محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
دنیاوی مال ومتاع کی طمع و لالچ:
ألم تغتمض عيناک ليلة أرمد
اوبت کما بات السليم مسهّدا
ألا أيهذا السائلی اين يمت
فان لها فی أهل يثرب موعدا
نبيا يری مالا ترون وذکره
أغار لعمری فی ألبلاد وأنجدا
أجدک لم تسمع وصاة محمد
نبی الإ له حيث أوصی وأشهدا
إذاأنت لم ترحل بزاد من التقی
ولا قَيتَ بعد الموت مَنْ قد تزودا
ندمت علی أن لا تکون کمثله
فترصد للأمر الذی کا ن أرصد
اوبت کما بات السليم مسهّدا
ألا أيهذا السائلی اين يمت
فان لها فی أهل يثرب موعدا
نبيا يری مالا ترون وذکره
أغار لعمری فی ألبلاد وأنجدا
أجدک لم تسمع وصاة محمد
نبی الإ له حيث أوصی وأشهدا
إذاأنت لم ترحل بزاد من التقی
ولا قَيتَ بعد الموت مَنْ قد تزودا
ندمت علی أن لا تکون کمثله
فترصد للأمر الذی کا ن أرصد
"کیا تیری آنکھیں خراب ہونے کی وجہ سے نیند سے دور نہیں رہیں اور تو نے ایسے رات گزاری ہے جیسے سانپ کا ڈسا ہوا بے خواب شخص رات گزارتا ہے ۔اے میری سواری کے بارے میں پوچھنے والے! کہ اس نے کہاں کا رادہ کیا ہے؟ اسے چھوڑ دو، کیونکہ اس کے وعدے کی جگہ یثرب ہے ۔وہاں ایسا نبی (ﷺ) ہے جو ان چیزوں کو دیکھتا ہے جنہیں تم نہیں دیکھتے ۔میری عمر کی قسم!اس کے ذکر کا شہرشہر چرچا ہے اور خوب بلند ہے ۔میں تجھے دیکھتاہوں کہ تم محمد(ﷺ)کی وصیت پر کان نہیں دھرتے ہو،حالانکہ وہ اللہ کا نبی (ﷺ) ہے ،اللہ نے اس کو ماننے کی وصیت کی ہے اور اس پر گواہی دی ہے۔اگر تو تقوی کو زادراہ نہیں بنائے گا تو (یادرکھنا) موت کے بعد ہر شخص کو وہی ملے گا جو اس نے زاد راہ لیا ہو گا۔ تم اس جیسے کیوں نہیں ہو، نادم نہ ہو بلکہ اس کے حکم کے تابع ہوجاوٴ جسے وہ(محمدﷺ)لے کر آیا ہے۔"
جب یہ مدینے کے قریب پہنچا تو کچھ مشرکین کو اس کی خبر ہوگئی۔وہ اس سے ملے اور پوچھنے لگے کہ کہاں جارہے ہو؟ اعشیٰ کہنے لگا:رسول اللہﷺسے مل کر اسلام (حق) قبول کرنا چاہتا ہوں۔مشرکین بڑے پریشان ہوئے۔وہ تو حضرت حسان بن ثابت کی شاعری کا جواب دینے سے عاجز تھے۔اب اگر اعشیٰ جیسا قادر الکلام شاعر بھی حلقہ بگوش اسلام ہوگیا تو جلتی پر تیل ڈالنے کے مترادف ہوگااور قوت اسلام کو روکنا ان کے بس میں نہیں ہوگا،چنانچہ وہ اعشیٰ سے کہنے لگے:اعشیٰ تمہارے اباوٴ اجداد کا دین اس کے دین سے کہیں بہتر ہے ۔اعشیٰ کہنے لگا:نہیں،اس کا دین ان کے دین سے بہتر ہے۔مشرکین ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے اور مشورہ کرنے لگے کہ اس کو قبول اسلام سے کیسے روکا جائے ۔اب وہ کہنے لگا:اعشیٰ!محمدﷺ تو زنا کوحرام قراردیتا ہے؟ وہ کہنے لگا :کوئی بات نہیں میں بوڑھا ہوچکا ہوں ،اب مجھے عورتوں سے کوئی سروکار نہیں ہے ۔مشرکین کہنے لگے: و ہ شراب کو بھی حرام قرار دیتا ہے ۔اعشیٰ کہنے لگا:مجھے شراب سے بھی کوئی غرض نہیں ،شراب عقل انسانی کو ختم کر دیتی ہے اور انسان کو ذلیل ورسوا کردیتی ہے۔جب مشرکین نے دیکھا کہ اعشیٰ قبول اسلام کا مصمم ارادہ کرچکا ہے تو انہوں نے اسے دنیاوی مال ومتاع کی لالچ سے زیر کرنا چاہا،چنانچہ وہ کہنے لگے:اعشیٰ!اگر تم اسلام قبول کیے بغیر واپس اپنے گھرجاوٴ گے تو ہم تمہیں سو اونٹ دیں گے۔ اس پیشکش نے اس کس عقل پر پردہ ڈال دیا اور وہ غور وفکر کرنے لگا اور کچھ دیر کے بعد بولا :اگر تم مجھے اس قدر مال دو تو میں تمہاری بات مان سکتا ہوں۔
مشرکین نے اسے سو اونٹ دے دیے اور اس نے قبول اسلام کا اردہ ترک کردیا اور واپس اپنے اہل وعیال کی طرف رواں دواں ہوگیا۔ اپنے آگے چلتے سو(۱۰۰) اونٹ دیکھ کر وہ دل ہی دل میں بڑا خو ش ہورہا تھا اور تقدیر الہٰی اس کی گھات میں تھی،چنانچہ وہ اپنے وطن سے کچھ میل کے فاصلے پر تھا کہ اونٹ سے گر پڑا اور اس کی گردن ٹوٹ گئی اور وہیں جہنم واصل ہوگیا۔
(سیرت ابن ہشام:۱/۳۸۶۔۳۸۸)
اور اس طرح دنیاوی ومال واسباب کو حق پر ترجیح دینے والا ہمیشہ کے لیے دنیا چھوڑگیا۔