قیصر عباس
رکن
- شمولیت
- دسمبر 13، 2020
- پیغامات
- 15
- ری ایکشن اسکور
- 3
- پوائنٹ
- 31
*تحقیق حدیث :*
*قیصر عباس عطاری*
*انگوٹھے چومنے والی حدیث کا حکم*
*حدیث مبارکہ*
عن ابی بکر الصدیق رضی اللّٰہ عنہ انہ لما سمع قول المؤذن : أشهد أن محمدا رسول الله قال ھذا و قبل باطن الانملتین السبابتین و مسح عینیہ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : من فعل ذلك فقد حلت عليه
شفاعتي۔۔۔
*حوالہ جات:*
(ذکرہ الدیلمی فی الفردوس، الاسرار المرفوعہ جلد 1 صفحہ 306 حدیث 435، المقاصد الحسنہ صفحہ 604 حدیث 1021, کشف الخفاء جلد 2 صفحہ 241 حدیث 2296)
*اسانید:*
اگرچہ اس حدیث کی سند تک محدثین کرام کو رسائی نہ ہو سکی تاہم اس حدیث کو بہت سارے آئمہ محدثین نے اپنی کتابوں میں بغیر سند کے ذکر کیا ہے۔
*شواہد و آثار:*
اس حدیث کے کئی آثار مقاصد حسنہ میں بیان کیے گئے ہیں جن میں سے کچھ ذیل میں عرض کیے جاتے ہیں ۔
1۔۔۔حضرت خضر علیہ السلام سے بھی اسی کی مثل منقول ہے جیسا کہ *امام سخاوی* نے لکھا ہے کہ
وكذا ما أورده أبو العباس أحمد بن أبي بكر الرداد اليماني المتصوف في
کتابه و موجبات الرحمة وعزائم المغفرة ، بسند فيه مجاهيل مع انقطاعه عن
الخضر عليه السلام أنه : من قال حين يسمع المؤذن يقول أشهد أن محمدا
رسول الله : مرحبا بحبيبي وقرة عيني محمد بن عبد الله ، ثم يقبل ابهاميه
ويجعلهما على عينيه - لم يرصد أبدا
اس کے بعد امام سخاوی ایک اور اثر لائے ہیں کہ اس طرح کرنے سے آنکھوں کے مسئلے سے شفاء مل گئی تھی۔آپ لکھتے ہیں کہ
ثم روی بسند فيه من لم أعرفه عن أخي الفقيه محمد بن البابا ، فيما
حکی عن نفسه : أنه هبت ريح فوقعت منه حصاة في عينه ، فأعياه خروجها ،
والمته أشد الألم ، وأنه لما سمع المؤذن يقول أشهد أن محمدا رسول الله قال ذلك ، فخرجت الحصاة من فوره ، قال الرداد : وهذا يسير في جنب فضائل الرسول الا
اسی طرح آپ نے ایک اور اثر بیان کیا ہے کہ
وحكى الشمس محمد بن صالح المدني امامها وخطيبها في تاريخه ، عن
المجد أحد القدماء من المصريين ، أنه سمعه يقول : من صلى على النبي ﷺ
إذا سمع
ذكره في الأذان ،
وجمع
أصبعيه المسبحة والابهام وقبلهما ومسح بهما
عينيه ، لم يرقد أبدا
اور اسی کی تائید میں یہ بھی لے کر آئے ہیں کہ
قال ابن صالح : وسمعت ذلك أيضا من الفقيه محمد بن الزرندي
، عن
بعض شيوخ العراق أو العجم : أنه يقول عندما يمسح عينيه : صلى الله عليك يا
سيدي يا رسول الله يا حبيب قلبي ويا نور بصري ويا قرة عيني ، وقال لي : كل
منهما منذ فعله لم ترمد عيني۔۔۔
اس کے بعد بھی آپ نے دو آثار ذکر کیے ہیں
*وبعدہ:*
اور انہی آثار کو *امام عجلونی* نے کشف الخفاء میں بھی ذکر کیا ہے۔۔۔۔
*ملا علی قاری:*
ملا علی قاری نے بھی اس حدیث کو الاسرار المرفوعہ میں ذکر کیا ہے
اور اس کے بعد حضرت خضر علیہ السلام والی روایت کو بھی ذکر کیا ہے
اس کے ملا علی قاری اپنا ذاتی موقف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
"قلت و اذا ثبت رفعہ علی الصدیق فیکفی العمل بہ لقولہ علیہ السلام *علیکم بسنتی و سنة الخلفاء الراشدین*۔
ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ
جب اس حدیث کا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے مرفوع ہونا ثابت ہو گیا ہو تو پس اس حدیث پر عمل کرنے کےلیے یہی ہی کافی ہے نبی علیہ السلام کے اس فرمان کی وجہ سے کہ
"تم پر میری اور میرے خلفائے راشدین کی سنت کو پکڑنا لازم ہے"
پس ثابت ہوا کہ یہ جائز ہے کہ ملا علی قاری نے اس کے جواز کا قول کیا ہے۔۔
یعنی کہ ملا علی قاری اس حدیث کو درجہ ضعف پہ رکھا ہے۔
*اعتراضات :*
دیابنہ اور وہابیہ اس حدیث پر امام سخاوی کے قول *لا یصح* کو لے کر ڈھنڈورا پیٹتے ہیں حالانکہ لا یصح کے الفاظ کسی بھی حدیث کے بطلان و وضع کو مسلتزم نہیں ہیں بلکہ لا یصح سے اس حدیث کی صحة کی نفی ہے اور محققین کے علم میں یہ بات واضح طور پہ موجود ہے کہ صحیح اور موضوع کے درمیان بہت سارے واسطے ہیں اور خاص *لا یصح* کے حوالے سے بھی آئمہ محدثین کے کثیر اقوال موجود ہیں لیکن میں یہاں پر طوالت کے خوف کی وجہ سے چند حوالے ہی نقل کرتا ہوں
*امام ابن ححر عسقلانی* فرماتے ہیں کہ
"من نفی الصحة لاینتفی الحسن"
(نتائج الفکار فی تخریج احادیث الاذکار)
*ملا علی قاری* موضوعات کبیر میں فرماتے ہیں کہ
لایصح لاینافی الحسن
شیخ محقق شرح صراط مستقیم میں فرماتے ہیں کہ
"اصطلاح محدثین میں عدم صحت کا ذکر غرابت کا حکم نہیں رکھتا کیونکہ حدیث کا صحیح ہونا اس کا اعلی ترین درجہ ہے"
ان کے علاوہ بھی کئی محدثین نے اس کی تصریح فرمائی ہے
اور دوسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اس کی سند مذکور نہیں ہے لہذا یہ حدیث موضوع ہے حالانکہ یہ بات بھی درست نہیں ہے کہ ایسا مطلق نہیں ہے کہ جس بھی حدیث کی سند ذکر نہ ہو تو وہ وضع کو ہی مستلزم ہے اس پر بھی چند تصریحات ذکر کرتا ہوں تاکہ حق واضح ہو جائے ۔
*اعلی حضرت فاضل بریلوی* نے اپنے رسالے منیر العین فی حکم تقبیل الابہامین میں اس اعتراض کا وسیع جواب دیا آپ نے باقاعد اس حوالے سے ایک *فائدہ* نامی فصل قائم کی جس کا نام *"حدیث بے سند مذکور علماء کے قبول میں نفیس و جلیل احقاق اور اوہام قاصرین زماں کا ابطال و ازہاق"* رکھا جسے اختصار کے ساتھ نقل کرنے کی کوشش کرتا ہوں
آپ نے لکھا کہ
"غیر صحابی جو قول یا فعل یا حال حضور سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بے سند متصل نسبت کرے محدثین کے نزدیک باختلاف حالات و اصطلاحات مرسل،منقطع،معلق معضل ہے اور فقہاء اصولین کی اصطلاح ميں سب کا نام مرسل اصطلاح حدیث پر تعلیق و اعضال یا اصطلاح فقہ و اصول پر ارسال میں کچھ بعض سند کا ذکر ہر گز لازم نہیں بلکہ تمام وسائط حذف کرکے علمائے مصنفین جو قال یا فعل رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم وامثال ذلک کہتے ہیں یہ بھی معضل و مرسل ہے
*امام اجل ابن صلاح* کتاب معرفة انواع علم الحدیث میں فرماتے ہیں کہ
معضل حدیث وہ ہوتی ہے جس کے سند سے دو یا دو
سے زائد راوی ساقط ہوں مثلا وہ جسے تبع تابعی یہ کہتے ہوئے روایت کرے کہ رسول اکرم صلی اللہ تعالى وآلہ وسلم نے فرمایا ، اور اسی طرح وہ روایت ہے
تبع تابعی کے بعد کا کوئی شخص حضور علیہ السلام سے
یا ابوکر وعمریا دیگر کسی صحابی سے حضور اور صحابہ کے درمیان واسطہ ذکر کیے بغیر روایت کرے۔۔۔
پھر آگے جا کر ارشاد فرمایا کہ
*"پھر باجماع محدثین و علماء فقہاء یہ سب انواع نوعِ موضوع سے بیگانہ ہیں اور مادون الاحکام مثل فضائل اعمال ومناقب رجال و سیرو احوال میں سلفا خلفا مأخؤذ و مقبول"*
اور سند کے بارے میں امام سفیان ثوری و عبداللہ بن مبارک رحمہما اللہ کے کلام دربارہ عقائد و احکام ہیں"
اور مزید مسلم الثبوت کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ
مرسل اگر صحابی کی ہو تو مطلقا اتفاقا اسے قبول کیا جائے گا اور غیرصحابی کی مرسل کے بارے میں اکثر علماء جن میں امام اعظم ابو حنیفہ ، امام مالک اور امام احمد رضی الله تعالی عنہم ہیں، کی رائے
یہ ہے کہ مطلقا مقبول ہے بشرطیکہ راوی ثقہ ہو ، ابن ابان رحمہ الله تعالی جو ہمارے مشائخ کرام میں سے ہیں فرماتے ہیں کہ قرون ثلثہ ( تین زمانوں) کی مرسل مطلا مقبول ہے اور تین قرون کے بعد ائمہ قتل کی مرسل کبھی مقبول ہے، متاخرین کی ایک جماعت جن میں ابن حاجب مالکی اور شیخ کمال الدین بن الہمام ہم سے (یعنی احناف سے) کی رائے یہ ہے کہ ائمہ نقل کی مرسل مطلقا قبول ہے
( فتاوی رضویہ جلد 5 منیر العین فی حکم تقبیل الابہامین صفحہ 625 تا 629 )
لہذا مذکورہ بالا تصریحات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہو گیا کہ یہ حدیث موضوع نہیں بلکہ ضعیف ہے اور بمطابق قول ملا علی قاری فضائل اعمال میں ضعیف احادیث پر عمل باجماع درست ہے۔
اور آخر میں ایک قاعدہ اور بھی بیان کرتا چلوں کہ جس حدیث ضعیف پر اہل علم کا عمل ہو تو وہ بھی مزید قوت پاتی ہے لہذا مذکورہ حدیث پر عمل کے جواز سے امتناع سراسر جہالت ہے۔
وہ *کتب احادیث* جن میں اس حدیث کو ذکر کیا گیا ہے درج ذیل ہیں۔۔
1۔۔۔مقاصد حسنہ
2۔۔۔الاسرار المرفوعہ
3۔۔۔کشف الخفاء
4۔۔۔المنتقی
5۔۔۔تذکرة الموضوعات
6۔۔۔اللؤلؤ
7۔۔۔الاتقان
8۔۔۔المصنوع
9۔۔۔التمییز
*حکم الروایہ:*
ضعیف ولکن یعمل بہ لان ھذا موجود فی فضائل اعمال و ایضا انہ قوی بعمل اہل العلم۔
واللہ اعلم بالصواب وارجو العفو بالتواب
*تحقیق:*
*قیصر عباس عطاری*
*قیصر عباس عطاری*
*انگوٹھے چومنے والی حدیث کا حکم*
*حدیث مبارکہ*
عن ابی بکر الصدیق رضی اللّٰہ عنہ انہ لما سمع قول المؤذن : أشهد أن محمدا رسول الله قال ھذا و قبل باطن الانملتین السبابتین و مسح عینیہ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : من فعل ذلك فقد حلت عليه
شفاعتي۔۔۔
*حوالہ جات:*
(ذکرہ الدیلمی فی الفردوس، الاسرار المرفوعہ جلد 1 صفحہ 306 حدیث 435، المقاصد الحسنہ صفحہ 604 حدیث 1021, کشف الخفاء جلد 2 صفحہ 241 حدیث 2296)
*اسانید:*
اگرچہ اس حدیث کی سند تک محدثین کرام کو رسائی نہ ہو سکی تاہم اس حدیث کو بہت سارے آئمہ محدثین نے اپنی کتابوں میں بغیر سند کے ذکر کیا ہے۔
*شواہد و آثار:*
اس حدیث کے کئی آثار مقاصد حسنہ میں بیان کیے گئے ہیں جن میں سے کچھ ذیل میں عرض کیے جاتے ہیں ۔
1۔۔۔حضرت خضر علیہ السلام سے بھی اسی کی مثل منقول ہے جیسا کہ *امام سخاوی* نے لکھا ہے کہ
وكذا ما أورده أبو العباس أحمد بن أبي بكر الرداد اليماني المتصوف في
کتابه و موجبات الرحمة وعزائم المغفرة ، بسند فيه مجاهيل مع انقطاعه عن
الخضر عليه السلام أنه : من قال حين يسمع المؤذن يقول أشهد أن محمدا
رسول الله : مرحبا بحبيبي وقرة عيني محمد بن عبد الله ، ثم يقبل ابهاميه
ويجعلهما على عينيه - لم يرصد أبدا
اس کے بعد امام سخاوی ایک اور اثر لائے ہیں کہ اس طرح کرنے سے آنکھوں کے مسئلے سے شفاء مل گئی تھی۔آپ لکھتے ہیں کہ
ثم روی بسند فيه من لم أعرفه عن أخي الفقيه محمد بن البابا ، فيما
حکی عن نفسه : أنه هبت ريح فوقعت منه حصاة في عينه ، فأعياه خروجها ،
والمته أشد الألم ، وأنه لما سمع المؤذن يقول أشهد أن محمدا رسول الله قال ذلك ، فخرجت الحصاة من فوره ، قال الرداد : وهذا يسير في جنب فضائل الرسول الا
اسی طرح آپ نے ایک اور اثر بیان کیا ہے کہ
وحكى الشمس محمد بن صالح المدني امامها وخطيبها في تاريخه ، عن
المجد أحد القدماء من المصريين ، أنه سمعه يقول : من صلى على النبي ﷺ
إذا سمع
ذكره في الأذان ،
وجمع
أصبعيه المسبحة والابهام وقبلهما ومسح بهما
عينيه ، لم يرقد أبدا
اور اسی کی تائید میں یہ بھی لے کر آئے ہیں کہ
قال ابن صالح : وسمعت ذلك أيضا من الفقيه محمد بن الزرندي
، عن
بعض شيوخ العراق أو العجم : أنه يقول عندما يمسح عينيه : صلى الله عليك يا
سيدي يا رسول الله يا حبيب قلبي ويا نور بصري ويا قرة عيني ، وقال لي : كل
منهما منذ فعله لم ترمد عيني۔۔۔
اس کے بعد بھی آپ نے دو آثار ذکر کیے ہیں
*وبعدہ:*
اور انہی آثار کو *امام عجلونی* نے کشف الخفاء میں بھی ذکر کیا ہے۔۔۔۔
*ملا علی قاری:*
ملا علی قاری نے بھی اس حدیث کو الاسرار المرفوعہ میں ذکر کیا ہے
اور اس کے بعد حضرت خضر علیہ السلام والی روایت کو بھی ذکر کیا ہے
اس کے ملا علی قاری اپنا ذاتی موقف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
"قلت و اذا ثبت رفعہ علی الصدیق فیکفی العمل بہ لقولہ علیہ السلام *علیکم بسنتی و سنة الخلفاء الراشدین*۔
ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ
جب اس حدیث کا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے مرفوع ہونا ثابت ہو گیا ہو تو پس اس حدیث پر عمل کرنے کےلیے یہی ہی کافی ہے نبی علیہ السلام کے اس فرمان کی وجہ سے کہ
"تم پر میری اور میرے خلفائے راشدین کی سنت کو پکڑنا لازم ہے"
پس ثابت ہوا کہ یہ جائز ہے کہ ملا علی قاری نے اس کے جواز کا قول کیا ہے۔۔
یعنی کہ ملا علی قاری اس حدیث کو درجہ ضعف پہ رکھا ہے۔
*اعتراضات :*
دیابنہ اور وہابیہ اس حدیث پر امام سخاوی کے قول *لا یصح* کو لے کر ڈھنڈورا پیٹتے ہیں حالانکہ لا یصح کے الفاظ کسی بھی حدیث کے بطلان و وضع کو مسلتزم نہیں ہیں بلکہ لا یصح سے اس حدیث کی صحة کی نفی ہے اور محققین کے علم میں یہ بات واضح طور پہ موجود ہے کہ صحیح اور موضوع کے درمیان بہت سارے واسطے ہیں اور خاص *لا یصح* کے حوالے سے بھی آئمہ محدثین کے کثیر اقوال موجود ہیں لیکن میں یہاں پر طوالت کے خوف کی وجہ سے چند حوالے ہی نقل کرتا ہوں
*امام ابن ححر عسقلانی* فرماتے ہیں کہ
"من نفی الصحة لاینتفی الحسن"
(نتائج الفکار فی تخریج احادیث الاذکار)
*ملا علی قاری* موضوعات کبیر میں فرماتے ہیں کہ
لایصح لاینافی الحسن
شیخ محقق شرح صراط مستقیم میں فرماتے ہیں کہ
"اصطلاح محدثین میں عدم صحت کا ذکر غرابت کا حکم نہیں رکھتا کیونکہ حدیث کا صحیح ہونا اس کا اعلی ترین درجہ ہے"
ان کے علاوہ بھی کئی محدثین نے اس کی تصریح فرمائی ہے
اور دوسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اس کی سند مذکور نہیں ہے لہذا یہ حدیث موضوع ہے حالانکہ یہ بات بھی درست نہیں ہے کہ ایسا مطلق نہیں ہے کہ جس بھی حدیث کی سند ذکر نہ ہو تو وہ وضع کو ہی مستلزم ہے اس پر بھی چند تصریحات ذکر کرتا ہوں تاکہ حق واضح ہو جائے ۔
*اعلی حضرت فاضل بریلوی* نے اپنے رسالے منیر العین فی حکم تقبیل الابہامین میں اس اعتراض کا وسیع جواب دیا آپ نے باقاعد اس حوالے سے ایک *فائدہ* نامی فصل قائم کی جس کا نام *"حدیث بے سند مذکور علماء کے قبول میں نفیس و جلیل احقاق اور اوہام قاصرین زماں کا ابطال و ازہاق"* رکھا جسے اختصار کے ساتھ نقل کرنے کی کوشش کرتا ہوں
آپ نے لکھا کہ
"غیر صحابی جو قول یا فعل یا حال حضور سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بے سند متصل نسبت کرے محدثین کے نزدیک باختلاف حالات و اصطلاحات مرسل،منقطع،معلق معضل ہے اور فقہاء اصولین کی اصطلاح ميں سب کا نام مرسل اصطلاح حدیث پر تعلیق و اعضال یا اصطلاح فقہ و اصول پر ارسال میں کچھ بعض سند کا ذکر ہر گز لازم نہیں بلکہ تمام وسائط حذف کرکے علمائے مصنفین جو قال یا فعل رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم وامثال ذلک کہتے ہیں یہ بھی معضل و مرسل ہے
*امام اجل ابن صلاح* کتاب معرفة انواع علم الحدیث میں فرماتے ہیں کہ
معضل حدیث وہ ہوتی ہے جس کے سند سے دو یا دو
سے زائد راوی ساقط ہوں مثلا وہ جسے تبع تابعی یہ کہتے ہوئے روایت کرے کہ رسول اکرم صلی اللہ تعالى وآلہ وسلم نے فرمایا ، اور اسی طرح وہ روایت ہے
تبع تابعی کے بعد کا کوئی شخص حضور علیہ السلام سے
یا ابوکر وعمریا دیگر کسی صحابی سے حضور اور صحابہ کے درمیان واسطہ ذکر کیے بغیر روایت کرے۔۔۔
پھر آگے جا کر ارشاد فرمایا کہ
*"پھر باجماع محدثین و علماء فقہاء یہ سب انواع نوعِ موضوع سے بیگانہ ہیں اور مادون الاحکام مثل فضائل اعمال ومناقب رجال و سیرو احوال میں سلفا خلفا مأخؤذ و مقبول"*
اور سند کے بارے میں امام سفیان ثوری و عبداللہ بن مبارک رحمہما اللہ کے کلام دربارہ عقائد و احکام ہیں"
اور مزید مسلم الثبوت کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ
مرسل اگر صحابی کی ہو تو مطلقا اتفاقا اسے قبول کیا جائے گا اور غیرصحابی کی مرسل کے بارے میں اکثر علماء جن میں امام اعظم ابو حنیفہ ، امام مالک اور امام احمد رضی الله تعالی عنہم ہیں، کی رائے
یہ ہے کہ مطلقا مقبول ہے بشرطیکہ راوی ثقہ ہو ، ابن ابان رحمہ الله تعالی جو ہمارے مشائخ کرام میں سے ہیں فرماتے ہیں کہ قرون ثلثہ ( تین زمانوں) کی مرسل مطلا مقبول ہے اور تین قرون کے بعد ائمہ قتل کی مرسل کبھی مقبول ہے، متاخرین کی ایک جماعت جن میں ابن حاجب مالکی اور شیخ کمال الدین بن الہمام ہم سے (یعنی احناف سے) کی رائے یہ ہے کہ ائمہ نقل کی مرسل مطلقا قبول ہے
( فتاوی رضویہ جلد 5 منیر العین فی حکم تقبیل الابہامین صفحہ 625 تا 629 )
لہذا مذکورہ بالا تصریحات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہو گیا کہ یہ حدیث موضوع نہیں بلکہ ضعیف ہے اور بمطابق قول ملا علی قاری فضائل اعمال میں ضعیف احادیث پر عمل باجماع درست ہے۔
اور آخر میں ایک قاعدہ اور بھی بیان کرتا چلوں کہ جس حدیث ضعیف پر اہل علم کا عمل ہو تو وہ بھی مزید قوت پاتی ہے لہذا مذکورہ حدیث پر عمل کے جواز سے امتناع سراسر جہالت ہے۔
وہ *کتب احادیث* جن میں اس حدیث کو ذکر کیا گیا ہے درج ذیل ہیں۔۔
1۔۔۔مقاصد حسنہ
2۔۔۔الاسرار المرفوعہ
3۔۔۔کشف الخفاء
4۔۔۔المنتقی
5۔۔۔تذکرة الموضوعات
6۔۔۔اللؤلؤ
7۔۔۔الاتقان
8۔۔۔المصنوع
9۔۔۔التمییز
*حکم الروایہ:*
ضعیف ولکن یعمل بہ لان ھذا موجود فی فضائل اعمال و ایضا انہ قوی بعمل اہل العلم۔
واللہ اعلم بالصواب وارجو العفو بالتواب
*تحقیق:*
*قیصر عباس عطاری*