• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اور کہہ دو کہ تم عمل کیے جاؤ

شمولیت
اگست 16، 2017
پیغامات
112
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
55
بسم الله الرحمن الرحيم

شیخ ابراہیم بن عواد حفظہ اللہ کے صوتی خطاب: "وقُلِ اعْمَلُوْا" کا اردو ترجمہ بعنوان "اور کہہ دو کہ تم عمل کیے جاؤ"

بلاشبہ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں، ہم اسی کی حمد بیان کرتے ہیں اور اسی سے مدد حاصل کرتے ہیں، اوراسی سے توبہ و استغفار کرتے ہیں، ہم اپنے اعمال کی برائیوں اور اپنے نفس کے شرور سے اس کی پناہ میں آتے ہیں، وہ جسے ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اوروہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺاس کے بندے اور رسول ہیں۔
اما بعد:
اللہ سبحانہ و تعالی کا فرمان ہے:
﴿إِنَّالَّذِينَيُحَادُّونَاللَّـهَ وَرَسُولَهُ أُولَـٰئِكَ فِي الْأَذَلِّينَ، كَتَبَ اللَّـهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي ۚ إِنَّ اللَّـهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ} (سورة المجادلة: 20۔21)
ترجمہ: بیشک وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں وہی ذلیلوں میں سے ہیں۔ اللہ نے لکھ رکھا ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب رہیں گے۔ بلاشبہ اللہ بڑا زورآور اور غالب ہے۔
یہ اللہ کی طرف سے ایک وعدہ اور وعید ہے، یہ ایسا وعدہ ہے کہ نہ تو اس میں وعدہ خلافی ہے اور نہ ہی یہ بدلتا ہے، بس اللہ نے اس کا فیصلہ فرمادیا ہے اور اسے ام الکتاب میں درج کردیا ہے، ہر اس شخص کیلئے جو اس پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے اور اللہ کے فلاح یاب گروہ میں سے ہوجائے، (اور وہ عدہ یہ ہے کہ) بلاشبہ دنیا و آخرت میں فتح و نصرت اور غلبہ انہی کیلئے ہے، اور یہ طے شدہ بات ہے، یہی اٹل فیصلہ ہے۔
اور یہ وعید ہے ہر اس شخص کیلئے جو اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر و معاصی کے ذریعے جنگ کرتا ہے اور ان کی مخالفت پر اترتا ہے پس ایسے ہی لوگ ذلیل و رسوا ہیں، ان کیلئے نہ تو کوئی اچھا انجام ہے اور نہ ہی کامیابی کو ان سے کوئی سروکار ہے۔
اورجنابِ رسولِ امین ﷺ نے اپنی امت کو نصرت و تمکین کی بشارت دی ہے، جیسا کہ مسند احمد میں ابی بن کعب سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس امت کو رفعت و سربلندی، دین اور نصرت و تمکین کی خوشخبری سنادو، پس جس کسی نے بھی آخرت کے کام کو دنیا کیلئے کیا تو اس کیلئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔
پس چاہے کتنا ہی زمانہ بیت جائے، کتنے ہی حوادث رونما ہوجائیں اور چاہے کتنے ہی اسباب کایا پلٹ جائیں، پس دغا و بد ہمتی کیلئے کوئی راستہ نہیں، اور نہ ہی شکوک و شبہات اور گمان آرائیوں کیلئے کوئی جگہ ہے، (اگر کوئی راستہ ہے تو وہ صرف اور صرف) صبر و ثابت قدمی اور دعوت و قتال کا ہے۔
{فَاصبِرإِنَّوَعدَاللَّهِ حَقٌّ وَاستَغفِر لِذَنبِكَ وَسَبِّح بِحَمدِ رَبِّكَ بِالعَشِيِّ وَالإِبكارِ} (سورة غافر:55)
ترجمہ: پس صبر سے کام لو بے شک اللہ کا وعدہ بر حق ہے اور اپنے گناہوں پر توبہ و استغفار کرو، اور صبح و شام اپنے رب کی تسبیح بیان کرو۔
پس اگر آفات سے دل پژمردہ ہوجائیں، اور حالات کی شدت انہیں زچ کرڈالے تو یہی دلوں کی دوا ہے ، اسی میں نفس کی بیماریوں اور تکالیف سے چھٹکارا ہے، اور یہی دل کو لاحق ان امراض سے شفایابی کا ذریعہ ہے جو اسے اپنے رب کی طرف سفر میں بوجھل کردیتے ہیں، اور یہ گناہوں کا اقرار ہے، عزیز و غفار رب کے حضور توبہ و استغفار طلب کرتے ہوئے اطاعت گزاری اور دیگر قربات کا حصول ہے۔
بے شک دین و اہلِ دین کی اجنبیت ہر شخص سے جو از سرِ نو اٹھ کھڑا ہونا چاہتا ہے اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ و ہ اس چیز کو موبگطی سے تھام لیں جسےن پہلے لوگوں نے تھام رکھا تھا، پس وہ اپنے دشمن سے جہاد میں بر سرِ پیکار رہتے ہوئے اہلِ کفر و باطل اور جہنم کے داعیوں کی اس ہذیان گوئی پر کان نہ دھریں جو کہ وہ اس لئے کررہے ہیں تاکہ انہیں کسی طرح (جہاد سے) پیچھے بٹھادیا جائے، یا ان پر ان کے دین کو مشتبہ کردیا جائے تاکہ وہ کبھی اس مقصد تک نہ پہنچ سکیں جس کیلئے وہ ہجرت کرکے نکلے ہیں ۔فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَالَّذينَيُمَسِّكونَ بِالكِتابِ وَأَقامُوا الصَّلاةَ إِنّا لا نُضيعُ أَجرَ المُصلِحينَ} (الأعراف: 170)
ترجمہ: وہ لوگ جو کتاب کو مضبوطی سے تھامے رکھتے ہںَ اور نماز پڑھتے ہںت توینا ب ہم ایسے نکپ لوگوں کے اجر کو ضائع نہںم کرتے۔
اوراس پاک ذات کا فرمان ہے:
{فَاستَمسِكبِالَّذيأوحِيَإِلَيكَإِنَّكَعَلىصِراطٍمُستَقيمٍ} ( الزخرف:43)
ترجمہ: پس جو آپ کی طرف وحی کیا گیا ہے اسے مظبوطی سے تھام لو، بے شک آپ ہی سیدھے راستے پر ہو۔
پس اللہ نے ہمیں دنیا میں نصرت و تمکین اور دین و اہلیانِ دین کی سربلندی کا مکلف نہیں بنایا، نہ تو اسے کسی عمل کے مقبول ہونے کی شرط بنایا ہے اور نہ ہی اسے غلط اور صحیح کی دلیل قرار دیا ہے، یہ تو اس امت پر محض اللہ تعالی کی رحمت ہے، بلکہ اللہ تعالی نے ہمیں اس امر کی ادائیگی کا حکم دیا ہے جو اس نے ہم پر فرض فرمایا ہے، کہ ہم دین کو اسی کیلئے خالص کرتے ہوئے اور پوری پوری اتباع کرتے ہوئے اور بدعات سے بچتے ہوئے اسے ادا کریں۔
سو ہم ایک ایسے مقصد کیلئے پیدا کئے گئے ہیں کہ جس کا اختتام نہایت عظیم الشان ہے، پس نتائج تو اس ذاتِ سبحانہ وتعالی کے ہاتھ میں ہیں، وہ چاہے تو عطا کردے اور چاہے تو روک لے۔ اس کا فرمان ہے:
{وَقُلِاعمَلوافَسَيَرَىاللَّهُعَمَلَكُموَرَسولُهُوَالمُؤمِنونَوَسَتُرَدّونَإِلىعالِمِالغَيبِوَالشَّهادَةِفَيُنَبِّئُكُمبِماكُنتُمتَعمَلونَ} ( التوبة: 105)
ترجمہ: کہہ دو کہ تم عمل کئے جاؤ،پس اللہ، اس کا رسول اور مؤمینا تمہارےعمل کو دیکھ لیں گے، اور تم کو اسی کے پاس جانا ہے جو تمام چھپی اور کھلی چزلوں کا جاننے والا ہے۔ سو وہ تم کو تمہارا سب کاں ہوا بتلا دے گا۔
اور اسی رب العزت کا فرمان ہے:
{فَاصبِرإِنَّوَعدَاللَّهِحَقٌّفَإِمّانُرِيَنَّكَبَعضَالَّذينَعِدُهُمأَونَتَوَفَّيَنَّكَفَإِلَينايُرجَعونَ} ( غافر:77)
ترجمہ: پس آپ صبر سے کام لو، بشکَ اللہ کا وعدہ برحق ہے، ہم نے ان کو جس عذاب سے ڈرایا ہے خواہ ہم اس مں سے آپ کو کچھ دکھائیںیا ہم اس سے پہلے ہی آپ کو وفات دے دیں، سو ان کو بھی تو بہرحال ہماری طرف ہی لوٹایا جائے گا۔
اور فرمان ہے:
{فَقاتِلفيسَبيلِاللَّهِلاتُكَلَّفُإِلّانَفسَكَوَحَرِّضِالمُؤمِنينَعَسَىاللَّهُأَنيَكُفَّبَأسَالَّذينَكَفَرواوَاللَّهُأَشَدُّ بَأسًا وَأَشَدُّ تَنكيلًا} ( النساء:84)
ترجمہ: پس تم اللہ کے راستے میں قتال کرتے رہو، تم اپنے سوا کسی کے مکلف نہیں، اور مؤمینس کو ابھارتے رہو، قریب ہے کہ اللہ کافروں کی جنگ کو روک ڈالے، اور اللہ تو بڑا زور آور اور سخت سزا دینے والا ہے۔
اور فرمانِ باری تعالی ہے:
{فَليُقاتِلفيسَبيلِاللَّهِالَّذينَيَشرونَالحَياةَالدُّنيابِالآخِرَةِوَمَنيُقاتِلفيسَبيلِاللَّهِفَيُقتَلأَويَغلِبفَسَوفَنُؤتيهِأَجرًاعَظيمًا} ( النساء: 74)
ترجمہ: پس جو لوگ دناا کی زندگی کو آخرت کے بدلے بچب چکے ہںَ انہںت اللہ تعالیٰ کی راہ مںی جہاد کرنا چاہےہ اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ مںش جہاد کرتے ہوئے قتل ہوجائےیا غالب آجائے تو یناًں ہم اسے بہت بڑا ثواب عنایت کرتے ہں ۔
امام طبری رحمہ اللہ اس آیت کی تاویل میں فرماتے ہیں: اس میں اللہ کی طرف سے مؤمیني کو اس بات پر ابھارا گیا ہے کہ وہ اپنے دشمن یعنی اہلِ کفر سے جہاد کریں چاہے وہ غالب ہوں یا مغلوب ہوں، اور یہ کہ وہ منافقین کی باتوں پر کان نہ دھریں جو وہ مشرکین کے خلاف جہاد کرنے والوں کے جہاد کے بارے میں کرتے ہیں، اور بلا شبہ انہی کیلئے ہی اللہ کے ہاں بلند مقام ہے، چاہے وہ غالب ہوں یا مغلوب۔
فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَلَئِنقُتِلتُمفيسَبيلِاللَّهِأَومُتُّملَمَغفِرَةٌمِنَاللَّهِوَرَحمَةٌخَيرٌمِمّايَجمَعونَ} ( آلِ عمران: 157)
ترجمہ: اگر تم اللہ کی راہ مںَ قتل ہوگئے یا مرگئے تو اللہ کی مغفرت اور رحمت (جس سے کہ تم نوازے جاؤ گے) ان تمام چزَوں سے کہںأ بہتر ہے جن کو یہ لوگ اکٹھا کر رہے ہںا۔
امام اہلِ تفسیر (امام طبری) فرماتے ہیں: اللہ تعالی اپنے مؤمن بندوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اے مؤمنو! اس بات میں کسی شک و شبہ کا شکار مت ہوجانا کہ تمام کے تمام امور اللہ ہی کے ہاتھ میں ہیں، اور زندگی و موت اسی کے امر سے ہے، جیسا کہ اس میں منافقین شکوک و شبہات کا شکار ہوگئے، بلکہ تم اللہ کے راستے میں جہاد کرو، اور اس کے دشمنوں سے قتال کرو اس یقین کے ساتھ کہ کوئی بھی جنگ میں قتل نہیں ہوسکتا سوائے اس کے کہ اس کی موت کا وقت آن پہنچے، پھر اللہ نے اپنے راستے میں جہاد کرنے پر ان سے مغفرت اور رحمت کا وعدہ فرمایا ہے، اور انہیں بتلادیا ہے کہ اللہ کے راستے میں قتل ہوجانا اس سے کہیں بڑھ کر ہے جو وہ دنیا میں چند ٹکڑے اکٹھے کرتے ہیں یا دنیا میں اچھی زندگی جینے کیلئے جہادِ فی سبیل اللہ سے بوجھل پڑے جاتے ہیں، اور دشمن کا سامنا کرنے سے پیچھے بیٹھے ہوئے ہیں، (آپ رحمہ اللہ کا کلام ختم ہوا)۔
پس آج گردشِ حالات کے اکھاڑے میں اور بت پرستوں اور اربابِ جاہلیت کے غل غپاڑے میں، جھوٹے دعویداروں کے زوال پذیر ہونے اور گمراہ کرنے والے باطل پرستوں کی شر انگیزی کا پردہ فاش ہونے کے بیچوں بیچ، یہ رہی دولتِ خلافت، جو اللہ تعالی کے فضل و احسان سے کئی اقوام سے پنجہ آزما ہے، ہر ہر قدم میں پر اعتماد اور (اپنے) ارادے میں پختہ تر ہے، اسے شب و روز کفار کے اکٹھ اور فجار کے جمگھٹے خوفزدہ نہ کر پائے، بس یہ اپنے راستے پر گامزن ہے، اپنے رب کی نصرت پر یقین رکھے ہوئے ہے، یہ اس دن ثابت قدم رہی جس دن ہر بد ہمت و بد طینت جواب دے گیا، اس نے اس دن بھی اپنے قول و عمل سے الولاء والبراء کے ساتھ توحید کی صدائیں بلند کیں کہ جس دن بدبختوں (کے ٹولے) سلامتی کے منہج کو ترجیح دیتے ہوئے اندھی کھائیوں اور جہالت کی گھاٹیوں میں جاگرے، پس دولت اسلامیہ اکیلی تنِ تنہا قائد و راہبر بن کر جنگ میں(ہر دشمن سے) نبرد آزما ہے، (اپنے لشکروں کی) صفوں کو آگے بڑھارہی ہے اور تیغ و تفنگ کی پرواہ کیے بغیر دشمن کا خون بہا رہی ہے۔
اس کے قیام پر نصف دہائی گزر چکی ہے جبکہ قوتِ گویائی اس کی قربانی و جانثاری، جانبازی و فداکاری کو بیان کرنے سے عاجز ہے۔
نصف دہائی گزر چکی ہے یہ اپنے راستے اور منہج پر ثابت قدم ہے۔
نصف دہائی گزر چکی ہے کہ خلافت کے سپوت (اپنے) بلند پایہ مقصد کی جانب قدم بقدم رواں دواں ہیں۔
نصف دہائی گزر چکی ہے کہ اس کی مخالفت کرنے والے اور اسے تنہا چھوڑ دینے والے اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکے۔
نصف دہائی گزر چکی ہے اور اس کا دشمن بد بختی و ذلالت کا شکار ہوکر اس کی بقاء اور اس کے مزید پھیل جانے کی حقیقت کا پسِ پردہ اعتراف و اقرار کررہا ہے۔
نصف دہائی گزر چکی ہے اور سچے موحد مجاہدین کے لشکر اللہ کی اطاعت کیلئے اس کی بیعت کرنے کو آگے بڑھتے چلے آرہے ہیں، وہ اللہ کے حکم کو بجالاتے ہوئے لزومِ جماعت اور اللہ کی رسی کو تھام لینے کے ساتھ اس کی رحمت اور توفیق کے امید وار ہیں۔

عمل ہے ان کا حقیقت، سو کر بیاں اس کو
نہ کر وہ بات کہ جس میں ہے کذب و مکر ہزار

عدوئے دیں کو پڑا ایسے غم سے پالا ہے
کہ کرکے لاکھ جتن بھی نہ پائے جائے فرار

پس خوشخبری ہو اے اہلِ اسلام!، خوشخبری ہو اے اہلِ سنت! تمہارے بیٹے خلافت کے سپاہی کفریہ امتوں کو پچھاڑنے سے نہ ہی تھکے ہیں اور نہ ہی بے دم ہوئے ہیں، وہ اپنے دشمن پر کاری وار کررہے ہیں وہ نرم نہیں پڑے، جو مصیبت انہیں پہنچی ہے وہ اس سے کمزور نہیں پڑے اور نہ ہی انہوں نے اپنے دشمن کے سامنے گھٹنے ٹیکے، پس انہوں نے حملوں کی لپٹوں کو دھکا دیا ہے، اور تمام ولایتوں میں ہمہ جہت غزوات سے محاذوں کے شعلوں کو بھڑکا دیا ہے۔
اور اس طرف بھی اشارہ کرنا ضروری ہے کہ یہ ہمہ جہت غزوات معاصر جہادی تاریخ میں اپنی نوعیت کے پہلے غزوے ہیں جو اعلانِ خلافت اور امتداد سے کچھ وقت پہلے سے مجاہدین کا طریقہ کار اور اسلوب بن چکے ہیں، اور یہ تو اللہ کا فضل ہے وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے عطا کردیتا ہے، اور یہ تو محض اس ذاتِ سبحانہ وتعالی کی طرف سے توفیق اور درستی ہے۔
اور ہمیں یقین ہے کہ یہ اللہ کی رسی کو تھامے رکھنے اور جماعت کے التزام ہی کی برکات کا ثمرہ ہے، کہ جس کا ہمیں حکم دیا گیا ہے، یہ بذاتِ خود نصرت ہے، چنانچہغزوۃ الثار لاهل الشام(یعنی اہلِ شام کے انتقام کا غزوہ) جو کہ آٹھ ممالک میں اسی (80) سے زیادہ علاقوں میں لڑا گیا، جس میں فقط چار دنوں کے دوران بانوے (92) کاروائیاں سر انجام دی گئیں، جن کا وقت طے اور اہداف متعین کیے جاچکے تھے۔
اور پھر کچھ وقت ہی گزرا کہ خلافت کے سپوتوں نے غزوہ استنزاف (یعنی دشمن میں پیہم خونریزی کے غزوے) کا اعلان کردیا، جو کہ گیارہ (11) ممالک پر ایک دوسرا کاری وار تھا، جس میں فقط تین دن کے دوران اکسٹھ (61) کاروائیاں سر انجام دی گئیں۔
جس کے بعد ان غیور جواں مردوں نے گزشتہ برس 1440 ہجری کے آخری مہینے ذو الحجۃ کے پہلے دس دنوں میں غزوہ استنزاف کے دوسرے ہمہ جہت مبارک مرحلے کا اعلان کیا، جو کہ دس (10) ولایتوں میں سر انجام دیا گیا، جس میں فقط دس دن کے دوران ایک سو باون (152) کاروائیاں سرانجام دی گئیں۔
جبکہ ملاحظہ کار کو یہ بھی جان لینا چاہیے کہ ان غزوات میں جو اعداد و شمار بیان کیے گئے ہیں وہ صرف وہ ہیں جو نگرانی و نتائج پر مامور جماعت تک پہنچ سکے اور ان کی تصدیق کی جاسکی ہے، جبکہ کاروائیوں کی تعداد اس مذکورہ تعداد سے کہیں زیادہ ہے، اور اب معاملہ صرف ان غزوات تک ہی محصور نہیں رہا بلکہ ان میں خونریزی کا یہ سفردم بدم قدم بقدم مختلف محاذوں پر روزانہ کی بنیاد پر شروع ہو چکا ہے، الحمد للہ۔
بعد اس کے کہ صلیب کا پاسدار امریکا اور اس کے مرتد دم چھلے سرزمینِ افغانستان و عراق میں منہ کے بل گھسیٹے جانے لگے ہیں تو روم کا کتا امریکا بھی کیچڑ میں غرق ہوکر دوسرے ممالک سے بھیک مانگنے لگا ہے، اور اب اسے پاؤں سے گھسیٹ کر مالی و نیجر کی طرف لا پھینکا گیا ہے، اور اس کے پاس سوائے اپنی کھوکھلی باتوں پر ملمع کاری کرنے کے اور اپنے شرکاء سے جھوٹے وعدے کرنے کے کچھ نہیں بچا ہے۔ جبکہ ان کی "ہیئتِ اراکینِ مشترکہ "کے سربراہ "ڈان فورڈ" کو اپنے حلیفوں کے سامنے اس تلخ حقیقت سے یہ کہہ کر پردہ اٹھانا پڑا کہ "ہمارے پاس خطے میں اپنے شرکاء کی حفاظت کی کوئی طاقت نہیں ہے" اس بات نے اس کے شرکاء کو تڑپا کے رکھ دیا اور ان کے منصوبوں پر پانی پھیر دیا، اللہ انہیں ذلیل و رسوا کرے۔
اس کے علاوہ وہ دردناک صورتِ حال اور وہ خوف جو ان کی حالت مزید پتلی کیے جارہا ہے اور وہ (خوف اب ) پہلے سے زیادہ شدت اختیار کئے جارہا ہے، وہ یہ کہ ستاروں کی جنگ لڑنے والے (گھمنڈی امریکا) کو شکاریوں کے تیر اور میدانوں کے شیر اچکتے لئے جارہے ہیں، اور اس کے حواری جنگ کے کھلے میدان میں شکار ہونے لگے ہیں، جو اللہ کی مدد و قوت سے ان کے بس کا روگ نہیں، چنانچہ خراسان میں مردانِ جنگ کی سرزمین اور شیر جوانوں کی آماجگاہ سے لیکر عراق و شام میں شہسواروں کے مرکز اور دار الخلافت تک، ایمان و حکمت کے سرچشمے یمن اور مردانگی و غیرت کی سرزمین صومالیہ تک، وسطی و مغربی افریقہ میں جنگ کے حدی خوانوں کی میدانوں تک، شمالی افریقہ، مشرقی ایشیا، تیونس، لیبیا اور دولت اسلامیہ کی دیگر ولایات میں قابلِ فخر اہلِ عزائم شیروں کی کچھاروں تک (یہ جنگ کا میدان پھیلا ہوا ہے) پس تمام تعریفیں اللہ ہی کیلئے ہیں جو اس نے اپنی نعمتوں کیلئے خلافت کے سپاہیوں کا پہلے انتخاب فرمالیا، جبکہ بلادِ المسلمین پر حملہ آور دشمن کو مار بھگانے، کفری اتحادوں سے جہاد کرنے اور اپنے دین پر ثابت قدم رہنے سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں۔
پس اے خلافت کے سپاہیو اس نعمت پر مولی کریم کا شکر ادا کرو، اور اس کے حضور ثابت قدمی اور حسنِ خاتمہ کی دعا کرو، اور جان رکھو تمہارا یہ بوجھ دن بدن بڑھتا ہی جائے گا، لہذا زادِ راہ کے بغیر کوئی چارہ نہیں، اور امت مسلمہ پر کیا گیا وہ شدید صلیبی و الحادی حملہ جو اس کی صورت کو مسخ اور اسے اس کے دین سے تہی دامن کررہا ہے تم اس کے مدِ مقابل ملت اسلامیہ کا پرچم سر بلند کررہے ہو، تحقیق اس بوجھ کی شدت ہی کی وجہ سے آلِ سلول کے طواغیت اور ان کے مرتد شیوخ صلیبیوں کے سامنے اپنے ماتھے ٹیک چکے ہیں۔
پس اے خلافت کے سپاہیو اور اس کے مناصرو! اپنی امت کے سپوتوں کیلئے ہدایت کی مشعلیں اور صداقت کے داعی بن جاؤ، خود پسندی، تکبر اور غرور سے بچ کر رہو، پس تمہارے پاس جو بھی نتمی ہے وہ اللہ سبحانہ وتعالی کی طرف سے ہے، تم اس رحمن و رحیم ذات سے ہر گمراہ شخص کیلئے ہدایت کا سوال کرو، اور اللہ سے کثرت سے عافیت مانگو، پس یہ وہ کلمہ ہے جو دنیا و آخرت کی بھلائیوں کا ضامن ہے، چنانچہ عباس ابنِ عبد المطلب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا: یا رسول اللہﷺ مجھے کوئی چیز بتائیں جو میں اللہ سے مانگوں، آپ نے فرمایا: اللہ سے عافیت طلب کرو، پھر کچھ دن گزر گئے، تو میں پھر حاضر ہوا اور عرض کی: یا رسول اللہﷺ مجھے کوئی چیز بتائیں جو میں اللہ سے مانگوں، تو آپ نے فرمایا: اے عباس! اے نبیِ خدا کے چچا! اللہ سے دنیا و آخرت میں عافیت کا سوال کرو۔
اور آپ ﷺ نے فرمایا: ہر دل رب العالمین کی دو انگلیوں کے درمیان ہے، وہ چاہے تو اسے سیدھا فرمادے اور چاہے تو اسے ٹیڑھا کردے، اور آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے:
{يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قُلُوبَنَا عَلَى دِينِكَ، وَالْمِيزَانُ بِيَدِ الرَّحْمَنِ يَخْفِضُهُ وَيَرْفَعُهُ}
ترجمہ: اے دلوں کی کایا پلٹنے والے ہمارے دلوں کو اپنے دین پر جمائے رکھ، اور ترازو رحمن کے ہاتھ میں ہے وہی اس کے پلڑوں کواوپر اور نیچے کرتا ہے۔
اے ہر جگہ موجود خلافت کے سپاہیو! جان لو کہ باذن اللہ آنے والا وقت بہت بھلائی اور عظمت کا ہے، پس ضروری ہے کہ امنی، عرک ی، اعلامی، دعوتی اور دیگر تمام میدانوں میں جد و جہد کو دوگنا کردیا جائے اور حتی الوسع خود کو کھپا ڈالا جائے، اور یہ وسعت اور پھیلاؤ جو مولٰی کریم نے دولتِ اسلامیہ کو فتح کے ساتھ عطا فرمایا ہے یہ محض ایک امتحان ہے، پس اب غایتِ کمال اور تنددہی کے ساتھ کام کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں، تاکہ ربِ کریم راضی ہو، اور وہ اپنے بندوں پر ان نعمتوں کو ہمیشگی بخشے اور ان میں برکت عطا فرمائے۔
اور خواہشاتِ نفس اور فتنوں کی گمراہیوں سے بہت بچ کر رہو۔
{وَاعْتَصِمُوابِحَبْلِاللَّـهِجَمِيعًاوَلَاتَفَرَّقُواۚوَاذْكُرُوانِعْمَتَاللَّـهِعَلَيْكُمْإِذْكُنتُمْأَعْدَاءًفَأَلَّفَبَيْنَقُلُوبِكُمْفَأَصْبَحْتُمبِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا ۗكَذَٰلِكَيُبَيِّنُاللَّـهُلَكُمْآيَاتِهِلَعَلَّكُمْتَهْتَدُونَ، وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ۚوَأُولَـٰئِكَهُمُالْمُفْلِحُونَ، وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ ۚوَأُولَـٰئِكَلَهُمْعَذَابٌعَظِيمٌ} ( آلِ عمران: 103- 105)
ترجمہ:اللہ تعالیٰ کی رسی کو سب ملکر مضبوط تھام لو اور پھوٹ نہ ڈالو اور اللہ تعالیٰ کی اس وقت کی نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں مںٌ الفت ڈال دی پس تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی بن گئے اور تم تو آگ کے گڑھے کے کنارے پہنچ چکے تھے تو اس نے تمہںا بچا لا اللہ تعالیٰ اسی طرح تمہارے لئے اپنی نشاناُں باُن کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ۔ تم مںو سے ایک جماعت اییل ہونی چاہے جو بھلائی کی طرف بلائے اور نکـ کاموں کا حکم کرے اور برے کاموں سے روکے اور ییے لوگ فلاح اور نجات پانے والے ہںا۔ تم ان لوگوں کی طرح مت ہوجانا جو اپنے پاس روشن دلںُ ا آجانے کے بعد بھی تفرقہ بازی اور اختلافات کا شکار ہوگئے، اور انہی لوگوں کے لئے بڑا عذاب ہے۔
اے خلافت کے معمارو اور اسلام کے پاسدارو! جان لو کہ آگے بہت اہم معاملات ہیں اور بڑے دردناک مسائل کا سامنا ہے، ضروری ہے کہ ہم انہیں ہر حال میں پیشِ نظر رکھیں، نہ تو انہیں چھپا یا جاسکتا ہے اور نہ ہی بھلایا جاسکتا ہے، لیکن ہم ان پر تنبیہ اور یاد دہانی کروادینا چاہتے ہیں تاکہ ہم ان کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کرسکیں اور مزید کوشش میں لگ جائیں۔ پس ان میں سے پہلا معاملہ بالعموم لوگوں کو اور بالخصوص اہلِ سنت کی عوام کو دعوت دینے اور ان کے ساتھ نرم خوئی کا ہے۔
پس تم سے یہ بات کچھ مخفی نہیں کہ کس طرح اندھی جہالت نے امت کو ہلاک کر ڈالا ہے، اور کس طرح اس کے شہروں اور بستیوں سے علم ناپید ہو چکا ہے، جس کے نتیجے میں یہ اپنے دین سے دور ہوگئی، اور (اس میں ) شرک، بدعت، خرافات اور ایسی چیزیں پھیل گئیں کہ جن پر اللہ نے کوئی دلیل نہیں اتاری، یہاں تک کہ یہ طرح طرح کے شرکیہ اعمال کاہنوں کی ملمع کاری کی وجہ سے اسلام سے نسبت رکھنے والے اکثر لوگوں کے ہاں اس دین کی شکل اختیار کرگئے کہ جس کے ساتھ نبی ﷺ کو مبعوث کیا گیا تھا، اورہ یہی سمجھنے لگے ہیں کہ وہ بھی ہدایت پر ہیں ۔ {لا حول و لا قوۃ الا بالله العلىالعظیم}
پس لوگوں پر توحیدِ خالص کی دعوت کے ساتھ حجت پوری کردو، کہ وہ اپنے رب کی کتاب اور اپنے نبی ﷺ کی سنت کو فضلیت والے وقتوں کے اس امت کے بہترین لوگوں یعنی اسلاف کے اور تاقیامت ان کے نقشِ قدم پر چلنے والے افراد کے فہم کے ساتھ مضبوطی سے تھام لیں، اور لوگوں کو سمجھاؤ کہ طواغیت کو نکال باہر کرنے کیلئے کوئی حیلہ اور راستہ نہیں ہے، سوائے اس راستے کے جس کی طرف اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں ہماری راہنمائی فرمائی ہے، اور وہ اس کے راستے میں جہاد ہے، اور جو کچھ اس کے ماسوا ہے وہ وہم اور فریب کے سوا کچھ بھی نہیں۔
{يَحْسَبُهُالظَّمْآنُمَاءًحَتَّىٰإِذَاجَاءَهُلَمْيَجِدْهُشَيْئًا} ( النور:39)
ترجمہ: جیسے کوئی پیاسا شخص دور سے اس (چمکتی ریت) کوپانی سمجھتا ہے لیکن جب اس کے پاس پہنچتا ہے تو اسے کچھ بھی نہیں پاتا۔
پس وہ رہا میدانِ رابعہ والا مصر، اور حقِ واپسی کے خوشنما نعروں سے اٹا ہوا فلسطین، اور یہ رہا عسکری قوات سے نبرد آزما سوڈان اور حفتر و سراج کے مابین رسہ کشی کا اکھاڑہ لیبیا، اور یہ رہیں یمن کی قانونی قوتیں اور اس کے انقلابی جتھے، جو لوگوں کو اس چیز پر بے دریغ مروائے جارہے ہیں جو اللہ کی ہدایت سے ہٹ کر ہے، اس راستے پر جو مؤمنین کے راستے سے ہٹ کر ہے، یعنی وطنیت اور جمہوریت کی خاطر، العیاذ باللہ، اور دعوت و اصلاح کے دعویداروں میں سے ہمیں کوئی بھی دکھائی نہیں دیتا جو جانوں کی اس ضیاع کاری پر ان بدمعاشوں کی غنڈہ گردی کے خلاف لب تک بھی ہلائے، بس اللہ ہی ہمارے لئے کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے۔
پس ہمارے جہاد کا مقصد انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر ان کے رب کی غلامی میں دینا ہے، ان کو دیگر مذاہب کے ظلم و ستم سے چھٹکارا دلا کر اسلام کے عدل سے روشناس کروانا ہے، اور دنیا کے تنگ و تاریک قید خانے سے نکال کر دنیا و آخرت کی وسعتوں کی طرف لانا ہے۔ جیسا کہ شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے فرمایا: اس دین کو قائم کرنے والی بس یہی چیزیں ہیں : ہدایت دینے والی کتاب، اور نصرت کرنے والی تلوار۔
اور نبی ﷺ نے جب خیبر کے دن علی رضی اللہ عنہ کو پرچم عنایت فرمایا تو انہیں وصیت کرتے ہوئے فرمایا: اگر اللہ تمہارے ذریعے کسی ایک آدمی کو بھی ہدایت دے دیتا ہے تو یہ تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے، اور اللہ تعالی نے اپنے پیغمبروں اور اس کی طرف دعوت دینے والوں کے منہج کوہمارے لئے واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:
{قُلْهَـٰذِهِسَبِيلِيأَدْعُوإِلَىاللَّـهِۚعَلَىٰبَصِيرَةٍأَنَاوَمَنِاتَّبَعَنِيۖوَسُبْحَانَاللَّـهِوَمَاأَنَامِنَالْمُشْرِكِينَ}(یوسف:108)
ترجمہ: کہہ دو کہ یہ میرا راستہ ہے میں پوری بصیرت کے ساتھ اللہ کی طرف بلاتا ہوں میں بھی اور میرے پیروکار بھی، اور اللہ پاک ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔
اور بہر حال اے مجاہدو تم تو اللہ اور اس کے پیغمبروں کے منہج کے داعی ہو، جبکہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اس کے منہج کے مبلغوں اور داعیوں کی تعریف کی ہے، فرمان باری تعالی ہے:
{الَّذِينَيُبَلِّغُونَرِسَالَاتِاللَّـهِوَيَخْشَوْنَهُوَلَايَخْشَوْنَأَحَدًاإِلَّااللَّـهَۗوَكَفَىٰبِاللَّـهِحَسِيبًا}( الاحزاب:39)
ترجمہ: وہ لوگ جو اللہ کے پیغامات کو پہنچاتے ہیں، وہ اسی سے ڈرتے ہیں اور وہ اللہ کے سواکسی اور سے نہیں ڈرتے، اور اللہ حساب لینے کیلئے کافی ہے۔
اور ربِ لطیف و خبیر نے راہِ نجات کی طرف ہماری راہنمائی کرتے ہوئے فرمایا ہے:
{ِنَّاللَّـهَلَايُغَيِّرُمَابِقَوْمٍحَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ} ( الرعد:11)
ترجمہ: بے شک اللہ اس قوم کی حالت نہیں بدلتا یہاں تک کہ وہ خود اسے تبدیل نہ کرلیں۔
اور بہر حال دوسرا معاملہ توبہ کرنے والے کی توبہ کو قبول کرنے کا ہے، پس جو بھی تمہارے غلبہ پالینے سے پہلے توبہ کرلے اس کی توبہ کو قبول کرو،اور اسے تب تک نہ جانے دو یہاں تک کہ وہ اپنا دین سیکھ لے اور جان لے کہ ہم کس چیز کیلئے قتال کررہے ہیں، اور وہ کیوں ہماری تلواروں کا ہدف بن گیا تھا، اور یہ کہ اس پر اس کے دین کی نصرت اور اپنی امت کی منہجِ حق کی طرف دعوت و راہنمائی کے حوالے سے کیا چیز لازم آتی ہے، تاکہ وہ اپنے پیچھے والے لوگوں کو اس کی تبلیغ کرسکے، پس کوئی مبلغ سننے والے سے زیادہ بھی سمجھدار ہوتا ہے۔
اور جہاں تک تیسرے معاملے کا تعلق ہے تو وہ ایک جامع وصیت ہے، ابو نعیم نے اپنی کتاب حلیۃ میں روایت کیا ہے کہ عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے اپنے ایک ماتحت کو وصیت کی، فرمایا: تم کسی بھی قسم کے حالات میں ہو اس میں تم پر اللہ کا تقوی لازم ہے، بے شک اللہ سے تقوی اختیار کرنا سب سے مضبوط قوت، پیچیدہ ترین داؤ اور (جنگ کی) بہترین تیاری ہے، اور تم اپنے دشمن کی دشمنی سے نہیں بچ سکتے اگر تمہارے ساتھ اللہ تعالی کی نافرمانیاں ہیں، کیونکہ میرے نزدیک گناہ لوگوں پر ان کے دشمن کی چال سے بھی زیادہ خطرناک ہیں، جبکہ ہم تو محض اپنے دشمن سے ان کے گناہوں کے سبب دشمنی لگاتے ہیں اور ان پر فتح یاب ہوتے ہیں، وگرنہ ہمارے پاس ان کے مقابلے کی کوئی قوت نہیں، اس لئے کہ ہماری تعداد ان کی طرح نہیں، نہ ہی ہمارے پاس ان کے جیسی طاقت ہے، پس ہم ان پر اگر اپنے اعمال سے فتحیاب نہ ہوئے تو ہم ان پر اپنی قوت سے بھی غلبہ نہیں پاسکتے، اور جس قدر تم لوگوں کی دشمنی سے بچتے ہو اس سے بھی زیادہ اپنے گناہوں سے بچو، جان رکھو تم پر اللہ کے فرشتے مقرر ہیں جو تم پر محافظ ہیں، تم اپنے گھروں اور راستوں میں جو کچھ بھی کرتے ہو وہ اسے جانتے ہیں، پس ان سے حیا کرو اور ان سے اچھا تعلق نبھاؤ، انہیں اللہ کی نافرمانی سے تکلیف مت پہنچاؤ، جبکہ تم خود کو اللہ کے راستے میں بھی سمجھ رہے ہو، یہ مت کہو کہ ہمارے دشمن ہم سے برے ہیں، بھلے ہم جتنے بھی گناہ کرتے رہیں وہ کبھی ہم پر کامیابی حاصل نہیں کرسکتے ، پس (یاد رکھو کہ ) کتنی ہی قومیں ایسی ہیں جن پر ان کے گناہوں کی وجہ سے ان سے بھی برے لوگ مسلط کردئیے گئے، سو اللہ سے اپنے نفس کے خلاف بھی ایسے ہی مدد مانگو جیسے تم اس سے اپنے دشمن کے خلاف مانگتے ہو، ہم اللہ سے اپنے لئے اور تمہارے لئے اس کا سوال کرتے ہیں، (آپ رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی)۔
اور جو چوتھا معاملہ ہے وہ بہت ہی بڑا ہے اور اس کی آفات بہت عام ہیں، ایک ایسا امر کہ اگر لوگ اس میں کوتاہی کریں تو اس میں(ان کیلئے) ہلاکت ہے، بے برکتی ہے اور برا انجام ہے، آگاہ رہو کہ وہ ظلم ہے، نبی ﷺ اپنے رب عزوجل سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے فرمایا: اے میرے بندو! میں نے ظلم کو خود پر حرام کیا ہے اور تم پر بھی اسے حرام کردیا ہے، پس ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو، اور آپ ﷺ کا فرمان ہے: ظلم سے بچو کہ ظلم قیامت کے دن اندھیروں کی شکل میں ہوگا۔
ہر بھلائی اور درستی عدل و انصاف میں پوشیدہ ہے، ہر برائی اور خرابی ظلم میں پروان چڑھتی ہے، اور ہم اللہ کے حضور ہر اس ظلم سے برأت کرتے ہیں کہ جس کا مداوا نہ کیا جائے، اورتم اہلِ سنت والجماعت میں سے ان کے پہلے بہترین لوگوں کے منہج کو لازم پکڑتے ہوئے لوگوں کے ساتھ تعامل میں علم، حق شناسی، عدل و انصاف اور رحمت و شفقت کا برتاؤ کرو۔
{وَلَايَجْرِمَنَّكُمْشَنَآنُقَوْمٍعَلَىٰأَلَّاتَعْدِلُواۚاعْدِلُواهُوَأَقْرَبُلِلتَّقْوَىٰۖوَاتَّقُوااللَّـهَۚإِنَّاللَّـهَخَبِيرٌبِمَاتَعْمَلُونَ} ( المائدہ:8)
ترجمہ: کسی قوم کی عداوت تمہیں نا انصافی پر آمادہ نہ کر دے ، عدل کرو جو پرہیزگاری کے زیادہ قریب ہے، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔
پس اے خلافت کے سپاہیو! تمہیں تو سب سے زیادہ اس درست منہج پر کاربند ہونا چاہیے، جو کہ اللہ کی کتاب، رسول اللہ ﷺ کی سنت اور آپ کے بہترین صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی فکر و عمل کے عین موافق ہے۔ پس یہ اہلِ سنت کے اصولوں کا بنیادی رکن ہے، جیسا کہ اسے علماء و ائمہ سلف رحمہم اللہ نے قرار دیا ہے۔
اور جو سب سے تڑپا کے رکھ دینے والا امر ہے وہ جیلیوں اور زندانوں کی بابت ہے، پس اے خلافت کے سپاہیو!
اپنے بھائیوں اور بہنوں کو نکالنے میں اور ان کے قید خانوں کی دیواریں توڑ گرانے میں اپنی پوری کوشش صرف کرڈالو، "قیدی کو چھڑاؤ" یہ تمہارے نبی ﷺ کی وصیت اور حکم ہے، اگر تم انہیں قوت کے ساتھ نہیں چھڑا سکتے تو ان کے فدیات دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑو، اور ان سے تفتیش کرنے والے سفاکوں اور تحقیق کرنے والے قاضیوں اور انہیں تکلیف پہنچانے والے گھٹیا ظالموں پر ہر جگہ گھات لگا کر بیٹھو۔
پس ایک مسلمان کوزندگی کیسی اچھی لگ سکتی ہے جبکہ مسلمان مائیں بہنیں زمین میں جابجا صلیبیوں اور ان کے دم چھلے مرتد طاغوتوں، ملحد مجرموں اور صفوی رافضیوں کی ماتحت بن کر دربدری کے خیموں اور ذلت و رسوائی کی جیلوں میں پس رہی ہوں، اور انہیں مسائلِ امت کے ٹھیکے داروں کی طرف سے سوائے بے سرو سامانی و تنہائی، طعن و تشنیع و عیب جوئی اور الٹی مخالفت اور سازشوں کے کچھ بھی نہ ملتا ہو۔
پس اللہ کی لعنت ہو اس پر جو نصرانی تنظیموں اور صلیب کے داعیوں سے بھی (اس کام میں ) دو ہاتھ آگے بڑھ گیا، اس کا حال اس بکری جیسا ہے جو دو ریوڑوں کے درمیان ہو، کبھی ایک میں شامل ہو تو کبھی دوسرے میں، اسے پتا ہی نہ ہو کہ اس نے کس ریوڑ کے ساتھ چلنا ہے۔
پس اے اللہ کی بندی! اے صفیۃ و اُمِ عمارۃ کے بہن! تو ثابت قدم رہ اور اللہ سے ڈرتی رہ، اللہ کی قسم! جب تک تو حق کو مضبوطی سے تھامے رکھے گی تو اللہ سبحانہ وتعالی تجھے ہرگز ضائع نہ کرے گا۔
{وَمَنيَتَّقِاللَّـهَيَجْعَللَّهُمَخْرَجًا، وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ، --وَمَن يَتَّقِ اللَّـهَ يَجْعَل لَّهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا، --قَدْ جَعَلَ اللَّـهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا} ( الطلاق: 2۔4۔3)
ترجمہ:اور جو اللہ سے ڈرتا ہے تو اللہ اس کیلئے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے، اور اس کو وہاں سے رزق دیتا ہے جہاں سے اس کا گمان بھی نہیں ہوتا، اور جو اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے معاملے کو آسان فرمادیتا ہے، اور اللہ نے تحقیق ہر چیز کی تقدیر طے کر رکھی ہے۔
پس مصائب کی شدت پر اور حالات کی تنگی پر صبر کا دامن تمہارے ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے، اور دعا کولازم پکڑو، بے شک یہ باکمال ہتھیار اور کارگر اسلحہ ہے، اللہ کی قسم! تمہارے بھائی نہ تو تمہارا بدلہ لینا بھولے ہیں اور نہ ہی کبھی بھولیں گے۔
پس اے دینی بھائی اور اے اللہ کی بندی! ہر حال میں اللہ کے ذکر کا التزام کرو، تسبیح و تحمید کرتے ہوئے، کلمہ واستغفار اور نبی ﷺ پر درود پڑھتے ہوئے۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے: جس نے استغفار کو لازم پکڑا تو اللہ اس کیلئے ہر غم سے چھٹکارا اور ہر تنگی سے نکلنے کا راستہ پیدا فرمادے گا، اور اس کو وہاں سے رزق دے گا کہ جہاں سے اس کا اسے گمان بھی نہ ہوگا۔
اور نبی ﷺ نے فرمایا: یونس علیہ السلام نے مچھلی کے پیٹ میں جو اپنے رب سے دعا مانگی تھی:
{لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ}
ترجمہ: تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے بے شک میں ہی ظالموں میں سے ہوں۔
کبھی ایسا نہیں ہوسکتا کہ کوئی مسلمان بندہ اپنے رب سے ان (الفاظ )کے ساتھ دعا مانگے اور وہ اسے قبول نہ کرے۔، اور ایک دوسری روایت میں ہے: میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں جسے کوئی بھی مصیبت زدہ بندہ کہے گا تو اللہ اس کی مشکل کو ٹال دے گا، اور وہ میرے بھائی یونس کا کلمہ ہے۔
ابی بکرۃ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مصیبت زدہ کی دعا یہ ہے:
{اللهُمَّ رَحمَتَكَ أَرجُو، فَلَا تَكِلنِي إِلَى نَفسِي طَرفَةَ عَيْنٍ، وَأَصلِح لِي شَأنِي كُلَّهُ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنتَ}
ترجمہ: اے اللہ میں تیری رحمت کا امید وار ہوں، پس مجھے جنبشِ مژگاں کی بقدر بھی میرے نفس کے حوالے نہ کرنا، اور میرے تمام معاملات کو درست فرمادے، کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔
اور جب ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ سے کہا کہ میں ہر دم آپ پر درود پڑھا کروں گا تو آپ ﷺ نے فرمایا: تب تمہارے اہم معاملات میں کفایت کی جائے گی اور تمہارے گناہ بخش دیے جائیں گے۔
{يَاأَيُّهَاالَّذِينَآمَنُوااصْبِرُواوَصَابِرُواوَرَابِطُواوَاتَّقُوااللَّـهَلَعَلَّكُمْتُفْلِحُونَ}(آلِ عمران:200)
ترجمہ: اے ایمان والو! باہم صبر و مصابرے سے کام لو، اور رباط کرو، اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔
پس اے ہر جگہ موجود خلافت کے سپاہیو اور مناصرو! رحمت کے پیکر اور خونریز جنگوں کے قائد ہمارے نبی ﷺ نے ہمیں خوشخبری سنائی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: وہ مسلمان جس نے کسی کافر کو قتل کیا ہو اور پھر عقیدہ و عمل کی درستگی پر قائم رہا ہو وہ دونوں کبھی آگ میں اکٹھے نہیں ہوسکتے، اور مؤمن کے پیٹ میں اللہ کے راستے کی گرد اور جہنم کا دھواں بھی ایک ساتھ اکٹھے نہیں ہوسکتے۔
پس مبارکباد کا مستحق ہے وہ شخص جس نے علم حاصل کرکے اس پر عمل کیا، جو کوشاں رہا ، متردد نہ ہوا، اور آپﷺ نے ہمیں انسان میں پائی جانے والی ہربری خصلت سے خبردار کیا ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا: آدمی میں سب سے بری چیز کمینگی کی حدتک لے جانے والے کنجوسی اور بے حال کرڈالنے والی بزدلی ہے،پس ان دونوں برائیوں سے اللہ کی پناہ مانگتے رہو۔
اے اللہ ہمارے قیدیوں کو رہائی عطا فرما، ہمارے مصیبت زدوں پر آسانی فرما، ہمارے پریشان خاطروں کی پریشانی دور فرما، اور اے رب العالمین اپنے فضل و کرم سے قیدیوں کے رہائی کا بہتر ین انتظام فرما، انہیں اپنے اہل و عیال کی طرف سلامتی کے ساتھ اور غنیمتوں سے مالا مال کرکے واپس لوٹا، ان کے دین کی حفاظت فرما، اور انہیں حق پر ثابت قدم رکھ اے رب العالمین۔
اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر بہت ظلم کئے ہیں، اگر تونے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم لا محالہ خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔
اے ہمارے پروردگار ہمںو کافروں کا تختہ مشق نہ بنا اور اے ہمارے رب ! ہم کو بخش دے ، بلاشبہ تو ہی زبردست حکمت والا ہے
اے ہمارے پروردگار ! ہمارے گناہوں کو بخش دے اور ہم سے ہمارے کاموں مںا جو زیادتی ہوئی اسے بھی معاف فرما اور ہمںے ثابت قدمی عطا فرما اور کافروں کے خلاف ہماری مدد فرما۔
اور اللہ تو اپنے کام پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

{والحمد للہ رب العالمین}
 
Top