- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,751
- پوائنٹ
- 1,207
اولیاء اللہ کے اوصاف احادیث سے
اور صحیح حدیث میں، جسے بخاری وغیرہ نے سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے وارد ہےکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
یَقُوْلُ اللہُ مَنْ عَادٰی لِیْ وَلِیًّا فَقَدْ بَارَزَنِیْ بِالْمُحَارَبَۃِ اَوْ فَقَدْ اٰذَنْتُہ بِالْحَرْبِ وَمَا تَقَرَّبَ اِلَیَّ عَبْدِیْ بِمِثْلِ اَدَا ئِ مَا افْتَرَضْتُ عَلَیْہِ وَلَا یَزَالُ عَبْدِیْ یَتَقَرَّبُ اِلَیَّ بِالنَّوَافِلِ حَتّٰی اُحِبَّہ فَاِذَا اَحْبَبْتُہ کُنْتُ سَمْعَہ الَّذِیْ یَسْمَعُ بِہ وَبَصَرَہُ الَّذِیْ یُبْصِرُ بِہ وَیَدَہُ الَّتِیْ یَبْطِشُ بِہِ وَرِجْلَہُ الَّتِیْ یَمْشِیْ بِھَا فَبِیْ یَسْمَعُ وَبِیْ یُبْصِرُ وَبِیْ یَبْطِشُ وَبِیْ یَمْشِیْ وَلَئِنْ سَاَلَنِیْ لَاُعْطِیَنَّہ وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِیْ لَاُعِیِذَنَّہ وَمَا تَرَدَّدْتُّ عَنْ شَیْءٍ اَنَا فَاعِلُہ تَرَدُّدِیْ عَنْ قَبْضِ نَفْسِ عَبْدِیَ الْمُوْمِنِ یَکْرَہُ الْمَوْتَ وَاَکْرَہُ مُسَاءَتَہ وَلَا بُدَّلَہ مِنْہُ
(بخاری کتاب الرقاق، باب التواضع رقم حدیث: ۶۵۰۲۔ تاہم فقد بارزنی بالمحاربۃکے الفاظ طبرانی کے ہیں۔ (ازہر))
یہ حدیث صحیح ترین ہے جو اولیاء کے بارے میں وارد ہوئی ہے، سو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ اللہ نے ارشاد فرمایا ہے، جس نے میرے دوست سے دشمنی کی وہ مجھ سے جنگ کے لیے میدان میں نکلا ایک اور حدیث میں ہے:’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: جس نے میرے ولی سے دشمنی کی وہ مجھ سے جنگ کے لیے میدان میں نکل آیا ہے۔ یا فرمایا کہ میں نے اس سے جنگ کا اعلان کر دیا، میرا بندہ جتنا میرا قرب میری فرض کردہ چیزوں کے ادا کرنے سے حاصل کرتا ہے اتنا کسی دوسری چیز کے ساتھ حاصل نہیں کر سکتا۔ میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ ایک وقت آجاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرنے لگوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے کہ وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھ بن جاتا ہوں، جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں، جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پائوں بن جاتا ہوں، جس سے وہ چلتا ہے چنانچہ وہ مجھی سے سنتا ہے، مجھی سے دیکھتا ہے، مجھی سے پکڑتا ہے اور مجھی سے چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے کچھ مانگے تو میں ضرور دیتا ہوں، اگر مجھ سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دیتا ہوں، میں نے کبھی کسی ایسے فعل سے جسے کہ مجھ کو کرنا ہو اس درجہ تردد نہیں کیا جتنا کہ اپنے اس بندے کی روح قبض کرنے سے تردد کرتا ہوں، اسے موت ناپسند ہے اور مجھے اس کی ناگواری ناپسند ہے جبکہ موت سے اسے چارا بھی نہیں۔‘‘
وَاِنِّیْ لَاَثأَرُ لِاَوْلِالیَائِیْ کَمَا یَثْاَرُ اللَّیْثُ الَحَرِبُ
(ابن کثیرسورۃ البقرہ:۹۸۔ الزھد امام احمد ۳۴۷۔ حلیۃ الاولیاء موقوفا علی ابن عباس رضی اللہ عنہما)
’’میں اپنے دوستوں کا بدلہ اس طرح لیتا ہوں جس طرح ایک جنگجو شیر بدلہ لیتا ہے۔‘‘
چنانچہ اسی بات کو پسند کرتے ہیں جسے وہ پسند کرے اور اس بات کو ناپسند کرتے ہیں، جو اسے ناپسند ہو۔ جس چیز سے وہ راضی ہو اس سے وہ بھی راضی اور جس پر وہ ناراض ہو اس پر وہ بھی ناراض ہوتے ہیں۔ اسی بات کا حکم کرتے ہیں، جس کا حکم وہ کرے اور اس بات سے منع کرتے ہیں، جو اس نے منع کر دی ہو۔ اسی کو دیتے ہیں جسے دینا اس کو پسند ہو اور اس کو دینے سے باز رہتے ہیں جسے نہ دینا ہی اسے پسند ہو۔ جیسا کہ ترمذی وغیرہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول مروی ہے:یعنی جو شخص ان سے دشمنی کرتا ہے۔ اس سے میں ان کا بدلہ اس طرح لیتا ہوں جس طرح شیر حملہ آور اپنا بدلہ لیتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اولیاء وہ ہوتے ہیں جو اس پر ایمان لاتے ہیں۔ اس سے دوستی کرتے ہیں۔
اَوْثَقُ الْعُرٰی فِی الْاِیْمَانِ الْحُبُّ فِی اللہِ وَالْبُغْضُ فِی اللہِ
(ترمذی میں نہیں ملی۔رواہ ابن ابی شیبہ ۱۱۴۱ و راجع الصحیحۃ، ۹۹۸۔ (ازہر))
ایک دوسری حدیث میں جسے ابوداود نے روایت کیا ہے فرمایا:’’ایمان کا سب سے زیادہ مضبوط حلقہ اللہ تعالیٰ کے لیے محبت کرنا اور اللہ تعالیٰ ہی کے لیے بغض رکھنا ہے۔‘‘
مَنْ اَحَبَّ لِلہِ وَاَبْغَضَ لِلہِ وَاَعْطٰی لِلہِ وَمَنَعَ لِلہِ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ الْاِیْمَانَ
(سنن ابوداؤد ، کتاب السنۃ ، باب الدلیل علی زیادۃ الایمان ونقصانہ عن ابی امامہ (حدیث ۴۶۸۱) والترمذی کتاب صفۃ القیمۃ باب (۶۰) حدیث ۲۵۲۱، عن معاذ بن انس، مسند احمد ، ج ۳، ص ۴۳۸، سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ، حدیث ۳۸۰)۔)
حوالہ’’جس نے اللہ تعالیٰ کے لیے محبت کی اور اس کے لیے خفگی کی ، کچھ دیا تو اللہ ہی کے لیے اور کسی کو دینے سے روکا تو اللہ تعالیٰ ہی کی خوشنودی کو ملحوظ رکھتے ہوئے تو اس شخص نے اپنا ایمان کامل کر لیا۔‘‘