کفایت اللہ
عام رکن
- شمولیت
- مارچ 14، 2011
- پیغامات
- 5,001
- ری ایکشن اسکور
- 9,806
- پوائنٹ
- 773
اولاد کے مابین عطیہ وہبہ میں بیٹے اور بیٹیوں کے ساتھ مساوات
(کفایت اللہ سنابلی)
✿ ✿ ✿اگر ایک شخص اپنی حیات میں اپنی اولاد کو بطور تحفہ مال دینا چاہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ بغیر بیٹے اور بیٹی میں فرق کئے سب کو ایک جیسی چیز عطا کرکے۔
اس سلسلے میں حدیث بہت واضح اور صریح ہے چنانچہ:
❀ امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
”حدثنا حامد بن عمر، حدثنا أبو عوانة، عن حصين، عن عامر، قال: سمعت النعمان بن بشير رضي الله عنهما، وهو على المنبر يقول: أعطاني أبي عطية، فقالت عمرة بنت رواحة: لا أرضى حتى تشهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فأتى رسول الله ﷺ، فقال: إني أعطيت ابني من عمرة بنت رواحة عطية، فأمرتني أن أشهدك يا رسول الله، قال: «أعطيت سائر ولدك مثل هذا؟»، قال: لا، قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»، قال: فرجع فرد عطيته“
”عامرشعبی بیان کرتے ہیں کہ میں نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے سنا وہ منبر پر بیان کر رہے تھے کہ میرے باپ نے مجھے ایک عطیہ دیا، تو عمرہ بنت رواحہ رضی اللہ عنہا (نعمان کی والدہ) نے کہا کہ جب تک آپ رسول اللہ ﷺکو اس پر گواہ نہ بنائیں میں راضی نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ (حاضر خدمت ہو کر) انہوں نے عرض کیا کہ عمرہ بنت رواحہ سے اپنے بیٹے کو میں نے ایک عطیہ دیا تو انہوں نے کہا کہ پہلے میں آپ کو اس پر گواہ بنا لوں، آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ اسی جیسا عطیہ تم نے اپنی تمام اولاد کو دیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں، اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کو قائم رکھو۔ چنانچہ وہ واپس ہوئے اور ہدیہ واپس لے لیا“ [صحيح البخاري 3/ 158رقم 2587]
اس حدیث میں لفظ ”ولد“ کا استعمال ہے جس کا اطلاق لڑکا اور لڑکی دونوں پر ہوتا ہے۔
نیز اس حدیث میں اللہ کے نبی ﷺ نے ساری اولاد کے لئے ”مثل“ (ایک جیسے مال) کا لفظ استعمال کیا ہے چنانچہ کہا:
”أعطيت سائر ولدك مثل هذا؟“
”اسی جیسا عطیہ تم نے اپنی تمام اولاد کو دیا ہے؟“ [صحيح البخاري 3/ 158رقم 2587]
اور سنن نسائی وغیرہ کے الفاظ ہیں:
”أفكلهم وهبت لهم مثل الذي وهبت لابنك هذا؟“
”کیا تم نے اپنی ساری اولاد کو اسی جیسا ہبہ کیا ہے جیسا ہبہ اپنے اس بیٹے کو کیا ہے ؟“ [سنن النسائي 6/ 260 ، 3681 وإسناده صحيح]
یہ الفاظ اس بارے میں بالکل صریح ہیں کہ عطیہ وتحفہ میں ساری اولاد لڑکے اورلڑکیوں کو ایک جیسا مال دینا لازم ہے ۔یعنی عطیہ وتحفہ میں لڑکے اور لڑکیوں میں فرق نہیں کیا جائے گا۔
نیز سنن ابی داؤد میں اسی روایت میں ہے :
”أليس يسرك أن يكونوا لك في البر واللطف سواء“
”کیا تمہیں پسند نہیں کہ تمہارے ساتھ حسن سلوک اور لطف وکرم میں بھی تمہاری ساری اولاد برابر ہو“ [سنن أبي داود 3/ 292 رقم 3542 وإسناده صحيح]
یہ الفاظ بھی اس بات کی دلیل ہیں کہ جس طرح والد کے ساتھ حسن سلوک اور لطف وکرم میں اس کے لڑکے اور لڑکیوں سب کو یکساں ہونا چاہئے اسی طرح والد کو بھی اپنے لڑکے اور لڑکیوں کو یکساں مقدار میں ہی عطیہ وتحفہ دینا چاہئے۔
● امام ابن المنذر رحمہ اللہ (المتوفى 319 ) بیٹے اوربیٹی میں مساوات کے سلسلے میں اختلاف نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں:
”وأصح شيء عندي: التسوية بينهم ، لقول النبي - صلى الله عليه وسلم - «سوّ »“
”میرے نزدیک سب سے صحیح بات یہ ہے کہ بیٹے اور بیٹی میں برابری کی جائے کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے اولاد میں برابری کرو“ [الإشراف على مذاهب العلماء لابن المنذر 7/ 79]
نوٹ: - «سوّ » (برابری کرو) کا لفظ طحاوی کی روایت میں ہے جو آگے آرہی ہے۔
● امام ابن بطال رحمہ اللہ(المتوفى 449 ) اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
”والحجة على من قال: نجعل حظ الذكر مثل حظ الأنثيين كالفرائض، قوله عَلَيْهِ السَّلام: (أكل ولدك نحلت مثل هذا) ، ولم يقل له: هل فضلت الذكر على الأنثى؟ ولو كان ذلك مستحبًا لسأله عنه كما سأله عن التشريك فى العطية، فثبت أن المعتبر عطية الكل على التسوية. فإن قيل: لم يكن لبشير بنت، فلذلك لم يسأله. قيل: قد كان للنعمان أخت لها خبر نقله أصحاب الحديث“
”جو لوگ کہتے ہیں کہ عطیہ میں فرائض کی طرح لڑکے کو لڑکی کی بنسبت ڈبل ملے گا ان کے خلاف نبی ﷺ کا یہ قول دلیل ہے کہ : «کیا تم نے اپنی ساری اولاد کو اسی جیسا مال دیا ہے ؟» کیونکہ آپ ﷺ نے یہاں یہ نہیں کہا کہ : «کیا تم نے ساری اولاد میں لڑکوں کو لڑکیوں کی بنسبت ڈبل دیا ہے ؟ » اگر یہی بہتر ہوتا کہ لڑکوں کو لڑکیوں کی بنسبت ڈبل دیا جائے تو نبی ﷺ اس بارے میں بھی سوال کرتے جس طرح سب کی شراکت کے بارے میں سوال کیا ۔ لہٰذا اس سے ثابت ہوا کہ لڑکا اور لڑکی سب کو یکساں مقدار میں مال دیا جائے گا ۔ اگر کہا جائے کہ نعمان کے والد بشیر رضی اللہ عنہ کی کوئی بیٹی نہ تھی اس لئے ایسا سوال نہ کیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ نعمان کی بہن (یعنی بشیر رضی اللہ عنہ کی بیٹی )تھی جیساکہ محدثین نے یہ بات نقل کررکھی ہے“ [شرح صحيح البخارى لابن بطال 7/ 101 ]
نوٹ:- اگر یہ مان بھی لیں کہ نعمان رضی اللہ عنہ کی کوئی بیٹی نہ تھی تو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کیونکہ اول تو آپ ﷺ نے کوئی تفصیل نہیں پوچھی ہے ، دوسرے یہ کہ آپ ﷺ نے جو الفاظ استعمال کئے ہیں اس روشنی میں یہ تفصیل پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے ۔
● امام ابن حزم رحمه الله (المتوفى456) فرماتے ہیں:
”ولا يحل لأحد أن يهب، ولا أن يتصدق على أحد من ولده إلا حتى يعطي أو يتصدق على كل واحد منهم بمثل ذلك.ولا يحل أن يفضل ذكرا على أنثى، ولا أنثى على ذكر، فإن فعل فهو مفسوخ مردود“
”کسی کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے کسی بچے کو کچھ ہبہ کرے یا نوازے یہاں تک کہ وہ سارے بچوں کو بھی وہی چیز عطاکرے ، اور جائز نہیں کہ لڑکے کو لڑکی پر فوقیت دی جائے، یا لڑکی کو لڑکی پر فوقیت دی جائے اگرکسی نے ایسا کیا تو اس کا عمل نا معتبر ومردود ہے“ [المحلى لابن حزم، ت بيروت: 8/ 95]
● امام أبو محمد البغوي رحمه الله (المتوفى516)فرماتے ہیں:
”وفي هذا الحديث فوائد، منها: استحباب التسوية بين الأولاد في النحل وفي غيرها من أنواع البر حتى في القبل، ذكورا كانوا أو إناثا، حتى لا يعرض في قلب المفضول ما يمنعه من بره“
”اس حدیث سے کئی باتیں معلوم ہوئیں انہیں میں سے ایک یہ کہ اولاد کے مابین ہبہ اور دیگر حسن سلوک حتی کہ بوسہ میں بھی برابری کی جائے گی چاہے اولاد مذکر ہو یا مؤنث ، تاکہ اولاد میں سے کسی کو کم ملنے کی وجہ سے اس کی طرف سے حسن سلوک میں رکاوٹ نہ ہو“ [شرح السنة للبغوي 8/ 297]
● حافظ ابن حجر رحمہ اللہ(المتوفى852) اسی حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
”وقال غيرهم لا فرق بين الذكر والأنثى وظاهر الأمر بالتسوية یشھد لھم“
”دیگر اہل علم کی رائے یہ ہے کہ ہبہ میں لڑکے اورلڑکی کا کوئی فرق نہیں کیا جائے گا اور اس حدیث میں لڑکے اور لڑکی میں مساوات اور برابری کاواضح حکم ان کی تائید کرتا ہے“ [فتح الباري لابن حجر، ط المعرفة: 5/ 214]
● علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”الهبة لا يوجد فيها شيء من المفاضلة بين الذكر والأنثى، بل يجب التسوية“
”ہبہ میں لڑکے اور لڑکی میں کوئی فرق نہیں ہے بلکہ دونوں کے درمیان مساوات اور برابری واجب ہے“ [سلسلة الهدى والنور (مفرغ ) 6/ 188]
● شیخ عبد الكريم الخضير فرماتے ہیں:
”ومقتضى هذا اللفظ - والأولاد يشمل الذكور والإناث - أنهم سواء في الهبة والعطية والهدية كلهم سواء، أعطيت الولد ألف تعطي البنت ألف، هذا مقتضى العدل، وفي لفظ: ”سووا بين أولادكم“ وهذا مقتضى التسوية، وهذا ما يفيده هذا الخبر، وبه قال الأكثر، أنه لا يفضل بين الذكر والأنثى في العطية، وفي الهدية، وفي الهبة“
”جب اولاد میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں شامل ہیں تو اس لفظ کا تقاضا یہ ہے کہ ھبہ ، عطیہ اور تحفہ میں سب برابر ہیں ، اگر آپ لڑکے کو ایک ہزار دیں گے تو لڑکی کو بھی ایک ہزار دینا ہوگا ، یہی عدل کا تقاضا ہے ، اور حدیث کے ایک طریق میں ”سووا بين أولادكم“ (اپنی اولاد میں برابری کرو) کے الفاظ ہیں ، ان الفاظ کا تقاضا یہ ہے کہ لڑکے اور لڑکی کو برابر برابر دیا جائے ، یہی بات اکثر اہل علم نے کہی ہے کہ ہبہ ، عطیہ اور ہدیہ میں لڑکے اورلڑی کے مابین کوئی فرق نہیں کیا جائے گا“ [شرح عمدة الأحكام 36/ 29، ترقيم الشاملة]
● شیخ محمد بن علي بن آدم الإثيوبي فرماتے ہیں:
”وقال غيرهم: لا فرق بين الذكر والأنثى. وهذا هو الأرجح؛ لأن ظاهر الأمر بالتسوية يدلّ عليه“
”اور دیگر اہل علم نے کہا ہے کہ لڑکے اور لڑکی میں برابری کی جائے گی اور یہی راجح ہے کیونکہ برابر کا حکم دینا اسی پر دلالت کرتا ہے“ [ذخيرة العقبى في شرح المجتبى 30/ 195]
❀ ایک اور حدیث ملاحظہ کریں ۔
أبو جعفر طحاوي رحمه الله (المتوفى321)نے کہا:
”حدثنا إبراهيم بن أبي داود، قال: حدثنا آدم بن أبي إياس، قال: حدثنا ورقاء، عن المغيرة، عن الشعبي، قال: سمعت النعمان، على منبرنا هذا يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: سووا بين أولادكم في العطية، كما تحبون أن يسووا بينكم في البر“
”نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عطیہ میں اپنی اولاد میں مساوات و برابری کرو جیسے تم یہ پسند کرتے ہو کہ تمہاری اولاد تمہارے ساتھ حسن سلوک میں برابری کرے“ [شرح مشكل الآثار، ت الأرنؤوط: 13/ 72 وإسناده صحيح علي شرط البخاري]
اس حدیث میں غور کیجئے کہ یہاں ایک تو مساوات اور برابری کی بالکل صراحت ہے نیز آگے یہ تشبیہ بھی ہے کہ جیسے حسن سلوک میں اولاد سے برابری چاہتے ہیں ، ظاہر ہے کہ حسن سلوک میں اولاد کی برابری کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ لڑکے کی طرف سے جو حسن سلوک ہو اس کا آدھا حسن سلوک لڑکی کی طرف سے ہو۔
امام طحاوی اس روایت کی روشنی میں فرماتے ہیں:
”في قول النبي ﷺ: سووا بينهم في العطية كما تحبون أن يسووا لكم في البر دليل على أنه أراد التسوية بين الإناث والذكور لأنه لا يراد من البنت شيء من البر إلا الذي يراد من الابن مثله. فلما كان النبي ﷺ أراد من الأب لولده ما يريد من ولده له وكان ما يريد من الأنثى من البر مثل ما يريد من الذكر كان ما أراد منه لهم من العطية للأنثى مثل ما أراد للذكر“
”اللہ کے نبی ﷺ کا فرمان « اولاد کے مابین عطیہ میں برابری کرو جیسے تم یہ پسند کرتے ہو کہ وہ تمہارے ساتھ حسن سلوک میں برابر رہیں» اس بات کی دلیل ہے کہ آپ ﷺ نے لڑکے اور لڑکی کے درمیان مساوات وبرابری مراد لی ہے ، کیونکہ بیٹے سے جس حسن سلوک کی امید کی جاتی ہے وہی امید بیٹی سے بھی کی جاتی ہے، تو جب اللہ کے نبی ﷺ نے باپ کی طرف سے اولاد کے لئے وہی چاہت بتائی ہے جو چاہت اولاد کی طرف سے باپ کو ہوتی ہے اور باپ اپنی بیٹی سے اسی حسن سلوک کا متمنی ہوتا ہے جو حسن سلوک وہ بیٹے سے چاہتا ہے ، تو اس سے ظاہر ہے کہ اللہ کے نبی ﷺنے باپ کی طرف سے عطیہ میں بیٹی کے لئے بھی وہی مراد لیا ہے جو بیٹے کے لئے مراد ہے“ [شرح معاني الآثار، ت النجار: 4/ 89]
والد کی طرف سے لڑکے اورلڑکی میں عدم تفریق کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ کپڑے اور کھانے وغیرہ کے سلسلے میں بھی والد اس بات کا مجاز نہیں ہے کہ لڑکے کے لئے لڑکی سے زیادہ اہتمام کرکے حتی کہ بوسہ اور پیار ومحبت میں بھی تفریق کی اجازت نہیں ہے چنانچہ حدیث ہے:
أبو جعفر طحاوي رحمه الله (المتوفى321)نے کہا:
”حدثنا أحمد بن داود، قال: ثنا يعقوب بن حميد بن كاسب، قال: ثنا عبد الله بن معاذ، عن معمر، عن الزهري، عن أنس، قال: كان مع رسول الله ﷺرجل فجاء ابن له فقبله وأجلسه على فخذه ثم جاءت بنت له فأجلسها إلى جنبه قال: «فهلا عدلت بينهما»“
”انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ اللہ کے نبی ﷺ کے ساتھ موجود تھے اسی دوران ایک شخص کا بیٹا آیا جسے اس شخص نے بوسہ دیا اور اپنی ران پر بٹھا لیا ،اس کے بعد اسی شخص کی بیٹی بھی آگئی جسے اس نے اپنے پاس بٹھا دیا، اس پر اللہ کے نبی ﷺنے کہا : تم نے ان دونوں کے مابین انصاف کیوں نہیں کیا !“ [شرح معاني الآثار، ت النجار: 4/ 89 رقم 5847 وإسناده حسن]
امام طحاوی رحمہ اللہ اس روایت کے بعد فرماتے ہیں:
”أفلا يرى أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد أراد منه التعديل بين الابنة والابن وأن لا يفضل أحدهما على الآخر فذلك دليل على ما ذكرنا في العطية أيضا“
”کیا اس سے ظاہر نہیں ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملے میں اس شخص کو بیٹے اور بیٹی کے مابین عدل کا حکم دیا اور یہ کہ دونوں میں سے کسی کو بھی دوسرے پر فوقیت نہ دے ، تو اس میں عطیہ کے بارے میں بھی ہماری بات کی دلیل ہے“ [شرح معاني الآثار، ت النجار: 4/ 89]
علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی حدیث مذکور کی تحسین کے بعد امام طحاوی رحمہ اللہ کے اس قول کو برضاء ورغبت نقل کررکھا ہے دیکھئے :[سلسلة الأحاديث الصحيحة 7/ 264]
.