محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !
تحریر : شیخ محترم @رفیق طاھر حفظہ اللہ
سن دو ہجری میں غزوہ بدر ہوا۔ اس میں اللہ عزوجل نے یہ ارادہ کیا کہ مؤمنین کے سامنے اپنی قدرت کو ظاہر کرے اور انہیں یہ بتائے کہ کس طرح وہ ایمان اور اعمال صالحہ کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی قدرت سے مستفید ہوسکتے ہیں۔نبی کریمﷺ اور صحابہ کرام اپنی قلت تعداد اور دشمن کی کثرت تعداد کے باوجود ان کے مقابلے میں نکلے اور میدان ِ بدر میں کفار قریش اور ان کے سرداروں کے سامنے آئے۔ تھوڑے زیادہ کے، رحمن کے دوست شیطان کے دوستوں کے اور اہل حق اہل باطل کے سامنے کھڑے ہوئے۔ نبی کریمﷺ نے اپنے رب سے مدد مانگی، اپنی، اپنے صحابہ اور اپنے دشمنوں کی حالت اس کے سامنے رکھی۔تو اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا شرف ِ قبولیت سے نوازا اور فرشتوں سے ان کی مدد فرمائی۔اگرچہ کفار کو شکست دینے کےلیے جبریل علیہ السلام جیسا ایک ہی فرشتہ کافی تھا، وہ جبریل کہ جس کے چھ سو پَر ہیں، اور ان میں سے ایک پَر اتنا بڑا ہے کہ افق پر چھا جاتا ہے، وہ جبریل کہ جس نے قوم لوط کی بستی کو اٹھا کر، آسمانوں پر لے جاکر زمین پر دے مارا تھا۔لیکن اللہ تعالیٰ نے صرف کلمۃ اللہ کی بلندی اور اللہ کے دین کی مدد کےلیے مسلمانوں کے اکٹھے ہونے سے بہت زیادہ خوش ہوکر ایک ہزار فرشتوں سے ان کی مدد فرمائی، جیسا کہ اللہ کا فرمان عالی شان ہے:
‹إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ مُرْدِفِينَ›
جب تم اپنے رب سے مدد مانگ رہے تھے تو اس نے تمھاری دعا قبول کر لی کہ بے شک میں ایک ہزار فرشتوں کے ساتھ تمھاری مدد کرنے والا ہوں، جو ایک دوسرے کے پیچھے آنے والے ہیں ۔ [الأنفال: 9]
پھر تین ہزار فرشتوں سے اور پھر پانچ ہزار فرشتوں سے ان کی مدد فرمائی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
‹وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ بِبَدْرٍ وَأَنْتُمْ أَذِلَّةٌ فَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (123) إِذْ تَقُولُ لِلْمُؤْمِنِينَ أَلَنْ يَكْفِيَكُمْ أَنْ يُمِدَّكُمْ رَبُّكُمْ بِثَلَاثَةِ آلَافٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ مُنْزَلِينَ (124) بَلَى إِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا وَيَأْتُوكُمْ مِنْ فَوْرِهِمْ هَذَا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلَافٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ مُسَوِّمِينَ (125)›
اور بلاشبہ یقینا اللہ نے بدر میں تمھاری مدد کی، جب کہ تم نہایت کمزور تھے، پس اللہ سے ڈرو، تاکہ تم شکر کرو ۔ جب آپﷺ مؤمنوں سے یوں کہہ رہے تھے کہ ’’کیا تمہیں یہ کافی نہیں کہ تمہارا رب تین ہزار فرشتوں کے ساتھ تمہاری مدد کرے، جو اتارے ہوئے ہوں ؟‘‘ کیوں نہیں! اگر تم صبر کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو اور دشمن اپنے اسی جوش میں تم پر چڑھ آئے تو تمہارا پروردگار خاص نشان رکھنے والے پانچ ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا۔
[آل عمران: 125-123]
پھر اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں پر واضح کردیا کہ یہ فرشتوں کے ذریعے عظیم مدد ان کےلیے بطور خوشخبری ہے تاکہ ان کے دل مطمئن ہوجائیں اور وہ اس بات کو پلے باندھ لیں کہ حقیقت میں مدد صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے آتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
‹وَمَا جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرَى لَكُمْ وَلِتَطْمَئِنَّ قُلُوبُكُمْ بِهِ وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ› [/ARB]
فرشتوں سے مدد کی خبر اللہ نے تمہیں صرف اس لیے دی ہے کہ تم خوش ہو جاؤ اور تمہارے دل مطمئن ہوجائیں اور مدد تو اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے جو بڑا سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔ [آل عمران: 126]
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا مظاہرہ کیا اور اپنے دوستوں کی مدد کی۔ وہ ذات جس نے وہاں ان مؤمنوں کی مدد کی تھی، وہ ہر زمانے اور ہر جگہ پر مؤمنوں کی مدد کا ذمہ دار ہے۔
جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں:
‹وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ›
اور مومنوں کی مدد کرنا ہم پر لازم ہی تھا۔ [الروم: 47]
تحریر : شیخ محترم @رفیق طاھر حفظہ اللہ
سن دو ہجری میں غزوہ بدر ہوا۔ اس میں اللہ عزوجل نے یہ ارادہ کیا کہ مؤمنین کے سامنے اپنی قدرت کو ظاہر کرے اور انہیں یہ بتائے کہ کس طرح وہ ایمان اور اعمال صالحہ کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی قدرت سے مستفید ہوسکتے ہیں۔نبی کریمﷺ اور صحابہ کرام اپنی قلت تعداد اور دشمن کی کثرت تعداد کے باوجود ان کے مقابلے میں نکلے اور میدان ِ بدر میں کفار قریش اور ان کے سرداروں کے سامنے آئے۔ تھوڑے زیادہ کے، رحمن کے دوست شیطان کے دوستوں کے اور اہل حق اہل باطل کے سامنے کھڑے ہوئے۔ نبی کریمﷺ نے اپنے رب سے مدد مانگی، اپنی، اپنے صحابہ اور اپنے دشمنوں کی حالت اس کے سامنے رکھی۔تو اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا شرف ِ قبولیت سے نوازا اور فرشتوں سے ان کی مدد فرمائی۔اگرچہ کفار کو شکست دینے کےلیے جبریل علیہ السلام جیسا ایک ہی فرشتہ کافی تھا، وہ جبریل کہ جس کے چھ سو پَر ہیں، اور ان میں سے ایک پَر اتنا بڑا ہے کہ افق پر چھا جاتا ہے، وہ جبریل کہ جس نے قوم لوط کی بستی کو اٹھا کر، آسمانوں پر لے جاکر زمین پر دے مارا تھا۔لیکن اللہ تعالیٰ نے صرف کلمۃ اللہ کی بلندی اور اللہ کے دین کی مدد کےلیے مسلمانوں کے اکٹھے ہونے سے بہت زیادہ خوش ہوکر ایک ہزار فرشتوں سے ان کی مدد فرمائی، جیسا کہ اللہ کا فرمان عالی شان ہے:
‹إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ مُرْدِفِينَ›
جب تم اپنے رب سے مدد مانگ رہے تھے تو اس نے تمھاری دعا قبول کر لی کہ بے شک میں ایک ہزار فرشتوں کے ساتھ تمھاری مدد کرنے والا ہوں، جو ایک دوسرے کے پیچھے آنے والے ہیں ۔ [الأنفال: 9]
پھر تین ہزار فرشتوں سے اور پھر پانچ ہزار فرشتوں سے ان کی مدد فرمائی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
‹وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ بِبَدْرٍ وَأَنْتُمْ أَذِلَّةٌ فَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (123) إِذْ تَقُولُ لِلْمُؤْمِنِينَ أَلَنْ يَكْفِيَكُمْ أَنْ يُمِدَّكُمْ رَبُّكُمْ بِثَلَاثَةِ آلَافٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ مُنْزَلِينَ (124) بَلَى إِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا وَيَأْتُوكُمْ مِنْ فَوْرِهِمْ هَذَا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلَافٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ مُسَوِّمِينَ (125)›
اور بلاشبہ یقینا اللہ نے بدر میں تمھاری مدد کی، جب کہ تم نہایت کمزور تھے، پس اللہ سے ڈرو، تاکہ تم شکر کرو ۔ جب آپﷺ مؤمنوں سے یوں کہہ رہے تھے کہ ’’کیا تمہیں یہ کافی نہیں کہ تمہارا رب تین ہزار فرشتوں کے ساتھ تمہاری مدد کرے، جو اتارے ہوئے ہوں ؟‘‘ کیوں نہیں! اگر تم صبر کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو اور دشمن اپنے اسی جوش میں تم پر چڑھ آئے تو تمہارا پروردگار خاص نشان رکھنے والے پانچ ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا۔
[آل عمران: 125-123]
پھر اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں پر واضح کردیا کہ یہ فرشتوں کے ذریعے عظیم مدد ان کےلیے بطور خوشخبری ہے تاکہ ان کے دل مطمئن ہوجائیں اور وہ اس بات کو پلے باندھ لیں کہ حقیقت میں مدد صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے آتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
‹وَمَا جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرَى لَكُمْ وَلِتَطْمَئِنَّ قُلُوبُكُمْ بِهِ وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ› [/ARB]
فرشتوں سے مدد کی خبر اللہ نے تمہیں صرف اس لیے دی ہے کہ تم خوش ہو جاؤ اور تمہارے دل مطمئن ہوجائیں اور مدد تو اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے جو بڑا سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔ [آل عمران: 126]
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا مظاہرہ کیا اور اپنے دوستوں کی مدد کی۔ وہ ذات جس نے وہاں ان مؤمنوں کی مدد کی تھی، وہ ہر زمانے اور ہر جگہ پر مؤمنوں کی مدد کا ذمہ دار ہے۔
جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں:
‹وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ›
اور مومنوں کی مدد کرنا ہم پر لازم ہی تھا۔ [الروم: 47]