• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انکار حق کی وجوہات !!!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
دنیاوی مال ومتاع کی طمع و لالچ:

بعض اوقات انسان حق کو پالیتا ہے،قبول حق کے لیے خود کو تیار بھی کرلیتا ہے اور اس کے لیے تگ و دو بھی شروع کردیتا ہے ۔ادھر شیطان بھی اس کے تعاقب میں لگ جاتا ہے اور اسے حق سے دور کرنے کے لیے طرح طرح کے وساوس اس کے ذہن میں ڈالتا ہے ،دنیوی اشیاء اور مال ومتاع کی چکا چوند سے اسے مرعوب کرنے کو کوشش کرتا ہے۔کامل ایمان والے ان شیطانی ہتھکنڈوں سے متاثر نہیں ہوتے ،لیکن درہم ودینار کے بندے بہت جلد اس سے متاثر ہوتے ہیں اور حق کے بدلے ضلالت کو خرید لیتے ہیں۔مال و دولت میں اللہ تعالیٰ نے بڑی کشش رکھی ہے ۔یہ بہت سے لوگوں کے قلوب و اذہان کے دھارے کو تبدیل کردیتا ہے ۔اس لیے نبیﷺ مال کے فتنے سے پناہ مانگا کرتے تھے، کیونکہ مال و دولت کی حرص کا حصول انسان کو حق گوئی سے روک دیتا ہے اور قبول حق کی راہ میں حجاب بن جاتا ہے یہی حال معروف عرب شاعر اعشیٰ بن قسی کا تھا شاعری میں یہ اپنی مثال آپ تھا اس کے دل میں قبول اسلام کا خیال پیدا ہوا ، چنانچہ یہ یمامہ کے علاقے نجد سے نکلا اور مدینہ کی راہ لی اس نے نبیﷺ سے ملاقات کرکے اسلام قبول کرنے کا مصمم ارادہ کرلیا ۔راستے میں یہ اپنی سواری پر سوار آقائے دوجہاںﷺکی مدح وستائش میں یہ اشعار پڑھ کر گنگناتا رہا:

ألم تغتمض عيناک ليلة أرمد
اوبت کما بات السليم مسهّدا
ألا أيهذا السائلی اين يمت
فان لها فی أهل يثرب موعدا
نبيا يری مالا ترون وذکره
أغار لعمری فی ألبلاد وأنجدا
أجدک لم تسمع وصاة محمد
نبی الإ له حيث أوصی وأشهدا
إذاأنت لم ترحل بزاد من التقی
ولا قَيتَ بعد الموت مَنْ قد تزودا
ندمت علی أن لا تکون کمثله
فترصد للأمر الذی کا ن أرصد

"کیا تیری آنکھیں خراب ہونے کی وجہ سے نیند سے دور نہیں رہیں اور تو نے ایسے رات گزاری ہے جیسے سانپ کا ڈسا ہوا بے خواب شخص رات گزارتا ہے ۔اے میری سواری کے بارے میں پوچھنے والے! کہ اس نے کہاں کا رادہ کیا ہے؟ اسے چھوڑ دو، کیونکہ اس کے وعدے کی جگہ یثرب ہے ۔وہاں ایسا نبی (ﷺ) ہے جو ان چیزوں کو دیکھتا ہے جنہیں تم نہیں دیکھتے ۔میری عمر کی قسم!اس کے ذکر کا شہرشہر چرچا ہے اور خوب بلند ہے ۔میں تجھے دیکھتاہوں کہ تم محمد(ﷺ)کی وصیت پر کان نہیں دھرتے ہو،حالانکہ وہ اللہ کا نبی (ﷺ) ہے ،اللہ نے اس کو ماننے کی وصیت کی ہے اور اس پر گواہی دی ہے۔اگر تو تقوی کو زادراہ نہیں بنائے گا تو (یادرکھنا) موت کے بعد ہر شخص کو وہی ملے گا جو اس نے زاد راہ لیا ہو گا۔ تم اس جیسے کیوں نہیں ہو، نادم نہ ہو بلکہ اس کے حکم کے تابع ہوجاوٴ جسے وہ(محمدﷺ)لے کر آیا ہے۔"

جب یہ مدینے کے قریب پہنچا تو کچھ مشرکین کو اس کی خبر ہوگئی۔وہ اس سے ملے اور پوچھنے لگے کہ کہاں جارہے ہو؟ اعشیٰ کہنے لگا:رسول اللہﷺسے مل کر اسلام (حق) قبول کرنا چاہتا ہوں۔مشرکین بڑے پریشان ہوئے۔وہ تو حضرت حسان بن ثابت کی شاعری کا جواب دینے سے عاجز تھے۔اب اگر اعشیٰ جیسا قادر الکلام شاعر بھی حلقہ بگوش اسلام ہوگیا تو جلتی پر تیل ڈالنے کے مترادف ہوگااور قوت اسلام کو روکنا ان کے بس میں نہیں ہوگا،چنانچہ وہ اعشیٰ سے کہنے لگے:اعشیٰ تمہارے اباوٴ اجداد کا دین اس کے دین سے کہیں بہتر ہے ۔اعشیٰ کہنے لگا:نہیں،اس کا دین ان کے دین سے بہتر ہے۔مشرکین ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے اور مشورہ کرنے لگے کہ اس کو قبول اسلام سے کیسے روکا جائے ۔اب وہ کہنے لگا:اعشیٰ!محمدﷺ تو زنا کوحرام قراردیتا ہے؟ وہ کہنے لگا :کوئی بات نہیں میں بوڑھا ہوچکا ہوں ،اب مجھے عورتوں سے کوئی سروکار نہیں ہے ۔مشرکین کہنے لگے: و ہ شراب کو بھی حرام قرار دیتا ہے ۔اعشیٰ کہنے لگا:مجھے شراب سے بھی کوئی غرض نہیں ،شراب عقل انسانی کو ختم کر دیتی ہے اور انسان کو ذلیل ورسوا کردیتی ہے۔جب مشرکین نے دیکھا کہ اعشیٰ قبول اسلام کا مصمم ارادہ کرچکا ہے تو انہوں نے اسے دنیاوی مال ومتاع کی لالچ سے زیر کرنا چاہا،چنانچہ وہ کہنے لگے:اعشیٰ!اگر تم اسلام قبول کیے بغیر واپس اپنے گھرجاوٴ گے تو ہم تمہیں سو اونٹ دیں گے۔ اس پیشکش نے اس کس عقل پر پردہ ڈال دیا اور وہ غور وفکر کرنے لگا اور کچھ دیر کے بعد بولا :اگر تم مجھے اس قدر مال دو تو میں تمہاری بات مان سکتا ہوں۔

مشرکین نے اسے سو اونٹ دے دیے اور اس نے قبول اسلام کا اردہ ترک کردیا اور واپس اپنے اہل وعیال کی طرف رواں دواں ہوگیا۔ اپنے آگے چلتے سو(۱۰۰) اونٹ دیکھ کر وہ دل ہی دل میں بڑا خو ش ہورہا تھا اور تقدیر الہٰی اس کی گھات میں تھی،چنانچہ وہ اپنے وطن سے کچھ میل کے فاصلے پر تھا کہ اونٹ سے گر پڑا اور اس کی گردن ٹوٹ گئی اور وہیں جہنم واصل ہوگیا۔

(سیرت ابن ہشام:۱/۳۸۶۔۳۸۸)

اور اس طرح دنیاوی ومال واسباب کو حق پر ترجیح دینے والا ہمیشہ کے لیے دنیا چھوڑگیا۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
عدم خوداعتمادی:

بعض اوقات انسان عجیب مخمصے کا شکار ہوجاتا ہے،اسے صاف نظر آرہا ہوتاہے کہ حق کیا ہے ،وہ لوگوں کو اسے تسلیم کرنے کی ترغیب و تاکید بھی کرتا ہے ،مشکل اوقات میں حق کا ساتھ بھی دیتا ہے ،بلکہ اس کی خاطر سردھڑ کی بازی بھی لگا دیتا ہے، لیکن عدم خود اعتمادی کی وجہ سے بزبان خود اس کا اظہار نہیں کرتا اور حق کی خاطر اس قدر قربانی دینے کے باوجود مخالفین و معاندین میں شمار ہوتا ہے ۔

یہی حال مخیریق یہودی کا تھا۔ مخیریق یہودی عالم اور نہایت مالدار شخص تھا۔اپنی کتابوں کی رو سے رسو ل اللہ ﷺکی صفات سے خوب واقف تھا۔جب احد کی جنگ کا موقع آیا تو وہ ہفتہ کا دن تھا۔ مخیریق نے یہودیوں سے کہا :یا معشر یہود!انکم لتعلمون ان نصر محمد علیکم لحق ۔"اے گروہ یہود!تم جانتے ہو کہ محمدﷺ کی مدد کرنا تم پر فرض ہے ۔"

یہودی کہنے لگے ! آج تو ہفتہ کا دن ہے ۔ مخیریق نے کہا :ہفتہ سے تمہارا کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ یہودیوں نے اس کی بات کو نہ مانا تو اس نے اپنا ہتھیار لیا اور رسول اللہﷺکی خدمت میں حاضر ہوا۔ رسول اللہﷺ اس وقت احد میں تشریف فرما تھے ۔جب مخیریق اپنی قوم سے جانے لگا تو انہیں یوں وصیت کی:

"ان قتلت هذا اليوم۔فاموالی لمحمد يضع فيها ما اراده الله""

اگر آج میں قتل کردیا جاوٴ ں تو میرا سارا مال محمدﷺکو دے دینا ،وہ جیسے چاہیں،اس میں تصرف کریں۔"

چنانچہ مخیریق میدان احد میں داد شجاعت دیتے ہوئے قتل ہوگیا۔ رسول اللہﷺنے اس کا سارا مال اپنے تصرف میں لے لیا اور مدینے میں آپ کے تمام اخراجات اسی سے ادا ہوتے تھے۔رسول اللہ ﷺفرمایا کرتے تھے:"مخيريق خير يهود"'مخیریق بہترین یہودی تھا۔"


(سیرة ابن ہشام:۲/۵۱۸)

دیکھیے !مخیریق جان ومال سب کچھ اسلام کی خاطر قربان کرگیا لیکن زبان سے اعلان حق نہ کرنے کی وجہ سے حلقہٴ یہود سے نہ نکل سکا۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
احساس کمتری کا شکار ہونا :

احساس کمتری کا شکار ہونا بھی انحراف کی وجوہ میں داخل ہے ۔ دور حاضر میں جہاں مغربی ثقافتی یلغار نے سختی سے امتِ مسلمہ میں اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں،جس سے بہت سے کمزور ایمان والے متاثر ہوئے،ان میں سے اکثریت نوجوانوں کی ہے۔ بہت سے نوجوان اس وجہ سے اسلامی شعائر سے روگردانی کرتے ہیں کہ لوگ بالخصوص مغرب زدہ، اس کو اچھا نہیں جانتے۔ داڑھی رکھ لی تو لوگ مولوی کہیں گے،شلوار ٹخنوں سے اوپر ہوئی تو لوگ قدامت پسند کہیں گے۔ بال سنت کے مطابق بڑے کر لیے تو لوگ دہشت گرد کہیں گے،وغیرہ۔چنانچہ احساس کمتری کا شکار ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ صحیح بات کو اپنانے سے اعراض کرتے ہیں۔

یہ وجوہات ہیں جو عام طور پر قبول حق کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ہر شخص کو اپنا محاسبہ کرنا چاہیے اور جائزہ لینا چاہیے کہ کہیں وہ ان میں سے کسی وجہ کامرتکب ہو کر حق کامنکر تونہیں ہورہا۔سچے مسلمانوں کا شیوہ ہوتا ہے کہ جب اسے اچھی بات سنائی دیتی ہے تو وہ فوراً اس کو قبول کرلیتاہے ۔

اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی یوں تعریف فرمائی ہے:

﴿الذين يستمعون القول فيتبعون أحسنه۔أولئک الذين هداهم الله وأولئک هم أولوالألباب﴾(الزمر:۱۸)

"وہ لوگ جو کان لگا کر بات سنتے ہیں پھر اس میں سب سے اچھی بات کی پیروی کرتے ہیں،یہی لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت د ی اور یہی عقلوں والے ہیں۔"

اللهم ارنا الحق حقه وارزقنا اتباعه وارنا الباطل باطله وارزقنا اجتنابه۔
 
Top