saeedimranx2
رکن
- شمولیت
- مارچ 07، 2017
- پیغامات
- 178
- ری ایکشن اسکور
- 16
- پوائنٹ
- 71
اعوذباللہ سمیع العلیم من الشیطان الرجیم
السلام علیکم و رحمت اللہ ۔
گزشتہ کچھ عرصے سے یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ناصبیت کے پروردہ حضرات نے اہل تشیع جیسا ذوق اپنا لیا ہے اور بہت سے صحابہ ہی شان میں من گھڑت موضوع احادیث کو نہ صرف صحیح کہنا شروع کر دیا ہے بلکہ ان کو سے باقاعدہ استدلال بھی کیا جانے لگا ہے۔مثال کے طور پر مسلمانوں کے پہلے بادشاہ اور کاتب وحی صحابی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں ایسی باتیں اور روایا ت جن کا ا صول حدیث پر صحیح ہونا ثابت نہیں ہے گردش کرنے لگی ہیں ان کی صحت پر بڑھ چڑھ کر دلائل دئیے جا رہے ہیں ۔سب سے اہم یہ واقعہ ہے کہ اول الملوک امیر معاویہ رضی اللہ عنہ فتح مکہ سے پہلے ایمان لائے تھے۔ یہ کسی بھی صحت مند سند سے ثابت نہیں اور اس کو بیان کرنے والے بنیادی راوی محمدبن عمر واقدی ہیں ۔۔نہایت دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ نواصب واقدی پر بہت ساری روایات کے حوالے سے نقد کرتے ہیں اور ان پر تشیع اور رفض کی جرح کرتے ہیں جو کسی بھی معتبر کتاب سے ثابت نہیں لیکن شاہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے قبل از فتح مکہ اسلام لانے والے واقعے کو بس یونہی بیان کر دیا جاتا ہے اور یہ بتایا ہی نہیں جاتا کہ اس کو روایت کس نے کیا ہے۔ اہل تشیع کی دشمنی میں ایسا غلو کسی بھی زمانے میں قائم نہیں رہا اور نہ کبھی قائم رہے گا۔ ہمیں جتنے بھی صحابہ ہیں ان کی شان میں غلو کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔ ہر ایک کا مقام واضح ہے جو کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے۔۔حضرت معاویہ کاکوئی قصور نہیں ہے بلکہ ان کے بعد آنے والے ظالم بادشاہوں جیسے مروان بن حکم اور اس کی اولاد نے امیر معاویہ کے نام کا لیبل اپنے ساتھ لگانے کی بھر پور کوشش کی اور ان کے فضائل میں. من گھڑت احادیث گھڑنا شروع کر دیں۔ کہیں جیش مغفور لہم اور ہیں مہدی و ہادی اور کہیں کتاب و حساب کا علم عطا کرنے کی دعائیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کر دی گئیں ۔ اللہ معاف کرے ان کے نام کو بہت استعمال کیا گیا۔۔ان احادیث کے جتنے بھی راوی ہیں ان میں زیادہ تر وہ ہیں جو ان کے دور میں کسی شہر کے قاضی تھے کوئی دمشق تو کوئی بصرہ تو کوئ قرطبہ کا۔۔ الحفیظ والامان معاویہ بن صالح جیسا شخص جو ۱۲۴ ھجری میں عباسی انقلاب آنے پر قرطبہ بھاگ گیا تھا جب ۱۵۵ ھجری کے لگ بھگ حج کے لئے آیا تو اس نے یہ حدیث بیان کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو دعا دی کہ اے اللہ معاویہ کو حساب و کتاب کا علم دے۔ اس حدیث کا ۱۵۵ ھجری سے پہلے نام ونشاں بھی نہ تھا۔
اس کے علاوہ ان لوگوں کو بھی استعمال کیا گیا جو اہل بیت و علی سے دشمنی رکھتے تھے ۔ ثور بن یزید الکلاعی جس کا دادا صفین میں امیر معاویہ کی فوج کی طرف سے لڑتے ہوئے مارا گیا تھا جو علی کانام سن کر یہ کہتا تھا کہ جس نے میرے دادا کا قتل کیا میں اس سے محبت نہیں کر سکتا اس سے جیش البحر والی حدیث روایت ہے ۔ اگر یہ حدیث صحیح ہوتی تو مسلمان اپنے سب سے بہترین امیر المومنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں سمندری جہاد ضرور کرتے۔ بھلا ابو بکر و عمر و عثمان و علی سے ذیادہ کوئی ایسی باتو ں کا جاننے والا تھا؟؟ شہید معصوم حضرت عثمان نے بھی اس موقع پر اس روایت کو بیان نہیں کیا۔۔۔سب سے بڑی بات کہ خو د امیر معاویہ نے بھی قبرص کی فتح کے موقع پر اس روایت کو بیان نہیں کیا نہ دلیل بنایا۔۔۔
الکلاعی خاندان کے مختلف افراد نے فضائل معاویہ میں بیش بہا احادیث پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا ۔۔خالد بن معدان الکلاعی، ثور بن یزید الکلاعی، یونس بن سیف الکلاعی جیسے افراد نے من گھڑت روایات کو فروغ دیا۔۔۔
سلف محدثین نے اس بات کو تسلیم کیا کہ فضائل معاویہ میں ایک روایت بھی ثابت نہیں ہے۔ مگر پھر بھی زبردستی ان تمام روایات کو مستند ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔۔۔کیا صحابی کی فضیلت ثابت کرنے کے لیے حدیث کا ہونا ضروری ہے؟؟؟ کیا جس صحابی کی فضیلت میں باقاعدہ نام لے کر بھی ایک حدیث ثابت نہیں اس سے وہ اپنے درجے سے گر جائے گا؟؟؟ حضرت عمر کےغلام بدر کے پہلے شہید ہیں ان کے فضائل میں خصوصیت کے ساتھ کوئی حدیث ثابت نہیں تو کیا ان کا کوئ مقام نہیں؟؟؟ افسوس کہ ناصبی حضرات خاص کر پکستان میں سردارِ نواصب ابو یحییٰ نورپوری ور محمد فہد حارث نے انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوڑ کر من گھڑت روایات سے استدلال کرنا شروع کر کے غلو پسند اہل تشیع جیسا کام کیا ہے اور جنت و دوزخ کے فیصلے صادر کرنا شروع کر دیئے ہیں ۔۔اللہ ہمیں حق سچ بات کو سمجھنے اور ماننے کی توفیق دے امین۔اللہ حافظ ۔
السلام علیکم و رحمت اللہ ۔
گزشتہ کچھ عرصے سے یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ناصبیت کے پروردہ حضرات نے اہل تشیع جیسا ذوق اپنا لیا ہے اور بہت سے صحابہ ہی شان میں من گھڑت موضوع احادیث کو نہ صرف صحیح کہنا شروع کر دیا ہے بلکہ ان کو سے باقاعدہ استدلال بھی کیا جانے لگا ہے۔مثال کے طور پر مسلمانوں کے پہلے بادشاہ اور کاتب وحی صحابی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں ایسی باتیں اور روایا ت جن کا ا صول حدیث پر صحیح ہونا ثابت نہیں ہے گردش کرنے لگی ہیں ان کی صحت پر بڑھ چڑھ کر دلائل دئیے جا رہے ہیں ۔سب سے اہم یہ واقعہ ہے کہ اول الملوک امیر معاویہ رضی اللہ عنہ فتح مکہ سے پہلے ایمان لائے تھے۔ یہ کسی بھی صحت مند سند سے ثابت نہیں اور اس کو بیان کرنے والے بنیادی راوی محمدبن عمر واقدی ہیں ۔۔نہایت دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ نواصب واقدی پر بہت ساری روایات کے حوالے سے نقد کرتے ہیں اور ان پر تشیع اور رفض کی جرح کرتے ہیں جو کسی بھی معتبر کتاب سے ثابت نہیں لیکن شاہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے قبل از فتح مکہ اسلام لانے والے واقعے کو بس یونہی بیان کر دیا جاتا ہے اور یہ بتایا ہی نہیں جاتا کہ اس کو روایت کس نے کیا ہے۔ اہل تشیع کی دشمنی میں ایسا غلو کسی بھی زمانے میں قائم نہیں رہا اور نہ کبھی قائم رہے گا۔ ہمیں جتنے بھی صحابہ ہیں ان کی شان میں غلو کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔ ہر ایک کا مقام واضح ہے جو کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے۔۔حضرت معاویہ کاکوئی قصور نہیں ہے بلکہ ان کے بعد آنے والے ظالم بادشاہوں جیسے مروان بن حکم اور اس کی اولاد نے امیر معاویہ کے نام کا لیبل اپنے ساتھ لگانے کی بھر پور کوشش کی اور ان کے فضائل میں. من گھڑت احادیث گھڑنا شروع کر دیں۔ کہیں جیش مغفور لہم اور ہیں مہدی و ہادی اور کہیں کتاب و حساب کا علم عطا کرنے کی دعائیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کر دی گئیں ۔ اللہ معاف کرے ان کے نام کو بہت استعمال کیا گیا۔۔ان احادیث کے جتنے بھی راوی ہیں ان میں زیادہ تر وہ ہیں جو ان کے دور میں کسی شہر کے قاضی تھے کوئی دمشق تو کوئی بصرہ تو کوئ قرطبہ کا۔۔ الحفیظ والامان معاویہ بن صالح جیسا شخص جو ۱۲۴ ھجری میں عباسی انقلاب آنے پر قرطبہ بھاگ گیا تھا جب ۱۵۵ ھجری کے لگ بھگ حج کے لئے آیا تو اس نے یہ حدیث بیان کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو دعا دی کہ اے اللہ معاویہ کو حساب و کتاب کا علم دے۔ اس حدیث کا ۱۵۵ ھجری سے پہلے نام ونشاں بھی نہ تھا۔
اس کے علاوہ ان لوگوں کو بھی استعمال کیا گیا جو اہل بیت و علی سے دشمنی رکھتے تھے ۔ ثور بن یزید الکلاعی جس کا دادا صفین میں امیر معاویہ کی فوج کی طرف سے لڑتے ہوئے مارا گیا تھا جو علی کانام سن کر یہ کہتا تھا کہ جس نے میرے دادا کا قتل کیا میں اس سے محبت نہیں کر سکتا اس سے جیش البحر والی حدیث روایت ہے ۔ اگر یہ حدیث صحیح ہوتی تو مسلمان اپنے سب سے بہترین امیر المومنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں سمندری جہاد ضرور کرتے۔ بھلا ابو بکر و عمر و عثمان و علی سے ذیادہ کوئی ایسی باتو ں کا جاننے والا تھا؟؟ شہید معصوم حضرت عثمان نے بھی اس موقع پر اس روایت کو بیان نہیں کیا۔۔۔سب سے بڑی بات کہ خو د امیر معاویہ نے بھی قبرص کی فتح کے موقع پر اس روایت کو بیان نہیں کیا نہ دلیل بنایا۔۔۔
الکلاعی خاندان کے مختلف افراد نے فضائل معاویہ میں بیش بہا احادیث پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا ۔۔خالد بن معدان الکلاعی، ثور بن یزید الکلاعی، یونس بن سیف الکلاعی جیسے افراد نے من گھڑت روایات کو فروغ دیا۔۔۔
سلف محدثین نے اس بات کو تسلیم کیا کہ فضائل معاویہ میں ایک روایت بھی ثابت نہیں ہے۔ مگر پھر بھی زبردستی ان تمام روایات کو مستند ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔۔۔کیا صحابی کی فضیلت ثابت کرنے کے لیے حدیث کا ہونا ضروری ہے؟؟؟ کیا جس صحابی کی فضیلت میں باقاعدہ نام لے کر بھی ایک حدیث ثابت نہیں اس سے وہ اپنے درجے سے گر جائے گا؟؟؟ حضرت عمر کےغلام بدر کے پہلے شہید ہیں ان کے فضائل میں خصوصیت کے ساتھ کوئی حدیث ثابت نہیں تو کیا ان کا کوئ مقام نہیں؟؟؟ افسوس کہ ناصبی حضرات خاص کر پکستان میں سردارِ نواصب ابو یحییٰ نورپوری ور محمد فہد حارث نے انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوڑ کر من گھڑت روایات سے استدلال کرنا شروع کر کے غلو پسند اہل تشیع جیسا کام کیا ہے اور جنت و دوزخ کے فیصلے صادر کرنا شروع کر دیئے ہیں ۔۔اللہ ہمیں حق سچ بات کو سمجھنے اور ماننے کی توفیق دے امین۔اللہ حافظ ۔
Last edited by a moderator: