بنتِ تسنيم
رکن
- شمولیت
- مئی 20، 2017
- پیغامات
- 269
- ری ایکشن اسکور
- 40
- پوائنٹ
- 66
ان بہنوں کے لیے نصیحت جو شادی میں تاخیر ہونے کی وجہ سے غم زدہ ہیں!
فضیلۃ الشیخ عبید بن عبداللہ الجابری حفظہ اللہ
(سابق مدرس جامعہ اسلامیہ، مدینہ نبویہ)
سوال: بارک اللہ فیکم یہ نواں سوال ہے تیونس سے سائلہ کہتی ہے: ان بہنوں کے لیے آپ کی کیا نصیحت ہے جو شادی میں تاخیر ہونے کے سبب غم زدہ ہیں؟
شیخ حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
1- کوئی بھی انسان مرد ہو یا عورت جو عفت، پاک دامنی اور جو اولاد اللہ تعالی نے اس کے لیے لکھی ہے ان باتوں کا حصول چاہتا ہے تو یقیناًوہ جلد شادی کرلینے کو پسند کرتا ہے۔ لیکن بہت سے لوگوں کی شادی میں تاخیر ہوجاتی ہے خصوصاً عورتوں کی۔ بڑی عمر کی بن بیاہی عورتوں سے ہرجگہ گھر بھرے پڑے ہیں کوئی گھر ان سے خالی نہيں الا ما رحم ربی۔ بہت زیادہ ہیں۔ میری ان عورتوں کے لیے یہی نصیحت ہے کہ وہ صبر کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا زاد بھائی سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو ایک طویل حدیث میں یہی فرمایا کہ:
’’وَاعْلَمْ أَنَّ النَّصْرَ مَعَ الصَّبْرِ، وَأَنَّ الْفَرَجَ مَعَ الْكَرْبِ، وَأَنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا‘‘([1])
(جان لو کہ نصرت صبر کے بعد ہی آتی ہے، اور کرب کے بعد اس سے خلاصی حاصل ہوتی ہے، اور یقینا ًہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے)([2])۔
2- کثرت کے ساتھ اپنے آپ کو ذکر الہی، دعاء، ،قرأت قرآن، ذکر وتسبیح وتہلیل وتکبیر میں مشغول رکھیں۔ خصوصاً فضیلت والے اوقات میں جیسے رات کا آخری پہر، جمعہ کے دن کی آخری گھڑی اور نزولِ بارش کے وقت اللہ تعالی سے نیک صالح شوہر کی دعاء کریں جو اس کے دینی ودنیاوی امور میں اس کا معاون ہو، بس محض ایک شوہر نہ ہو۔ کیونکہ بعض شادیاں نعمت نہيں بلکہ بدبختی ، نحوست واذیت ہوتی ہے۔کتنی ہی ایسی عورتیں تھیں جو دیندار تھیں لیکن (شادی کے بعد) فتنے میں مبتلا ہوکر نافرمانیوں میں پڑ گئیں۔
3- اس مخرج (مشکل سے نکلنے کی سبیل) پر یقین رکھنا جس کا وعدہ اللہ تعالی نے ہر متقی سےفرمایا ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت، فرمان الہی ہے:
﴿وَمَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا، وَّيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ﴾ (الطلاق: 2-3)
(جو کوئی بھی اللہ سے ڈرے گا (تقویٰ اختیار کرے گا) وہ اس کے لیے نکلنے کا کوئی نہ کوئی راستہ بنا دے گا۔اور اسے ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں سےاس کا وہم وگمان بھی نہ ہو)
4- غم واداسی کو اٹھا کر پھینک دیں کیونکہ غم کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، بلکہ میرے خیال میں تو یہ شیطان کو ان کے دلوں میں داخل ہونے کی ایک راہ فراہم کرتا ہے اور وہ انہیں اللہ کی رحمت سے ناامید کردیتا ہے جبکہ ناامیدی ومایوسی حرام ہے۔ اور کبھی تو انہیں بری جگہوں اور برے طریقے اختیار کرنے پر بھی ابھارتا ہے([3])۔
پس اسے چاہیے کہ اللہ سے جڑ جائے، صبر کرے اور ثواب کی امید رکھے۔ مکمل یقین رکھے کہ اللہ تعالی اسے کبھی ضائع نہيں کرے گا۔
اس کے علاوہ ایک رویہ ہے جس کی میں نشاندہی کرنا چاہوں گا کہ جو بعض مسلم خواتین استعمال کرتی ہیں حالانکہ وہ غلط ہے۔وہ یہ ہے کہ وہ خود سے اپنا جیون ساتھی ڈھونڈنا شروع کردیتی ہیں۔ اس سے مطالبہ کرتی ہیں اور اسے لے کر اپنی فیملی تک کے پاس آجاتی ہے۔ اور اگر اس کے گھر والے اس رشتے سے موافقت نہ کریں کیونکہ انہیں اس شخص سے متعلق کوئی اعتراض ہو۔ تو وہ بالکل بکھر جاتی ہے اور غم زدہ ہوکر روگ لگا بیٹھتی ہے۔ یہ غلطی ہے اے مسلمان عورتو! اپنے گھروں پر ٹکی رہو اور اللہ تعالی نے جو دینداری کی نعمت تم پر کی ہے اس پر جمی رہو۔ میں نے ابھی جو وصیت کی ہے اسے پلے باندھ لو۔ اپنے آپ کی خود سے توہین نہ کرو۔ اور یہ توہین ہی میں سے ہے کہ تم مردوں کو خود سے تلاش کرتی پھرو اور اسے پکڑ کر اپنے ولی کے سامنے لاکھڑا کرو۔ یہ شرعا ًاور عرفاً (یعنی شرعی اور معاشرتی رواج) دونوں کے اعتبار سے مذموم ہے۔
حاشیہ__________________
[1] قال الألباني: صحیح، فی تخريج كتاب السنة 315۔
[2] شیخ ابن باز رحمہ اللہ بھی فرماتے ہیں: اور اس لیے بھی کہ شادی کرنا ایک نیک عمل ہے اور اس میں مددکی جاتی ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’ثَلَاثَةٌ حَقٌّ عَلَى اللَّهِ عَوْنُهُمْ: الْمُجَاهِدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَالْمُكَاتَبُ الَّذِي يُرِيدُ الْأَدَاءَ، وَالنَّاكِحُ الَّذِي يُرِيدُ الْعَفَافَ‘‘([2])
(تین لوگوں کی مدد کرنا اللہ تعالی پر حق ہے: 1- مجاہد فی سبیل اللہ،
2- وہ غلام جو پیسے ادا کرکے آزاد ہونا چاہتا ہوں،
3- وہ شخص جو گناہ سے بچ کر پاکدامنی حاصل کرنے کے لیے نکاح کرنا چاہتا ہو)
(فتاوی نور علی الدرب 19675)
[3] جیسا کہ ایک دوسرے موقع پر شیخ حفظہ اللہ سے ہی سوال ہوا:
سوال: بارک اللہ فیکم شیخنا یہ چھٹا سوال ہے جو کویت سے ایک بہن پوچھتی ہیں: لڑکیوں کے لیے خفیہ عادت کا کیا حکم ہے؟ یہ بات معلوم رہے کہ اس لڑکی کے والد بہت سے شادی کے پیغامات کو ٹھکرا چکے ہیں اور یہ لڑکی اپنی عفت کی حفاظت چاہتی ہے، اور اپنے نفس پر حرام میں واقع ہونے کا اندیشہ ہے، اور کیا ایسے باپوں کے لیے کوئی نصیحت آپ فرمائيں گے؟
جواب : اولاً: اے بیٹی، میں اللہ تعالی سے دعاء کرتا ہوں کہ وہ آپ کے معاملے میں کوئی راہ نکال دے اور آپ کو وہ دے جس کا دین اور اخلاق اچھے ہوں۔ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا ایک اثر بیان کرتا ہوں کہ کسی شخص نے آپ سےپوچھا: ’’يا أُمَّاه بمن أزوِّج بنتي؟ قالت: بمن يتقِّ الله، فإنَّه إن أحبها أكرمها وإن سَخِطَها لَمْ يَظْلِمها‘‘([3])
(اے ماں (یعنی ام المومنین) میں اپنی بیٹی کی کس سے شادی کرواؤ؟ فرمایا: اس سے جو اللہ تعالی سے ڈرتا ہو(متقی ہو)۔ کیونکہ اگر وہ اسے پسند کرے گا تو اس کی تکریم کرے گا اور اگر ناراض بھی ہوگا پھر بھی ظلم تو نہ کرے گا)۔ اور اس سے بھی زیادہ بلیغ تو خود فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے: ’’إِذَا أَتَاكُم مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ وَخُلُقَهُ فَزَوِّجُوهُ إِلَّا تَفْعَلُوا تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ عَرِيضٌ‘‘([3])
(جب تمہارے پاس کوئی ایسا رشتہ آئے کہ جس کے دین اور اخلاق سے تم راضی ہو تو اس سے شادی کروادو ، اگر ایسا نہ کرو گے تو زمین میں بہت فتنہ اور وسیع وعریض فساد برپا ہوجائے گا)۔ اور ایک روایت میں ’’فساد عریض ‘‘ کی جگہ ’’فساد کبیر ‘‘ کا لفظ ہے۔ اور ایک روایت میں ہے ’’جس کے دین اور امانت سے تم راضی ہو‘‘۔
ثانیاً: میں آپ کو کثرت کے ساتھ ذکر الہی اور تلاوت قرآن میں مشغول رہنے کی وصیت کرتا ہوں۔ ہر نماز کے بعد 33 بار سبحان اللہ کہیں، 33 بار الحمدللہ، 33 بار اللہ اکبر اور آخر میں 100 پورا کرنے کے لیے ’’لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ‘‘ کہیں۔ قرآن پڑھیں اور کثرت کے ساتھ تلاوت کریں۔ اچھی ، عاقلہ وفاضلہ اہل سنت بہنوں کے ساتھ رابطہ رکھیں ۔ جتنا میسر ہو مجالس علم میں حاضر ہوں۔ اور آپ کے ملک کویت میں کتنے ہی فاضل طلاب العلم ہیں.
الحمدللہ۔ اگر آپ مجھے خط ارسال کریں تو میں آپ کو نام تک لکھ دوں گا جنہیں میں ان شاء اللہ اہل علم وفضل میں سے سمجھتا ہوں۔
ثالثاً: میں نہيں خیال کرتا کہ کوئی شخص اپنی بیٹی کے تمام رشتے ہی ٹھکرا دیتا ہو۔ بلکہ باپ وغیرہ تو اس بات کے حریص ہوتے ہیں۔ مگر ساتھ میں وہ اپنی بیٹی کے بھلائی کے بھی حریص ہوتے ہيں تو میرا نہيں خیال کہ وہ یونہی ٹھکرا دیتے ہوں۔ لیکن اسے ہی منع کرتے ہوں گے جسے وہ نیک صالح نہیں سمجھتے ہوں گے۔ اور آپ چونکہ کم عمر نوجوان ہیں ان مردوں کو نہيں جانتیں۔ جو رشتے آتے ہیں ان کے ان پوشیدہ حالات کو آپ نہیں جانتیں جن کے ذریعے وہ بھولی بھالی لڑکیوں کو پھانس لیتے ہیں۔ جبکہ باپ یا ولی تو حریص ہوتا ہے۔
پھر میں اولیاء کو بھی نصیحت کروں گا کہ مناسب جوڑ کا رشتہ اختیار کرنے میں جلدی کیا کریں۔ اگر آپ کی بیٹی یا جس کے آپ ولی ہیں اس کے جوڑ کا ایسا رشتہ آجائے جس کے دین اور اخلاق سے آپ راضی ہوں تو اللہ تعالی سے مدد طلب کرتے ہوئے شادی کروادیں۔ اس عصبیت کی وجہ سے رکے نہ رہیں کہ خاندان میں ہی رشتہ ہونا ضروری ہے کہ لازمی اس کے چچا کا بیٹا ہو یا پھوپھی، خالہ یا ماموں کا، نہیں۔ آپ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وصیت ہے کہ: ’’إِذَا أَتَاكُم مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ وَخُلُقَهُ فَزَوِّجُوهُ ۔۔۔‘‘([3])
(جب تمہارے پاس کوئی ایسا رشتہ آئے کہ جس کے دین اور اخلاق سے تم راضی ہو تو اس سے شادی کروادو ۔۔۔)۔ جیسا کہ میں نے ابھی یہ حدیث بیان کی۔ (ویب سائٹ میراث الانبیاء سے فتوی 6546)
|آداب، اخلاق وعادات, الشيخ عبيدالجابري,خواتین|
فضیلۃ الشیخ عبید بن عبداللہ الجابری حفظہ اللہ
(سابق مدرس جامعہ اسلامیہ، مدینہ نبویہ)
سوال: بارک اللہ فیکم یہ نواں سوال ہے تیونس سے سائلہ کہتی ہے: ان بہنوں کے لیے آپ کی کیا نصیحت ہے جو شادی میں تاخیر ہونے کے سبب غم زدہ ہیں؟
شیخ حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
1- کوئی بھی انسان مرد ہو یا عورت جو عفت، پاک دامنی اور جو اولاد اللہ تعالی نے اس کے لیے لکھی ہے ان باتوں کا حصول چاہتا ہے تو یقیناًوہ جلد شادی کرلینے کو پسند کرتا ہے۔ لیکن بہت سے لوگوں کی شادی میں تاخیر ہوجاتی ہے خصوصاً عورتوں کی۔ بڑی عمر کی بن بیاہی عورتوں سے ہرجگہ گھر بھرے پڑے ہیں کوئی گھر ان سے خالی نہيں الا ما رحم ربی۔ بہت زیادہ ہیں۔ میری ان عورتوں کے لیے یہی نصیحت ہے کہ وہ صبر کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا زاد بھائی سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو ایک طویل حدیث میں یہی فرمایا کہ:
’’وَاعْلَمْ أَنَّ النَّصْرَ مَعَ الصَّبْرِ، وَأَنَّ الْفَرَجَ مَعَ الْكَرْبِ، وَأَنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا‘‘([1])
(جان لو کہ نصرت صبر کے بعد ہی آتی ہے، اور کرب کے بعد اس سے خلاصی حاصل ہوتی ہے، اور یقینا ًہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے)([2])۔
2- کثرت کے ساتھ اپنے آپ کو ذکر الہی، دعاء، ،قرأت قرآن، ذکر وتسبیح وتہلیل وتکبیر میں مشغول رکھیں۔ خصوصاً فضیلت والے اوقات میں جیسے رات کا آخری پہر، جمعہ کے دن کی آخری گھڑی اور نزولِ بارش کے وقت اللہ تعالی سے نیک صالح شوہر کی دعاء کریں جو اس کے دینی ودنیاوی امور میں اس کا معاون ہو، بس محض ایک شوہر نہ ہو۔ کیونکہ بعض شادیاں نعمت نہيں بلکہ بدبختی ، نحوست واذیت ہوتی ہے۔کتنی ہی ایسی عورتیں تھیں جو دیندار تھیں لیکن (شادی کے بعد) فتنے میں مبتلا ہوکر نافرمانیوں میں پڑ گئیں۔
3- اس مخرج (مشکل سے نکلنے کی سبیل) پر یقین رکھنا جس کا وعدہ اللہ تعالی نے ہر متقی سےفرمایا ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت، فرمان الہی ہے:
﴿وَمَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا، وَّيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ﴾ (الطلاق: 2-3)
(جو کوئی بھی اللہ سے ڈرے گا (تقویٰ اختیار کرے گا) وہ اس کے لیے نکلنے کا کوئی نہ کوئی راستہ بنا دے گا۔اور اسے ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں سےاس کا وہم وگمان بھی نہ ہو)
4- غم واداسی کو اٹھا کر پھینک دیں کیونکہ غم کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، بلکہ میرے خیال میں تو یہ شیطان کو ان کے دلوں میں داخل ہونے کی ایک راہ فراہم کرتا ہے اور وہ انہیں اللہ کی رحمت سے ناامید کردیتا ہے جبکہ ناامیدی ومایوسی حرام ہے۔ اور کبھی تو انہیں بری جگہوں اور برے طریقے اختیار کرنے پر بھی ابھارتا ہے([3])۔
پس اسے چاہیے کہ اللہ سے جڑ جائے، صبر کرے اور ثواب کی امید رکھے۔ مکمل یقین رکھے کہ اللہ تعالی اسے کبھی ضائع نہيں کرے گا۔
اس کے علاوہ ایک رویہ ہے جس کی میں نشاندہی کرنا چاہوں گا کہ جو بعض مسلم خواتین استعمال کرتی ہیں حالانکہ وہ غلط ہے۔وہ یہ ہے کہ وہ خود سے اپنا جیون ساتھی ڈھونڈنا شروع کردیتی ہیں۔ اس سے مطالبہ کرتی ہیں اور اسے لے کر اپنی فیملی تک کے پاس آجاتی ہے۔ اور اگر اس کے گھر والے اس رشتے سے موافقت نہ کریں کیونکہ انہیں اس شخص سے متعلق کوئی اعتراض ہو۔ تو وہ بالکل بکھر جاتی ہے اور غم زدہ ہوکر روگ لگا بیٹھتی ہے۔ یہ غلطی ہے اے مسلمان عورتو! اپنے گھروں پر ٹکی رہو اور اللہ تعالی نے جو دینداری کی نعمت تم پر کی ہے اس پر جمی رہو۔ میں نے ابھی جو وصیت کی ہے اسے پلے باندھ لو۔ اپنے آپ کی خود سے توہین نہ کرو۔ اور یہ توہین ہی میں سے ہے کہ تم مردوں کو خود سے تلاش کرتی پھرو اور اسے پکڑ کر اپنے ولی کے سامنے لاکھڑا کرو۔ یہ شرعا ًاور عرفاً (یعنی شرعی اور معاشرتی رواج) دونوں کے اعتبار سے مذموم ہے۔
حاشیہ__________________
[1] قال الألباني: صحیح، فی تخريج كتاب السنة 315۔
[2] شیخ ابن باز رحمہ اللہ بھی فرماتے ہیں: اور اس لیے بھی کہ شادی کرنا ایک نیک عمل ہے اور اس میں مددکی جاتی ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’ثَلَاثَةٌ حَقٌّ عَلَى اللَّهِ عَوْنُهُمْ: الْمُجَاهِدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَالْمُكَاتَبُ الَّذِي يُرِيدُ الْأَدَاءَ، وَالنَّاكِحُ الَّذِي يُرِيدُ الْعَفَافَ‘‘([2])
(تین لوگوں کی مدد کرنا اللہ تعالی پر حق ہے: 1- مجاہد فی سبیل اللہ،
2- وہ غلام جو پیسے ادا کرکے آزاد ہونا چاہتا ہوں،
3- وہ شخص جو گناہ سے بچ کر پاکدامنی حاصل کرنے کے لیے نکاح کرنا چاہتا ہو)
(فتاوی نور علی الدرب 19675)
[3] جیسا کہ ایک دوسرے موقع پر شیخ حفظہ اللہ سے ہی سوال ہوا:
سوال: بارک اللہ فیکم شیخنا یہ چھٹا سوال ہے جو کویت سے ایک بہن پوچھتی ہیں: لڑکیوں کے لیے خفیہ عادت کا کیا حکم ہے؟ یہ بات معلوم رہے کہ اس لڑکی کے والد بہت سے شادی کے پیغامات کو ٹھکرا چکے ہیں اور یہ لڑکی اپنی عفت کی حفاظت چاہتی ہے، اور اپنے نفس پر حرام میں واقع ہونے کا اندیشہ ہے، اور کیا ایسے باپوں کے لیے کوئی نصیحت آپ فرمائيں گے؟
جواب : اولاً: اے بیٹی، میں اللہ تعالی سے دعاء کرتا ہوں کہ وہ آپ کے معاملے میں کوئی راہ نکال دے اور آپ کو وہ دے جس کا دین اور اخلاق اچھے ہوں۔ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا ایک اثر بیان کرتا ہوں کہ کسی شخص نے آپ سےپوچھا: ’’يا أُمَّاه بمن أزوِّج بنتي؟ قالت: بمن يتقِّ الله، فإنَّه إن أحبها أكرمها وإن سَخِطَها لَمْ يَظْلِمها‘‘([3])
(اے ماں (یعنی ام المومنین) میں اپنی بیٹی کی کس سے شادی کرواؤ؟ فرمایا: اس سے جو اللہ تعالی سے ڈرتا ہو(متقی ہو)۔ کیونکہ اگر وہ اسے پسند کرے گا تو اس کی تکریم کرے گا اور اگر ناراض بھی ہوگا پھر بھی ظلم تو نہ کرے گا)۔ اور اس سے بھی زیادہ بلیغ تو خود فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے: ’’إِذَا أَتَاكُم مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ وَخُلُقَهُ فَزَوِّجُوهُ إِلَّا تَفْعَلُوا تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ عَرِيضٌ‘‘([3])
(جب تمہارے پاس کوئی ایسا رشتہ آئے کہ جس کے دین اور اخلاق سے تم راضی ہو تو اس سے شادی کروادو ، اگر ایسا نہ کرو گے تو زمین میں بہت فتنہ اور وسیع وعریض فساد برپا ہوجائے گا)۔ اور ایک روایت میں ’’فساد عریض ‘‘ کی جگہ ’’فساد کبیر ‘‘ کا لفظ ہے۔ اور ایک روایت میں ہے ’’جس کے دین اور امانت سے تم راضی ہو‘‘۔
ثانیاً: میں آپ کو کثرت کے ساتھ ذکر الہی اور تلاوت قرآن میں مشغول رہنے کی وصیت کرتا ہوں۔ ہر نماز کے بعد 33 بار سبحان اللہ کہیں، 33 بار الحمدللہ، 33 بار اللہ اکبر اور آخر میں 100 پورا کرنے کے لیے ’’لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ‘‘ کہیں۔ قرآن پڑھیں اور کثرت کے ساتھ تلاوت کریں۔ اچھی ، عاقلہ وفاضلہ اہل سنت بہنوں کے ساتھ رابطہ رکھیں ۔ جتنا میسر ہو مجالس علم میں حاضر ہوں۔ اور آپ کے ملک کویت میں کتنے ہی فاضل طلاب العلم ہیں.
الحمدللہ۔ اگر آپ مجھے خط ارسال کریں تو میں آپ کو نام تک لکھ دوں گا جنہیں میں ان شاء اللہ اہل علم وفضل میں سے سمجھتا ہوں۔
ثالثاً: میں نہيں خیال کرتا کہ کوئی شخص اپنی بیٹی کے تمام رشتے ہی ٹھکرا دیتا ہو۔ بلکہ باپ وغیرہ تو اس بات کے حریص ہوتے ہیں۔ مگر ساتھ میں وہ اپنی بیٹی کے بھلائی کے بھی حریص ہوتے ہيں تو میرا نہيں خیال کہ وہ یونہی ٹھکرا دیتے ہوں۔ لیکن اسے ہی منع کرتے ہوں گے جسے وہ نیک صالح نہیں سمجھتے ہوں گے۔ اور آپ چونکہ کم عمر نوجوان ہیں ان مردوں کو نہيں جانتیں۔ جو رشتے آتے ہیں ان کے ان پوشیدہ حالات کو آپ نہیں جانتیں جن کے ذریعے وہ بھولی بھالی لڑکیوں کو پھانس لیتے ہیں۔ جبکہ باپ یا ولی تو حریص ہوتا ہے۔
پھر میں اولیاء کو بھی نصیحت کروں گا کہ مناسب جوڑ کا رشتہ اختیار کرنے میں جلدی کیا کریں۔ اگر آپ کی بیٹی یا جس کے آپ ولی ہیں اس کے جوڑ کا ایسا رشتہ آجائے جس کے دین اور اخلاق سے آپ راضی ہوں تو اللہ تعالی سے مدد طلب کرتے ہوئے شادی کروادیں۔ اس عصبیت کی وجہ سے رکے نہ رہیں کہ خاندان میں ہی رشتہ ہونا ضروری ہے کہ لازمی اس کے چچا کا بیٹا ہو یا پھوپھی، خالہ یا ماموں کا، نہیں۔ آپ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وصیت ہے کہ: ’’إِذَا أَتَاكُم مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ وَخُلُقَهُ فَزَوِّجُوهُ ۔۔۔‘‘([3])
(جب تمہارے پاس کوئی ایسا رشتہ آئے کہ جس کے دین اور اخلاق سے تم راضی ہو تو اس سے شادی کروادو ۔۔۔)۔ جیسا کہ میں نے ابھی یہ حدیث بیان کی۔ (ویب سائٹ میراث الانبیاء سے فتوی 6546)
|آداب، اخلاق وعادات, الشيخ عبيدالجابري,خواتین|