17 اَولاد کے نیک اور صلاح کار ہونے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ان کو اہل علم، متقی و زاہد اور صلاح کار بزرگوں کی مجالس میں شریک کیا جائے، کیونکہ ایسے لوگوں کے پاس اٹھنے بیٹھنے سے اسے اپنے کردار کو سنوارنے میں بے پناہ مدد ملے گی اور علماء عباد کی صحبت سے وہ شقی اور بدبخت نہیں ہوں گے۔ حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ نبی1 نے ذکر اور اہل ذکر کی مجالس میں شریک ہونے والوں کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے:
(هُمُ الْقَوْمُ لَا يَشْقِیْ بِهِمْ جَلِيْسَهُمْ ) (صحیح مسلم:۲۶۸۹)
”یہ (ذاکرین) ایسی قوم ہے کہ ان کے پاس بیٹھنے والے کو بھی محروم نہیں کیا جاتا۔“
حضرت میمون بن مہران بیان کرتے ہیں کہ علماء، ہر شہرمیں میری گمشدہ متاع اور چاہت کا محور رہے ہیں اور میں نے اپنے قلب کی صلاح علما ء کے ساتھ نشست و برخاست میں پائی ہے۔
(حلیة الأولیاء:۴/۸۵)
حضرت زکریا بن زیاد نحوی فرماتے ہیں کہ ہمارے شیوخ اور اَساتذہ فرمایا کرتے تھے کہ علماء کی مجالست اختیار کرو، کیونکہ اگر تم کوئی نیک کام کرو گے تو وہ تمہاری تعریف اور حوصلہ افزائی کریں گے اور اگر تم سے کوئی خطا ہوگئی تو تمہاری اصلاح کریں گے اور تمہیں درست بات بتائیں گے اور اگر تم جہالت سے کام لو گے تو تمہاری سرزنش نہیں کریں گے اسی طرح تم جاہل اور بے علم لوگوں کی مجالست اختیار کرنے سے اجتناب کرو ،کیونکہ اگر تم کوئی اچھا کام کرو گے تو وہ تمہاری حوصلہ افزائی اور تعریف نہیں کریں گے ، اگر تم خطا کرو گے تو تمہیں راہ صواب نہیں بتائیں گے اور اگر تم سے جہالت سرزد ہو گی تو ترش اور سختی سے تمہارے ساتھ پیش آئیں گے اور ان کی گواہی تمہارے لئے کچھ نافع نہ ہوگی۔
(أخبار القضاة للوکیع:۳/۱۱۳)
حضرت لقمان حکیم نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا:
”اے میرے بیٹے علما کی مجلس کو اختیار کرنا اور اپنے گھٹنوں کو ان کے بالکل قریب رکھنا (ان کے قریب ہوکر رہنا) کیونکہ رب تعالیٰ نور کلمات سے دلوں کو ایسے حیات بخشتا ہے جیسے آسمانی بارش سے مردہ زمین کو زندہ کرتا ہے۔“ (الزھد لابن المبارک ، ص:۱۳۸۷)
صالح بن احمد بن حنبل بیان کرتے ہیں کہ
”میرے والد کے پاس جب کوئی دنیا سے بے رغبت اور زاہدانہ طرز زیست رکھنے والے صاحب تشریف لاتے تووہ مجھے بلانے کے لئے کسی کو بھیجتے تاکہ میں آکر اس شخص کی سیرت کو دیکھوں، کیونکہ میرے والد کی خواہش ہوتی تھی کہ میں بھی اس شخص جیسا ہوجاؤں۔“(تاریخ بغداد:۹/۳۱۷)
ان اَسباب کو بروئے کار لانے سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اولاد میں صلاح اور تقویٰ کے عناصر جنم لیں گے اور نیکی اور راست روی کو فروغ ملے گا جو یقیناً اولاد کی حسین تربیت اور نیکوکاری پر منتج ہوں گے، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ان وجوہ پرعمل پیرا ہونے سے اولاد حتمی طور پر اسوہٴ حسنہ کی پیرو بن جائے گی۔ البتہ والدین ان اَسباب پرعمل کرنے کی وجہ سے عنداللہ اپنی مسئولیت میں غیر ماخوذ ضرور ہوں گے۔ ان شاء اللہ! کیونکہ بعض اَوقات انسان اولاد کی حسن تربیت کے لئے بڑی کوشش کرتا ہے، لیکن قضائے الٰہی اور تقدیر ربانی کے باعث وہ اس سعی کامل میں کامیاب و کامران نہیں ہوتا، لیکن چونکہ وہ اپنی ذمہ داری اَدا کرچکا ہے اس لئے اولاد کی صلاح کی نیت اور عملاًاس کی سعی و جہود کی وجہ سے وہ عنداللہ ماجور ہوگا اور اس کے باوجود اولاد کا بگاڑ اور فساد اس کے لئے شروفتنے کا باعث نہیں ہوگا۔ لاکھ کوشش کے باوجود اگر اولاد راہ حق پر گامزن نہ ہو تو والدین کو صبر کرنا چاہئے، کیونکہ یہ وہ آزمائش ہے جس پر والدین کو اللہ کی طرف سے اجر و ثواب سے نوازا جاتا ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام کو دیکھ لیجئے انہوں نے بیٹے کی بہتری کے لئے بھرپور کوشش کی، اس کے دم آخریں تک اسے تسلیم اسلام کی دعوت دی، لیکن یہ بسیار کوشش کوئی رنگ نہ لاسکی اور بیٹا اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے باپ کی آنکھوں کے سامنے غرقِ آب ہوگیا۔
ولید بن نمیر بن اَوس بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے والد کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ حضرات اکابر یہ فرمایا کرتے تھے کہ نیکی کی توفیق اللہ کی طرف سے ہوتی ہے جبکہ ادب سکھانا والدین کی طرف سے ہوتا ہے۔
(الأدب المفردحدیث:۹۲)