• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اونٹ کے پیشاب سے علاج

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ذاتی پیغام (ان باکس ) میں فورم کے ایک معزز رکن محترم خرم حیات صاحب @khurramhayat75 نے صحیحین کی ایک حدیث کی تشریح طلب فرمائی ہے ، جس میں" اونٹوں کا پیشاب بطور دوا پلانے کا ذکر ہے "
چونکہ اس سوال کا جواب سب کیلئے مفید ہے ،اس لئے اوپن فورم پر اس کا جواب پیش ہے ۔
ــــــــــــــــــــــــــ
اونٹ کا پیشاب پلانے کا واقعہ
قبیلہ عُرینہ کے کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ آئے۔ وہ ایک مرض میں مبتلا ہوگئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں شہر سے دور صدقہ و زکوٰۃ کے اونٹوں کے درمیان بھیج دیا، اور وہاں رہ کر ان کا دودھ اور پیشاپ پینے کا حکم دیا۔ انھوں نے اس پر عمل کیا تو وہ صحت یاب ہوگئے۔‘‘

یہ حدیث امام بخاری نے اپنی صحیح میں مختلف سندوں سے کئی مقامات پر روایت کی ہے ﴿۵۶۸۵، ۵۶۸۶ وغیرہ﴾ صحیحین کے علاوہ یہ حدیث سنن ابی داؤد، جامع ترمذی ، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ، مسند احمد، سنن دارقطنی، صحیح ابن حبان، مصنف عبدالرزاق، سنن بیہقی ، معجم اوسط طبرانی اور دیگر کتب حدیث میں بھی مروی ہے۔
اس بنا پر اس کی صحت میں کوئی شبہ نہیں کیاجاسکتا۔ اس واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ قبیلۂ عُکُل وعُرَیْنہ کے کچھ لوگ ، جن کی تعداد آٹھ بیان کی گئی ہے، مدینہ خدمتِ نبویﷺ میں حاضر ہوئے۔ انھیں صفۂ مسجد نبوی میں ٹھہرایاگیا۔ مدینہ کی آب وہوا انھیں راس نہیں آئی۔ وہ بیمار پڑگئے۔ بعض روایات میں ہے کہ ان کے بدن پہلے سے لاغر تھے اور وہ بیماری کا شکار تھے۔ مدینہ میں کچھ دن قیام کرنے سے ان کی بیماری میں اضافہ ہوگیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں آبادی سے باہر اس جگہ بھیج دیا جہاں بیت المال کے اونٹ رکھے جاتے تھے۔ آپﷺ نے انھیں اونٹوں کا دودھ اور پیشاب استعمال کرنے کی ہدایت فرمائی۔ چند دنوں میں وہ صحت یاب ہوگئے اور ان کا مرض دور ہوگیا۔

یہ حدیث صحیح بخاری میں تین مقامات سے پیش ہے ؛
باب الدواء بأبوال الإبل، باب :اونٹوں کے پیشاب سے علاج
عن أنس رضي الله عنه: «أن ناسا اجتووا في المدينة، فأمرهم النبي صلى الله عليه وسلم أن يلحقوا براعيه - يعني الإبل - فيشربوا من ألبانها وأبوالها، فلحقوا براعيه، فشربوا من ألبانها وأبوالها، حتى صلحت أبدانهم، فقتلوا الراعي وساقوا الإبل، فبلغ النبي صلى الله عليه وسلم، فبعث في طلبهم فجيء بهم ، فقطع أيديهم وأرجلهم، وسمر أعينهم» قال قتادة: فحدثني محمد بن سيرين: «أن ذلك كان قبل أن تنزل الحدود»
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہ ( عرینہ کے ) کچھ لوگوں کو مدینہ منورہ کی آب وہوا موافق نہیں آئی تھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ وہ آپ کے چرواہے کے یہاں چلے جائیں یعنی اونٹوں میں اور ان کا دودھ اورپیشاب پئیں ۔ چنانچہ وہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کے پاس چلے گئے اور اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پیا جب وہ تندرست ہو گئے تو انہوں نے چرواہے کو قتل کردیا اور اونٹوں کوہانک کرلے گئے ۔ آپ کو جب اس کا علم ہوا تو آپ نے انہیں تلاش کرنے کے لیے لوگوں کو بھیجا جب انہیں لایا گیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ان کے بھی ہاتھ اورپاؤں کاٹ دیئے گئے اور ان کی آنکھوں میں سلائی پھیر دی گئی ( جیسا کہ انہوں نے چرواہے کے ساتھ کیا تھا ) قتادہ نے بیان کیا کہ مجھ سے محمد بن سیرین نے بیان کیا کہ یہ حدود کے نازل ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے ۔

تشریح : یہ لوگ اصل میں ڈاکو اور رہزن تھے گو مدینہ میں آکر مسلمان ہو گئے تھے مگر ان کی اصل خصلت کہاں جانے والی تھی۔ موقع پایا تو پھر ڈاکہ مارا خون کیا اونٹوں کو لے گئے اور بطور قصاص انہیں یہ سزا مذکور دی گئی۔
(صحيح البخاري 5686)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بَابُ قِصَّةِ عُكْلٍ وَعُرَيْنَةَ ،باب عکل و عرینہ کا قصہ
عن قتادة، أن أنسا رضي الله عنه، حدثهم: أن ناسا من عكل وعرينة قدموا المدينة على النبي صلى الله عليه وسلم وتكلموا بالإسلام، فقالوا يا نبي الله: إنا كنا أهل ضرع، ولم نكن أهل ريف، واستوخموا المدينة، «فأمر لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم بذود وراع، وأمرهم أن يخرجوا فيه فيشربوا من ألبانها وأبوالها»، فانطلقوا حتى إذا كانوا ناحية الحرة، كفروا بعد إسلامهم، وقتلوا راعي النبي صلى الله عليه وسلم، واستاقوا الذود، «فبلغ النبي صلى الله عليه وسلم فبعث الطلب في آثارهم، فأمر بهم فسمروا أعينهم، وقطعوا أيديهم، وتركوا في ناحية الحرة حتى ماتوا على حالهم» قال قتادة: بلغنا أن النبي صلى الله عليه وسلم بعد ذلك كان يحث على الصدقة وينهى عن المثلة وقال شعبة: وأبان، وحماد، عن قتادة، من عرينة، وقال يحيى بن أبي كثير: وأيوب، عن أبي قلابة، عن أنس قدم نفر من عكل
صحيح البخاري 4192)
انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ قبائل عکل وعرینہ کے کچھ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ آئے اور اسلام میں داخل ہو گئے ‘ پھر انہوں نے کہا ‘ اے اللہ کے نبی ! ہم لوگ مویشی رکھتے تھے ‘ کھیت وغیرہ ہمارے پاس نہیں تھے ‘ ( اس لیے ہم صرف دودھ پر بسر اوقات کیا کرتے تھے ) اور انہیں مدینہ کی آب وہوا نا موافق آئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ اونٹ اور چرواہا ان کے ساتھ کر دیا اور فرمایا کہ انہیں اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پیو ( تو تمہیں صحت حاصل ہو جا ئے گی ) وہ لوگ ( چرا گاہ کی طرف ) گئے ‘ لیکن مقام حرہ کے کنارے پہنچتے ہی وہ اسلام سے پھر گئے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چر واہے کو قتل کردیا اور اونٹوں کو لے کر بھاگنے لگے ۔ اس کی خبر جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی تو آپ نے چند صحابہ کو ان کے پیچھے دوڑایا ۔ ( وہ پکڑ کر مدینہ لائے گئے ۔ ) تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیر دی گئیں اور ان کے ہاتھ اور پیر کاٹ دیئے گئے ( کیونکہ انہوں نے بھی ایسا ہی کیا تھا ) اور انہیں حرہ کے کنارے چھوڑدیا گیا ۔ آخر وہ اسی حالت میں مر گئے ۔ قتادہ نے بیان کیا کہ ہمیں یہ روایت پہنچی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد صحابہ کو صدقہ کا حکم دیا اور مثلہ ( مقتول کی لاش بگاڑ نا یا ایذا دے کر اسے قتل کرنا ) سے منع فرمایا اور شعبہ‘ ابان اور حماد نے قتادہ سے بیان کیا کہ ( یہ لوگ ) عرینہ کے قبیلے کے تھے ( عکل کا نام نہیں لیا ) اور یحییٰ بن ابی کثیر اور ایوب نے بیان کیا ‘ان سے ابو قلابہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ قبیلہ عکل کے کچھ لوگ آئے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تشریح : چرواہے کا نام یسار النوبی رضی اللہ عنہ تھا جب قبیلے والے مرتد ہو کر اونٹ لے کر بھاگنے لگے تو اس چرواہے نے مزاحمت کی ۔ اس پر انہوں نے اس کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے اور اس کی زبان اور آنکھ میں کانٹے گاڑ دیئے جس سے انہوں نے شہادت پائی ۔ رضی اللہ عنہ ۔ اسی قصاص میں ان ڈاکوؤں کے ساتھ وہ کیا گیا جو روایت میں مذکور ہے ۔ یہ ڈاکو ہر دو قبائل عکل اور عرینہ سے تعلق رکھتے تھے ۔ حرہ پتھریلا میدان ہے جو مدینہ سے باہر ہے ۔ وہ ڈاکو مرض استسقاءکے مریض تھے اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے واسطے یہ نسخہ تجویز فرمایا۔
_______________
کتاب الحدود ،باب سمر النبی ﷺ
عن أبي قلابة، عن أنس بن مالك: أن رهطا من عكل، أو قال: عرينة، ولا أعلمه إلا قال: من عكل، قدموا المدينة «فأمر لهم النبي صلى الله عليه وسلم بلقاح، وأمرهم أن يخرجوا فيشربوا من أبوالها وألبانها» فشربوا حتى إذا برئوا قتلوا الراعي، واستاقوا النعم، فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم غدوة، فبعث الطلب في إثرهم، فما ارتفع النهار حتى جيء بهم «فأمر بهم فقطع أيديهم وأرجلهم وسمر أعينهم، فألقوا بالحرة يستسقون فلا يسقون» قال أبو قلابة: «هؤلاء قوم سرقوا وقتلوا وكفروا بعد إيمانهم، وحاربوا الله ورسوله»
(صحیح البخاری ، کتاب الحدود ،حدیث 6805)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ قبیلہ عکل یا عرینہ کے چند لوگ میں سمجھتا ہوں عکل کا لفظ کہا، مدینہ آئے اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دودھ دینے والی اونٹنیوں کا انتظام کردیا اور فرمایا کہ وہ اونٹوں کے گلہ میں جائیں اور ان کا پیشاب اور دودھ پئیں۔ چنانچہ انہوں نے پیا اور جب وہ تندرست ہوگئے تو چرواہے کو قتل کردیا اور اونٹوں کو ہنکالے گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہ خبر صبح کے وقت پہنچی تو آپ نے ان کے پیچھے سوار دوڑائے۔ ابھی دھوپ زیادہ پھیلی بھی نہیں تھی کہ وہ پکڑکر لائے گئے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ان کے بھی ہاتھ پاؤں کاٹ دےئے گئے اور ان کی بھی آنکھوں میں سلائی پھیر دی گئی اور انہیں” حرہ“ میں ڈال دیاگیا۔ وہ پانی مانگتے تھے لیکن انہیں پانی نہیں دیا جاتا تھا۔ ابوقلابہ نے کہا کہ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے چوری کی تھی، قتل کیا تھا، ایمان کے بعد کفر اختیار کیا تھا اور اللہ اور اس کے رسول سے غدارانہ لڑائی لڑی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تشریح : بلکہ نمک حرامی کی اور چرواہے کا مثلہ کرڈالا اوراونٹوں کو لے کر چلتے بنے۔ اسی لیے ان کے ساتھ بھی ایسا ہی برتاؤ کیاگیا۔ واقعہ ایک ہی ہے مگر مجتہد اعظم حضرت امام بخاری نے اس سے کئی ایک سیاسی مسائل کا استنباط فرمایا ہے۔ ایک مجتہد کی شان یہی ہوتی ہے، کوئی شک نہیں کہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ایک مجتہد اعظم تھے، اسلام کے نباض تھے، قرآن و حدیث کے حکیم حاذق تھے، معاندین آپ کی شان میں کچھ بھی تنقیص کریں آپ کی خداداد عظمت پر کچھ اثر نہ پڑا ہے نہ پڑے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ حدیث سنن النسائی میں بھی مروی ہے ،
امام نسائی ؒ روایت کرتے ہیں :
أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ حَجَّاجٍ الصَّوَّافِ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو رَجَاءٍ، مَوْلَى أَبِي قِلَابَةَ قَالَ: حدثنا أبو قلابة قال: حدثني أنس بن مالك، أن نفرا من عكل ثمانية قدموا على النبي صلى الله عليه وسلم فاستوخموا المدينة، وسقمت أجسامهم، فشكوا ذلك إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: «ألا تخرجون مع راعينا في إبله، فتصيبوا من ألبانها وأبوالها؟» قالوا: بلى، فخرجوا فشربوا من ألبانها وأبوالها، فصحوا، فقتلوا راعي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فبعث، فأخذوهم، فأتي بهم، فقطع أيديهم وأرجلهم وسمر أعينهم، ونبذهم في الشمس حتى ماتوا "
(سنن النسائي ، كتاب المحاربة ،حدیث 4024)
ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ عکل قبیلہ کے آٹھ آدمی نبیٔ اکرمﷺ کے پاس آئے (اور قبول اسلام ظاہر کیا)۔ پھر انہوں نے مدینہ کی آب و ہوا کو موافق نہ پایا اور ان کے جسم کمزور پڑ گئے۔ انہوں نے رسول اللہﷺ سے اس بات کی شکایت کی۔ آپ نے فرمایا: ’’تم ہمارے چرواہے کے ساتھ اس کے (باہر رہنے والے) اونٹوں میں کیوں نہیں چلے جاتے کہ تم ان اونٹوں کے دودھ اور پیشاب پیو؟‘‘ انہوں نے کہا: ٹھیک ہے۔ وہ وہاں چلے گئے اور (اونٹوں کا) دودھ اور پیشاب پیتے رہے۔ وہ تندرست ہو گئے تو انہوں نے رسول اللہﷺ کے چرواہے کو قتل کر دیا۔ رسول اللہﷺ نے انہیں پکڑنے کے لیے آدمی بھیجے۔ انہوں نے ان لوگوں کو جا پکڑا، چنانچہ ان کو آپ کے پاس لایا گیا تو آپ نے ان کے ہاتھ پائوں سختی کے ساتھ کاٹ دئیے اور ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیریں، پھر ان کو دھوپ میں پھینک دیا حتی کہ وہ مر گئے۔

تشریح : (۱) سنن نسائی کی مذکورہ روایت، نسائی شریف کے علاوہ صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابو داود، جامع ترمذی اور سنن ابن ماجہ کیس اتھ ساتھ مسند احمد میں بھی موجود ہے۔ صحیحین سمیت دیگر تمام کتب مذکورہ میں یہ روایت ہر کتاب میں، ایک سے زیادہ مقامات میں بیان کی گئی ہے۔ یہاں نسائی شریف میں اس مقام پر ہے کہ قبیلۂ عکل کے آٹھ افراد نبیٔ اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے جبکہ سنن نسائی ہی کی دوسری روایات میں، کسی میں تو حاضر ہونے والے لوگوں کو قبیلۂ عرینہ کے لوگ کہا گیا ہے اور کسی روایت میں انہیں عکل اور عرینہ دونوں قبیلوں کے لوگ بیان کیا گیا ہے۔ (دیکھئے مذکورہ باب کے تحت وارد شدہ احادیث) مزید برآں یہ کہ خود صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بیان کی گئی احادیث کی صورت حال بھی یہی ہے کہ کسی روایت میں انہیں عکل قبیلے کے افراد بتلایا گیا ہے، کسی میں عرینہ کے اور کسی میں عکل اور عرینہ دونوں کے۔ ملاحظہ فرمائیے: (صحیح البخاری، الجہاد، الزکاۃ، باب استعمال إبل الصدقۃ و ألبانہا…، حدیث: ۱۵۰۱، و صحیح البخاری، الجہاد و السیر، باب إذا حرق المشرک المسلم ہل یحرق؟ حدیث: ۳۰۱۸، و صحیح مسلم، القسامۃ و المحاربین، باب حکم المحاربین و المرتدین، حدیث: ۱۶۷۱ و ما بعد) بظاہر ان احادیث میں تضاد معلوم ہوتا ہے لیکن ان میں تضاد قطعاً نہیں، اصل حقیقت یہ ہے کہ آنے والے، عکل اور عرینہ دونوں قبیلوں کے لوگ تھے۔ ان کی تعداد آٹھ تھی۔ چار افراد قبیلۂ عرینہ میں سے تھے اور تین عکل میں سے اور ایک شخص ان دونوں قبیلوں کے علاوہ کسی اور قبیلے میں سے تھا۔ چونکہ یہ سارے کے سارے آٹھوں افراد اکٹھے ہی رسول اللہﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر مسلمان ہوئے تھے، اس لیے کسی حدیث میں انہیں عکل قبیلے کے افراد کہا گیا ہے، کسی میں عرینہ کے اور کسی میں عکل اور عرینہ دونوں کے۔ و اللّٰہ اعلم۔ (۲) ’’موافق نہ پایا‘‘ چونکہ وہ لوگ دوسرے علاقے سے آئے تھے، آب و ہوا کے موافق نہ ہونے کی وجہ سے وہ بیمار ہو گئے جیسا کہ عموماً مسافروں کو کسی دوسرے ملک میں جانے سے صحت کی خرابی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعض کچھ مدت بعد ٹھیک ہو جاتے ہیں اور بعض کو طویل مدت تک بھی ادھر کی آب و ہوا موافق نہیں آتی۔ (۳) ’’دودھ اور پیشاب پیو‘‘ دودھ تو ان کی مرغوب غذا تھی۔ پیشاب پیٹ کے علاج کے لیے تجویز فرمایا۔ اس سے استدلال کیا گیا ہے کہ جن جانوروں کا گوشت کھایا جاتا ہے، ان کا پیشاب پاک ہے۔ تبھی آپ نے پینے کا حکم دیا۔ جو لوگ اس کے قائل نہیں، وہ اسے علاج کی مجبوری بتلاتے ہیں۔ ان کے نزدیک علاج پلید چیز کے ساتھ بھی جائز ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ بھی اس کے قائل نہیں۔ وہ اس کو صرف انہی لوگوں کے ساتھ خاص قرار دیتے ہیں۔ یہ بحث پیچھے کتاب الطہارۃ میں گزر چکی ہے۔ (۴) ’’قتل کر دیا‘‘ دراصل یہ لوگ ڈاکو تھے۔ ممکن ہے آئے ہی بری نیت سے ہوں یا اظہار اسلام دھوکا دہی کے لیے ہو۔ ہو سکتا ہے اسلام لاتے وقت نیت صحیح ہو مگر چونکہ وہ اصلاً ڈاکو تھے، اس لیے جب انہوں نے اتنے اونٹوں میں صرف دو چرواہے دیکھے تو ان کی نیت میں فتور آ گیا، چنانچہ انہوں نے رسول اللہﷺ کے چرواہے کو قتل کیا اور اونٹوں کو ہانکتے ہوئے چلتے بنے۔ بعض تاریخی روایات میں ان اونٹوں کی تعداد پندرہ مذکور ہے۔ و اللّٰہ اعلم۔ (۵) ’’انہوں نے رسول اللہﷺ کے چرواہے کو قتل کر دیا‘‘ سنن نسائی کی اس روایت (۴۰۲۹) میں اسی طرح مفرد کے الفاظ ہیں جبکہ سنن نسائی ہی کی ایک دوسری روایت (۴۰۴۰) میں جمع کے الفاظ ہیں، یعنی انہوں نے ’’چرواہوں کو قتل کر دیا‘‘ نیز صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایات میں بھی مفرد اور جمع دونوں طرح کے الفاظ موجود ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں یہ روایت چودہ مقامات پر بیان فرمائی ہے۔ تیرہ مقامات پر مفرد کے الفاظ مذکور ہیں جبکہ ایک جگہ جمع کے الفاظ لائے گئے ہیں۔ دیکھئے: (صحیح البخاری، الحدود، [باب] کتاب المحاربین … حدیث: ۶۸۰۲) اسی طرح صحیح مسلم میں حضرت امام مسلم رحمہ اللہ بھی مفرد اور جمع، دونوں طرح کے الفاظ لائے ہیں۔ جمع کے الفاظ کے لیے دیکھئے: (صحیح مسلم، القسامۃ و المحاربین، باب حکم المحاربین و المرتدین، حدیث: ۱۶۷۱) اس واقعے کی اصل حقیقت یہ ہے کہ چرواہے صرف دو تھے۔ اس کی صراحت صحیح ابو عوانہ میں ہے۔ ایک وہ جسے رسول اللہﷺ کا چرواہا کہا گیا ہے اور اسے ہی ان لوگوں نے قتل کیا تھا۔ اس کا نام یسار تھا۔ یہ رسول اللہﷺ کا آزاد کردہ غلام تھا۔ خوبصورت انداز میں نماز ادا کرتے دیکھ کر رسول اللہﷺ نے اسے آزاد فرما دیا تھا۔ دوسرا چرواہا یہ سب کچھ دیکھ کر بھاگ کھڑا ہوا، اور مدینہ طیبہ پہنچ کر اس نے یہ اطلاع دی کہ ان لوگوں نے میرے ساتھی کو قتل کر دیا ہے اور اونٹنیاں ہانک لے گئے ہیں، چنانچہ رسول اللہﷺ نے ان کے پیچھے، ان کی تلاش میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت روانہ فرمائی، انہوں نے ان بدقماش لوگوں کو راستے ہی میں جا لیا اور انہیں پکڑ کر رسول اللہﷺ کی خدمت اقدس میں پیش کر دیا، چنانچہ آپ نے چرواہے کے قصاص میں اس کے سب قاتلوں کے ساتھ جو کہ ڈاکو اور لٹیرے بھی تھے، وہی سلوک کیا جو انہوں نے رسول اللہﷺ کے چرواہے کے ساتھ کیا تھا، یعنی آپ نے ان کے ہاتھ سختی کے ساتھ کٹوا دئیے اور ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھروا کر انہیں دھوپ میں پھینک دیا گیا۔ اس طرح وہ تڑپ تڑپ کر پیاسے مر گئے۔ مقتول چرواہے کا نام یسار بن زید ابوبلال تھا، دوسرے، اطلاع دینے والے کا نام معلوم نہیں ہو سکا۔ اس حدیث کے بیان کرنے والے اکثر راویوں کا اتفاق ہے کہ مقتول صرف نبیﷺ ہی کا چرواہا تھا، اس کے ساتھ دوسرا کوئی چرواہا قتل نہیں ہوا، جن اِکا دُکا راویوں نے جمع کے الفاظ بولے ہیں وہ مجازاً ہیں۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کو چونکہ جمع کے کم از کم افراد (أقل الجمع) دو ہوتے ہیں، چرواہے بھی دو ہی تھے اور وہ لوگ بھی ان دونوں کو قتل کنا چاہتے تھے، ایک جان بچا کر بھاگ نکلا تھا، اس لیے بعض رواۃ نے جمع کے الفاظ بیان کر دئیے ہیں۔ راجح اور درست بات یہی ہے کہ صرف ایک چرواہا ہی قتل ہوا تھا۔ اس کی تائید اصحاب مغازی کی بیان کردہ ان تاریخی روایات سے بھی ہوتی ہے جن میں انہوں نے صرف ایک چرواہے یسار کے قتل ہی کا ذکر کیا ہے۔ و اللّٰہ اعلم۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (فتح الباری: ۱/۴۴۱، ۴۴۲) (۶) ’’حتی کہ وہ مر گئے‘‘ آپ نے ان کو یہ سخت سزا بلاوجہ نہیں دی بلکہ ان کے جرائم ایک سے زیادہ تھے۔ اسلام سے مرتد ہو گئے۔ چرواہے کو قتل کیا۔ صرف قتل ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس کے ہاتھ پائوں کاٹے، آنکھوں میں سلائیاں پھیریں، پھر اس بے گناہ کو بھوکا پیاسا دھوپ میں گرم پتھروں پر پھینک دیا، اور خون نچڑ نچڑ کر وہ اللہ کو پیارا ہو گیا۔ اونٹ اور دیگر سامان لوٹ کر لے گئے۔ اللہ کے رسول اللہﷺ نے جو ان کو سزا دی، وہ تو صرف چرواہے کے ساتھ سلوک کا بدلہ تھا۔ باقی جرائم کی سزائیں اس کے تحت ہی آ گئیں۔ جب مجرم جرم کرتے وقت ترس نہ کھائے تو قصاص لیتے وقت اس پر بھی ترس نہیں کھانا چاہیے، ورنہ جرائم نہ رک سکیں گے۔ مجرم کو اس کے جرم کے مماثل سزا دی جانی چاہیے۔ قرآن مجید کی مندرجہ بالا آیت کا مفاد بھی یہی ہے۔ جن فقہاء نے اس قسم کی سزا کو لَا قَوَدَ إِلَّا بِالسَّیْفِ جیسی ضعیف روایت کی وجہ سے منسوخ کہا ہے، درست نہیں، کیونکہ {کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ} کے مفہوم سے اس موقف کی تردید ہوتی ہے۔ مندرجہ بالا آیت (آیت محاربہ) تو اس بارے میں صریح ہے اور باب والی حدیث اس کی واضح تائید کرتی ہے۔ و اللہ اعلم۔ (یہ بحث پیچھے گزر چکی ہے۔) (۷) اگر قابو آنے سے پہلے مجرم سچی توبہ کر لے تو ان شاء اللہ معافی کی امید کی جا سکتی ہے، اگرچہ حقوق العباد ہی کیوں نہ ہوں۔ و اللّٰہ اعلم۔
_______________

نبی کریم ﷺ کا اونٹنی کا پیشاب پلوانا اور مقلدین اور عقل پرستوں کا موقف

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری میں درج ذیل حدیث مروی ہے ۔
عن أنس أن ناساًاجتووا فی المدینۃ فأمرھم النبی أن یلحقوا براعیہ ۔یعنی الابلفیشربومن ألبانھا وأبوالھا فلحقوا براعیہ فشربوامن ألبانھا وأبوالھاحتٰی صلحت أبدانھم (صحیح بخاری کتاب الطب باب الدواء بأبوال الإ بل رقم الحدیث 5686 )
’’ قبیلہ عکل اور عرینہ کے کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ مدینے کی آب وہواموافق نہ آنے پر وہ لوگ بیمار ہوگئے ۔(ان کو استسقاء یعنی پیٹ میں یا پھیپھڑوں میں پانی بھرنے والی بیماری ہوگئی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے اونٹنی کے دودھ اور پیشاب کو ملاکر پینے کی دوا تجویز فرمائی ۔یہاں تک کہ اسے پی کروہ لوگ تندرست ہوگئے ‘‘۔

حافظ ابن قیم ؒ نے بھی اسی حدیث کے حوالے سے اپنی کتاب زادالمعاد میں لکھا ہے کہ اونٹنی کے تازہ دودھ اور پیشاب کو ملاکر پینا بہت سے امراض کے لئے شافی دوا ہے ۔

قارئین کرام ! بعض لوگوں کی جانب سے اس حدیث پر اعتراض شاید اس وجہ سے کیا گیاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو اونٹنی کا پیشاب پلوایا جولوگوں کے خیال میں حرام ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ ہستی سے ایسا حکم وکلام کا صادر ہونا بعیدازعقل ہے ۔

پھربعض لوگ تو حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پرکھنے کے لئے خود ساختہ اصول پیش کرتے ہیں کہ “ہر حدیث کو قرآن پر پیش کیا جائے ”
تو گزارش ہے کہ قرآن میں توکسی بھی مقام پر اونٹنی کے پیشاب کو حرام قرار نہیں دیا گیا ۔لہٰذا یہ حدیث قرآن کے متعارض نہیں ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم فاضل حافظ ابو یحیی نور پوری اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں :

پہلی بات تو یہ ہے کہ مسلمہ شرعی قواعد کے مطابق اصلاً تمام اشیاء پاک اور حلال ہوتی ہیں۔ کسی بھی چیز کی نجاست اور حرمت ثابت کرنے کے لئے قرآن و سنت یا اجماع سے کوئی دلیل ہونا ضروری ہے۔ نجاست اور حرمت کا دعویٰ کرنے والوں سے ہمارا سوال ہے کہ جو جانور اللہ کریم نے حلال قرار دیئے ہیں اور یقینا وہ پاک بھی ہیں،ان میں سے تو کوئی جزو بھی سوائے دمِ مسفوح (ذبح کے وقت بہنے والے خون) کے حرام یا ناپاک نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص حلال جانور کی کسی اور چیز کے بھی حرام ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تو اس پر دلیل پیش کرنا ضروری ہے۔جب حلال جانور کے پیشاب کی حرمت یا نجاست سرے سے ثابت ہی نہیں تو ضرورت یا غیر ضرورت کے چکر میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے ؟

2 ضرورت ِتداوی(علاج کی مجبوری)کی بناء پر نجس و حرام چیز حلال نہیں ہو سکتی۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا کرنا ثابت نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری زندگی نجس و حرام چیز سے اپنا علاج کیا نہ کسی بیمار کو ایسا مشورہ دیا۔

اس کے برعکس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجس و حرام چیز سے علاج کرنے سے منع فرمایاہے ، جیسا کہ :
1 سیدنا ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے : نھی رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم عن الدواء الخبیث ۔ ”رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبیث دوا کے استعمال سے منع فرما دیا۔” (سنن ابی داو،د : ٣٨٧٠ ، سنن الترمذی : ٢٠٤٥ ، سنن ابن ماجہ : ٣٤٩٩ ، وسندہ، صحیحٌ)
اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبیث چیز کو بطور دوائی استعمال کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ نیز قرآن کریم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرائضِ منصبی بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے :
(یَأْمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبَاتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبَائِثَ)(الاعراف : ١٥٧)
”آپ ان کو نیکی کا حکم دیتے ہیں، برائی سے منع کرتے ہیں، پاکیزہ چیزیں ان کے لئے حلال ٹھہراتے اور خبیث چیزیں ان پر حرام قرار دیتے ہیں ۔”
معلوم ہوا کہ جو چیزیں حرام ہیں وہ خبیث اور مضر ہیں۔اسی لئے تو وہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر حرام قرار دی ہیں۔ اگر ان میں یہ خباثت اور ضرر نہ ہوتا تو امت ِمحمدیہ کے مردو عورت دونوں پر کبھی بھی حرام قرار نہ دی جاتیں۔ لہٰذا اگر حلال جانوروں کے پیشاب کو حرام و نجس قرار دیا جائے تو یہ خبیث قرار پائے گا۔ کیسے ہو سکتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک طرف لوگوں کو خبیث دوائی سے منع فرمائیں اور دوسری طرف اس کے پینے کا حکم بھی دیں ؟
2 ایک صحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شراب کو دوائی میں استعمال کرنے کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إنّہ لیس بدواء ، ولکنّہ داء ۔ ”یہ دوائی نہیں ، بلکہ بیماری ہے ۔”
(صحیح مسلم : ١٩٨٤)
صحابہ کرام جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلیم یافتہ تھے ، ان کا بھی یہی فتوی تھا کہ حرام چیز دوائی میں استعمال نہیں ہو سکتی ، جیسا کہ :
1 سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ایک دفعہ اس بارے میں سوال ہوا تو فرمایا :
إنّ اللّٰہ لم یجعل شفاء کم فیما حرّم علیکم ۔
”یقینا اللہ تعالی نے اس چیز میں تمہارے لیے شفا نہیں رکھی جو تم پر حرام قرار دی ہے۔”
(مصنف ابن أبی شیبہ : ٨/٢٠ ، ح : ٢٣٧٣٩ ، وسندہ، صحیحٌ)
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اس فرمان سے صاف طور پر معلوم ہو رہا ہے کہ حرام چیزوں میں اللہ تعالیٰ نے شفا رکھی ہی نہیں ، لہٰذا حرام کے استعمال سے شفا کی توقع کرنا بھی بذات ِ خود ایک گناہ ہے۔

2 نافع رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں : کان ابن عمر إذا دعا طبیبا یعالج بعض أصحابہ اشترط علیہ أن لا یداوی بشيء حرّم اللّٰہ عزّوجلّ ۔
”سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا یہ معمول مبارک تھا کہ جب کسی عزیز کے علاج کے لئے حکیم کو بلاتے تو اس پر یہ شرط عائد کرتے کہ وہ اللہ تعالی کی حرام کردہ چیزوں سے علاج نہیں کرے گا۔” (المستدک للحاکم : ٤/٢١٨ ، وسندہ، صحیحٌ)
کیسے ممکن ہے کہ ایک رخصت اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو دی ہو اور صحابہ کرام اس کے بارے میں اتنی سختی کریں کہ دوسروں کو بھی اس کے استعمال کی اجازت نہ دیں۔

قارئین کرام نے دیکھ لیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام حرام و نجس چیز سے علاج کو ممنوع قرار دیتے تھے اور ان کے نزدیک حرام میں شفا کی توقع بھی عبث ہے۔ اگر حلال جانوروں کا پیشاب نجس ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بھی اسے پینے کا حکم نہ دیتے۔ جب حرام میں شفا ہے ہی نہیں بلکہ یہ الٹا خود بیماری ہوتی ہے تو اسے بطور دوا استعمال کرنا کیسی عقل مندی ہے ؟
پھر حرام میں شفا تلاش کرنے سے دین اسلام پر بھی زد آئے گی کہ اس میں علاج کے لئے حلال و طیب اشیاء نہیں تھیں ، اس لئے حرام و نجس چیزوں سے علاج مشروع قرار دیا گیا۔ بھلا نجاست اور شفا کی آپس میں کیا مناسبت ؟ لہٰذا یہ کہنا درست نہیں کہ اونٹ کا پیشاب نجس ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے صرف ضرورت ِتداوی کی بناء پر استعمال کرایا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام الائمہ ابن خزیمہ رحمہ اللہ (٢٢٣۔٣١١ھ) اس بات کا ردّ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
ولو کان نجساً لم یأمر بشربہ ، وقد أعلم أن لا شفاء فی المحرّم ، وقد أمر بالاستشفاء بأبوال الإبل ، ولو کان نجساً کان محرّماً ، کان دائً لا دوائً ، وما کان فیہ شفاء ، کما أعلم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم لمّا سئل : أیتداوی بالخمر؟ فقال : (( إنّما ہی داء ، ولیست بدواء ))
”اگر اونٹوں کا پیشاب نجس ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو پینے کا حکم نہ دیتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو خود بتا دیا تھا کہ حرام میں شفا نہیں، پھر اونٹوں کے پیشاب سے علاج کا بھی حکم دیا۔ اگر یہ حرام ہوتا تو بیماری ہوتا ، دوا نہ بنتا اور اس میں شفا نہ ہوتی جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب شراب کو بطور دوائی استعمال کرنے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو فرمایا : یہ تو بیماری ہے ، شفا نہیں۔”(صحیح ابن خزیمۃ : ١/٦٠، قبل الحدیث : ١١٥)

امام ابن حبان رحمہ اللہ (م ٣٥٤ھ) شراب کو بیماری قرار دینے والے فرمانِ رسول کو پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ذکر الخبر المدحض قول من زعم أنّ العرنیّین إنّما أبیح لہم فی شرب أبوال الإبل للتداوی ، لا أنّہا طاہرۃ ۔
”اس حدیث کا بیان جو اس شخص کی بات کا ردّ کرتی ہے جس کا دعویٰ ہے کہ قبیلہ عرینہ والوں کے لیے اونٹوں کا پیشاب پینا بطور دوائی جائز قرار دیا گیا ہے ، اس لیے نہیں کہ وہ پاک تھا۔”(صحیح ابن حبان : ٤/٢٣١، قبل الحدیث : ١٣٨٩)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور درج ذیل مضمون کئی ویب سائیٹ پر گذشتہ کئی سالوں سے شائع ہے ؛

جدید سائنس کے ذریعے علاج نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید

عکل اور عرینہ کے لوگوں میں جو بیماری تھی اسے موجودہ طبی سائنس میں پلیورل ایفیوزن (Pleural Effusion) اور ایسائٹیز (Ascites) کہا جاتا ہے ۔یہ انتہائی موذی مرض ہے ۔پلیورل ایفیوزن کے مریض کو بے حس کر کے پسلیوں کے درمیان آپریشن کر کے سوراخ کیا جاتا ہے ۔اس سوراخ سے پھیپھڑوں میں چیسٹ ٹیوب (Chest Tube) داخل کی جاتا ہے اور اس ٹیوب کے ذریعہ سے مریض کے پھیپھڑوں کا پانی آہستہ آہستہ خارج ہوتا ہے ،اس عمل کا دورانیہ 6سے 8ہفتہ ہے(اس مکمل عرصے میں مریض ناقابل برداشت درد کی تکلیف میں مبتلا رہتا ہے ۔ اور بعض اوقات تو وہ موت کی دعائیں مانگ رہا ہوتا ہے۔ یہ حالت میں نے خود کراچی کے ہسپتالوں میں ان وارڈز کے دورے کے دوران دیکھی ہے)۔ایسائٹیز کے مریض کے پیٹ میں موٹی سرنج داخل کر کے پیٹ کا پانی نکالا جاتا ہے ۔یہ عمل باربار دہرایا جاتا ہے ۔ان دونوں طریقوں میں مریض کو مکمل یا جزوی طور پر بے حس کیا جاتا ہے (Short Practice of Surgery page 698-703 & 948-950)
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خیرالقرون میں اس بیماری کا علاج اونٹنی کا دودھ اور پیشاب تجویز فرمایا تھا جو کہ آج بھی کار آمد ہے ۔ڈاکٹر خالد غزنوی اپنی کتاب علاج نبوی اور جدید سائنس میں تحریر فرماتے ہیں :
’’ہمارے پاس اسی طرح کے مریض لائے گئے عموماً۔4 سال سے کم عمر کے بچے اس کا شکار تھے۔ ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث پر عمل کیا اونٹنی کا دودھ اور پیشاب منگوایا اور دونوں کو ملاکر ان بچوں کا پلادیاکچھ ہی عرصے بعدان کے پھیپھڑوں اور پیٹ کا سارا پانی پیشاب کے ذریعے باہر آگیا اور بچے صحت یاب ہوگئے۔وللہ الحمد،اور آج وہ جوان ہیں‘‘۔ (علاج نبوی اور جدید سائنس جلد 3بابAscites)
محترمہ ڈاکٹر فاتن عبدالرحمٰن خورشیدکا سعودی عرب کی قابل سائنسدانوں میں ہوتا ہے۔ یہ کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی کی فیکلٹی ممبر ہونے کے علاوہ کنگ فہد سنٹر میں طبی تحقیق کے لیے قائم کردہ Tissues Culture Unit کی صدر ہیں ۔ وہ میڈیکل ڈاکٹر تو نہیں ہیں تاہم اسی حدیث سے متاثر ہو کر انہوں نے اس پر تحقیقی کام کیا اور اونٹنی کے دودھ اور پیشاب کو ملا کر کینسر سے متاثرہ افراد کو پلایا ۔ انہوں نے لیب کے اندر اپنے ان تجربات اور ریسرچ کوسات سال تک جاری رکھا اور معلوم کیا کہ کہ اونٹ کے پیشاب میں موجود نانو ذرات کامیابی کے ساتھ کینسر کے خلیات پر حملہ آور ہوتے ہیں اور اس دوا کا معیار انٹرنیشنل کینسر انسٹیٹیوٹ کی شرائط کو پورا کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے اس کو کیپسول اور سیرپ کی شکل میں مریضوں کو استعمال کروایا ہے اور اس کا کوئی نقصان د ہ سائیڈ ایکفیکٹ بھی نہیں ہے۔
محترمہ ڈاکٹر خورشید صاحبہ کا کہنا ہے کہ وہ اونٹنی کے دودہ اور پیشاب کو مخصوص مقدارون میں ملا کر مزید تجربات کے ذریعے اپنی دوا کو بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہیں اور اپنی توجہ اس جانب مرکوز کئے ہوئے ہیں کہ اسی دوا سے کینسر کی بعض مخصوص اقسام جیسے پھیپھڑوں کے کینسر، خون کے کینسر، بڑی آنت کے کینسر، دماغ کے ٹیومر اور چھاتی کے کینسر کا علاج تسلی بخش طریقے سے کیا جاسکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
قابلِ توجہ :
فقہ حنفی کی چوٹی کی کتاب "الھدایۃ " جس کے مصنف علامہ ابوالحسن علی بن ابی بکر مرغینانی (متوفی 593ھ) ہیں ،

اس کتاب میں لکھا ہے کہ :
وإن أصابه بول الفرس لم يفسده حتى يفحش عند أبي حنيفة وأبي يوسف - رحمهما الله -. وعند محمد - رَحِمَهُ اللَّهُ - لا يمنع وإن فحش لأن بول ما يؤكل لحمه طاهر عنده مخفف نجاسته عند أبي يوسف - رَحِمَهُ اللَّهُ - ولحمه مأكول عندهما.
ترجمہ :اگر کپڑے کو گھوڑے کا پیشاب لگ گیاتو امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف کے نزدیک ناپاک نہیں کرے گایہاں تک کہ فاحش ہو جائے ، اور امام محمد کے نزدیک ناپاک نہیں کرے گا چاہے فاحش ہو جائے ۔
اسلئے کہ جس جانور کا گوشت کھایا جاتا ہے اسکا پیشاب امام محمد کے نزدیک پاک ہے ، اور امام ابو یوسف کے نزدیک نجاست خفیفہ ہے ، اور گھوڑے کا گوشت دونوں کے نزدیک کھایا جائے گا ۔(یعنی اسے کھانا حلال ہے )
https://archive.org/details/AlHidayahVol5/page/n135
 
Last edited:
Top