ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
اَئمہ قراء ات کے لیل و نہار
عبدالباسط منشاوی
ائمہ عشرہ اور ان کے رواۃ کی طرف منسوب قراء ات اگرچہ ان کی نسبت سے خبر واحد ہیں لیکن دیگر بے شمار روایات سے تائید کی بناء پر اور علمائے قرآن میں ان کو تلقّی بالقبول حاصل ہو جانے سے ان کا رسول اللہﷺسے ثبوت بہرحال قطعی اور متواتر ہے۔
زیر ِنظر مضمون میں فاضل مؤلف نے دس مشہور آئمہ اور ان کے رواۃ میں سے ان بعض شخصیات کو موضوعِ بحث بنایا ہے جن پر بعض ائمہ جرح و تعدیل کی طرف سے طعن کیا گیا ہے۔ ان آئمہ کی قراء ات چونکہ ’تواتر طبقہ‘ سے ثابت ہیں چنانچہ انفرادی سطح پر اگر کسی شخصیت پر کوئی جرح ثابت ہو بھی جائے تو بھی اس امام کی طرف منسوب قراء ت پر اس کا کوئی اَثر مرتب نہیں ہوتا۔
فاضل مضمون نگار نے اگرچہ ان آئمہ قراء ات پر جرح کا بخوبی جائزہ قارئین کے سامنے رکھ دیا ہے لیکن اگر چند لمحات کیلئے اس جرح کو تسلیم کربھی لیا جائے تو بھی عرض ہے کہ وہ ذات کے بجائے ان کے حافظے پر طعن سے تعلق رکھتی ہے اور ضروری نہیں کہ ایک شخص جو ایک فن میں ضعیف الحفظ ہو تو دوسرے فن میں بھی وہ لازماً ضعیف الضبط ہوگا۔ اس نکتہ کی وضاحت قراء ات نمبر دوم کے صفحہ ۳۵۶ تا ۳۵۸ اور صفحہ ۵۳۱ پر تفصیلاً دیکھی جاسکتی ہے۔
یہاں ایک نکتہ مزید پیش خدمت ہے کہ اہل فن کے ہاں ’حافظے کی قوت‘ کے دو معیارات ضبط الصدر اور ضبط الکتاب ہیں۔ حدیث شریف کی تدوین چونکہ کافی بعد میں جاکر مکمل ہوئی ہے اس لیے وہاں راوی کے قوت حافظہ کے لیے ضبط الکتاب کی بحث عام ہے لیکن قرآنِ مجید روزِ اوّل سے مکتوب حالت میں نبی کریمﷺدنیا میں چھوڑ کر گئے۔ اس لیے یہاں صدری حافظہ کی کمزوری کے بالمقابل کتابی حافظہ تو ہر صورت میں پہلے سے ہی موجود ہے۔ اس لیے یہاں صدری حافظہ کی کمزوری ضرر رساں نہیں جبکہ قرآن مجید کتابی صورت میں اُمت کے پاس ہمیشہ سے موجود رہاہے۔ اس مرکزی نکتہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بعض لوگ آئمہ قراء ات پر تنقید کا غلط شوق پورا کر رہے ہیں، حالانکہ ائمہ جرح و تعدیل نے بھی اگر ان آئمہ قراء ات پر حافظہ کے اعتبار سے کوئی طعن پیش کیا ہے تووہ علم الحدیث کی نسبت سے پیش کیا ہے، ورنہ تمام ائمہ جرح و تعدیل روایت ِقرآن کے ضمن میں ان ائمہ قراء ات کو ثقاہت کے اعلیٰ معیار پر تسلیم کرتے تھے، جیساکہ فاضل مضمون نگار نے اسے وضاحت سے بیان کیا ہے۔ (ادارہ)