• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اَولاد نیک کیسے ہو؟

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
8 اَولاد کی صلاح ودرستی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ اولاد کو اَدب سکھانے اور ان کی حسن تربیت کے لئے اگر فہمائش، سرزنش اور مارپیٹ کی ضرورت ہو تو اس سے بھی اعراض نہ کیا جائے، کیونکہ اگر ایسے مواقع پر ان کی بالکل خبر نہ لی جائے توان میں بے اَدبی اور گستاخی کے عناصر جنم لیتے ہیں اور بتدریج بگاڑ پیدا ہوتا رہتا ہے۔ البتہ مارتے وقت بچے کی طبیعت اور نفسیات کو ضرور ملحوظ خاطر رکھا جائے اور اس کی اتنی ہی گوش مالی کی جائے جتنی اس کے لیے ضروری ہے ورنہ زیادہ مار پیٹ عام طو رپر بچوں کو باغی اور نافرمان بنا دیتی ہے۔ حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
”اپنے کوڑے کو (گھر میں) وہاں لٹکا کر رکھو جہاں گھر والے اس کا نظارہ کرسکیں، کیونکہ یہ بھی ان کو ادب سکھانے کے زمرے میں آتا ہے۔“ (المعجم الکبیر للطبراني: ۱۰/۲۸۴)
حضرت ابن عمر نے ایک شخص سے فرمایا تھا : ”اپنی اولاد کو تہذیب سکھاؤ، کیونکہ تم سے تمہاری اولاد کے متعلق پوچھا جائے گا کہ تم نے ان کی کیا تربیت کی اور ان کو کیسی تعلیم دی اور ان سے تیرے ساتھ حسن سلوک کرنے اور تیری اطاعت و فرمانبرداری کے متعلق پوچھا جائے گا۔ (تاریخ أصبہان:۱/۴۶۵،۴۶۶)
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
9اَولاد کے اچھا اور نیک ہونے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ انہیں کوئی نیک سیرت رہنما اور خوف الٰہی سے سرشار پیشوا میسرآجائے، اس لئے کہ اکثر لوگوں کی گمراہی کا سبب برے مقتدیٰ اور بدسیرت رہنما ہوتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے مشرکین کی ضلالت اور گمراہی کے اَسباب بیان کرتے ہوئے فرمایا:
﴿اِنَّا وَجَدْنَا اٰبَاءَ نَا عَلٰی اُمَّةٍ وَإِنَّا عَلٰی اٰثَارِهِمْ مُّقْتَدُوْنَ﴾(الزخرف:۲۳)
”(گمراہ لوگ انبیاء کو یوں جواب دیتے تھے) بلاشبہ ہم نے اپنے باپ دادوں کو ایک طریقے پر پایا اور ہم تو انہی کے نقش قدم کی پیروی کرنے والے ہیں۔“
حضرت فضیل بن عیاض بیان کرتے ہیں کہ حضرت مالک بن دینار نے ایک شخص کو غلط انداز میں نما زپڑھتے ہوئے دیکھا تو فرمانے لگے: مجھے اس کے بچوں پر بڑا ترس آرہا ہے۔ حاضرین نے کہا: اے ابویحییٰ (مالک بن دینار  کی کنیت) نماز تو یہ شخص غلط پڑھ رہا ہے جب کہ ترس آپ اس کے بچوں پر کھا رہے ہیں؟ وہ فرمانے لگے: یہ ان کا بڑا ہے اور بچوں نے اسی سے (نماز اور دیگر عبادات و معاملات کو) سیکھا ہے۔(حلیة الأولیاء:۲/۳۸۲)
مقاتل بن بنان حکی بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے والد اور بھائی کے ساتھ حضرت ابراہیم حربی کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہ میرے والد سے فرمانے لگے: یہ آپ کے بیٹے ہیں؟ میرے والد نے کہا: جی ہاں۔ وہ فرمانے لگے: اپنے آپ کو بچا کر رکھو! یہ تجھے ایسی جگہ نہ دیکھیں جہاں سے اللہ تعالیٰ نے تجھے منع کیا ہے۔وگرنہ تم ان کی نظروں میں گر جاوٴ گے۔ (تاریخ بغداد:۶/۳۷)
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
10 اَولاد کے فرمانبردار اور مطیع و منقاد ہونے کاایک سبب یہ بھی ہے کہ والدین ازدواجی تعلقات قائم کرنے سے قبل اللہ تعالیٰ کا نام لیں۔ اس سے پیدا ہونے والا بچہ شیطان کے شر سے محفوظ رہے گا۔ حضرت ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
”اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس آنے کا ارادہ کرے تو یہ دُعا پڑھے۔“
(اَللّٰهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ وَجَنِّبِ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا) (صحیح البخاري:۶۳۸۸)
”اے الله! تو ہمیں شیطان سے دور رکھ اور جو کچھ (اولاد) تو ہمیں عطا فرمائے، اسے بھی شیطان سے دور رکھنا۔“
چنانچہ اگر اس صحبت سے کوئی اولاد مقدر میں ہوگی تو شیطان اسے کچھ نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔
حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ جب آدمی ازدواجی تعلقات قائم کرنے کے لئے اپنی بیوی کے پاس آئے تو یہ دُعا پڑھے:
”بِسْمِ اللهِ اَللّٰهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِيْمَا رَزَقْتَنَا وَلَا تَجْعَلِ الشَّيْطٰنَ نَصِيْبًا فِيْمَا رَزَقْتَنَا“․
”اللہ کے نام کے ساتھ، اے اللہ! ہمارے لئے ہماری اولاد میں برکت عطا فرما اور شیطان کے لئے ہماری اولاد سے کوئی حصہ نہ بنانا۔“
چنانچہ اگر اس صحبت سے بیوی حاملہ ہوگئی تو اُمید ہے کہ نیک اولاد جنم لے گی۔(مصنف عبدالرزاق:۱۰۴۶۷)
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
11 اولاد کے نیک و باعمل ہونے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ پیدائش کے بعد بچے کا خوبصورت اور بہترین نام رکھا جائے، کیونکہ نام اپنے مسمی پر اثر انداز ہوتا ہے اورنبی کریمﷺ نے متعدد مواقع پر اچھے نام سے نیک شگون اور برے نام سے بدشگون لیا ہے۔ حضرت عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
”قبیلہ اسلم کو اللہ تعالیٰ نے سلامت رکھا، قبیلہ غفار کی اللہ تعالیٰ نے مغفرت فرما دی اور قبیلہ عصیہ نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔“(مسند أحمد:۲/۸۰)
حضرت سعید بن مسیب﷜ بیان کرتے ہیں کہ ان کے دادا ’حزن‘ نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ان سے پوچھا: تمہارا نام کیا ہے؟ انہوں نے کہا: میرا نام حزن ہے۔ آپ نے فرمایا: تم سہل ہو، یعنی تمہارا نام’ حزن‘ کے بجائے ’سہل‘ ہے۔ میرے دادا کہنے لگے: میں تو اپنے والد کا رکھا ہوا نام نہیں بدلوں گا۔ حضرت سعید بن مسیب بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد سے اب تک ہمارے خاندان میں سختی اور مصیبت ہی رہی۔(صحیح البخاري:۶۱۹۳)
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
12 اولاد کے نیک اور راست رَو ہونے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ان کی پرورش اور نشوونما حلال مال سے کی جائے، کیونکہ مال سے بچے کی نیک فطرت متاثر ہوتی ہے، نیکی و تقویٰ کے جذبات ماند پڑتے ہیں اور فسق و فجور اور برائی کے عناصر جنم لیتے ہیں جو اس کوآتش دوزخ میں دھکیل دیتے ہیں۔ ایک موقع پر نبی رحمتﷺ نے حضرت کعب بن عجرہ سے فرمایا تھا:
”اے کعب بن عجرہ! وہ گوشت (جسم) جنت میں داخل نہیں ہوگا جس نے حرام سے پرورش پائی ہے۔“ (مسند أحمد:۳/۳۲)
ظاہر ہے کہ جب بچے کی نشوونما حرام مال سے ہو تو اس کو راہ حق کی ہدایت اور نیکوکاری کی توفیق کیسے مل سکتی ہے۔ معاویہ بن قرہ فرماتے ہیں: بلا شبہ اللہ تعالیٰ بندے کو پورے مہینے کا رزق ایک ہی دن میں عطا کردیتا ہے اگر بندہ اس (رزق) کو نیک کاموں میں خرچ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے معاملات کی اِصلاح فرما دیتا ہے اور وہ اور اس کے اہل وعیال پورا مہینہ خیروبھلائی سے گزارتے ہیں اور اگر بندہ اس رزق کو برے کاموں میں خرچ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے معاملات میں فساد پیدا کردیتا ہے اور ان کو اُلجھادیتا ہے، چنانچہ وہ خود اور اس کے اہل و عیال پورا مہینہ تنگ دستی اور مصیبت میں گزارتے ہیں۔ (حلیة الأولیاء:۲/۲۹۹)
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
13 اولاد کے نیک، صلاح کار اور فرمانبردار ہونے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ آدمی اپنی بیوی کا حق مہر حلال کمائی سے اَدا کرے۔ حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
”بلا شبہ کسی عورت کی منگنی کا آسان ہونا، اس کے حق مہر کا آسان (کم) ہونا اور اس کا سریع الحمل اور کثیر النسل ہونا، اس کی خیروبرکت میں سے ہے۔“ (مسند أحمد:۶/۷۷)
جب عورت کے حق مہر کا قلیل ہونا، اس کی خیرو برکت میں سے ہے تو اس مہر کو حلال اورپاکیزہ مال سے ادا کرنا بالاولی خیروبرکت کا باعث ہوا ،کیونکہ اس کا تعلق اس کی اولاد کی صلاح و درستی سے ہے۔ حق مہر عورت کا مال ہے، اگر وہ حرام کا ہوگا تو اس کا اثرِ بدعورت کی ذات پر پڑے گا جس سے اس کی اولاد بھی متاثر ہوگی۔ لہٰذا ضروری ہے کہ عورت کا حق مہر رزقِ طیب سے اَدا کیا جائے۔
فرقد سبخی فرماتے ہیں کہ
”بنی اسرائیل میں انبیاء اسی لئے پیدا ہوتے تھے کہ وہ اپنی بیویوں کا حق مہر اپنی حلال کمائی سے اَدا کرتے تھے۔“ (المجالسة للدینوري:۲/۳۰۵۸)
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
14 اولاد کے نیک اور صلاح کار ہونے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ اگر بچے کی حقیقی والدہ کسی عذر کی بنا پر بچے کواپنا دودھ پلانے سے قاصر ہو تو والد بچے کو دودھ پلوانے کے لئے ایسی عورت کا انتخاب کرے جو اَوصاف جمیلہ سے مزین اور خصائل حمیدہ سے متصف ہو اور نیک و متقی ہو، کیونکہ دودھ بچوں کی طبیعت پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ عمر بن حبیب قبیلہ کنانہ کی ایک شاخ بنو عتوارہ کے ایک شخص سے بیان کرتے ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ میں حضرت ابن عمر کے پاس بیٹھا ہوا تھا پوچھنے لگے: کیا تم فلاں قبیلے سے تعلق رکھتے ہو؟ میں نے کہا: نہیں، البتہ انہوں نے مجھے دودھ پلایا ہے۔ حضرت ابن عمر کہنے لگے کہ میں نے حضرت عمر کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ دودھ اس پر مشابہت ڈالتاہے۔ (مصنف عبد الرزاق:۱۳۹۵۳)
حضرت عمر سے مروی ایک حدیث میں آپ کا یہ فرمان بھی ہے کہ بری عورتوں سے دودھ پلوانے سے گریز کرو، کیونکہ اس کا اثر ایک نہ ایک دن ضرور ظاہر ہوگا۔ (غریب الحدیث للخطابي)
حضرت قتادہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت حسن بصری کی والدہ خیرہ سیدہ اُم سلمہ کی لونڈی تھیں۔ بعض اَوقات وہ گھریلو کام کاج کی وجہ سے غائب ہوتیں اور حضرت حسن رونے لگتے تو سیدہ اُم سلمہ ان کی والدہ کے آنے تک ان کو بہلانے کے لئے اپنا پستان ان کے منہ میں ڈال دیتیں۔ چنانچہ ان کے پستان سے دودھ بہنے لگتا جس کو حضرت حسن پینے لگتے۔ صحابہ و تابعین کا خیال ہے کہ حضرت حسن میں اس قدر فصاحت و حکمت اسی دودھ کے تبرک کی وجہ سے ہے۔
بعض علماء کا کہنا ہے کہ یہ بات عام ہے کہ جو بچہ جس عورت کا دودھ پیتا ہے، اس پر غالب طور پر اسی عورت کے اَخلاق و عادات کی چھاپ ہوتی ہے، خواہ وہ اچھے ہوں یا برے۔ اسی لئے ایک حدیث میں یوں کہا گیا کہ
”اپنے نطفوں کے لئے اچھی عورتوں کا انتخاب کرو۔“ (سنن ابن ماجہ:۱۹۶۵)
امام ابن قدامہ فرماتے ہیں کہ امام ابوعبداللہ احمد بن حنبل نے فاجرہ و مشرکہ عورت سے دودھ پلوانے کوناپسند کیا ہے۔ حضرت عمر بن خطاب اور عمر بن عبدالعزیز کا قول ہے کہ دودھ بچے پر مشتبہ ہوجاتا ہے، کیونکہ فاجرہ عورت کا دودھ عام طور پر بچے میں فسق و فجور میں ماں کی مشابہت پیدا کرتا ہے اور دودھ پلانے کی وجہ سے وہ بچے کی رضاعی ماں بن جاتی ہے اس لئے بعد میں یہ ماں اس بچے کے لئے عار کا باعث بن جاتی ہے۔ چنانچہ فاجرہ کا دودھ بچے کی طبع بھی متاثر کرتا ہے اور اس کے لئے عار کا باعث بھی بنتا ہے۔ اسی طرح بچے کو بیوقوف اور پاگل عورت کا دودھ پلانے سے بھی اجتناب کیا جائے تاکہ پاگل پن میں بچے ماں کی مشابہت سے محفوظ رہیں۔ اسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ دودھ طبیعتوں کو بدل دیتا ہے۔(المغنی لابن قدامة:۱/۳۴۶)
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
15 اولاد کے فرمانبردار، مطیع، تابع فرمان اور نیک ہونے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ان کو برے ہم نشینوں اور گندے دوستوں کی صحبت اور دوستی سے بچایا جائے۔ حضرت ابراہیم حربی فرماتے ہیں:
”اپنے بچوں کو برے دوستوں سے بچاؤ،اس سے پہلے کہ تم ان کو آزمائش اور فتنے میں اس طرح رنگ دو جس طرح کپڑے کو رنگا جاتا ہے۔ بچوں میں اولین بگاڑ اور فساد دوست بچوں ہی سے پیدا ہوتا ہے۔“(ذم الہوی لابن الجوزي، ص۹۷)
حضرت علی بن جعفر بیان کرتے ہیں کہ میرے والد امام ابوعبداللہ احمد بن حنبل کے پاس گئے تو مجھے بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ میرے والد امام صاحب سے کہنے لگے:
’’ اے ابوعبداللہ! یہ میرا بیٹا ہے، چنانچہ انہوں نے مجھے دعا دی اور میرے والد سے مخاطب ہوکر کہنے لگے۔ اس کو بازارمیں کسی کام میں مشغول کرو اور اس کو برے دوستوں سے بچا کر رکھو۔“ (الحث عن التجارة:ص۲۹)
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
16 صلاح ذریت کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ان کوبرے اور بدکردار ہمسایوں کی ہمسائیگی سے بچایا جائے۔ امام ابوحاتم  بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت احمد بن سنان کو فرماتے ہوئے سنا ہے: جب کسی شخص کے جوار میں کوئی بدعتی شخص سکونت اختیار کر لے تو اس کے لئے میری رائے یہ ہے کہ اگر وہ استطاعت رکھے تو اپنا گھر بیچ دے اور کہیں اور چلا جائے وگرنہ اس کی اولاد اور اس کے دیگر ہمسائے تباہ و برباد ہوجائیں گے۔
حضرت امام احمد کے اس فتویٰ کا مستدل نبی کریم1 کا یہ فرمان عالی ہے:
”تم میں سے جو شخص دجال کے بارے میں سنے تو اس کو چاہئے کہ اس سے دور رہے۔یہ بات آپ1 نے تین بار دہرائی۔ (پھر فرمایا کہ) اس لئے کہ ایک شخص دجال کے پاس آئے گا جبکہ وہ اسے جھوٹا اور مکار بھی خیال کرتا ہوگا، لیکن دجال کے شبہات ، تلبیہات اور فریب کاریوں سے مرعوب ہوکر اس کا متبع ہوجائے گا۔ (الإبانة الکبریٰ بطة، ص۴۷۴)
مطلب یہ کہ جس طرح دجال کی افترا پردازیوں سے شناور ہونے کے باوجود ایک شخص اس کی اتباع کرے گا اسی طرح خطرہ ہے کہ اہل بدعت کی خرافات سے بہرہ ور ہونے کے باوجود بندہ کہیں اس کے جال میں نہ پھنس جائے اور اپنے عقائد و عبادات کا بیڑہ غرق نہ کربیٹھے، لہٰذا اس کی صحبت و قربت سے اجتناب کیا جائے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
17 اَولاد کے نیک اور صلاح کار ہونے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ان کو اہل علم، متقی و زاہد اور صلاح کار بزرگوں کی مجالس میں شریک کیا جائے، کیونکہ ایسے لوگوں کے پاس اٹھنے بیٹھنے سے اسے اپنے کردار کو سنوارنے میں بے پناہ مدد ملے گی اور علماء عباد کی صحبت سے وہ شقی اور بدبخت نہیں ہوں گے۔ حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ نبی1 نے ذکر اور اہل ذکر کی مجالس میں شریک ہونے والوں کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے:
(هُمُ الْقَوْمُ لَا يَشْقِیْ بِهِمْ جَلِيْسَهُمْ ) (صحیح مسلم:۲۶۸۹)
”یہ (ذاکرین) ایسی قوم ہے کہ ان کے پاس بیٹھنے والے کو بھی محروم نہیں کیا جاتا۔“
حضرت میمون بن مہران بیان کرتے ہیں کہ علماء، ہر شہرمیں میری گمشدہ متاع اور چاہت کا محور رہے ہیں اور میں نے اپنے قلب کی صلاح علما ء کے ساتھ نشست و برخاست میں پائی ہے۔ (حلیة الأولیاء:۴/۸۵)
حضرت زکریا بن زیاد نحوی فرماتے ہیں کہ ہمارے شیوخ اور اَساتذہ فرمایا کرتے تھے کہ علماء کی مجالست اختیار کرو، کیونکہ اگر تم کوئی نیک کام کرو گے تو وہ تمہاری تعریف اور حوصلہ افزائی کریں گے اور اگر تم سے کوئی خطا ہوگئی تو تمہاری اصلاح کریں گے اور تمہیں درست بات بتائیں گے اور اگر تم جہالت سے کام لو گے تو تمہاری سرزنش نہیں کریں گے اسی طرح تم جاہل اور بے علم لوگوں کی مجالست اختیار کرنے سے اجتناب کرو ،کیونکہ اگر تم کوئی اچھا کام کرو گے تو وہ تمہاری حوصلہ افزائی اور تعریف نہیں کریں گے ، اگر تم خطا کرو گے تو تمہیں راہ صواب نہیں بتائیں گے اور اگر تم سے جہالت سرزد ہو گی تو ترش اور سختی سے تمہارے ساتھ پیش آئیں گے اور ان کی گواہی تمہارے لئے کچھ نافع نہ ہوگی۔ (أخبار القضاة للوکیع:۳/۱۱۳)
حضرت لقمان حکیم نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا:
”اے میرے بیٹے علما کی مجلس کو اختیار کرنا اور اپنے گھٹنوں کو ان کے بالکل قریب رکھنا (ان کے قریب ہوکر رہنا) کیونکہ رب تعالیٰ نور کلمات سے دلوں کو ایسے حیات بخشتا ہے جیسے آسمانی بارش سے مردہ زمین کو زندہ کرتا ہے۔“ (الزھد لابن المبارک ، ص:۱۳۸۷)
صالح بن احمد بن حنبل بیان کرتے ہیں کہ
”میرے والد کے پاس جب کوئی دنیا سے بے رغبت اور زاہدانہ طرز زیست رکھنے والے صاحب تشریف لاتے تووہ مجھے بلانے کے لئے کسی کو بھیجتے تاکہ میں آکر اس شخص کی سیرت کو دیکھوں، کیونکہ میرے والد کی خواہش ہوتی تھی کہ میں بھی اس شخص جیسا ہوجاؤں۔“(تاریخ بغداد:۹/۳۱۷)
ان اَسباب کو بروئے کار لانے سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اولاد میں صلاح اور تقویٰ کے عناصر جنم لیں گے اور نیکی اور راست روی کو فروغ ملے گا جو یقیناً اولاد کی حسین تربیت اور نیکوکاری پر منتج ہوں گے، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ان وجوہ پرعمل پیرا ہونے سے اولاد حتمی طور پر اسوہٴ حسنہ کی پیرو بن جائے گی۔ البتہ والدین ان اَسباب پرعمل کرنے کی وجہ سے عنداللہ اپنی مسئولیت میں غیر ماخوذ ضرور ہوں گے۔ ان شاء اللہ! کیونکہ بعض اَوقات انسان اولاد کی حسن تربیت کے لئے بڑی کوشش کرتا ہے، لیکن قضائے الٰہی اور تقدیر ربانی کے باعث وہ اس سعی کامل میں کامیاب و کامران نہیں ہوتا، لیکن چونکہ وہ اپنی ذمہ داری اَدا کرچکا ہے اس لئے اولاد کی صلاح کی نیت اور عملاًاس کی سعی و جہود کی وجہ سے وہ عنداللہ ماجور ہوگا اور اس کے باوجود اولاد کا بگاڑ اور فساد اس کے لئے شروفتنے کا باعث نہیں ہوگا۔ لاکھ کوشش کے باوجود اگر اولاد راہ حق پر گامزن نہ ہو تو والدین کو صبر کرنا چاہئے، کیونکہ یہ وہ آزمائش ہے جس پر والدین کو اللہ کی طرف سے اجر و ثواب سے نوازا جاتا ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام کو دیکھ لیجئے انہوں نے بیٹے کی بہتری کے لئے بھرپور کوشش کی، اس کے دم آخریں تک اسے تسلیم اسلام کی دعوت دی، لیکن یہ بسیار کوشش کوئی رنگ نہ لاسکی اور بیٹا اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے باپ کی آنکھوں کے سامنے غرقِ آب ہوگیا۔
ولید بن نمیر بن اَوس بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے والد کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ حضرات اکابر یہ فرمایا کرتے تھے کہ نیکی کی توفیق اللہ کی طرف سے ہوتی ہے جبکہ ادب سکھانا والدین کی طرف سے ہوتا ہے۔ (الأدب المفردحدیث:۹۲)
 
Top