• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اوجھڑی حلال ہے۔ فضیلۃ الشیخ حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کا فتوی

محمد عاطف

مبتدی
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
22
ری ایکشن اسکور
151
پوائنٹ
0
اوجھڑی حلال ہے
حلال جانور مثلا گائے،بھینس،اونٹ، بکری اور بھیڑ وغیرہ کو شرائط شرعیہ کے ساتھ ذبح کیا جائے تو اس کی اوجھڑی حلال ہے،چاہے قربانی ہو یا عام ذبیحہ ہو اور اسے حرام کہنا غلط ہے۔
قربانی کے جانور کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فَاِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُهَا فَكُلُوْا مِنْهَا وَ اَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَ الْمُعْتَرَّؕ پھرجب وہ پشت لگا دیں(یعنی ذبح ہو جاہیں) تو ان میں سے کھاؤ اور امیر و غریب کو بھی کھلاؤ۔(سورۃ الحج آیت نمبر۳۶)
اس آیت کے عموم سے ثابت ہےکہ ذبح جانور کا گوشت،اوجھڑی،دل اور کلیجی وغیرہ حلال ہے
اور یہاں بطور فائدہ عرض ہے کہ جس چیز کی حرمت قرآن،حدیث اور اجماع یا آثار سلف صالحین سے ثابت ہے تو وہ چیز اس آیت کے عموم سے خارج ہے مثلا:
وہ چیز جسے عام اہل ایمان کی طبیعتیں خبیث اور گندی سمجھیں تو آیت:
وَ يُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبٰٓىِٕثَ اور آپﷺ ان لوگوں پر خبیث چیزیں حرام قرار دیتے ہیں۔سورۃ الاعرف آیت نمبر۱۵۷
کی رو سے مکروہ تحریمی یا تنزیہی ہیں
اوجھڑی کا خبیث ہو نا نہ تو آثار سلف صالحین سے ثابت ہے اور نہ عام اہل ایمان اس کو گندا یا مکروہ و ناپسند قرار دیتے ہیں۔
۲:وہ چیز جو چوری یا غصب کر کے حاصل کی جائے۔مثلا کسی شخص کی بکری چوری کرکے ذبح کی جائے تو مسلمانوں کے لیے اس کا گوشت حلال نہیں ہے،الا کہ اصل مالک اس کی اجازت دے دے۔
۳:
وہ حلال جانور جس کی خوراک ہی گندگی نجاست ہو(یعنی جلالہ جانور) اس کا گوشت کھانا جائز نہیں ہے۔
۴:زندہ جانو ر کا کٹا ہوا گوشت کھانا حرام ہے۔
اب موضوع کی مناسبت سے چند فوائد پیش خدمت ہیں:
مفسر قرآن امام مجاھد تابعی ؒ سے روایت ہے:ان النبیﷺ کرہ من الشاۃسبعا: المثانۃ و المرارۃ والغدّۃ و الذکر و الحیاء و الانثیین‘‘ بے شک نبی کریمﷺ بکری کی سات چیزوں کو مکروہ سمجھتے تھے:مثانہ،پتہ،غدّہ،(گوشت کی گرہ جو کسی بیماری وغیرہ کی وجہ سے ابھر آتی ہے) آلہ تناسل،کھر اور سم والے جانوروں کی فرج(شرم گاہ) اور دونوں خصیے
(کتاب المراسیل لابی داؤد:۴۶۰،مصنف عبدالرزاق ح۸۷۷۱،السنن الکبری للبیہقی۷/۱۰)​
یہ روایت دو دجہ سے ضعیف ہے:

اول: واصل ابن ابی جمیل جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔مثلا امام دارقطنی رحمہ اللہ نے فرمایا’’ و واصل ھذا ضعیف‘‘ اور یہ واصل ضعیف ہے۔(سنن دارقطنیؒ۷۷/۳ح۳۰۵۹)
دوم: یہ روایت مرسل(یعنی منقطع ) ہے اور مرسل جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہوتی ہے۔(دیکھیے لسان المیزان۳۳۳/۷،دوسرا نسخہ۲۴۱/۵)
لہذا یہ روایت موضوع ہے۔

المعجم الاوسط للطبرانی میں اس روایت کا ایک شاہدبھی ہے(۲۱۷/۱۰ح۹۴۷۲)
اس کی سند میں یحییٰ الحمانی چور تھا(دیکھیے تقریب التہذیب:۷۵۹۱)

خلاصہ التحقیق:شرائط شرعیہ کے ساتھ حلال جانور کی اوجھڑی حلال ہے بشرطیکہ اسے خوب دھو دھو کر،خوب صفائی کر کے پکایا جائے اور کسی قسم کی نجاست کا کوئی اثر باقی نہ رہا

(الحدیث ،شمارہ نمبر۹۰)
 
Top