- شمولیت
- نومبر 01، 2013
- پیغامات
- 2,035
- ری ایکشن اسکور
- 1,227
- پوائنٹ
- 425
محترم بھائی اللہ تعالی آپ سے راضی ہو آپ کے اشکالات بہت سے لوگوں کو ہوتے ہیں میں اس پر اپنا نقطہ نظر لکھ دیتا ہوں ہمارے محترم @انس بھائی اس میں مزید اصلاح کر دیں گےمحترم عبدہ بھائی - اپ کے نقطۂ نظر کے انتظار رہے گا-
پہلے میں آپ کی اوپر والی ابن کثیر والی بات بارے بھی بتا دوں کہ وہ میرے علم کے مطابق ابن کثیر منکر حدیث کے زمرے میں نہیں آتے اسکی وجہ آگے وضاحت میں مل جائے گی
محترم بھائی پہلے یہ سمجھ لیں کہ ہم نے اللہ کی اطاعت کرنی ہے اس پر کوئی اختلاف نہیں
اصل اختلاف اس میں ہوتا ہے کہ اللہ کا حکم اور منشاء کیا ہے اور اس تک ہم کیسے پہنچیں گے سارا اختلاف پھر اسی میں ہوتا ہے
اب آپ بتائیں کہ اس کے لئے کیا طریقہ ہو گا آپ نے اصول بتانا ہے کہ اس تک کیسے پہنچیں گے کیا اس میں عقل کا استعمال بالکل ممنوع ہو گا یا نہیں
اس پر اب بحث کرنے کے دو طریقے ہیں
یا تو ہم بالکل نئے سرے سے ہی شروع ہوں جس میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے دلائل اور پھر انکی اتباع کے دلائل سے شروع کر کے آگے اس پر پہنچیں کہ انکی سنت ئیا حدیث کو کیسے لینا ہے
یا دوسرا یہ طریقہ ہے کہ جہاں تک ہمارا اتفاق ہے وہاں تک بغیر دلائل کے پہنچ جائیں اور آگے سے بات شروع کریں کہ اللہ کی بات کو ہم کیسے لیں گے
چونکہ ہمارے درمیان بہت سی چیزوں میں اتفاق ہے تو وقت بچانے کے لئے ہم اس دوسرے طریقے کو ہی لیتے ہیں
1۔اتفاق کے لئے متفقہ بنیادوں کو بھی ماننا
دین اسلام میں ہم کچھ چیزوں پر اتفاق کرتے ہیں لیکن یہاں یہ سوچنا بہت اہم ہے کہ ہم اس اتفاق تک جو پہنچے ہیں تو اس میں بہت سے دلائل کو ہم نے مانا ہے تو انہیں دلائل کو آگے بھی ماننا ضروری ہو گا ورنہ اگر آگے انہیں قسم کے دلائل کو حجت نہ مانیں تو پہلے والے اتفاق تک پہنچنا ہی مشکوک ہو جائے گا
2۔اللہ کے احکامات کے لئے حالات کے مطابق عقل کا استعمال شرعی مطالبہ
دوسرا یہ بھی یاد رکھیں کہ اللہ کے احکامات تو ڈائریکٹ ہوتے ہیں مگر اس تک پہنچنے کے لئے ہمیں کچھ اور معاملات بھی کرنے پڑتے ہیں جن کا اللہ کے حکم میں براہ راست ذکر نہیں ہوتا مگر اسکے بغیر وہ ممکن نہیں ہوتا مثلا کوئی آپ کو پانی لانے کا حکم دیتا ہے اور ساتھ کہتا ہے کہ کوئی اور کام نہ کرنا تو آپ کو گلاس ڈھونڈنے کا کام اگر کرنا پڑے تو وہ بھی اس حکم کے تحت ہو گا یہاں یہ بھی یاد رہے کہ اس میں عقل کا بہترین استعمال کرنا بھی ضروری ہے یعنی آپ پانی لانے کے لئے گلاس ہی ڈھونڈیں گے کاغذ میں پانی نہیں لے کر آئیں گے اب اگر کوئی کاغذ میں پانی لے کر آ جائے جو گر بھی رہا ہو تو اسکو کہا جائے کہ آپ اس میں کیوں لے کر آئے گلاس میں کیوں نہیں لائے تو وہ آگے سے کہے کہ مجھے تو یہ نہیں کہا گیا تھا کہ گلاس میں نہ لاؤ تو اسکو کہا جائے گا کہ کامن سینس بھی کوئی چیز ہوتی ہے اسی طرح دین میں بھی کامن سینس کا استعمال شرعی طور پر مطلوب ہے اور اسکے لئے حالات کو بھی ذہن میں رکھا جاتا ہے اورحکم دینے والے وقت کے حالات کی بجائے حکم پر عمل کرنے والے وقت کے حالات کو مدنظر رکھا جاتا ہے جیسا کہ واعدو لھم مااستطعتم پر عمل اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تیر کی مشک سے کیا تھا اور اسکی ترغیب دی تھی مگر اب اس پر عمل اپنے عقل سے ہم ایٹم بم وغیرہ سے کریں گے
3۔جج کے لئے شریعت کے مطابق فیصلہ کرنے کے لئے بنیادیں
جج کو دیکھتے ہیں کہ اسکو اللہ کی منشا تک پہنچے کے لئے اپنے فیصلوں کو قرآن و حدیث سے ہے حل کرنا ہو گا مگر ساتھ ساتھ کچھ لوگوں کی گواہی کو بھی اس فیصلے میں اس طرح ماننا ہو گا گویا کہ یہ اللہ کی منشاء ہی ہے مثلا کوئی قتل کر دیتا ہے تو اسکو قرآن کی اس آیت کی پیروی کرنی ہو گی کہ ولکم فی القصاص حیاۃ---- مگر اس پر عمل کے لئے لازمی طور پر اسکو دو گواہوں کی گواہی کو بھی اسی طرح شریعت کا حصہ ماننا ہو گا جس طرح قصاص کو شریعت کا حصہ مانا
4۔گواہی میں غلطی کے امکان کی حیثیت
یہ بھی یاد رہے کہ جج کے لئے اوپر 3 نمبر کے مطابق فیصلہ کرنے میں غلطی ضرور ہو سکتی ہے اور اس غلطی میں لازمی کردار صرف گواہی کا ہو گا کیونکہ جب دو گواہ گواہی دے دیں گے تو پھر اگر انکی گواہی درست ہو گی تو پھانسی دینے کا فیصلہ غلط نہیں ہو سکتا اگر کوئی اور دیت یا معافی وغیرہ کا معاملہ نہ ہو لیکن یاد رکھیں کہ اس غلطی کے امکان کی وجہ سے گواہیوں کو ساقط نہیں کیا جا سکتا بلکہ فقہاء نے تو اسی قرآن و سنت کی روشنی میں یہ اصول بنا دیا کہ لنا الحکم علی الظاہر وربنا یتولی السرائر یعنی ہم ظاہر کے مطابق عمل کریں گے اور کسی غلطی کے امکان سے نہیں ڈریں گے جیسا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بھی آتی ہے کہ جب دو بندوں میں فیصلہ ہو رہا تھا کہ اگر کوئی مجھ سے اپنی باتوں کی وجہ سے فیصلہ اپنے حق میں کروا گیا تو آخرت کے نقصان کا وہ خود ہی ذمہ دار ہو گا یہاں یہ بھی یاد رکھیں کہ گواہ کی جب ہم گواہی مانتے ہیں تو اس سے مراد ہمیں جس چیز کا مکلف بنایا گیا ہے اس پر ہم عمل کر رہے ہیں اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ گواہ 100 فیصد سچا ہو گا ہمیں اللہ نے اسکا مکلف ہی نہیں بنایا
نوٹ: ابھی جلدی میں محترم محمد علی جواد بھائی کے کہنے پر کیا تو ربط صحیح نہیں بعد میں اسکو بھائیوں کی اصلاح کے بعد ربط بھی دے دوں گا ان شاءاللہ
جاری ہے
Last edited: