• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انکار حدیث کے حدود کا تعین

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
محترم عبدہ بھائی - اپ کے نقطۂ نظر کے انتظار رہے گا-
محترم بھائی اللہ تعالی آپ سے راضی ہو آپ کے اشکالات بہت سے لوگوں کو ہوتے ہیں میں اس پر اپنا نقطہ نظر لکھ دیتا ہوں ہمارے محترم @انس بھائی اس میں مزید اصلاح کر دیں گے
پہلے میں آپ کی اوپر والی ابن کثیر والی بات بارے بھی بتا دوں کہ وہ میرے علم کے مطابق ابن کثیر منکر حدیث کے زمرے میں نہیں آتے اسکی وجہ آگے وضاحت میں مل جائے گی
محترم بھائی پہلے یہ سمجھ لیں کہ ہم نے اللہ کی اطاعت کرنی ہے اس پر کوئی اختلاف نہیں
اصل اختلاف اس میں ہوتا ہے کہ اللہ کا حکم اور منشاء کیا ہے اور اس تک ہم کیسے پہنچیں گے سارا اختلاف پھر اسی میں ہوتا ہے
اب آپ بتائیں کہ اس کے لئے کیا طریقہ ہو گا آپ نے اصول بتانا ہے کہ اس تک کیسے پہنچیں گے کیا اس میں عقل کا استعمال بالکل ممنوع ہو گا یا نہیں
اس پر اب بحث کرنے کے دو طریقے ہیں
یا تو ہم بالکل نئے سرے سے ہی شروع ہوں جس میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے دلائل اور پھر انکی اتباع کے دلائل سے شروع کر کے آگے اس پر پہنچیں کہ انکی سنت ئیا حدیث کو کیسے لینا ہے
یا دوسرا یہ طریقہ ہے کہ جہاں تک ہمارا اتفاق ہے وہاں تک بغیر دلائل کے پہنچ جائیں اور آگے سے بات شروع کریں کہ اللہ کی بات کو ہم کیسے لیں گے

چونکہ ہمارے درمیان بہت سی چیزوں میں اتفاق ہے تو وقت بچانے کے لئے ہم اس دوسرے طریقے کو ہی لیتے ہیں
1۔اتفاق کے لئے متفقہ بنیادوں کو بھی ماننا
دین اسلام میں ہم کچھ چیزوں پر اتفاق کرتے ہیں لیکن یہاں یہ سوچنا بہت اہم ہے کہ ہم اس اتفاق تک جو پہنچے ہیں تو اس میں بہت سے دلائل کو ہم نے مانا ہے تو انہیں دلائل کو آگے بھی ماننا ضروری ہو گا ورنہ اگر آگے انہیں قسم کے دلائل کو حجت نہ مانیں تو پہلے والے اتفاق تک پہنچنا ہی مشکوک ہو جائے گا
2۔اللہ کے احکامات کے لئے حالات کے مطابق عقل کا استعمال شرعی مطالبہ
دوسرا یہ بھی یاد رکھیں کہ اللہ کے احکامات تو ڈائریکٹ ہوتے ہیں مگر اس تک پہنچنے کے لئے ہمیں کچھ اور معاملات بھی کرنے پڑتے ہیں جن کا اللہ کے حکم میں براہ راست ذکر نہیں ہوتا مگر اسکے بغیر وہ ممکن نہیں ہوتا مثلا کوئی آپ کو پانی لانے کا حکم دیتا ہے اور ساتھ کہتا ہے کہ کوئی اور کام نہ کرنا تو آپ کو گلاس ڈھونڈنے کا کام اگر کرنا پڑے تو وہ بھی اس حکم کے تحت ہو گا یہاں یہ بھی یاد رہے کہ اس میں عقل کا بہترین استعمال کرنا بھی ضروری ہے یعنی آپ پانی لانے کے لئے گلاس ہی ڈھونڈیں گے کاغذ میں پانی نہیں لے کر آئیں گے اب اگر کوئی کاغذ میں پانی لے کر آ جائے جو گر بھی رہا ہو تو اسکو کہا جائے کہ آپ اس میں کیوں لے کر آئے گلاس میں کیوں نہیں لائے تو وہ آگے سے کہے کہ مجھے تو یہ نہیں کہا گیا تھا کہ گلاس میں نہ لاؤ تو اسکو کہا جائے گا کہ کامن سینس بھی کوئی چیز ہوتی ہے اسی طرح دین میں بھی کامن سینس کا استعمال شرعی طور پر مطلوب ہے اور اسکے لئے حالات کو بھی ذہن میں رکھا جاتا ہے اورحکم دینے والے وقت کے حالات کی بجائے حکم پر عمل کرنے والے وقت کے حالات کو مدنظر رکھا جاتا ہے جیسا کہ واعدو لھم مااستطعتم پر عمل اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تیر کی مشک سے کیا تھا اور اسکی ترغیب دی تھی مگر اب اس پر عمل اپنے عقل سے ہم ایٹم بم وغیرہ سے کریں گے
3۔جج کے لئے شریعت کے مطابق فیصلہ کرنے کے لئے بنیادیں
جج کو دیکھتے ہیں کہ اسکو اللہ کی منشا تک پہنچے کے لئے اپنے فیصلوں کو قرآن و حدیث سے ہے حل کرنا ہو گا مگر ساتھ ساتھ کچھ لوگوں کی گواہی کو بھی اس فیصلے میں اس طرح ماننا ہو گا گویا کہ یہ اللہ کی منشاء ہی ہے مثلا کوئی قتل کر دیتا ہے تو اسکو قرآن کی اس آیت کی پیروی کرنی ہو گی کہ ولکم فی القصاص حیاۃ---- مگر اس پر عمل کے لئے لازمی طور پر اسکو دو گواہوں کی گواہی کو بھی اسی طرح شریعت کا حصہ ماننا ہو گا جس طرح قصاص کو شریعت کا حصہ مانا
4۔گواہی میں غلطی کے امکان کی حیثیت
یہ بھی یاد رہے کہ جج کے لئے اوپر 3 نمبر کے مطابق فیصلہ کرنے میں غلطی ضرور ہو سکتی ہے اور اس غلطی میں لازمی کردار صرف گواہی کا ہو گا کیونکہ جب دو گواہ گواہی دے دیں گے تو پھر اگر انکی گواہی درست ہو گی تو پھانسی دینے کا فیصلہ غلط نہیں ہو سکتا اگر کوئی اور دیت یا معافی وغیرہ کا معاملہ نہ ہو لیکن یاد رکھیں کہ اس غلطی کے امکان کی وجہ سے گواہیوں کو ساقط نہیں کیا جا سکتا بلکہ فقہاء نے تو اسی قرآن و سنت کی روشنی میں یہ اصول بنا دیا کہ لنا الحکم علی الظاہر وربنا یتولی السرائر یعنی ہم ظاہر کے مطابق عمل کریں گے اور کسی غلطی کے امکان سے نہیں ڈریں گے جیسا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بھی آتی ہے کہ جب دو بندوں میں فیصلہ ہو رہا تھا کہ اگر کوئی مجھ سے اپنی باتوں کی وجہ سے فیصلہ اپنے حق میں کروا گیا تو آخرت کے نقصان کا وہ خود ہی ذمہ دار ہو گا یہاں یہ بھی یاد رکھیں کہ گواہ کی جب ہم گواہی مانتے ہیں تو اس سے مراد ہمیں جس چیز کا مکلف بنایا گیا ہے اس پر ہم عمل کر رہے ہیں اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ گواہ 100 فیصد سچا ہو گا ہمیں اللہ نے اسکا مکلف ہی نہیں بنایا
نوٹ: ابھی جلدی میں محترم محمد علی جواد بھائی کے کہنے پر کیا تو ربط صحیح نہیں بعد میں اسکو بھائیوں کی اصلاح کے بعد ربط بھی دے دوں گا ان شاءاللہ
جاری ہے
 
Last edited:

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
جاری ہے
اوپر پوسٹ میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اصول حدیث میں علم درایت یعنی حدیث کی جانچ پڑتال کے علم کی بنیاد بھی شریعت پر رکھی گئی ہے اور شریعت میں کبھی عقل کا استعمال عین مطلوب بھی ہوتا ہے جیسا کہ قرآن بھی کہتا ہے کہ ان جاءکم فاسق ----- تو علم درایت میں تحقیق کی جاتی ہے اسی طرح قرآن نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انکے درمیان زندگی گزارنے کے طریقے کو بھی انکی گواہی کے قبول ہونے کے لئے معیار بنایا یعنی ثقہ ہونے کی پہچان بتایا جب فرمایا فقد لبثتم فیکم عمرا من قبلہ کہ میری تمھارے درمیان جو زندگی گزری اسکو دیکھ لو وغیرہ پس ہمیں جب ان اصولوں کے تحت گزری ہوئی حدیث مل جائے تو پھر اسکو قبول کرنا لازمی ہے
رہا یہ مسئلہ کہ اسکا بالکل انکار نہیں کیا جا سکتا تو اس پر اگلی پوسٹ میں
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
صحیح حدیث کے انکار کی مختلف صورتیں
اسکو سمجھنے کے لئے جج کی مثال لیتے ہیں جج کو دو گواہوں کی موجودگی میں قاتل کے لئے پھانسی کا ایسے ہی فیصلہ کرنا ہے کہ جس طرح ہم کو حدیث کو صحیح کہنے والے گواہوں کی موجودگی میں اس پر عمل کرنے کا فیصلہ کرنا ہے اسکے مندرجہ ذیل ممکنہ صورتیں ہو سکتی ہیں

1۔اگر جج کے پاس دو گواہ موجود ہیں اور دوسری طرف قتل خطا کا معاملہ یا ورثا کا معافی نامہ وغیرہ بھی موجود نہیں یعنی قصاص پر عمل میں کوئی شرعی رکاوٹ نہیں تو جج قصاص پر عمل کا فیصلہ دے دے گا
اسی طرح اگر حدیث کے صحیح ہونے کے گواہ موجود ہیں اور وہ حدیث محکم ہے مختلف الحدیث نہیں یعنی اس پر عمل کرنے میں کوئی شرعی رکاوٹ نہیں تو پھر اس پر عمل ہو گا

2۔اگر گواہ تو اسکے حق میں دو موجود ہیں مگر قصاص میں کوئی شرعی رکاوٹ ہے تو اس رکاوٹ کے مطابق اس قصاص کے حکم میں تبدیلی کی جائے گے یعنی اس رکاوٹ والے شرعی حکم اور دو گواہوں کی موجودگی میں قصاص والے حکم میں تطبیق دینے کی کوشش کی جائے گی
اسی طرح حدیث کے صحیح ہونے کے گواہ تو موجود ہیں مگر اسکے خلاف کوئی دوسری نص موجود ہے تو وہ مختلف الحدیث ہونے کی وجہ سے ان دونوں نصوص میں تطبیق دی جائے گی اب اس تطبیق میں جو اصول استعمال کیے جائیں گے ان کی وضاحت بھی ٓگے ان شاءاللہ کی جائے گی کہ وہ اصول بھی شریعت سے ثابت ہوتے ہیں کہ نہیں

3۔اگر دو عدالت کے لئے معتبر گواہ اس قاتل کے ہی قتل کرنے پر ہوں جبکہ دو غیر معتبر گواہ کسی اور کو قاتل بتا رہے ہوں تو عدالت معتبر گواہوں کی گواہی قبول کرے گی
اسی طرح اگر کوئی حدیث ثقہ گواہوں کی وجہ سے صحیح ہو تو پھر اسکے خلاف ایسی حدیث کا اعتبار نہیں کیا جائے گا جس کے گواہ غیر ثقہ ہوں

4۔اگر دو معتبر گواہ کہ رہے ہیں کہ اسی قاتل نے اسکو قتل کیا ہے اور دوسرے دو معتبر گواہ کہ رہے ہوں کہ اس قاتل نے اسکو نہیں مارا تو اس سے پہلے والے گواہوں کی گواہی پھر بھی درست رہتی ہے کیونکہ مارنے کا معنی وسیع مفہوم رکھتا ہے جو قتل سے عام ہے
اسی طرح حدیث میں بھی کوئی صحیح حدیث ایک بات کا ذکر ہے اور قرآن میں دوسری بات کا ذکر مگر ایک عام اور دوسری خاص ہے تو دونوں غلط نہیں ہوں گی مثلا اوپر آپ کی بتائی ابن کثیر کے حوالے سے بتائی گئی مسند امام احمد کی روایت کا معاملہ ہو سکتا ہے اسکو البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا اگر دیکھا جائے تو حدیث کے معنی اور قرآن کے معنی میں فرق ہو سکتا ہے یعنی قرآن دیوار پر اوپر سے چڑھ کر جانے یا مکمل سوراخ کرنے کی نفی کرتا ہے اور حدیث میں اسکے برعکس کہا گیا ہے کہ کوشش تو کرتے ہیں مگر استطاعت نہیں پاتے تو ان میں اختلاف کہاں ہے البتہ جو اسلاف ان سارے اصولوں کو مانتے تھے اور کسی غلط فہمی کی وجہ سے کسی چیز کا انکار کر دیا تو انکو منکرین حدیث نہیں کہا جائے گا کیونکہ انکے علم کے مطابق تطبیق نہیں ہو رہی تھی تو زیادہ راجح کی پیروی کی گئی اسی طرح شیخ ابن باز کا سجدے میں جاتے ہوئے ہاتھ پہلے رکھنے والی بخآری کی حدیث کا انکار کرنا اس وجہ سے نہیں جس وجہ سے دوسرے منکرین حدیث کرتے ہیں
جاری ہے
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
اگر کسی روایت کو کسی بنیاد پر ہماری طرف سے رد کیا جاتا ہے تو اس کی کوئی نہ کوئی دلیل موجود ہوتی ہے - اگر بغیر دلیل کے ہماری طرف سے کوئی روایت رد کی جائے تو وہ یقینا قابل گرفت ہو گی- جہاں روایت کو پرکھنے میں اس کی سند اپنی جگہ اپنی اہمیت رکھتی ہے وہاں متن بھی اسی طرح اہمیت رکھتا ہے - اور یہ ہمارا اپنا خود ساختہ اصول نہیں بلکہ محدثین و مجتہدین کا بنایا ہوا اصول ہے-
محترم بھائی ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ محدثین کے اصولوں کی روشنی میں آپ جس حدیث کو رد کریں گے تو میرا خیال ہے کوئی آپ کی مخالفت نہیں کرے گا
دوسرا آپ کو یہ بھی بتانا ہے کہ اوپر آپ نے کہا کہ کوئی نہ کوئی دلیل رد کرنے کی ہوتی ہے تو اس پر یاد رکھیں کہ
جب حدیث صحیح ثابت ہو جائے تو اسکو اپنی عقل میں نہ آنے کی وجہ سے رد کرنا دلیل کے تحت رد نہیں کہلائے گا بلکہ اسی کو انکار حدیث کہا جائے گا اور اگر محدثین کے اصولوں کے تحت ہی رد کی گئی ہو تو پھر رد کرنے والے کو منکر حدیث نہیں کہا جائے گا اس پر پھر ان شاءاللہ بات ہو گی جزاکم اللہ خیرا
 
Last edited:
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
بھائی بات بالکل سادھی سی ہے، ایک ہے وہ انسان جو علم رکھتا ہے، اور علم رکھنے کے بعد تنقید علمی بنیادوں پر کرتے ہوئے اجتھادی غلطی کا مرتکب ہوتا ہے، اور اس کے منہج سے واضح ہوتا ہے کہ اس کا رجحان قبول احادیث میں کس طرف ہے، انکار کی طرف، یا قبول کی طرف، تو ایسی صورت میں اس کو ایک اجتہادی غلطی سمجھا جاتا ہے۔
اور دوسری طرف ایک انسان ہے، جس کا علم حدیث سے تعلق دور کی بات، عربی زبان سے بھی نا واقف ہے، اور اس لا علمی میں وہ احادیث پر تنقید کرنے بیٹھ جاتا ہے، اور اس پر حق واضح کرنے کے بعد بھی ضد پر رہتا ہے اور حق قبول نہیں کرتا، تو یہ انسان منکرِ حدیث کہلاتا ہے۔
ایک بات اور کہ کسی روایت پر نقد کرتے ہوئے ہمیشہ منکرین حدیث کے الفاظ کے چناؤ اور آئمہ حدیث و علماء کے الفاظ کے چناؤ میں ذمین آسمان کا فرق ہوتا ہے، آئمہ حدیث کسی ثقہ راوی کا وہم قرار دیتے ہیں، تو منکرین حدیث اس راوی کو منافق، رافظی اور شیطان جیسے الفاظ سے نواز دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ علم سے کورے منکرین حدیث کسی نا کسی جزباتی ری ایکشن کا شکار ہو کر احادیث پر تنقید کرنے بیٹھ جاتے ہیں، کوئی شیعہ کے اعتراضات سے خوف ذدہ ہے، تو کوئی اسلام کو یہود و نصاری کے بے بنیاد الزامات سے بچانے کے چکر میں اپنے ہی عقائد اور علماء کی نفی کرنے بیٹھ جاتا ہے۔
باقی رہی بات امام ابن کثیر رحمہ اللہ کی، تو کوئی عقل کا اندھا ہی ان کی تفسیر پڑہنے کے بعد ان پر انکار حدیث کا فتویٰ لگا سکتا ہے۔ امام صاحب نے یہاں حدیث کا انکار نہیں کیا، بس حدیث کے ایک حصہ کو راوی کا وہم سمجھا، جب کہ حدیث بالکل مطابق قرآن ہے۔
اس لنک پر جو مسد احمد کی اس حدیث کے ترجمہ میں ڈنڈی ماری ہے، اگر وہ نہ ماری جاتی، تو مسئلہ حل تھا، بس منکرین حدیث کی ایک اور نشانی، کہ حدیث پر تنقید سے آگے نکل کر، حدیث دشمنی پر اتر آتے ہیں۔ الفاظ سخت ہیں، مگر حقیقت یہی ہے:
روایت اس طرح ہے:
یاجوج وماجوج ذو القرنین کی بنائی ہوئی دیوار کو روزانہ کھودتے ہیں، یہاں تک کہ قریب ہوتا ہے کہ سورج کی کرنیں دکھنے لگیں تو ان کا نگران کہتا ہے کہ اب واپس لوٹ چلو، کل ہم اس دیوار کو کھود ڈالیں گے ، لیکن اگلے دن وہ آتے ہیں تو دیوار دوبارہ نہایت مضبوطی سے بند ہو چکی ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا ، یہاں تک کہ جب ان کی قید کی مدت پوری ہو جائے گی اور اللہ تعالیٰ ان کو لوگوں پر مسلط کرناچاہیں گے تو ایک دن وہ دیوار کو کھودیں گے اور قریب ہوگا ہے کہ سورج کی کرنیں دکھنے لگیں تو انکا نگران کہے گا کہ اب واپس چلو، ان شاء اللہ کل ہم اس کو کھود لیں گے۔ ان شاء اللہ کہنے کی وجہ سے جب وہ اگلے دن آئیں گے تو دیوار اسی حالت پر ہوگی جس پر وہ کل اسے چھوڑ کر گئے تھے، چنانچہ وہ اس کو کھود کر باہر نکل آئیں گے۔

روایت میں الفاظ ہیں "إذا كادوا يرون شعاع الشمس"، اس میں "کادوا" کا ترجمہ گول کر کہ دونوں جگہ جناب نے یہ ترجمہ کیا:
1- "یہاں تک کہ جب سوراخ میں سے سورج کی کرنیں اندر آنے لگتی ہیں"
2-"اور جب سورج کی کرنیں اندر آنے لگیں گی"

کادوا، جس کا معنی "تقریباََ، نزدیکََ، کے ہوتا ہے، اس کو گول کر کہ سراخ ثابت کر دیا۔ جب کہ سراخ تقریباََ ہونے کو تھا، نا کہ ہو چکا تھا۔ یہ حدیث بالکل قرآن کے مطابق ہے، کیونکہ اللہ نے فرمایا کہ:

"نہ وہ اس دیوار کو سر کر سکے اور نہ اس میں سوراخ ہی کر سکے:
مطلب کہ وہ اس میں سے کسی بھی طرح باہر نہیں آ سکتے، اور وہ سراخ ہونے سے کیسے رکے رہے، حدیث میں آیا کہ "لیکن اگلے دن وہ آتے ہیں تو دیوار دوبارہ نہایت مضبوطی سے بند ہو چکی ہوتی ہے"، مطلب کہ ان کی کوشش اللہ کے حکم سے ضائع ہوتی رہی، اور قیامت کے دن جب وہ باہر نکلیں گے، تو اللہ کا حکم ہوگا اور وہ دیوار ویسی ہی رہے گی یہاں تک کہ توڑ دی جائے گی۔
اس بات کو بہت سے مترجمین اور محققین تفسیر ابن کثیر نے بیان کیا ہے۔

بس یہ ہے فرق محققین علمائے حدیث اور ایک منکرِ حدیث کی حدیث رسول کی طرف ایپروچ کا۔۔۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
محترم بھائی ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ محدثین کے اصولوں کی روشنی میں آپ جس حدیث کو رد کریں گے تو میرا خیال ہے کوئی آپ کی مخالفت نہیں کرے گا
دوسرا آپ کو یہ بھی بتانا ہے کہ اوپر آپ نے کہا کہ کوئی نہ کوئی دلیل رد کرنے کی ہوتی ہے تو اس پر یاد رکھیں کہ
جب حدیث صحیح ثابت ہو جائے تو اسکو اپنی عقل میں نہ آنے کی وجہ سے رد کرنا دلیل کے تحت رد نہیں کہلائے گا بلکہ اسی کو انکار حدیث کہا جائے گا اور اگر محدثین کے اصولوں کے تحت ہی رد کی گئی ہو تو پھر رد کرنے والے کو منکر حدیث نہیں کہا جائے گا اس پر پھر ان شاءاللہ بات ہو گی جزاکم اللہ خیرا
محترم عبدہ صاحب -

علامہ ابن کثیر رح نے یاجوج ماجوج والی حدیث کو رد کیا ہے- یعنی روایت کی سند صحیح ہے لیکن متن میں خرابی ہے- کیا یہ رد آپ کے خیال میں محدثین کے اصول و ضوابط کے تحت کیا گیا ہے یا "منکرین حدیث" کے اصول کے تحت اس روایت کا انکار کیا گیا ہے؟؟؟ - ہم ایک طالب علم کی حثیت سے امام ابن کثیر رح کے روایت سے متعلق راے یا حکم کو کس معنی میں لیں گے؟؟؟ - کیوں کہ کچھ ممبرز کے نزدیک وہ اس صحیح حدیث کو رد کرنے کی بنا پر منکرین حدیث شمار کیے گئے ہیں؟؟ جیسا کہ لنک کے عنوان سے بھی ظاہر ہو رہا ہے -

http://rashid-exposes-fitnas.webnode.com/news/ibn-kathir-munkir-e-hadith-/
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
جواد بھائی آپ نے یہ کیا ظلم کیا - یہاں پر ایسی بات کرنا ممنوع ہے - ذرا ہوشیار باش -
جی محترم- لگتا تو ایسا ہی ہے-

الله سے دعا ہے کہ مجھ سمیت تمام ممبرز کو اپنی ہدایت سے نوازے - (آمین)
 

راشد166

مبتدی
شمولیت
فروری 12، 2015
پیغامات
3
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
25
ابن کثیر نے کئ احادیث پر اعترا ضات کئے ہیں کہحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نےکعب الاحبار کی بات، نبی پاک کی حدیث بنا دی۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ فِي التَّفْسِيرِ -أَيْضًا-مِنْ رِوَايَةِ ابْنِ جُرَيج قَالَ: أَخْبَرَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ أُمَيَّةَ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَافِعٍ مَوْلَى أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: أَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِي فَقَالَ: "خَلَقَ اللَّهُ التُّرْبَةَ يَوْمَ السَّبْتِ، وَخَلْقَ الْجِبَالَ فِيهَا يَوْمَ الْأَحَدِ، وَخَلْقَ الشَّجَرَ فِيهَا يَوْمَ الِاثْنَيْنِ، وَخَلَقَ الْمَكْرُوهَ يَوْمَ الثُّلَاثَاءِ، وَخَلَقَ النُّورَ يَوْمَ الْأَرْبِعَاءِ، وَبَثَّ فِيهَا الدَّوَابَّ يَوْمَ الْخَمِيسِ، وَخَلَقَ آدَمَ بَعْدَ الْعَصْرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ مِنْ آخِرِ سَاعَةٍ مِنْ سَاعَاتِ الْجُمُعَةِ، فِيمَا بَيْنَ الْعَصْرِ إِلَى اللَّيْلِ".وَهَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَرَائِبِ صَحِيحِ مُسْلِمٍ، وَقَدْ تَكَلَّمَ عَلَيْهِ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ وَالْبُخَارِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ الْحُفَّاظِ، وَجَعَلُوهُ مِنْ كَلَامِ كَعْبٍ، وَأَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ إِنَّمَا سَمِعَهُ مِنْ كَلَامِ كَعْبِ الْأَحْبَارِ، وَإِنَّمَا اشْتَبَهَ عَلَى بَعْضِ الرُّوَاةِ فَجَعَلُوهُ مَرْفُوعًا، تفسیرابن کثیر، جلد ۱، صفحہ ۲۱۵؛ پر سورۃ بقرہ کی آیت ۲۹،

اگرامام مسلم اور نسائی بھی کعب الاحبار کی بات کو نبئ کی بات سمجھے تو پھر صح حديث مشکوک ہو جاتی ہے
 

راشد166

مبتدی
شمولیت
فروری 12، 2015
پیغامات
3
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
25
ابن کثیر نے کئ احادیث پر اعترا ضات کئے ہیں کہحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نےکعب الاحبار کی بات، نبی پاک کی حدیث بنا دی۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ فِي التَّفْسِيرِ -أَيْضًا-مِنْ رِوَايَةِ ابْنِ جُرَيج قَالَ: أَخْبَرَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ أُمَيَّةَ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَافِعٍ مَوْلَى أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: أَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِي فَقَالَ: "خَلَقَ اللَّهُ التُّرْبَةَ يَوْمَ السَّبْتِ، وَخَلْقَ الْجِبَالَ فِيهَا يَوْمَ الْأَحَدِ، وَخَلْقَ الشَّجَرَ فِيهَا يَوْمَ الِاثْنَيْنِ، وَخَلَقَ الْمَكْرُوهَ يَوْمَ الثُّلَاثَاءِ، وَخَلَقَ النُّورَ يَوْمَ الْأَرْبِعَاءِ، وَبَثَّ فِيهَا الدَّوَابَّ يَوْمَ الْخَمِيسِ، وَخَلَقَ آدَمَ بَعْدَ الْعَصْرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ مِنْ آخِرِ سَاعَةٍ مِنْ سَاعَاتِ الْجُمُعَةِ، فِيمَا بَيْنَ الْعَصْرِ إِلَى اللَّيْلِ".وَهَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَرَائِبِ صَحِيحِ مُسْلِمٍ، وَقَدْ تَكَلَّمَ عَلَيْهِ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ وَالْبُخَارِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ الْحُفَّاظِ، وَجَعَلُوهُ مِنْ كَلَامِ كَعْبٍ، وَأَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ إِنَّمَا سَمِعَهُ مِنْ كَلَامِ كَعْبِ الْأَحْبَارِ، وَإِنَّمَا اشْتَبَهَ عَلَى بَعْضِ الرُّوَاةِ فَجَعَلُوهُ مَرْفُوعًا، تفسیرابن کثیر، جلد ۱، صفحہ ۲۱۵؛ پر سورۃ بقرہ کی آیت ۲۹،

اگرامام مسلم اور نسائی بھی کعب الاحبار کی بات کو نبئ کی بات سمجھے تو پھر صح حديث مشکوک ہو جاتی ہے
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436

یہاں بھی ایک بریلوی نے امام ابن تیمیہ رحم الله کے خلاف بہت زبان درازی کی ہے - پلیز جو حوالے اس نے دیے ہیں کیا وہ صحیح ہیں یا صرف اس کی ضد بازی ہے -


لنک یہ ہے

https://www.facebook.com/Islam.kap.3192/posts/1622789137949978?fref=nf





۔​
 
Top