محمد اجمل خان
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 25، 2014
- پیغامات
- 350
- ری ایکشن اسکور
- 30
- پوائنٹ
- 85
اورل سیکس یا شرم گاہ چاٹنا
ہمارے پیارے رسول اللہ ﷺ ہمیں جانوروں کے بہت سارے افعال اختیار کرنے سے روکا ہے‘مثلاً : آپ ﷺنے ارشاد فرمایا : ” جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو اپنے ہاتھوں کو کتے کے ہاتھ پھیلا کر بیٹھنے کی طرح نہ پھیلائے“ (سنن ابی داؤد)۔ اور ’’ آپﷺ نے کتے کے بیٹھنے کی طرح بیٹھنے سے منع فرمایا “ (سنن ابن ماجہ) ۔ اور ” آپﷺنے کوے کے چونچ مارنے کی طرح ‘ درندوں کے پاؤں بچھانے کی طرح‘ اونٹ کے بیٹھنے کی طرح افعال اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے‘‘(سنن ابی داؤد)۔
مذکورہ بالا احادیث میں غور کیا جائے تو آپ ﷺ نے جب انسانوں کو جانوروں کے عام افعال کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے، پھر جو قبیح اور گھٹیا افعال ہیں، مثلاً : ’’علی الاعلان مجامعت کرنا اور ایک دوسرے کی شرمگاہ کو چاٹنا‘‘ ان میں جانوروں کی مشابہت کو کیسے گوارا کیا جاسکتا ہے؟
جانوروں سے انسان نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ عقل سلیم رکھنے والوں نے اچھائی اور عقل سقیم والوں نے برائی سیکھا اور اسے اپنایا۔ صدیوں پہلے جب انسان نے دیکھا کہ بعض جانور اپنے منہ اور زبان سے ایک دوسرے کی شرم گاہ چاٹتے ہیں تب بعض مریض ذہنیت کے لوگوں نے اورل سیکس یعنی شرم گاہ چاٹنے کا قبیح طریقہ اپنایا جسے کوئی سلیم الفطرت انسان سوچ بھی نہیں سکتا تھا یا ہے۔
میڈیا کی فحاشی پھیلانے کی وجہ کر آج زیادہ تر لوگ اس فعل قبیح سے آگاہ ہیں اور بعض مسلمان ہونے کے باوجود اس طریقے سے اپنی جنسی تشنگی مٹاتے ہیں۔ اہل مغرب شراب کے نشے میں دھت ہوکر ایک دوسرے کی شرم گاہ جانوروں کی طرح چاٹتے اور چوستے ہیں اور ان سے نکلنے والی گندگی کھا پی جاتے ہیں لیکن اہل مغرب میں بھی سلیم الفطرت لوگ اس فعل قبیح سے دور رہتے ہیں۔ افسوس کہ آج کے ان مسلمانوں کو دنیا کی لذت کتنی محبوب ہوگئی ہے کہ جس منہ اور زبان سے اللہ کا پاک کلام پڑھتے ہیں‘ اللہ کا پاک نام لیتے ہیں‘ اللہ کا ذکر کرتے ہیں‘ نبی کریم ﷺ کا نام لیتے ہیں اورآپ ﷺ پر درود و سلام بھیجتے ہیں‘ اسی منہ اور زبان کو جانوروں کی طرح گندگی چوسنے‘ چاٹنے اور کھانے پینے میں استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ اس فعل قبیح کا جو انجام سامنے آیا ہے اسے دیکھتے ہوئے اب اہل مغرب اپنی نسل کو اس سے دور رہنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ اس فعل قبیح کا انجام دنیا میں مندرجہ ذیل بیماریوں کا تحفہ ہے:
اعضائے تناسل کی ہرپیس۔Genital Herpes
اعضائے تناسل کی وارٹس ۔ Genital Warts
اندام نہانی کی سوزش ۔Bacterial Vaginosis
ہیومن پیپیلوما وائرس ۔ HPV
سوزاک۔ Gonorrhea
آتشک ۔ Syphlis
کلیمیڈیا ۔ Chlamydia
کینسر ۔Cancer
وائرل ہیپا ٹائٹس ۔ Hepatitis A, B and C
ٹرائکو مونیاسس۔ Trichomoniasis
انسانی جسم کے طفیلیے ( جیسےجووئیں‘ چچڑیاں وغیرہ)۔Public Lice
ایچ آئی وی انفیکشن اور ایڈز۔ HIV Infection and AIDS
وغیرہ وغیرہ
انیل سیکس یعنی دبر میں وطی کا تحفہ بھی یہ سب اور ان جیسی دیگر امراض ہیں۔
اب جس کی خواہش ناجائز لذت حاصل کرنا ہو تو وہ چند لمحوں کی لذت کی خاطر ان بیماریوں میں اپنے آپ کو اور اپنی بیوی کو برسوں کیلئے مبتلا کرنا چاہے تو کرے۔ لیکن بحیثیت مسلمان ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ’’ ہمارے خالق نے ہمیں دنیا میں لذت حاصل کرنے کیلئے نہیں بھیجا بلکہ اپنی عبادت کیلئے بھیجا ہے‘‘۔
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾۔۔ سورة الذاريات
’’ اور میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے‘‘۔
لذت حاصل کرنا ایک فطری ضرورت ہے اور اسے فطری طریقے سے ہی حاصل کرنا چاہئے۔ جیسا کہ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر ۲۲۲ میں اللہ تعالٰی کا حکم ہے:
فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّـهُ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ ﴿٢٢٢﴾ سورۃ البقرہ
’’پھر جب وہ پاک ہو جائیں تو ان کے پاس اس طرح جاؤ جس طرح اللہ نے حکم دیا ہے۔ یقیناً اللہ توبہ کرنے والوں اور پاکیزہ رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ (۲۲۲)
اب اللہ نے یہ حکم کہاں دیا ہے؟ تو اللہ نے اس حکم کو انسانی فطرت میں ودیت کر دیا ہے کہ بیوی سے لذت کیسے اور کہاں سے حاصل کرنا چاہئے اور پھر اگلی آیت (نمبر ۲۲۳) میں اسے مزید واضح کر دیا:
نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّىٰ شِئْتُمْ ۖ وَقَدِّمُوا لِأَنفُسِكُمْ ۚ ۔۔۔۔﴿٢٢٣﴾ سورة البقرة
’’ تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں پس اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو جاؤ‘ نیز اپنے لئے نیک اعمال کو آگے بھیجو‘‘۔۔۔۔(۲۲۳)
فرمایا’’ تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں‘‘یعنی مرد کسان ہے اور بیوی اس کی کھیت ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ایک کسان کی کھیت ہی اس کی سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔ اپنی کھیت سے ہی اسے سب سے زیادہ محبت ہوتی ہے کیونکہ کھیت کی پیداوار سے ہی اس کی زندگی کی ساری رونقیں ہیں۔ اب غور کریں کہ کسان اپنی کھیت میں کس لئے اور کس طرح جاتا ہے؟ تو کسان اپنی کھیت کی دیکھ بھال کرنے‘ جھاڑ جھنکاڑ صاف کرنے‘ اس میں کاشت کرنے ‘ ضرورت کے مطابق پانی اور کھاد دے کر بہتر فصل اُگانے کیلئے جاتا ہے۔ وہ فصلوں کو روندتا ہوا نہیں جاتا بلکہ فصلوں کو بچاتے ہوئے جاتا ہے۔
اسی طرح ایک انسان کی بیوی ہی اس کی سب سے قیمتی سرمایہ ہے جو اس کی زندگی کی رونق‘ راحت‘ چین و سکون اور لذت کی ضامن ہے اور بیوی سے حاصل ہونے والی اولاد اس کی دنیا و آخرت کی فصلیں ہیں۔ لہذا نسل انسانی کی اس کھیت کی دیکھ بال اور اسے تندرست رکھنے اور اس کھیتی میں نسل انسانی کی فصلیں اُگانے کیلئے ہی اللہ کا حکم ہے ’’ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ ‘‘ تو ان کے پاس اس طرح جاؤ جس طرح اللہ نے حکم دیا ہے جو کہ فرج یعنی سامنے کی شرمگاہ کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ لہذا اورل سیکس یعنی شرم گاہ چاٹنے کا کوئی جواز پیدا نہیں ہوتا بلکہ یہ ناجائز ہے۔
مشت زنی‘ اینل سیکس (دبر میں وطی) ‘ اورل سیکس (شرم گاہ چاٹنا) ‘ ہم جنس پرستی وغیرہ کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ 1000 ء تک عیسائیت میں انہیں بد ترین گناہ سمجھا جاتا تھا اور ان پر سخت ترین سزائیں مقرر تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ عیسائی مذہب میں تبدیلی آئی اور چرچ میں ہی یہ گناہیں ہونے لگی۔
الیکٹرونک میڈیا اور انٹر نیٹ سے سے پہلے مسلمانوں میں بہت کم لوگوں کو ان سب کا علم تھا اور جنہیں معلوم تھا وہ بھی زبان پر انہیں نہیں لاتے تھے۔ لیکن اب ہر دوسرا بندہ بلا جھجک ان کے بارے میں سوال کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ ان قبیح افعال کو جائز قرار دے دیا جائے۔
اصحاب رسول اللہ ﷺ میں کوئی ایسا نہیں تھا جو اورل سیکس یعنی شرم گاہ چاٹنے کے بارے میں سوچتا لیکن جو غیر فطری عمل آپ ﷺ کے سامنے آگیا ‘ آپ ﷺ نے اس سے منع فرما دیا۔ جس طرح انیل سیکس یعنی دبر میں وطی کرنے والے پر آپ ﷺ نے پر لعنت کی ہے اور فرمایا ہے: ’’ ایسا شخص ملعون ہے جو عورت کی پچھلی شرمگاہ میں جماع کرتا ہے‘‘ ۔ امام احمد 2/479 نے اسے روایت کیااور یہ حدیث صحيح الجامع 5865 میں بھی ہے۔ اور بھی بہت ساری احادیث اس بارے میں ہے۔
اورل سیکس یعنی شرم گاہ چاٹنا بھی اینل سیکس یعنی دبر میں وطی کی طرح لذت حاصل کرنے کی غیر فطری‘ غیر مہذب‘ شرم و حیا سے عاری ایک قبیح فعل ہے جس میں سوائے غلاظت اور بیماریوں کے کچھ بھی نہیں جو انسان کے جسم ‘ ذہن اور روح تک کو گندا اور بیمار کر دیتا ہے۔
اب جو چاہے گندگی میں لت پت ہو اور جو چاہے پاکیزگی اختیار کرے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہماری ذریت کو پاکیزگی اور پاکیزہ زندگی عطا کرے۔ آمین
تحریر: محمد اجمل خان
۔
نوٹ: بعض لوگوں کو ’’ اورل سیکس ‘‘ کے ساتھ ’’ شرم گاہ چاٹنا ‘‘ لکھنے پر اعتراض ہوا ہے۔تو عرض ہے کہ میں نے اس مضمون کو لکھنے کے بعد دو دنوں تک اس کے ایک ایک جملے پر غور کیا اور ’’ شرم گاہ چاٹنا ‘‘ میں نے سوچ سمجھ کر لکھا ہے تاکہ اردو میں اصل بات واضح ہو جائے اور لوگوں کو شرم آئے اور کراہت محسوس ہو۔ ورنہ’’ اورل سیکس‘‘ سننے سے کوئی کراہت محسوس نہیں ہوتی اور نہ ہی شرم آتی ہے۔ اس کا ایک ترجمہ ’’ منہ میں وطی ‘‘ بھی کیا جاسکتا ہے لیکن ایک تو آج کے نوجوان ’’منہ میں وطی‘‘ کی معنی ہی نہیں سمجھتے اور دوسرے اس کا بھی اُتنا اثر نہیں ہوتا جتنا’’ شرم گاہ چاٹنا ‘‘ لکھنے سے ہوا ہے تب ہی تو لوگوں نے اعتراض کیا ہے۔
۔
ہمارے پیارے رسول اللہ ﷺ ہمیں جانوروں کے بہت سارے افعال اختیار کرنے سے روکا ہے‘مثلاً : آپ ﷺنے ارشاد فرمایا : ” جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو اپنے ہاتھوں کو کتے کے ہاتھ پھیلا کر بیٹھنے کی طرح نہ پھیلائے“ (سنن ابی داؤد)۔ اور ’’ آپﷺ نے کتے کے بیٹھنے کی طرح بیٹھنے سے منع فرمایا “ (سنن ابن ماجہ) ۔ اور ” آپﷺنے کوے کے چونچ مارنے کی طرح ‘ درندوں کے پاؤں بچھانے کی طرح‘ اونٹ کے بیٹھنے کی طرح افعال اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے‘‘(سنن ابی داؤد)۔
مذکورہ بالا احادیث میں غور کیا جائے تو آپ ﷺ نے جب انسانوں کو جانوروں کے عام افعال کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے، پھر جو قبیح اور گھٹیا افعال ہیں، مثلاً : ’’علی الاعلان مجامعت کرنا اور ایک دوسرے کی شرمگاہ کو چاٹنا‘‘ ان میں جانوروں کی مشابہت کو کیسے گوارا کیا جاسکتا ہے؟
جانوروں سے انسان نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ عقل سلیم رکھنے والوں نے اچھائی اور عقل سقیم والوں نے برائی سیکھا اور اسے اپنایا۔ صدیوں پہلے جب انسان نے دیکھا کہ بعض جانور اپنے منہ اور زبان سے ایک دوسرے کی شرم گاہ چاٹتے ہیں تب بعض مریض ذہنیت کے لوگوں نے اورل سیکس یعنی شرم گاہ چاٹنے کا قبیح طریقہ اپنایا جسے کوئی سلیم الفطرت انسان سوچ بھی نہیں سکتا تھا یا ہے۔
میڈیا کی فحاشی پھیلانے کی وجہ کر آج زیادہ تر لوگ اس فعل قبیح سے آگاہ ہیں اور بعض مسلمان ہونے کے باوجود اس طریقے سے اپنی جنسی تشنگی مٹاتے ہیں۔ اہل مغرب شراب کے نشے میں دھت ہوکر ایک دوسرے کی شرم گاہ جانوروں کی طرح چاٹتے اور چوستے ہیں اور ان سے نکلنے والی گندگی کھا پی جاتے ہیں لیکن اہل مغرب میں بھی سلیم الفطرت لوگ اس فعل قبیح سے دور رہتے ہیں۔ افسوس کہ آج کے ان مسلمانوں کو دنیا کی لذت کتنی محبوب ہوگئی ہے کہ جس منہ اور زبان سے اللہ کا پاک کلام پڑھتے ہیں‘ اللہ کا پاک نام لیتے ہیں‘ اللہ کا ذکر کرتے ہیں‘ نبی کریم ﷺ کا نام لیتے ہیں اورآپ ﷺ پر درود و سلام بھیجتے ہیں‘ اسی منہ اور زبان کو جانوروں کی طرح گندگی چوسنے‘ چاٹنے اور کھانے پینے میں استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ اس فعل قبیح کا جو انجام سامنے آیا ہے اسے دیکھتے ہوئے اب اہل مغرب اپنی نسل کو اس سے دور رہنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ اس فعل قبیح کا انجام دنیا میں مندرجہ ذیل بیماریوں کا تحفہ ہے:
اعضائے تناسل کی ہرپیس۔Genital Herpes
اعضائے تناسل کی وارٹس ۔ Genital Warts
اندام نہانی کی سوزش ۔Bacterial Vaginosis
ہیومن پیپیلوما وائرس ۔ HPV
سوزاک۔ Gonorrhea
آتشک ۔ Syphlis
کلیمیڈیا ۔ Chlamydia
کینسر ۔Cancer
وائرل ہیپا ٹائٹس ۔ Hepatitis A, B and C
ٹرائکو مونیاسس۔ Trichomoniasis
انسانی جسم کے طفیلیے ( جیسےجووئیں‘ چچڑیاں وغیرہ)۔Public Lice
ایچ آئی وی انفیکشن اور ایڈز۔ HIV Infection and AIDS
وغیرہ وغیرہ
انیل سیکس یعنی دبر میں وطی کا تحفہ بھی یہ سب اور ان جیسی دیگر امراض ہیں۔
اب جس کی خواہش ناجائز لذت حاصل کرنا ہو تو وہ چند لمحوں کی لذت کی خاطر ان بیماریوں میں اپنے آپ کو اور اپنی بیوی کو برسوں کیلئے مبتلا کرنا چاہے تو کرے۔ لیکن بحیثیت مسلمان ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ’’ ہمارے خالق نے ہمیں دنیا میں لذت حاصل کرنے کیلئے نہیں بھیجا بلکہ اپنی عبادت کیلئے بھیجا ہے‘‘۔
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾۔۔ سورة الذاريات
’’ اور میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے‘‘۔
لذت حاصل کرنا ایک فطری ضرورت ہے اور اسے فطری طریقے سے ہی حاصل کرنا چاہئے۔ جیسا کہ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر ۲۲۲ میں اللہ تعالٰی کا حکم ہے:
فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّـهُ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ ﴿٢٢٢﴾ سورۃ البقرہ
’’پھر جب وہ پاک ہو جائیں تو ان کے پاس اس طرح جاؤ جس طرح اللہ نے حکم دیا ہے۔ یقیناً اللہ توبہ کرنے والوں اور پاکیزہ رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ (۲۲۲)
اب اللہ نے یہ حکم کہاں دیا ہے؟ تو اللہ نے اس حکم کو انسانی فطرت میں ودیت کر دیا ہے کہ بیوی سے لذت کیسے اور کہاں سے حاصل کرنا چاہئے اور پھر اگلی آیت (نمبر ۲۲۳) میں اسے مزید واضح کر دیا:
نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّىٰ شِئْتُمْ ۖ وَقَدِّمُوا لِأَنفُسِكُمْ ۚ ۔۔۔۔﴿٢٢٣﴾ سورة البقرة
’’ تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں پس اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو جاؤ‘ نیز اپنے لئے نیک اعمال کو آگے بھیجو‘‘۔۔۔۔(۲۲۳)
فرمایا’’ تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں‘‘یعنی مرد کسان ہے اور بیوی اس کی کھیت ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ایک کسان کی کھیت ہی اس کی سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔ اپنی کھیت سے ہی اسے سب سے زیادہ محبت ہوتی ہے کیونکہ کھیت کی پیداوار سے ہی اس کی زندگی کی ساری رونقیں ہیں۔ اب غور کریں کہ کسان اپنی کھیت میں کس لئے اور کس طرح جاتا ہے؟ تو کسان اپنی کھیت کی دیکھ بھال کرنے‘ جھاڑ جھنکاڑ صاف کرنے‘ اس میں کاشت کرنے ‘ ضرورت کے مطابق پانی اور کھاد دے کر بہتر فصل اُگانے کیلئے جاتا ہے۔ وہ فصلوں کو روندتا ہوا نہیں جاتا بلکہ فصلوں کو بچاتے ہوئے جاتا ہے۔
اسی طرح ایک انسان کی بیوی ہی اس کی سب سے قیمتی سرمایہ ہے جو اس کی زندگی کی رونق‘ راحت‘ چین و سکون اور لذت کی ضامن ہے اور بیوی سے حاصل ہونے والی اولاد اس کی دنیا و آخرت کی فصلیں ہیں۔ لہذا نسل انسانی کی اس کھیت کی دیکھ بال اور اسے تندرست رکھنے اور اس کھیتی میں نسل انسانی کی فصلیں اُگانے کیلئے ہی اللہ کا حکم ہے ’’ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ ‘‘ تو ان کے پاس اس طرح جاؤ جس طرح اللہ نے حکم دیا ہے جو کہ فرج یعنی سامنے کی شرمگاہ کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ لہذا اورل سیکس یعنی شرم گاہ چاٹنے کا کوئی جواز پیدا نہیں ہوتا بلکہ یہ ناجائز ہے۔
مشت زنی‘ اینل سیکس (دبر میں وطی) ‘ اورل سیکس (شرم گاہ چاٹنا) ‘ ہم جنس پرستی وغیرہ کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ 1000 ء تک عیسائیت میں انہیں بد ترین گناہ سمجھا جاتا تھا اور ان پر سخت ترین سزائیں مقرر تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ عیسائی مذہب میں تبدیلی آئی اور چرچ میں ہی یہ گناہیں ہونے لگی۔
الیکٹرونک میڈیا اور انٹر نیٹ سے سے پہلے مسلمانوں میں بہت کم لوگوں کو ان سب کا علم تھا اور جنہیں معلوم تھا وہ بھی زبان پر انہیں نہیں لاتے تھے۔ لیکن اب ہر دوسرا بندہ بلا جھجک ان کے بارے میں سوال کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ ان قبیح افعال کو جائز قرار دے دیا جائے۔
اصحاب رسول اللہ ﷺ میں کوئی ایسا نہیں تھا جو اورل سیکس یعنی شرم گاہ چاٹنے کے بارے میں سوچتا لیکن جو غیر فطری عمل آپ ﷺ کے سامنے آگیا ‘ آپ ﷺ نے اس سے منع فرما دیا۔ جس طرح انیل سیکس یعنی دبر میں وطی کرنے والے پر آپ ﷺ نے پر لعنت کی ہے اور فرمایا ہے: ’’ ایسا شخص ملعون ہے جو عورت کی پچھلی شرمگاہ میں جماع کرتا ہے‘‘ ۔ امام احمد 2/479 نے اسے روایت کیااور یہ حدیث صحيح الجامع 5865 میں بھی ہے۔ اور بھی بہت ساری احادیث اس بارے میں ہے۔
اورل سیکس یعنی شرم گاہ چاٹنا بھی اینل سیکس یعنی دبر میں وطی کی طرح لذت حاصل کرنے کی غیر فطری‘ غیر مہذب‘ شرم و حیا سے عاری ایک قبیح فعل ہے جس میں سوائے غلاظت اور بیماریوں کے کچھ بھی نہیں جو انسان کے جسم ‘ ذہن اور روح تک کو گندا اور بیمار کر دیتا ہے۔
اب جو چاہے گندگی میں لت پت ہو اور جو چاہے پاکیزگی اختیار کرے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہماری ذریت کو پاکیزگی اور پاکیزہ زندگی عطا کرے۔ آمین
تحریر: محمد اجمل خان
۔
نوٹ: بعض لوگوں کو ’’ اورل سیکس ‘‘ کے ساتھ ’’ شرم گاہ چاٹنا ‘‘ لکھنے پر اعتراض ہوا ہے۔تو عرض ہے کہ میں نے اس مضمون کو لکھنے کے بعد دو دنوں تک اس کے ایک ایک جملے پر غور کیا اور ’’ شرم گاہ چاٹنا ‘‘ میں نے سوچ سمجھ کر لکھا ہے تاکہ اردو میں اصل بات واضح ہو جائے اور لوگوں کو شرم آئے اور کراہت محسوس ہو۔ ورنہ’’ اورل سیکس‘‘ سننے سے کوئی کراہت محسوس نہیں ہوتی اور نہ ہی شرم آتی ہے۔ اس کا ایک ترجمہ ’’ منہ میں وطی ‘‘ بھی کیا جاسکتا ہے لیکن ایک تو آج کے نوجوان ’’منہ میں وطی‘‘ کی معنی ہی نہیں سمجھتے اور دوسرے اس کا بھی اُتنا اثر نہیں ہوتا جتنا’’ شرم گاہ چاٹنا ‘‘ لکھنے سے ہوا ہے تب ہی تو لوگوں نے اعتراض کیا ہے۔
۔