عبد الرشید
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 5,402
- ری ایکشن اسکور
- 9,991
- پوائنٹ
- 667
بسم اللہ الرحمن الرحیم
فکرونظر
اُردوذریعۂ تعلیم اور قومی یکجہتی کے تقاضے
( پروفیسر ثریا بتول علوی)
اس مضمون کو کتاب وسنت ڈاٹ کام سے پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے یہاں کلک کریںاُستاد اپنی بات اپنے شاگردوں تک اسی زبان میں پہنچاتا ہے جس کو وہ بخوبی سمجھ سکیں۔ اگر متعلّم اپنے اُستاد کی بات ہی کونہ سمجھ سکے تو تعلیمی عمل زوال کا شکار ہوکر رہ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کو جب کسی قوم کی طرف مبعوث کیا تو وہ ان سے ان کی زبان میں ہی گفتگو کرتا تھا۔ قرآنِ پاک میں ارشاد ہے:
پھر اللہ تعالیٰ نے اُمت ِمسلمہ پر ایک خاص احسان و انعام کا ذکر فرمایا:{وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ لِیُبَــیِّنَ لَھُمْ} (ابراہیم:۴)
’’ہم نے اپنا پیغام دینے کے لیے جب کوئی بھی رسول بھیجا تو اس نے اپنی قوم کی زبان میں ہی پیغام دیا تاکہ وہ اُنہیں اچھی طرح کھول کر بات سمجھا سکے۔‘‘
مگر ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ۶۲ سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود ہم ایک غیر ملکی زبان یعنی انگریزی کے جال سے باہر نہیں نکل سکے۔ نہ جانے کیا وجہ ہے کہ ہر میدان اور ہر شعبہ میں انگریزی کو ہمارے سروں پر زبردستی مسلط کیا جارہا ہے۔ ہمارے نظامِ تعلیم کا حال پہلے ہی بہت پتلا ہے اور اب حکومت کا ایک تازہ شوشہ سامنے آیا ہے کہ{لَقَدْ مَنَّ اﷲُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مَّنْ اَنْفُسِہِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ و َیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ} (آلِ عمران:۱۶۴)
’’اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان پربڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان خود انہی میں سے ایک ایسا پیغمبر اُٹھایا جو اس کی آیات اُنہیں سناتا ہے۔ ان کی زندگیوں کو سنوارتا ہے اور ان کوکتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔‘‘
آخر ایک غیر ملکی زبان کو اتنی اہمیت کیوں دی جارہی ہے اور اُردو کو اس کے جائز حق سے محروم کیوں رکھا جارہا ہے ۔ اُردو پاکستان کی قومی اور سرکاری زبان ہے۔ اُردو زبان نے نظریۂ پاکستان کے فروغ میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ علامہ اقبال اس زبان کوبہت اہم سمجھتے تھے۔ اس کو برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی وحدت کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ خود محمد علی جناح نے قیامِ پاکستان کے فوراً بعد ڈھاکہ میں ایک جلسہ عام میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ’’حکومت ِپنجاب نے اپریل ۲۰۱۰ء سے شروع ہونے والے تعلیمی سیشن میں پرائمری اور سیکنڈری سکولوں کے لیے انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنانے کا نوٹیفیکیشن جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اگلے سیشن میں سرکاری سکولوں میں کوئی کلاس اُردو میں نہ ہوگی۔‘‘ [نوائے وقت، لاہور]
’’جہاں تک آپ کی بنگالی زبان کا تعلق ہے، اس افواہ میں کوئی صداقت نہیں کہ آپ کے بارے میں کوئی پریشان کن فیصلہ ہونے والا ہے۔ بالآخر اِس صوبے کے لوگوں کو ہی یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ اس صوبہ کی زبان کیا ہوگی؟ مگر میں یہ بات آپ کو واضح طور پر بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اُردو اور صرف اُردو ہوگی۔ اُردو کے سوا اور کوئی زبان نہیں ہوسکتی۔ جو کوئی آپ کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ پاکستان کا دشمن ہے۔ کوئی قوم واحد سرکاری زبان کے بغیر متحد نہیں ہوسکتی اور نہ ہی سرکاری فرائض بحسن و خوبی انجام دیئے جاسکتے ہیں۔‘‘ (۲۱؍ مارچ ۱۹۴۸ئ)