• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ان شاءاللہ لکھنے میں غلطی کرنا

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,010
پوائنٹ
289
تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ انگریزی میں بھی اس طرح کا لکھنا غلط ہوگا؟ Insha Allah
اور صحیح ہوگا۔In Sha Allah
کیا خیال ہے آپ کا؟
نہیں بھائی ، ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ بعض مخلص احباب نے جذباتیت کے زیراثر اس کو بہت بڑا ہوا بنایا ہوا ہے :) ۔ دراصل اردو اور عربی الگ الگ زبانیں ہیں ، لہذا الفاظ کے معانی ، ہجے، صرف و نحو بھی مختلف ہیں۔ جو مفہوم عربی لفظ "ان شاءاللہ" کے ذریعے ادا ہوتا ہے بعینہ یہی معنی و مفہوم عرصہ دراز سے اردو لغات میں لفظ "انشاءاللہ" کے ذریعے بیان ہوا ہے۔
ہاں ، ذاتی طور پر میں اس بات کو ترجیح دیتا ہوں ان شاءاللہ لکھا جائے۔ اور انشاءاللہ لکھنے کو بھی غلط نہیں سمجھتا کہ اردو کی تقریباً تمام لغات میں ایسا ہی لکھا ہے۔
مشہور لغت فیروز اللغات کا حوالہ ذیل میں دیکھیے :
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
نہیں بھائی ، ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ بعض مخلص احباب نے جذباتیت کے زیراثر اس کو بہت بڑا ہوا بنایا ہوا ہے :) ۔ دراصل اردو اور عربی الگ الگ زبانیں ہیں ، لہذا الفاظ کے معانی ، ہجے، صرف و نحو بھی مختلف ہیں۔ جو مفہوم عربی لفظ "ان شاءاللہ" کے ذریعے ادا ہوتا ہے بعینہ یہی معنی و مفہوم عرصہ دراز سے اردو لغات میں لفظ "انشاءاللہ" کے ذریعے بیان ہوا ہے۔
ہاں ، ذاتی طور پر میں اس بات کو ترجیح دیتا ہوں ان شاءاللہ لکھا جائے۔ اور انشاءاللہ لکھنے کو بھی غلط نہیں سمجھتا کہ اردو کی تقریباً تمام لغات میں ایسا ہی لکھا ہے۔
مشہور لغت فیروز اللغات کا حوالہ ذیل میں دیکھیے :
دو زبانوں کا آپس میں طریقہ املاء مختلف ہو سکتا ہے ۔ مثلا ایک اور لفظ ہے ’’ علیحدہ ‘‘ یہ لفظ عربی سے لیا گیا عربی میں اس کو ’’ علی حدۃ ‘‘ لکھا جاتا ہے۔
اس طرح کی مزید مثالیں بھی تلاش کی جا سکتی ہیں ۔

لیکن جملہ ’’ ان شاء اللہ ‘‘ چونکہ اردو میں بھی دونوں طرح (حسب علمی ) لکھا جاتا ہے ۔ ’’ ان شاء اللہ ‘‘ اور ’’ انشاء اللہ ‘‘
جبکہ عربی کے مطابق یہ صرف ’’ ان شاء اللہ ‘‘ ہی ٹھیک ہے ۔
تو ’’ ان شاء اللہ ‘‘ ہی لکھنا چاہیے کیونکہ یہ عربی ، اردو دونوں جگہ چل جاتا ہے ۔اور غلطی کا بالکل بھی احتمال باقی نہیں رہتا ۔
جبکہ ’’ انشاء اللہ ‘‘ چونکہ صرف اردو والوں کےنزدیک ٹھیک ہے لہذا اس میں غلطی کا احتمال باقی رہتا ہے ۔ واللہ اعلم


صاحبان علم موجود ہیں ، میرے خیال سے لفظ ’’ ان شاء اللہ ‘‘ کی اردو زبان میں کیفیت املاء کی تحقیق کے لیے مطبوع کتابوں کی بجائے مخطوط کتابوں یا خطوط وغیرہ کی تلاش کرنی چاہیے کیونکہ چھپی ہوئی چیزوں میں یہ احتمال باقی رہتا ہے کہ ممکن ہے مصنف نے کچھ اور طریقےسے لکھا ہے اور چھاپنے والے نے کسی اور طریقےسے لکھ دیا ہو۔
 

اعتصام

مشہور رکن
شمولیت
فروری 09، 2012
پیغامات
483
ری ایکشن اسکور
725
پوائنٹ
130
جی بلکل جس لفظ کا دوسری زبان میں تلفظ ہی تبدیل ہو تو اس میں اسی بان کے مطابق لکھنا ٹھیک ہے مگر جس میں تلفظ ایک ہی طرح کا ہو اور اس میں اگر غلطی بھی فاحش ہو تو اس وقت غلطی کا خیال رکھنا چاہیے۔۔۔جیسے ان شاء اللہ اور انشاء اللہ

شاء| نشء

جزاکم اللہ خیرا
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,010
پوائنٹ
289
صاحبان علم موجود ہیں ، میرے خیال سے لفظ ’’ ان شاء اللہ ‘‘ کی اردو زبان میں کیفیت املاء کی تحقیق کے لیے مطبوع کتابوں کی بجائے مخطوط کتابوں یا خطوط وغیرہ کی تلاش کرنی چاہیے کیونکہ چھپی ہوئی چیزوں میں یہ احتمال باقی رہتا ہے کہ ممکن ہے مصنف نے کچھ اور طریقےسے لکھا ہے اور چھاپنے والے نے کسی اور طریقےسے لکھ دیا ہو۔
:) :)
بھائی ذرا احتیاط سے! اس طرح تو ہم منکرین حدیث اور دیگر طبقات کو شہ دیں گے ، ان کے خدشات کی تصدیق کریں گے کہ مخطوطات میں لکھا کچھ اور جاتا ہے اور مطبوع کتابوں میں کچھ اور ۔۔ لہذا لائیں صحیح بخاری کا امام بخاری(رحمۃ اللہ) کے ہاتھ سے تحریر کردہ نسخہ!
اگر ہم مطبوع کتب کے ساتھ ساتھ لغات پر بدگمانیاں جھاڑنا شروع کر دیں تو پھر بچارے ماہرین لغت نابود ہو جائیں گے ۔۔۔۔ :)
محترم عابد الرحمٰن صاحب نے ایک جگہ یہ بالکل درست کہا ہے :
لكل فن رجال: ہر فن کے کچھ مخصوص آدمی ہوتے ہیں۔
۔۔۔ کیونکہ ان کی بات ہی زیادہ مستندمانی جاتی ہے
اور اردو لفظ "انشاءاللہ" کو میں لسانیات کا مسئلہ سمجھتا ہوں جس کی تصدیق فلاں فلاں کے زورِ فہم سے نہیں بلکہ لسانیات کے ماہرین کے حوالے سے پیش کی جانی چاہیے۔
اوپر کے مراسلے میں فیروز اللغات کا حوالہ دیا تھا ، اب لیجیے ایک اور مشہور زمانہ لغت "فرہنگ آصفیہ" سے بھی حوالہ پیش خدمت ہے :

 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
:) :)
بھائی ذرا احتیاط سے! اس طرح تو ہم منکرین حدیث اور دیگر طبقات کو شہ دیں گے ، ان کے خدشات کی تصدیق کریں گے کہ مخطوطات میں لکھا کچھ اور جاتا ہے اور مطبوع کتابوں میں کچھ اور ۔۔ لہذا لائیں صحیح بخاری کا امام بخاری(رحمۃ اللہ) کے ہاتھ سے تحریر کردہ نسخہ!
اگر ہم مطبوع کتب کے ساتھ ساتھ لغات پر بدگمانیاں جھاڑنا شروع کر دیں تو پھر بچارے ماہرین لغت نابود ہو جائیں گے ۔۔۔۔ :)
محترم عابد الرحمٰن صاحب نے ایک جگہ یہ بالکل درست کہا ہے :

اور اردو لفظ "انشاءاللہ" کو میں لسانیات کا مسئلہ سمجھتا ہوں جس کی تصدیق فلاں فلاں کے زورِ فہم سے نہیں بلکہ لسانیات کے ماہرین کے حوالے سے پیش کی جانی چاہیے۔
اوپر کے مراسلے میں فیروز اللغات کا حوالہ دیا تھا ، اب لیجیے ایک اور مشہور زمانہ لغت "فرہنگ آصفیہ" سے بھی حوالہ پیش خدمت ہے :

السلام علیکم
محترم باذوق صاحب میں آپ کے ذوق سلیم سے بالکل متفق ہوں
ہمارہ مادری زبان اردو ہے اور اس زبان کے ماہرین’’ ان شاء اللہ ‘‘ کا انشاء اللہ ہی لکھتے ہیں اگرچہ کہیں کہیں ان شاءاللہ کا استعمال بھی ملتا ہے۔
لیکن جب عربی زبان کا استعمال ہو تو وہاں’’ ان شاء اللہ‘‘ ہی لکھنا چاہیے’’ انشاءاللہ ‘‘نہیں لکھنا چاہیے کیوں کہ اردو زباں میں انشاء بمعنیٰ تحریر کرنا لکھنا طرز تحریر وغیرہ میں مستعمل ہے
جب کہ عربی میں انشاء بمعنیٰ۔ تعمیر کرنا ایجاد کرنا پیدا کرنا مثلاً
اِنَّآ اَنْشَاْنٰهُنَّ اِنْشَاۗءً 35۝ۙ
ہم نے ان (کی بیویوں کو) خاص طور پر بنایا ہے۔الواقعہ:۳۵
كتاب ((شذور الذهب)).. لابن هشام..ميں ذكر كياہے أن معنى الفعل إنشاء) - ميرى إيجاد كردا)
انشاء بمعنیٰ تعمیر کرنا: جیسے
انشانا مصنعًا للملابس۔ ہم نے کپڑے بنانے کی فیکٹری تعمیر کی۔
ھذا الانشاء جمیل۔ یہ بلڈنگ خوبصورت ہے۔
اور اب رہی ان شاءاللہ کی بات تو عرض ہے
یہ حرف تین حرفوں سے مرکب ہے
ان + شاء +اللہ = انشاء اللہ جس کے معنیٰ ہیں اگر اللہ نے چاہا تو یہ ٹھیک ہے مگر اس کے پابند یا مکلف صرف اہل عرب ہیں عجمی مکلف نہیں ہیں
غیر عرب اس لفظ کو ایسے ہی استعمال کریں گےجیسا کہ اس علاقہ یا ملک کے ماہرین لسانیات یا اہل لغت نے کیا ہے چنانچہ اردو زبان کے ماہرین لسانیات اور اہل لغت نے’’ ان شاءاللہ ‘‘کو انشاءاللہ ہی لکھا اور یہی عوام الناس میں رائج ہے
اور اصول ہے
ایک مشہور ضرب المثل ہے
غلط العوم فصیح
یعنی عوامی غلطی فصاحت میں داخل ہے ـ
اور یہ عوامی سطح پر یہ لفظ اتنا مقبول ہے کہ ایک مبتدی سے لے کر اعلی درجہ کے اردو دان سب پر اس کے معانی واضح اور روشن ہیں ایسی صورت میں یہ کہنا غلط ہو گا کہ اس کے معانی میں ابہام پیدا ہو تا ہے اور’’ انشاء ‘‘چونکہ مرصع تحریر کو کہتے ہیں اس لئے ’’انشاء اللہ‘‘ کا معنی اللہ کی تحریر تو ہو سکتا ہے جس سے کوئی تکفیری جملہ نہیں بنتاجب کہ یہ معنیٰ مراد نہیں بلکہ’’ اگر اللہ نے چاہا ‘‘ ہی ترجمہ ہوگا
چونکہ اردو میں لفظ انشاء اللہ ہی مقبول ہے اور عوامی سطح پر درجہ قبولیت پر فائز ہے اس لئے یہ غلط العوام فصیح کی مصداق بھی درست ہے۔
اور یہ اصول اور قاعدہ ہے کہ جس لفظ کوجس طرح بھی اس کے ماہرین استعمال کرتے ہوں وہی معنیٰ مراد ہوں گے۔
چند مثالیں پیش خدمت ہیں:
ایک لفظ ہے ’’شراب‘‘ اردو زبان میں بمعنیٰ’’ خمر‘‘ مستعمل ہے جب کہ عربی زبان میں بمعنیٰ ’’ماء‘‘ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ اُبْسِلُوْا بِمَا كَسَبُوْا۝۰ۚ لَہُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِيْمٍ وَّعَذَابٌ اَلِيْمٌۢ بِمَا كَانُوْا يَكْفُرُوْنَ۝۷۰ۧ
ترجمہ: یہی لوگ ہیں کہ اپنے اعمال کے وبال میں ہلاکت میں ڈالے گئے ان کے لئے پینے کو کھولتا ہوا پانی اور دکھ دینے والا عذاب ہے اس لئے کہ کفر کرتے تھے
خدا اور اللہ کا فرق
لفظ خدا حقیقتاً اسلامی اصطلاح یا لفظ نہیں ہیں’’ خدا‘‘پارسیوں کا معبود ہے جس کے معنیٰ ہیں خود بخود وجود میں آنا ۔ اس کے علاوہ بھی’’ خدا ‘‘مختلف معبودوں کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اس میں ایک بڑی تفصیل ہے
ہندوؤں کے یہاں ’’بھگوان‘‘ بمعنیٰ ’’خدا ‘‘استعمال ہوتا ہے’’ اللہ‘‘ بھی کہہ دیتے ہیں
اردو کا ایک لفظ ہے ’’ژنگ‘‘ جب اس کو ہندی زبان میں لکھتے ہیں تو یہ لکھا جاتا ہے ’’جنگ‘‘ دونوں میں کتنا بڑا فرق ہے ،
اسی طرح ’’ضالین‘‘ اور ’’دالین‘‘ کا فرق ہے،کہیں ’’قل‘‘’’ گل‘‘ کہا جاتا ہے یہ سارے الفاظ اپنے اپنے معنیٰ جدا گانہ رکھتے ہیں لیکن جس معنیٰ میں استعمال ہورہا ہے وہ اس جگہ کے لحاظ سے صحیح ہے اس میں جائز نا جائز والی کوئی بات نہیں ہونی چاہئے۔
اسی طرح سے رسم الخط کا فرق ہے مثال کے طور پر یہی ان شاءاللہ جب اس کو ہندی میں لکھیں گے تو اس کی شکل یہ ہوگی۔
इंशाअल्लाह)ہوگی جو صحیح ہے۔इन शा अल्लाह۔ نہیں ہوگی۔ اسی طرح انگلش کا معاملہ ہے کہ انگریزی میں (INSHAALLAH) لکھا جاتا ہے اور اس طرح بھی لکھا جاتاہے (In ShaALLAH)
الغرض جو لفظ خواص میں جس طرح سے رائج ہے اس کا اعتبا ر کیا جایئے گا ۔
یہ مضمون کچھ اور ہی انداز میں تھا مگر تکنیکی خرابی کے باعث وہ مضمون نہیں جا سکا جو پہلے والا تھا اس کی کچھ خوبی الگ ہی تھی دوبارہ سے کمپوژ کرنا پڑا بہت وقت خراب ہوا کہیں غلظی رہ گئی ہوگی تو نظر انداز فرمائیں پروف ریڈنگ کو طبیعت نہیں کر رہی ہے اللہ حافظ فقظ والسلام
احقر عابد الرحمٰن بجنوری
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
:) :)
بھائی ذرا احتیاط سے! اس طرح تو ہم منکرین حدیث اور دیگر طبقات کو شہ دیں گے(١) ، ان کے خدشات کی تصدیق کریں گے کہ مخطوطات میں لکھا کچھ اور جاتا ہے اور مطبوع کتابوں میں کچھ اور (٢)۔۔ لہذا لائیں صحیح بخاری کا امام بخاری(رحمۃ اللہ) کے ہاتھ سے تحریر کردہ نسخہ!
اگر ہم مطبوع کتب کے ساتھ ساتھ لغات پر بدگمانیاں جھاڑنا شروع کر دیں تو پھر بچارے ماہرین لغت نابود ہو جائیں گے(٣) ۔۔۔۔ :)
محترم عابد الرحمٰن صاحب نے ایک جگہ یہ بالکل درست کہا ہے :

اور اردو لفظ "انشاءاللہ" کو میں لسانیات کا مسئلہ سمجھتا ہوں جس کی تصدیق فلاں فلاں کے زورِ فہم سے نہیں بلکہ لسانیات کے ماہرین کے حوالے سے پیش کی جانی چاہیے۔(٤)
اوپر کے مراسلے میں فیروز اللغات کا حوالہ دیا تھا ، اب لیجیے ایک اور مشہور زمانہ لغت "فرہنگ آصفیہ(٥)" سے بھی حوالہ پیش خدمت ہے :

(١) اردو ادب کے مخطوطات کو آپ فن حدیث کے مخطوطات پر قیاس کر رہے ہیں جن میں زمین و آسمان کا فرق ہے اور جو اصول حدیث اور مخطوطات حدیثیہ کے تعلق سے کچھ نہ کچھ معلومات رکھتا ہے وہ اس بات کو بخوبی جانتا ہے ۔ بہر صورت اگر منکرین حدیث میں سے کوئی بھی آپ کی اس بات کو سن چکا ہے یا پڑھ چکا ہے تو اس سے گزارش ہے کہ کسی حدیث پر اس حوالے سے اعتراض کرے تاکہ حق بات واضح ہو جائے ۔
(٢) احتمال کی بات کی ہے بالجزم نہیں کہا کہ ضرور ایسا ہی ہوتا ہے ۔ کتب حدیث میں بھی یہ احتمال ہو سکتا ہے لیکن اس احتمال کو دور کرنے کے اہل فن کے پاس اصول و دلائل بھی ہیں ۔
(٣) باذوق بھائی مثال کے طور پر اگر آپ ہی کوئی کتاب لکھیں اور اس کا مسودہ کسی کو کتابت کے لیے دے دیں ۔ پھر آپ کے ہاتھ کے لکھے ہوئے مسودے اور اس کاتب کے لکھے ہوئے نسخے میں اختلاف ہوجائے تو پھر کس کو ترجیح دی جائے گی ؟
(٤) آپ کی بات سے اتفاق ہے۔ میری گزشتہ مشارکت میں کون سی ایسی بات ہے جو اس اصول کے مخالف ہے ؟ میں نے اہل فن کے خطوط کا ہی تذکرہ کیا تھا ۔
(٥) فیروز اللغات کے ساتھ آپ نے فرہنگ آصفیہ کا اضافہ کردیا ہے لیکن وہی احتمال باقی ہے کہ ان دونوں مصنفین نے ان شاء اللہ کی املاء کچھ اور کی ہو اور کاتب نے کچھ اور کی ہو ۔ اب اللہ کرے ایسا ہو کہ مصنف کے ہاتھ کا لکھا ہوا نسخہ مل جائے اور اس میں اس نسخے میں اختلاف ہو تو ترجیح کس کو دی جائے گی ؟
اور اگر مصنف کے ہاتھ کا نسخہ نہیں ملتا تو کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ صاحب فیروز اللغات یا فرہنگ آصفیہ نے اس کی املاء ایسے ہی کروائی ہے جیسا کہ موجودہ نسخے میں ہے ؟
البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ لغت کے مطبوعہ نسخے پر کسی نے اعتراض نہیں کیا ( اگر واقعتا کسی نے نہیں کیا ) اس اعتبار سے یہ قابل حجت ہے ۔ اور اس سے ہم بھی اتفاق کرتے ہیں لیکن ساتھ یہ بھی کہنا چاہیں گے کہ مصنف کے ہاتھ کے نسخہ میسر ہو جائےتو اختلاف کی صورت میں اس کو ترجیح دی جائے گی ۔
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,010
پوائنٹ
289
(١) اردو ادب کے مخطوطات کو آپ فن حدیث کے مخطوطات پر قیاس کر رہے ہیں جن میں زمین و آسمان کا فرق ہے اور جو اصول حدیث اور مخطوطات حدیثیہ کے تعلق سے کچھ نہ کچھ معلومات رکھتا ہے وہ اس بات کو بخوبی جانتا ہے ۔ بہر صورت اگر منکرین حدیث میں سے کوئی بھی آپ کی اس بات کو سن چکا ہے یا پڑھ چکا ہے تو اس سے گزارش ہے کہ کسی حدیث پر اس حوالے سے اعتراض کرے تاکہ حق بات واضح ہو جائے ۔
(٢) احتمال کی بات کی ہے بالجزم نہیں کہا کہ ضرور ایسا ہی ہوتا ہے ۔ کتب حدیث میں بھی یہ احتمال ہو سکتا ہے لیکن اس احتمال کو دور کرنے کے اہل فن کے پاس اصول و دلائل بھی ہیں ۔
(٣) باذوق بھائی مثال کے طور پر اگر آپ ہی کوئی کتاب لکھیں اور اس کا مسودہ کسی کو کتابت کے لیے دے دیں ۔ پھر آپ کے ہاتھ کے لکھے ہوئے مسودے اور اس کاتب کے لکھے ہوئے نسخے میں اختلاف ہوجائے تو پھر کس کو ترجیح دی جائے گی ؟
(٤) آپ کی بات سے اتفاق ہے۔ میری گزشتہ مشارکت میں کون سی ایسی بات ہے جو اس اصول کے مخالف ہے ؟ میں نے اہل فن کے خطوط کا ہی تذکرہ کیا تھا ۔
(٥) فیروز اللغات کے ساتھ آپ نے فرہنگ آصفیہ کا اضافہ کردیا ہے لیکن وہی احتمال باقی ہے کہ ان دونوں مصنفین نے ان شاء اللہ کی املاء کچھ اور کی ہو اور کاتب نے کچھ اور کی ہو ۔ اب اللہ کرے ایسا ہو کہ مصنف کے ہاتھ کا لکھا ہوا نسخہ مل جائے اور اس میں اس نسخے میں اختلاف ہو تو ترجیح کس کو دی جائے گی ؟
اور اگر مصنف کے ہاتھ کا نسخہ نہیں ملتا تو کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ صاحب فیروز اللغات یا فرہنگ آصفیہ نے اس کی املاء ایسے ہی کروائی ہے جیسا کہ موجودہ نسخے میں ہے ؟
البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ لغت کے مطبوعہ نسخے پر کسی نے اعتراض نہیں کیا ( اگر واقعتا کسی نے نہیں کیا ) اس اعتبار سے یہ قابل حجت ہے ۔ اور اس سے ہم بھی اتفاق کرتے ہیں لیکن ساتھ یہ بھی کہنا چاہیں گے کہ مصنف کے ہاتھ کے نسخہ میسر ہو جائےتو اختلاف کی صورت میں اس کو ترجیح دی جائے گی ۔
حضور! برائے مہربانی مجھے اس قسم کی بحث سے معاف رکھیں۔ :)
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
عمدہ تھریڈ.
جزاکم اللہ خیر
 
Top