السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ان روایت کی حقیقت اور انکے رد میں تفصیلا جواب مطلوب ہے
خاص کر کفایت بھائی، رفیق طاھر بھائی, کلیم حیدر بھائی سے گزارش ہے کے اس موضوع پر خاص نظر ڈالیں اور اطمنان بکش جواب دیں
جزاکم الله خیرا
ان روایت کی حقیقت اور انکے رد میں تفصیلا جواب مطلوب ہے
خاص کر کفایت بھائی، رفیق طاھر بھائی, کلیم حیدر بھائی سے گزارش ہے کے اس موضوع پر خاص نظر ڈالیں اور اطمنان بکش جواب دیں
جزاکم الله خیرا
ہمارا اختلاف طلاق بحیثیت شرعی مسلہ پر ہے۔
طریقہ پر کوئی اختلاف نہیں۔
اگر اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیا جائے اور اس پر غور و فکر کیا جائے تو مسلہ سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہیں آئے گی۔
دو مثالوں سے سمجھے۔
مثال نمبر ایک: نماز سے باہر آنے کے دو طریقے ہیں۔
ایک طریقہ یہ ہے کہ اس کا جو طریقہ اور ادب ہمیں سکھلایا گیا ہے اس کے مطابق سلام کے ذریعے نماز سے باہر آنا چاہئے۔
دوسرا طریقہ بغیر سلام کے نمازی نماز سے باہر آگیا
دونوں صورتوں میں نمازی نماز سے باہر آگیا لیکن پہلی صورت میں اس کو اجرو ثواب ملے گا اور دوسری صورت میں وہ گنہاگار ہوگا۔
مثال نمبر دو: طلاق ہی کی مثال لے لیجئے۔
طلاق کے لئے ہمیں یہ ادب اور اخلاقی طریقہ سمجھایا گیا ہے کہ جب عورت حیض کی حالت میں ہو اور وہ حیض سے پاک ہوجائے تو مباشرت سے پہلے اسے طلاق دی جائے۔ یہ طلاق کا بہترین اور اخلاقی طریقہ ہے۔
لیکن اگر کوئی شخص عورت کے حالت حیض مین ہونے کے وقت طلاق دے دیتا ہے تو یہ صورت سخت ناپسندیدہ ہے اور بندہ گنہاگار ہو گا۔
لیکن شرعی مسلہ یہ ہے کہ دونوں صورتوں میں طلاق ہوگئی۔
بالکل اسی طرح بھی طلاق ثلاثہ کا معاملہ ہے۔
طلاق کے تین طریقے ہیں تینوں صورتوں میں طلاق واقع ہوجاتی ہے
احسن، حسن اور بدعت
طلاق دینے کا شرعی طریقہ
۱:…
ایک یہ کہ بیوی ماہواری سے پاک ہو تو اس سے جنسی تعلق قائم کئے بغیر ایک ”رجعی طلاق“ دے، اور پھر اس سے رُجوع نہ کرے، یہاں تک کہ اس کی عدّت گزر جائے، اس صورت میں عدّت کے اندر اندر رُجوع کرنے کی گنجائش ہوگی، اور عدّت کے بعد دوبارہ نکاح ہوسکے گا۔ یہ طریقہ سب سے بہتر ہے۔
۲:… دُوسرا طریقہ یہ کہ الگ الگ تین طہروں میں تین طلاق دے، یہ صورت زیادہ بہتر نہیں، اور بغیر شرعی حلالہ کے آئندہ نکاح نہیں ہوسکے گا۔
۳:… تیسری صورت ”طلاقِ بدعت“ کی ہے، جس کی کئی صورتیں ہیں، مثلاً یہ کہ بیوی کو ماہواری کی حالت میں طلاق دے یا ایسے طہر میں طلاق دے جس میں صحبت کرچکا ہو، یا ایک ہی لفظ سے، یا ایک ہی مجلس میں، یا ایک ہی طہر میں تین طلاقیں دے ڈالے، یہ ”طلاقِ بدعت“ کہلاتی ہے۔ اس کا حکم یہ ہے کہ اس طریقے سے طلاق دینے والا گنہگار ہوتا ہے، مگر طلاق واقع ہوجاتی ہے، اگر ایک دی تو ایک واقع ہوئی، اگر دو طلاقیں دیں تو دو واقع ہوئیں، اور اگر اکٹھی تین طلاقیں دے دیں تو تینوں واقع ہوگئیں، خواہ ایک لفظ میں دی ہو، یا ایک مجلس میں، یا ایک طہر میں۔
تین طلاق کے دلائل
:دلیل نمبر1
قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی: فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلاَ تَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ۔
(سورۃ بقرۃ:230)
ترجمہ: اگر(کسی نے )اپنی بیوی کوطلاق دی تو اب(اس وقت تک کے لیے اس کے لیے ) حلال نہیں۔یہاں تک کہ اس خاوند کے علاوہ دوسرے سے نکاح نہ کرلے۔
1: قَالَ الْاِمَامُ مُحَمَّدُ بْنُ اِدْرِیْسَ الشَّافِعِیُّ: وَالْقُرْآنُ یَدُلُّ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ عَلٰی اَنَّ مَنْ طَلَّقَ زَوْجَۃً لَّہُ دَخَلَ بِھَا اَوْلَمْ یَدْخُلْ بِھَاثَلَاثًالَمْ تَحِلَّ لَہُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجاً غَیْرَہُ۔
(کتاب الام ؛امام محمد بن ادریس الشافعی ج2ص1939)
ترجمہ: امام محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’قرآن کریم کاظاہر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جس شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں، خواہ اس سے ہمبستری کی ہو یا نہ کی ہو تووہ عورت اس شخص کے لیے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ کسی اورمرد سے نکاح نہ کرلے۔‘‘
2: قَالَ الْاِمَامُ اَبُوْبَکْرٍاَحْمَدُ بْنُ الْحُسَیْنِ الْبَیْھَقِیُّ اَخْبَرَنَا اَبُوْزَکَرِیَّا بْنُ اَبِیْ اِسْحَاقَ الْمُزَکِّیُّ اَنَا اَبُوالْحَسَنِ الطَّرَائِفِیُّ نَاعُثْمَانُ بْنُ سَعِیْدٍنَاعَبْدُاللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ صَالِحٍ عَنْ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طَلْحَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِی قَوْلِہٖ تَعَالٰی {فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلاَ تَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ} یَقُوْلُ اِنْ طَلَّقَھَا ثَلَاثًا فَلَا تَحِلُّ لَہُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًاغَیْرَہُ۔
(سنن کبریٰ بیہقی ج7ص376 باب نکاح المطلقۃ ثلاثا)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:’’اگر کسی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہوں وہ اس کے لیے حلال نہیں حتی کہ وہ کسی اورمرد سے نکاح نہ کرلے۔‘‘
دلیل نمبر2
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ الْکَبِیْرُ مُحَمَّدُ بْنُ اِسْمٰعِیْلَ الْبُخَارِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ قَالَ اَخْبَرَنَا مَالِکٌ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ اَنَّ سَھْلَ بْنَ سَعْدٍ السَاعِدِیَّ اَخْبَرَہُ…قَالَ عُوَیْمَرُکَذِبْتُ عَلَیْھَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنْ اَمْسَکْتُھَا فَطَلَّقَھَا ثَلاَ ثًا قَبْلَ اَنْ یَّامُرَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ {وَفِیْ رِوَایَۃ ٍ}قَالَ فَطَلَّقَھَاثَلاَثَ تَطْلِیْقَاتٍ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاَنْفَذَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔
(صحیح البخاری ج2ص791 باب من اجاز اطلاق الثلاث، سنن ابی داود ج1ص324 باب فی اللعان)
ترجمہ: حضرت سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ حضرت عویمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر میں اس کو اپنے پاس روکوں اور بیوی بناکر رکھوں تو میں نے پھر اس پر جھوٹ کہا پھراس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم صادر فرمانے سے پہلے ہی اس کو تین طلاقیں دے دیں۔(سنن ابی داود کی روایت میں ہے کہ) اس نے اس کو (یعنی عویمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تین طلاقیں دیں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کونافذکردیا۔
دلیل نمبر3
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ الْکَبِیْرُ مُحَمَّدُ بْنُ اِسْمَاعِیْلَ الْبُخَارِیُّ حَدَّثَنِیْ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ حَدَّثَنَا یَحْیٰ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ قَالَ حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَائِشَۃَاَنَّ رَجُلاً طَلَّقَ اِمْرَأتَہُ ثَلٰثاً فَتَزَوَّجَتْ فَطَلَّقَ فَسُئِلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَتَحِلُّ لِلْاَوَّلِ؟ قَالَ:لَاحَتّٰی یَذُوْقَ عُسَیْلَتَھَا کَمَا ذَاقَ الْاَوَّلُ۔
(صحیح بخاری ج2ص791باب من اجاز طلاق الثلاث)
ترجمہ: ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں،اُس نے کسی اورمرد سے نکاح کیااور(ہمبستری سے پہلے)اسے طلاق دے دی۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیاگیاکہ وہ عورت اپنے پہلے خاوند کے لیے حلال ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’نہیں!جب تک کہ دوسرا خاوند اس سے ہمبستری نہ کرے (اور لطف اندوز نہ ہوجائے ) جیساکہ پہلا خاوند ہوا۔‘‘
دلیل نمبر4
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ عَلِیُّ بْنُ عُمَرَ الدَّارَقُطْنِیُّ نَاعَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَیْدِ الْحَافِظِ نَامُحَمَّدُ بْنُ شَاذَانَ الْجَوْھَرِیُّ نَامُعَلّٰی بْنُ مَنْصُوْرٍ نَاشُعَیْبُ بْنُ رُزَیْقٍ أنَّ عَطَائَ الْخُرَاسَانِیَّ حَدَّثَھُمْ عَنِ الْحَسَنِ قَالَ نَاعَبْدُاللّٰہِ بْنُ عُمَرَ فَقُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ! رَأیْت لَوْ اَنِّیْ طَلَّقْتُھَاثَلاَثاً کَانَ یَحِلُّ لِیْ أنْ اُرَاجِعَھَا؟قَالَ لَا کَانَتْ تَبِیْنُ مِنْکَ وَتَکُوْنُ مَعْصِیَۃً۔
(سنن دارقطنی ج4ص20 حدیث نمبر3929)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے حیض کی حالت میں اپنی بیوی کو ایک طلاق دے دی پھر ارادہ کیاکہ باقی دوطلاقیں بھی بقیہ دوحیض(یاطہر) کے وقت دے دیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبرہوئی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے فرمایا:’’تجھے اللہ تعالی نے اس طرح تو حکم نہیں دیا تو نے سنت کی خلاف ورزی کی ہے سنت تویہ ہے کہ جب طہر(پاکی)کازمانہ آئے تو ہر طہرکے وقت اس کوطلاق دے۔ وہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیاکہ تو رجوع کرلے! چنانچہ میں نے رجوع کر لیا پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:’’ جب وہ طہر کے زمانہ میں داخل ہو تو اس کوطلاق دے دینا اورمرضی ہو تو بیوی بناکررکھ لینا ۔ ‘‘ اس پرمیں نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! یہ تو بتلائیں کہ اگر میں اس کو تین طلاقیں دے دیتا تو کیا میرے لیے حلال ہوتا کہ میں اس کی طرف رجوع کر لیتا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’نہیں وہ تجھ سے جدا ہو جاتی اوریہ (کام کرنا ) گناہ ہوتا۔
دلیل نمبر5
عَنْ اَبِیْ سَلْمَۃَ اَنَّ حَفْصَ بْنَ الْمُغِیْرَۃِ طَلَّقَ اِمْرَأتَہُ فَاطِمَۃَ بِنْتَ قَیْسٍ عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لاَثَ تَطْلِیْقَاتٍ فِیْ کَلِمَۃٍ وَاحِدَۃٍ فَأَبَانَھَامِنْہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَمْ یَبْلُغْنَا أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَابَ ذٰلِکَ عَلَیْہِ۔
(سنن دارقطنی ج4ص10حدیث نمبر3877)
ترجمہ: حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حفص بن مغیرہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہما کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک کلمہ کے ساتھ تین طلاقیں دیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بیوی کو اس سے جدا کردیا اورہم کویہ بات نہیں پہنچی کہ اس وقت سے حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفص بن مغیرہ رضی اللہ عنہ پر کسی قسم کاعیب لگایا ہو(یعنی ناراضگی کا اظہار کیا ہو)۔
لیل نمبر6
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ عَلِّیُّ بْنُ عُمَرَ الدَّارَقُطْنِیُّ نَاأَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زَیَّادِ الْقَطَّانُ نَااِبْرَاہِیْمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْھَیْثَمِ صَاحِبُ الطَّعَامِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَیْدٍ نَا سَلْمَۃُ بْنُ الْفَضْلِ عَنْ عَمْرِوبْنِ أبِیْ قَیْسٍ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ بْنِ عَبْدِالْأعْلٰی عَنْ سُوَیْدِ بْنِ غَفْلَۃَ قَالَ کَانَتْ عَائِشَۃُ الْخَثْعَمِیَّۃُ عِنْدَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِب وَقَالَ لَوْلَاأَنِیْ سَمِعْتُ جَدِّیْ أوْحَدَّثَنِیْ أَبِیْ أَنَّہُ سَمِعَ جَدِّیْ یَقُوْلُ أَیُّمَا رَجُلٍ طَلَّقَ اِمْرَأَتَہُ ثَلاَثاً مُبْھَمَۃً أَوْثَلاَثاً عِنْدَ الْاِقْرَائِ لَمْ تَحِلَّ لَہُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجاً غَیْرَہُ ۔
(سنن دارقطنی ج4ص20 حدیث نمبر3927)
ترجمہ: حضرت سوید بن غفلہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’حضرت عائشہ خثعمیہ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہماکے نکاح میں تھیں(جب حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا گیا اور حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر لوگوں نے بیعت کرکے ان کو اپنا خلیفہ منتخب کرلیا اس موقع پر )انہوں نے آپ رضی اللہ عنہ کوکہا : ’’اے امیر المؤمنین! آپ کو خلافت مبارک ہواس پر حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ کیا یہ مبارک باد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت پر ہے؟ تو اس پر خوشی کا اظہارکر رہی ہے ؟ جا!تجھے تین طلاقیں ہیں۔ عدت گزرنے پرحضرت حسن رضی اللہ عنہ نے اس کوبقیہ مہر اور مزیددس ہزار دیے تو وہ جواب میں کہنے لگی کہ طلاق دینے والی جیب سے یہ مال کم ملاہے اس پرحضرت حسن رضی اللہ عنہ رو دیے) اور فرمایاکہ اگر میں نے اپنے نانا جان حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نہ سنا ہوتا یا یہ فرمایا کہ مجھے میرے والد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے میرے نانا جان کی یہ حدیث اگر نہ سنائی ہوتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’جو شخص اپنی بیوی کو ایک دفعہ تین طلاقیں دے دے یاتین طہروں میں تین طلاقیں دے دے تو وہ اس کے لیے حلال نہیں ہوتی یہاں تک کہ وہ کسی اورمرد سے نکاح نہ کرے۔ تو میں ضروراس کی طرف رجوع کرلیتا۔‘‘
دلیل نمبر7
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ عَبْدُالرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا یَحْیَ بْنُ الْعَلاَئِ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ الْوَلِیْدِ الْعَجَلِیِّ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ عَنْ دَاوٗدَ عَنْ عُبَادَۃَ (بن) الصَامِتِ قَالَ: طَلَّقَ جَدِّیْ اِمْرَأۃً لَہُ أَلْفَ تَطْلِیْقَۃً فَانْطَلَقَ أبِیْ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَکَرَلَہُ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَمَااِتَّقٰی اللّٰہَ جَدُّکَ اَمَّا ثَلاَثٌ فَلَہُ وأمَّا تِسْعُ مِائَۃٍ وَسَبْعٌ وَّتِسْعُوْنَ فَعُدْوَانٌ وَظُلْمٌ اِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالیٰ عَذَّبَہُ وَاِنْ شَائَ غَفَرَلَہُ۔
(مصنف عبدالرزاق ج6ص305باب المطلق ثلاثا)
ترجمہ: حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میرے دادا نے اپنی بیوی کو ہزار طلاقیں دے دیں تو میرے والد نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر اس واقعہ کا ذکرکیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’کیا تیرے والد (والدکوبھی جدکہا جاتا ہے) اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرے اسے صرف تین طلاقوں کاحق ہے اور نو سو ستانوے زیادتی اور ظلم ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہیں تو اس کوعذاب دے دیں اوراگر چاہیں تو معاف کردیں۔‘‘
دلیل نمبر8
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ ابْنُ اَبِیْ شَیْبَۃَ حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرٍقَالَ نَاعَلِیُّ بْنُ مُسْھِرٍ عَنْ شَقِیْقِ بْنِ أَبِیْ عَبْدِاللّٰہِ عَنْ أَنَسٍ قَالَ کاَنَ عُمَرُ اِذَا اَتیٰ بِرَجُلٍ قَدْ طَلَّقَ اِمْرَأتَہُ ثَلاَثاً فِیْ مَجْلِسٍ أَوْجَعَہُ ضَرْباً وَفَرَّقَ بَیْنَھُمَا۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج4ص11 باب من کرہ ان یطلق الرجل امرأتہ ثلاثا)
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جب کوئی ایسا آدمی لایا جاتا جس نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دی ہوتیں توحضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کو سزا دیتے اوران میاں بیوی کے درمیان جدائی کردیتے تھے۔‘‘
دلیل نمبر9
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ عَبْدُالرَّزَّاقِ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ شَرِیْکِ بْنِ أَبِیْ نَمْرٍقَالَ جَائَ رَجُلٌ اِلٰی عَلِیٍّ فَقَالَ اِنِّیْ طَلَّقْتُ اِمْرَأتِیْ عَدَدَ الْعَرْفَجِ۔ قَالَ تَاْخُذْ مِنَ الْعَرْفَجِ ثَلاَثاً وَتَدْعُ سَائِرَہُ۔
مصنف عبدالرزاق ج6ص306 باب المطلق ثلاثا )
ترجمہ: شریک بن ابی نمر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ ایک آدمی حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اورکہنے لگا کہ میں نے اپنی بیوی کوعر فج درخت کے عدد کے برابر طلاق دی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا’’ کہ عرفج درخت سے تین کو لے لے اور باقی تمام چھوڑ دے۔‘‘
دلیل نمبر10
قَالَ الْاِمَامُ الْاَعْظَمُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ الْفَقِیْہُ الْکَبِیْرُ أَبُوْحَنِیْفَۃَ نُعْمَانُ بْنُ ثَابِتٍ التَّابِعِیُّ الْکُوْفِیُّ عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بنِ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ حُسَیْنٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ دِیْناَرٍ عَنْ عَطَائٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّہُ أَتَاہُ رَجُلٌ فَقَالَ طَلَّقْتُ اِمرَأتِیْ ثَلاَثًا فَقَالَ عَصَیْتَ رَبَّکَ وَحَرُمَتْ عَلَیْکَ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجاًغَیْرَکَ۔
(مسند ابی حنیفۃ بروایۃ قاضی ابی یوسف بحوالہ جامع المسانید للخوارزمی ج2ص148)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماکے پاس ایک آدمی آ کرکہنے لگامیں نے اپنی بیوی کوتین طلاقیں دی ہیں۔آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا:’’ تو نے اپنے رب کی نافرمانی کی ہے اور تیری بیوی تجھ پر حرام ہوگئی حتی کہ وہ تیرے علاوہ کسی اورمرد سے نکاح کرلے۔‘‘
تین طلاقوں کے تین واقع ہونے پراجماع امت
1: قَدْ قَالَ الْاِمَامُ أَبُوْبَکْرِ ابْنُ الْمُنْذِرِ النِّیْشَابُوْرِیُّ: وَأجْمَعُوْا عَلٰی أَنَّ الرَّجُلَ اِذَاطَلَّقَ اِمْرَأتَہُ ثَلاَ ثًا أَنَّھَالَاتَحِلُّ لَہُ اِلَّابَعْدَ زَوْجٍ عَلٰی مَا جَائَ بِہٖ حَدِیْثُ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ:أَوْ اَجْمَعُوْاعَلٰی أَنَّہُ اِنْ قَالَ لَھَا أَنْتِ طَالِقٌ ثَلاَثاً اِلَّا ثَلاَثاً اَنَّھَا اُطْلِقَ ثَلاَ ثًا۔
(کتاب الاجماع لابن المنذر ص92)
ترجمہ: امام ابن المنذر رحمہ اللہ نے فرمایا :’’فقہاء اورمحدثین امت نے اس پر اجماع کیا ہے کہ جب مرد اپنی بیوی کوتین طلاقیں دے تو وہ اس کے لیے حلال نہیں رہتی۔ ہاں! جب وہ دوسرے شوہر سے نکاح کرلے تواب حلال ہو جاتی ہے کیونکہ اس بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث وارد ہوئی ہے ۔ ابن المنذر رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’ فقہاء ومحدثین کا اس پر بھی اجماع ہے کہ اگر شوہر نے بیوی کو کہا اَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثاً اِلَّاثَلَاثاً (تجھے تین طلاقیں ہیں مگر تین طلاق) تو تین ہی واقع ہوں گی۔‘‘
2: قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ الْفَقِیْہُ أَبُوْجَعْفَرٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ الطَّحَاوِیُّ مَنْ طَلَّقَ اِمْرَأتَہُ ثَلاَثاً فَاَوْقَعَ کُلاًّ فِیْ وَقْتِ الطَّلَاقِ لَزِمَہُ مِنْ ذٰلِکَ…فَخَاطَبَ عُمَرُبِذٰلِکَ النَّاسَ جَمِیْعًا وَفِیْھِمْ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَرَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمُ الَّذِیْنَ قَدْعَلِمُوْامَاتَقَدَّمَ مِنْ ذٰلِکَ فِیْ زَمَنِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلَمْ یُنْکِرْہُ عَلَیْہِ مِنْھُمْ مُنْکِرٌوَلَمْ یَدْفَعْہُ دَافِعٌ فَکَاَنَّ ذٰلِکَ اَکْبَرُ الْحُجَّۃِ فِیْ نَسْخٍ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذٰلِکَ لِاَنَّہُ لَمَّاکَانَ فِعْلُ اَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَمِیْعاً فِعْلاً یَجِبُ بِہِ الْحُجَّۃُ کَانَ کَذٰلِکَ اَیْضاً اِجْمَاعُھُمْ عَلَی الْقَوْلِ اِجْمَاعاً یَجِبُ بِہِ الْحُجَّۃُ۔
(سنن الطحاوی ج2ص34باب الرجل یطلق امرأتہ ثلاثاً معا،ونحوہ فی مسلم ج1 ص477 )
ترجمہ: محدث کبیر امام ابوجعفر طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’جس نے اپنی بیوی کوتین طلاقیں دیں اورتینوں کو طلاق کے وقت واقع بھی کردیاتو اس سے لازم ہو جائیں گی (دلیل اس کی حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے کہ) جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تمام لوگوں کو اس چیز کے متعلق خطاب فرمایاکہ تین طلاقیں تین ہی ہوں گی اوران لوگوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی بھی موجود تھے جو حضور علیہ السلام کے عہد مبارک میں اس معاملہ سے بخوبی واقف تھے لیکن کسی نے بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اس بات کا انکار نہ کیا اورنہ ہی کسی نے اسے رد کیا۔ تو یہ سب سے بڑی دلیل ہے کہ اس سے پہلے جوکچھ معاملہ رہا، منسوخ ہے۔ اس لیے کہ جس طرح تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کا فعل اتنی قوت رکھتا ہے کہ اس سے دلیل پکڑنا واجب ہے اسی طرح حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کاکسی بات پر اجماع کرنا بھی حجت ہے (جیساکہ اس مسئلہ طلاق میں ہے )
3: قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ الْمُفَسِّرُ الْقَاضِیُّ ثَنَائُ اللّٰہِ الْعُثْمَانِیُّ فِیْ تَفْسِیْرِ ھٰذِہِ الْآیَۃِ{أَلطَّلاَقُ مَرَّتٰنِ}لَاَنَّ قَوْلَہُ أَلطَّلَاَقُ عَلٰی ھٰذَا التَّاوِیْلِ یُشْمِلُ الطَّلَقَاتِ الثَّلاَثَ اَیْضاً…لٰکِنَّھُمْ اَجْمَعُوْاعَلیٰ اَنَّہُ مَنْ قَالَ لِاِمْرَأتِہِ أَنْتِ طَالِقٌ ثَلاَثاً یَقَعُ ثَلاَثٌ بِالْاِجْمَاعِ ۔
(تفسیر مظہری ج2ص300)
ترجمہ: مفسر قرآن قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ آیت {اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ}کی تفسیر میں فرماتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ کا فرمان’’اَلطَّلَاقُ‘‘اس تفسیر کے مطابق )جو پہلے ذکر کی ہے) تین طلاقوں کو بھی شامل ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ فقہاء ومحدثین نے اس بات پر اجماع کیاہے کہ جس شخص نے اپنی بیوی کوکہا’’اَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثاً ‘‘(تجھے تین طلاقیں ہیں) تو بالاجماع تین ہی واقع ہوجائیں گی۔
اللہ تعالی ہمیں دین اسلام پر اور اپنی مرضیات پر چلائے اور دین اسلام کی سمجھ نصیب فرمائے۔