::: اولاد کو تربیت کب اور کیسے دی جائے ؟ :::
بِسمِ اللہِ و الحَمدُ لِلَّہِ وَحدَہُ و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلیٰ مَن لا نَبیَّ بَعدَہ ُ
اللہ کے نام سے آغاز ہے اور تمام سچی تعریف صرف اللہ کے لیے ہے اور اللہ کی رحمت اور سلامتی ہو اُس پر جِس کے بعد کوئی نبی نہیں۔
السلام علیکم ورحمۃُ اللہ و برکاتہ،
بطور مُسلمان ہمیں اولاد کی تربیت کا آغاز صحیح اِسلامی عقائد اور صحیح اِسلامی اعمال سے کرنا چاہیے اور اِنہی کو اپنی اولاد کی شخصیت میں راسخ کرنے کی کوشش کرنا چاہیے ،
یہ والدین کے فرائض میں سے ہے اور اُن کی، اور اُن کی اولاد کی آخرت سے براہ راست مُتعلق ہے کیونکہ وہ اپنی اولاد کو جو کچھ سِکھائیں اور سمجھائیں گے اُنہیں نتیجے میں اپنے ہی اُس سِکھائے اور سمجھائے کے مُطابق ملے گا ، دُنیا میں بھی ، اور آخرت میں بھی ،
اِسی بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِن اِلفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ (((((مَا مِن مَوْلُودٍ إلا يُولَدُ على الْفِطْرَةِ فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أو يُنَصِّرَانِهِ أو يُمَجِّسَانِهِ ::: کوئی پیدا ہونے والا ایسا نہیں جو فطرت پر پیدا نہ ہو یہ تو اس کے ماں باپ ہوتے ہیں جو اُسے یہودی بناتے ہیں ، یا عیسائی بناتے ہیں یا بت پرست بناتے ہیں))))) متفقٌ علیہ، صحیح البُخاری/کتاب الجنائز ، باب 78 اور 91، صحیح مُسلم /کتاب القدر ، باب 6 ،
پس ہمیں خوب سوچ سمجھ لینا چاہیے کہ ہم اپنی اولاد کو کب سے کیا بنا رہے ہیں !!!؟؟؟
یاد رکھیے ، قارئین کرام ، کہ ، اولاد کی تربیت کے لیے عُمر کی کوئی قید نہیں ، نہ اِبتداء کے لیے نہ اِنتہاء کے لیے ،
تعلیم و تربیت کے فنون کے عُلماء وقت کو تربیت کے لیے مراحل میں تقسیم کرتے ہیں کہ پہلا مرحلہ پیدائش سے رضاعت یعنی دودھ پلانے کی عُمر تک کا ہوتا ہے ،
دُوسرا مرحلہ دودھ چُھڑانے سے لے کر پانچ سال تک کی عُمر کا ہوتا ہے ،
تیسرا مرحلہ پانچ سے دس سال تک کی عُمر کا ہوتا ہے اور چھوتھا مرحلہ دس سال سے بَلوغت کی عمر تک ہوتا ہے اور پانچواں مرحلہ بَلوغت سے موت تک کی عُمر کا ہوتا ہے ،
پس تربیت کے انداز و اطوار کو اِن مراحل کے مُطابق بدلا جانا چاہیے ،
سب ہی مراحل اپنی جگہ اہم اور بہترین وقت کے حامل ہوتے ہیں ، لیکن دُوسرا ، تیسرا اور چوتھا مرحلہ دیگر مراحل کی نِسبت کِسی بات کے شخصیت پذیر ہونے کے لیے زیادہ مناسب اور مددگار ہیں ،
اور کِسی بات کو مضبوطی سے تھامنے اور اپنانے کے لیے سن بلوغت کے بعد والا مرحلہ ،
یہاں ایک بات سمجھنا ضروری ہے کہ یہ سب معلومات عام اِنسان کی عمومی زندگی کے مُطابق ہیں ، استثنائی صُورتوں پر نظر کرتے ہوئے اِن باتوں کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو یہ باتیں دُرُست نہیں لگتِیں ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اپنے پاس آنے والے بڑوں اور چھوٹے چھوٹے بچوں کی تعلیم و تربیت فرمایا کرتے ، اور کبھی ایسا نہیں کرتے تھے کہ کِسی کو اُس کی کم عمری کی وجہ سے کوئی بات سمجھانے یا بتانے سے گریز کریں ، یا کِسی کو اُس کی بڑی عُمر کی وجہ سے کوئی بات سمجھانے سے توقف فرمایا ہو، کہ فُلاں چھوٹا ہے ، ابھی سمجھ نہیں پائے گا ، یا فُلاں بوڑھا ہو چکا ہے اب کیا سمجھے گا ، جیسا کہ عموماً ہم لوگ اِن غلط فہمیوں کا شِکار ہو کر کِسی چھوٹے یا کِسی بوڑھے کو کچھ سمجھانے کی کوشش ہی نہیں کرتے ،
صحابیات رضی اللہ عنہن اپنے دُودھ پیتے بچوں کو لے کر با جماعت نماز میں حاضر ہوتِیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دربار میں حاضر ہوتِیں ، اِسی طرح صحابہ رضی اللہ عنہم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی بارگاہ میں اپنے بچوں کو اپنے ساتھ لاتے،
اور بچے خُود بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی خدمت میں حاضری دیا کرتے ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے کبھی کِسی کو منع نہیں فرمایا کہ ابھی یہ چھوٹے ہیں جب بڑے ہو جائیں گے تو پھر اِنہیں تربیت کے لیے ساتھ لانا ، یا بچوں کو منع نہیں فرمایا کہ ابھی تم لوگ چھوٹے ہو یہاں مت آیا کرو،
اِنسان کی تربیت اُسی وقت سے شروع ہو جاتی ہے جب وہ دُنیا میں پہلا با شعور سانس لیتا ہے ، ، جی ہاں ُاس کے اِرد گِرد والے اُس تربیت کو جان سکیں یا نہ جان سکیں یہ ایک الگ معاملہ ہے ،
والدین اور خاص طور پر ماں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اُس کے بچے آنکھیں کھولتے ہی سُننے اور سیکھنے لگتے ہیں ، پس تربیت کا آغاز ہو جاتا ہے ،
گو کہ ابتدائی دو تین سال میں تربیت کا اثر نظر نہیں آتا ، لیکن بچے کے دِل و دِماغ میں وہ سب کچھ داخل ہوتا جاتا ہے جو اُس کے اِرد گِرد ہوتا ہے خاص طور پر وہ کچھ جو بچے کی طرف متوجہ ہو کر ، یا بچے کو متوجہ کر کے کہا ، اور کیا جاتا ہے ،
مثلا ً ، اگر ماں بچے کو اُٹھاتے ہوئے ، لِٹاتے ہوئے ، اُس کے منہ میں خوراک داخل کرتے ہوئے """ بِسمِّ اللہ """ کہتی رہے تو کچھ عرصہ بعد ماں کو اپنے بچے کو یہ سمجھانے کی شاید ضرورت پیش ہی نہیں آئے گی کہ وہ اپنے کاموں کی ابتداء """ بِسمِّ اللہ """ سے کیا کرے ، جی صرف یہ سمجھانا پڑے گا کہ کِس کام سے پہلے اور کہاں اللہ کا نام نہیں لینا ،
اور ، مثلاً ، ماں بچے کو سُلانے کے لیے""" للا للا لَوری""" گاتی ہے ، بچے کی تربیت گانے سُن سُن کر سونے پر ہوتی ہے تو وہ بڑا ہو کر لا شعوری طور پر ایسا ہی کرنے پر مجبور ہو گا ، اور اِس گناہ آلود عادت کی سب سے پہلی ذمہ دار اُس کی ماں ہو گی ، یا وہ شخصیت جِس نے اُس کی تربیت اِس گناہ آلود عادت پر کی،
اِسی طرح اگر ماں ، یا کوئی بھی اور شخصیت بچے کو جھوٹے تخیلاتی کِرداروں کی خُود ساختہ جھوٹی کہانیاں سُناتی ہے تو اُس بچے کے اندر اُن چیزوں کی لا شعوری طلب رہے گی اور اُن کے بغیر اُسے نیند آنا کافی مُشکل ہو گا ، اور اُس کی نیند اُس کے لیے پر سُکون نہ ہو گی ، یہ اُس کے اُن دِنوں کی تربیت کا نتیجہ ہے جب اُس کی ماں یا اُسے پالنے پوسنے اور تربیت دینے والی کوئی بھی شخصیت اُس کے لاشعور کی تربیت کرتی رہی اور یہ نہ سمجھا کہ وہ تو اُس بچے کی تربیت کر رہی ہے ، اُس بچے کی شخصیت سازی کر رہی ہے ،
ہونا یہ چاہیے تھا کہ تربیت دینے والی وہ شخصیت اُس بچے کو کے لیے اُس کے پاس سونے کی دعائیں پڑھتی تو پھر اُس کا یہ بچہ سوتے ہوئے وہی اذکار کرتے ہوئے سوتا ،
کچھ ایسی مائیں جنہیں دِین سے لگاؤ ہوتا ہے یا بچوں کو لوریاں وغیرہ سُنانا اچھا نہیں سمجھتی ہیں وہ اپنے بچوں کو سُلانے کے لیے ایک نامکمل عِبارت اپنے طور پر اللہ تعالیٰ کا ذِکر سمجھ کر اپنے بچوں کے کانوں میں ڈالتی رہتی ہیں اور و ہ عِبارت ہے """ اللہ ھُو """،
میری نظر میں یہ عِبارت گانوں جیسی کسی لوری یا کسی جھوٹی کہانی سے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ لَوری یا کہانی کے جھوٹ ہونے کے بارے میں کسی نہ کسی وقت یہ بچہ جان جاتا ہے ، خواہ وہ اُن سے جان چُھڑا سکے یا نہ چُھڑا سکے ،
لیکن اِس """ اللہ ھُو """ کو عموما ً وہ سچ ہی جانتا ہے جیساکہ اُس کی ماں جانتی رہی اور اپنے بچے کی تربیت اِس جھوٹے خود ساختہ ، اور کفر و شرک پر مبنی ذِکر پر کر دی ،
معاف کیجیے گا ، محترم قارئین ، مِثال میں بات دُور نِکل گئی ، میں یہ کہہ رہا تھا کہ بچے کی تربیت کا وقت اُس کے شعور کی بیداری سے ہی شروع ہو جاتا ہے ، اور ماں باپ یا اولاد کی زندگی کے ساتھ ہی ختم ہوتا ہے ،
اللہ تبارک و تعا لیٰ کی طرف سے مُقرر کردہ فِطری عوامل میں یہ معلوم و مَعروف ہے کہ عموماً اولاد کِسی بھی وقت والدین کی تربیت سے غنی نہیں ہوتی ، خواہ وہ پڑھ لکھ کر کچھ کا کچھ بن جائے ، خاص طور پر صِرف دُنیاوی تعلیم پانے والی اولاد ،
جی استثنائی صُورتیں اپنی جگہ ہیں ُانہیں ہم قاعدہ قانون نہیں سمجھ سکتے ، اور نہ ہی اُن کی بِناء پر عمومی معاملات کو رُد کیا جا سکتا ہے، لہذا اولاد کی تربیت ہمیشہ جاری رہتی ہے جی زندگی کے مُختلف مراحل میں تربیت کے طریقے بدل جاتے ہیں ،
والدین ، اور بالخصوص ماں کو یہ بات اپنی اولاد کے بچپن سے ہی سمجھ لینی چاہیے اور اِس کے مُطابق وقت کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ اپنی تربیت کے انداز تبدیل کرتے رہنا چاہیے ،
اللہ تعالیٰ سب مُسلمانوں کو اُن کی اولاد کو دُرُست اِسلامی تربیت دینے کی توفیق عطاء فرمائے ،
والسلام علیکم۔
طلب گارء دُعاء ،
عادِل سُہیل ظفر ،
تاریخ کتابت : 21/02/1431ہجری، بمُطابق05/02/2101عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نُسخہ درج ذیل ربط سے نازل کیا جا سکتا ہے :
http://bit.ly/2kSEh0M
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بِسمِ اللہِ و الحَمدُ لِلَّہِ وَحدَہُ و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلیٰ مَن لا نَبیَّ بَعدَہ ُ
اللہ کے نام سے آغاز ہے اور تمام سچی تعریف صرف اللہ کے لیے ہے اور اللہ کی رحمت اور سلامتی ہو اُس پر جِس کے بعد کوئی نبی نہیں۔
السلام علیکم ورحمۃُ اللہ و برکاتہ،
بطور مُسلمان ہمیں اولاد کی تربیت کا آغاز صحیح اِسلامی عقائد اور صحیح اِسلامی اعمال سے کرنا چاہیے اور اِنہی کو اپنی اولاد کی شخصیت میں راسخ کرنے کی کوشش کرنا چاہیے ،
یہ والدین کے فرائض میں سے ہے اور اُن کی، اور اُن کی اولاد کی آخرت سے براہ راست مُتعلق ہے کیونکہ وہ اپنی اولاد کو جو کچھ سِکھائیں اور سمجھائیں گے اُنہیں نتیجے میں اپنے ہی اُس سِکھائے اور سمجھائے کے مُطابق ملے گا ، دُنیا میں بھی ، اور آخرت میں بھی ،
اِسی بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِن اِلفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ (((((مَا مِن مَوْلُودٍ إلا يُولَدُ على الْفِطْرَةِ فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أو يُنَصِّرَانِهِ أو يُمَجِّسَانِهِ ::: کوئی پیدا ہونے والا ایسا نہیں جو فطرت پر پیدا نہ ہو یہ تو اس کے ماں باپ ہوتے ہیں جو اُسے یہودی بناتے ہیں ، یا عیسائی بناتے ہیں یا بت پرست بناتے ہیں))))) متفقٌ علیہ، صحیح البُخاری/کتاب الجنائز ، باب 78 اور 91، صحیح مُسلم /کتاب القدر ، باب 6 ،
پس ہمیں خوب سوچ سمجھ لینا چاہیے کہ ہم اپنی اولاد کو کب سے کیا بنا رہے ہیں !!!؟؟؟
یاد رکھیے ، قارئین کرام ، کہ ، اولاد کی تربیت کے لیے عُمر کی کوئی قید نہیں ، نہ اِبتداء کے لیے نہ اِنتہاء کے لیے ،
تعلیم و تربیت کے فنون کے عُلماء وقت کو تربیت کے لیے مراحل میں تقسیم کرتے ہیں کہ پہلا مرحلہ پیدائش سے رضاعت یعنی دودھ پلانے کی عُمر تک کا ہوتا ہے ،
دُوسرا مرحلہ دودھ چُھڑانے سے لے کر پانچ سال تک کی عُمر کا ہوتا ہے ،
تیسرا مرحلہ پانچ سے دس سال تک کی عُمر کا ہوتا ہے اور چھوتھا مرحلہ دس سال سے بَلوغت کی عمر تک ہوتا ہے اور پانچواں مرحلہ بَلوغت سے موت تک کی عُمر کا ہوتا ہے ،
پس تربیت کے انداز و اطوار کو اِن مراحل کے مُطابق بدلا جانا چاہیے ،
سب ہی مراحل اپنی جگہ اہم اور بہترین وقت کے حامل ہوتے ہیں ، لیکن دُوسرا ، تیسرا اور چوتھا مرحلہ دیگر مراحل کی نِسبت کِسی بات کے شخصیت پذیر ہونے کے لیے زیادہ مناسب اور مددگار ہیں ،
اور کِسی بات کو مضبوطی سے تھامنے اور اپنانے کے لیے سن بلوغت کے بعد والا مرحلہ ،
یہاں ایک بات سمجھنا ضروری ہے کہ یہ سب معلومات عام اِنسان کی عمومی زندگی کے مُطابق ہیں ، استثنائی صُورتوں پر نظر کرتے ہوئے اِن باتوں کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو یہ باتیں دُرُست نہیں لگتِیں ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اپنے پاس آنے والے بڑوں اور چھوٹے چھوٹے بچوں کی تعلیم و تربیت فرمایا کرتے ، اور کبھی ایسا نہیں کرتے تھے کہ کِسی کو اُس کی کم عمری کی وجہ سے کوئی بات سمجھانے یا بتانے سے گریز کریں ، یا کِسی کو اُس کی بڑی عُمر کی وجہ سے کوئی بات سمجھانے سے توقف فرمایا ہو، کہ فُلاں چھوٹا ہے ، ابھی سمجھ نہیں پائے گا ، یا فُلاں بوڑھا ہو چکا ہے اب کیا سمجھے گا ، جیسا کہ عموماً ہم لوگ اِن غلط فہمیوں کا شِکار ہو کر کِسی چھوٹے یا کِسی بوڑھے کو کچھ سمجھانے کی کوشش ہی نہیں کرتے ،
صحابیات رضی اللہ عنہن اپنے دُودھ پیتے بچوں کو لے کر با جماعت نماز میں حاضر ہوتِیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دربار میں حاضر ہوتِیں ، اِسی طرح صحابہ رضی اللہ عنہم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی بارگاہ میں اپنے بچوں کو اپنے ساتھ لاتے،
اور بچے خُود بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی خدمت میں حاضری دیا کرتے ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے کبھی کِسی کو منع نہیں فرمایا کہ ابھی یہ چھوٹے ہیں جب بڑے ہو جائیں گے تو پھر اِنہیں تربیت کے لیے ساتھ لانا ، یا بچوں کو منع نہیں فرمایا کہ ابھی تم لوگ چھوٹے ہو یہاں مت آیا کرو،
اِنسان کی تربیت اُسی وقت سے شروع ہو جاتی ہے جب وہ دُنیا میں پہلا با شعور سانس لیتا ہے ، ، جی ہاں ُاس کے اِرد گِرد والے اُس تربیت کو جان سکیں یا نہ جان سکیں یہ ایک الگ معاملہ ہے ،
والدین اور خاص طور پر ماں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اُس کے بچے آنکھیں کھولتے ہی سُننے اور سیکھنے لگتے ہیں ، پس تربیت کا آغاز ہو جاتا ہے ،
گو کہ ابتدائی دو تین سال میں تربیت کا اثر نظر نہیں آتا ، لیکن بچے کے دِل و دِماغ میں وہ سب کچھ داخل ہوتا جاتا ہے جو اُس کے اِرد گِرد ہوتا ہے خاص طور پر وہ کچھ جو بچے کی طرف متوجہ ہو کر ، یا بچے کو متوجہ کر کے کہا ، اور کیا جاتا ہے ،
مثلا ً ، اگر ماں بچے کو اُٹھاتے ہوئے ، لِٹاتے ہوئے ، اُس کے منہ میں خوراک داخل کرتے ہوئے """ بِسمِّ اللہ """ کہتی رہے تو کچھ عرصہ بعد ماں کو اپنے بچے کو یہ سمجھانے کی شاید ضرورت پیش ہی نہیں آئے گی کہ وہ اپنے کاموں کی ابتداء """ بِسمِّ اللہ """ سے کیا کرے ، جی صرف یہ سمجھانا پڑے گا کہ کِس کام سے پہلے اور کہاں اللہ کا نام نہیں لینا ،
اور ، مثلاً ، ماں بچے کو سُلانے کے لیے""" للا للا لَوری""" گاتی ہے ، بچے کی تربیت گانے سُن سُن کر سونے پر ہوتی ہے تو وہ بڑا ہو کر لا شعوری طور پر ایسا ہی کرنے پر مجبور ہو گا ، اور اِس گناہ آلود عادت کی سب سے پہلی ذمہ دار اُس کی ماں ہو گی ، یا وہ شخصیت جِس نے اُس کی تربیت اِس گناہ آلود عادت پر کی،
اِسی طرح اگر ماں ، یا کوئی بھی اور شخصیت بچے کو جھوٹے تخیلاتی کِرداروں کی خُود ساختہ جھوٹی کہانیاں سُناتی ہے تو اُس بچے کے اندر اُن چیزوں کی لا شعوری طلب رہے گی اور اُن کے بغیر اُسے نیند آنا کافی مُشکل ہو گا ، اور اُس کی نیند اُس کے لیے پر سُکون نہ ہو گی ، یہ اُس کے اُن دِنوں کی تربیت کا نتیجہ ہے جب اُس کی ماں یا اُسے پالنے پوسنے اور تربیت دینے والی کوئی بھی شخصیت اُس کے لاشعور کی تربیت کرتی رہی اور یہ نہ سمجھا کہ وہ تو اُس بچے کی تربیت کر رہی ہے ، اُس بچے کی شخصیت سازی کر رہی ہے ،
ہونا یہ چاہیے تھا کہ تربیت دینے والی وہ شخصیت اُس بچے کو کے لیے اُس کے پاس سونے کی دعائیں پڑھتی تو پھر اُس کا یہ بچہ سوتے ہوئے وہی اذکار کرتے ہوئے سوتا ،
کچھ ایسی مائیں جنہیں دِین سے لگاؤ ہوتا ہے یا بچوں کو لوریاں وغیرہ سُنانا اچھا نہیں سمجھتی ہیں وہ اپنے بچوں کو سُلانے کے لیے ایک نامکمل عِبارت اپنے طور پر اللہ تعالیٰ کا ذِکر سمجھ کر اپنے بچوں کے کانوں میں ڈالتی رہتی ہیں اور و ہ عِبارت ہے """ اللہ ھُو """،
میری نظر میں یہ عِبارت گانوں جیسی کسی لوری یا کسی جھوٹی کہانی سے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ لَوری یا کہانی کے جھوٹ ہونے کے بارے میں کسی نہ کسی وقت یہ بچہ جان جاتا ہے ، خواہ وہ اُن سے جان چُھڑا سکے یا نہ چُھڑا سکے ،
لیکن اِس """ اللہ ھُو """ کو عموما ً وہ سچ ہی جانتا ہے جیساکہ اُس کی ماں جانتی رہی اور اپنے بچے کی تربیت اِس جھوٹے خود ساختہ ، اور کفر و شرک پر مبنی ذِکر پر کر دی ،
معاف کیجیے گا ، محترم قارئین ، مِثال میں بات دُور نِکل گئی ، میں یہ کہہ رہا تھا کہ بچے کی تربیت کا وقت اُس کے شعور کی بیداری سے ہی شروع ہو جاتا ہے ، اور ماں باپ یا اولاد کی زندگی کے ساتھ ہی ختم ہوتا ہے ،
اللہ تبارک و تعا لیٰ کی طرف سے مُقرر کردہ فِطری عوامل میں یہ معلوم و مَعروف ہے کہ عموماً اولاد کِسی بھی وقت والدین کی تربیت سے غنی نہیں ہوتی ، خواہ وہ پڑھ لکھ کر کچھ کا کچھ بن جائے ، خاص طور پر صِرف دُنیاوی تعلیم پانے والی اولاد ،
جی استثنائی صُورتیں اپنی جگہ ہیں ُانہیں ہم قاعدہ قانون نہیں سمجھ سکتے ، اور نہ ہی اُن کی بِناء پر عمومی معاملات کو رُد کیا جا سکتا ہے، لہذا اولاد کی تربیت ہمیشہ جاری رہتی ہے جی زندگی کے مُختلف مراحل میں تربیت کے طریقے بدل جاتے ہیں ،
والدین ، اور بالخصوص ماں کو یہ بات اپنی اولاد کے بچپن سے ہی سمجھ لینی چاہیے اور اِس کے مُطابق وقت کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ اپنی تربیت کے انداز تبدیل کرتے رہنا چاہیے ،
اللہ تعالیٰ سب مُسلمانوں کو اُن کی اولاد کو دُرُست اِسلامی تربیت دینے کی توفیق عطاء فرمائے ،
والسلام علیکم۔
طلب گارء دُعاء ،
عادِل سُہیل ظفر ،
تاریخ کتابت : 21/02/1431ہجری، بمُطابق05/02/2101عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نُسخہ درج ذیل ربط سے نازل کیا جا سکتا ہے :
http://bit.ly/2kSEh0M
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔