اللہ کی قدرت ہو)
میں تو بچپن سے ہی کم گو اور سنجیدہ قسم کی ہوتی تھی ( گو کہ اب بھی کچھ فرق نہیں پڑا ہے) اور شرارت بھی ایسی کوئی قابل ذکر نہیں ( ہاں اگر یہ سوال امی سے کیا جاتا تو شاید کوئی شرارت مجھے بھی پتہ چل جاتی) :) ۔ ۔ ۔ ۔ میں جب پرائمری کلاس میں تھی تو پہلی اور آخری بار امی سے ایک جھوٹ بولا اور امی نے وہ جھوٹ پکڑ لیا ، اس کے بعد ہماری جو شامت آئی ہے تو بس نہ پوچھو کیا حال ہوا ہے ہمارا، ایسا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں ۔۔۔ لیکن اس کے بعد ایسا سبق ملا کہ کبھی جھوٹ بولنے کی ہمت نہیں ہوئی ۔ ۔ ۔ ۔ کم گو ، سنجیدہ ، کم فہم اور بہت ساری خامیاں ہیں کیا کیا بیان کروں۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ بس پردے میں رہنے دو ۔ ۔ ۔ ۔ زندگی آخرت کی کھیتی ہے، آج جو بوئیں گے ، کل وہی کاٹیں گے اس لئے اس زندگی کو غنیمت سمجھ کر آگے کے لئے اچھا سامان بھیجنا چاہیئے ۔ ۔ ۔ ایک ناول تھا کئی سال پہلے پڑھا تھا، سقوط مشرقی پاکستان کے تناظر میں لکھا گیا تھا اور کیا بہترین لکھا تھا کہ میں تو اسکو پڑھ کر بہت روئی تھی، اور اس کو میں نے بہت دفعہ پڑھا تھا ، اس کا نام تھا "ذرا نم ہو تو یہ مٹی":( بس اسی ناول کو بار بار پڑھنے کا دل چاہتا ہےجب ہم بہو بن کر آتے ہیں تو جو توقعات ہم اپنی ساس سے لگاتے ہیں کہ ایسی ہوں ، محبت کرنے والی ہوں زیادہ روک ٹوک نہ کریں اور اپنی بیٹی کی طرح ہم کو سمجھیں وغیرہ وغیرہ۔ ویسے بس میں تو بہت ڈرتی ہوں کہ کبھی میری وجہ سے کسی کا بھی دل دکھے اب بہو کا تو تجربہ نہیں ہے مگر میری کوشش تو یہی ہوگی کہ جو امیدیں میں اپنی ساس سے لگاتی تھی اب اپنی بہو کی امیدوں پر پوری اتروں۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہو جائے کہ ساس میری سہیلی۔۔۔ ۔۔۔ میرے حق میں دعا کرنا کہ میں ظالم ،نک چڑھی، مغرور، بددماغ، اور بڑبڑاتی ساس نہ بنوں بلکہ اپنی پیاری ماں جیسی شفیق اور نرم خو ساس بنوں۔ سنا ہے کہ ساس بن کر سارے بلند و بانگ دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں :(