عظمتِ اسلام اور وحدتِ ادیان کا باطل نظریہ
اسلام ہی زمین وآسمان میں اﷲ کا پسندیدہ دین ہے اور یہی وہ دین ہے جسے اﷲ تعالیٰ نے اس دنیا کے اگلے اور پچھلے سب لوگوں کے لئے منتخب فرمایا۔لیکن ہر نبی کی شریعت اپنے سابق نبی سے جد ا گانہ حیثیت کی حامل ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے ہر نبی کے لئے اس کی اُمت کے شایانِ شان شریعت عطا فرمائی ہے، جو اُس کی اُمت کے ماحول سے ہم آہنگ ہو ۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنی مشیت کے تحت جس شریعت کو چاہا منسوخ کردیا اور جس شریعت کو چاہا برقرا ر رکھا ۔ بالآخر سید البشر محمدﷺ کی بعثت کے بعد ساری شریعتوں کو اﷲ تعالیٰ نے منسوخ کر دیا ہے اوراﷲ تعالیٰ نے شریعتِ محمدی کے آجانے کے بعد تمام انسانوں اور جنوں کو اس کی اتباع کرنے اور اس پر ایمان لانے کا مکلّف ٹھہرا کر شریعتِ محمدی کو دوام بخش دیا ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿ قُلْ يٰاَيُّهَا النَّاسُ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَا ا۟لَّذِيْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ۚ لَا اِلٰهَ اِلَّا هُوَ يُحْيٖ وَ يُمِيْتُ١۪ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهِ النَّبِيِّ الْاُمِّيِّ الَّذِيْ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ كَلِمٰتِهٖ وَ اتَّبِعُوْهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ﴾ (سورةالاعراف: ١٥٨)
’’آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو!میں تم سب کی طرف اس اﷲ تعالیٰ کا بھیجا ہوا ہوں، جس کی بادشاہی تمام آسمانوں اور زمین میں ہے۔ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ وہی زندگی اور موت دیتا ہے۔ سوا ﷲ تعالیٰ پر ایمان لاؤ اور اس کے نبی اُمّی پر جو اﷲ تعالیٰ پر اور اس کے احکام پر ایمان رکھتا ہے اور اس کی اتباع کرو تاکہ تم ہدایت پاؤ ۔‘‘
حدیث نبویؐ ہے:
’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر میرے بارے میں کسی یہودی یا کسی نصرانی کو پتہ چل جائے اور اس کے باوجود وہ مجھ پر ایمان نہ لائے تو اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔‘‘
چنانچہ اب ہر شخص کے لئے شریعتِ محمدی پر ایمان لانا واجب ہے اور جو شخص محمدﷺ پر ایمان نہ لائے تو اس کا ٹھکانہ جہنم کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے؟ کیونکہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک دین اسلام کے علاوہ کوئی اور دین قابل قبول نہیں۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿ اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ١۫﴾ (سورة آل عمران :١٩)
’’بلاشبہ اﷲ کے نزدیک دین اسلام ہی ہے۔‘‘
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَ مَنْ يَّبْتَغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْهُ١ۚ وَ هُوَ فِي الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ﴾ (سورة آل عمران :75)
’’ اور جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے تو اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا۔‘‘
اﷲ تعالیٰ نے اپنے نبی محمدﷺ کو افضل ترین شریعت اور کامل ترین دین دے کر مبعوث فرمایا۔ یہ دین تمام انبیاء ورسل علیہم السلام کی بعثت ورسالت کا لبِ لباب اور نچوڑ ہے۔ آپﷺسے پہلے جتنے انبیاء ورسل آئے، ان سب کی دعوت کا مقصد یہی تھا جس کی ذمہ داری دے کر آپﷺ کو مبعوث فرمایا گیا ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿ اَللّٰهُ يَجْتَبِيْ اِلَيْهِ مَنْ يَّشَآءُ وَ يَهْدِيْ اِلَيْهِ مَنْ يُّنِيْبُ﴾ (سورة الشوری:١٣)
’’اﷲ تعالیٰ جسے چاہتا ہے، اپنا برگزیدہ بناتا ہے اور جو بھی اس کی طرف رجوع کرے اﷲ اسے ہدایت دیتا ہے۔‘‘
یہودیوں اور نصرانیوں کے پادریوں کو بخوبی علم ہے کہ دین محمدی مبنی برحق دین ہے لیکن وہ لوگ محض حسد اور تکبر کی وجہ سے اس کی اتباع نہیں کرتے اور دنیا کی چاہت اور نفسانی شہوات بھی اُن کے لئے دین محمدی قبول کرنے میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ یہود ونصاریٰ کا موجودہ دین اصل دین نہیں ہے بلکہ اُنہوں نے نبی کریمﷺکی بعثت سے پہلے ہی اپنی کتاب میں تحریف کرکے اپنے دین کو بدل ڈالا تھا۔ لہٰذا اس وقت وہ اپنے اصل دین پر قائم نہیں ہیں بلکہ گمراہی ، کجروی اور کفر و عناد پر قائم ودائم ہیں۔
آج ایک مسلمان اور کلمہ گوکی حیثیت سے ہمارے لئے بڑے ہی شرم اور انتہائی عار کی بات ہے کہ ہم تمام ادیان و فرق میں یکسانیت ویگانگ کا نعرہ لگائیں اور دوسری طرف اہل سنت والجماعت اور شیعوں (روافض) کے مابین قربت ویگانگ کا راستہ ہموار کرنے کا بہانہ تلاش کریں۔ اس مذموم فکر کے حامل بعض ایسے مفکر ین اور آزاد خیال لوگ ہیں جن کو عقیدہ دینیہ اور اساسیاتِ اسلامیہ سے دور دور تک کا واسطہ نہیں بلکہ وہ اس کے واقف بھی نہیں ہیں۔ عصر حاضر میں اس سے بھی خطر ناک بات یہ ہے کہ عقلی تکابازی نے دینی رنگ اختیار کر لیا ہے اور مصالح دنیویہ کو دینی رنگ دے دیا گیا ہے۔اسلام تو یہود و نصاریٰ کو علیٰ الاعلان اس بات کی دعوت دیتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچا لیں اور جنت میں داخل ہونے کے لئے تیار کریں، دین اسلام کو گلے لگا لیں اور باطل کا چولہ اُتار کر پھینک دیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿ قُلْ يٰاَهْلَ الْكِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَةٍ سَوَآءٍۭ بَيْنَنَا وَ بَيْنَكُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰهَ وَ لَا نُشْرِكَ بِهٖ شَيْا وَّ لَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ١ؕ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْهَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ﴾ (سورة آل عمران :٦٤)
’’آپ فرما دیجئے کہ اے اہل کتاب !ایسی انصاف والی بات کی طرف آؤ جو ہم میں اور تم میں برابر ہے کہ ہم اﷲ تعالیٰ کے سو ا کسی کی عبادت نہ کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور نہ اﷲ تعالیٰ کو چھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے کو ربّ بنائیں۔ پس اگر وہ منہ پھیر لیں تو تم ان سے کہہ دو کہ گواہ رہو ہم تو مسلمان ہیں۔‘‘
اسلام یہود ونصاریٰ کو امن کے سلسلے میں احکامات کے سلسلہ میں مجبور نہیں کرتا اور ان کو ان کے دین سے دست برداری کے لئے اُن کے ساتھ سختی کرتا ہے نہ ان کے اسلام قبول کرنے کے لئے کوئی جبری اقدام کرتا ہے اور نہ ہی کسی قسم کے تشدد کا اسلام قائل ہے۔ کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ لَا اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ١ۙ۫قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ١ۚ﴾ (سورة البقرۃ : ٢٥٦)
’’دین کے بارے میں کوئی زبردستی نہیں۔ بلاشبہ ہدایت کجروی سے روزِ روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہیں۔‘‘
تو پتہ یہ چلا کہ دین اسلام ہی اصل دین ہے اور یہود و نصاریٰ کا دین باطل ہے ۔ اسلام نے اس بات کا اعلان اس لئے کیا ہے تاکہ لوگوں کو پتہ چل جائے کہ دین محمدی ہی لوگوں کے لئے نجات کا ذریعہ ہے۔ یہ بات دین اسلام کی زندہ دلی، فیاضی اور انسانیت کے ساتھ ہمدردی اور خیر خواہی کی جیتی جاگتی تصویر ہے تاکہ جو ایمان لانا چاہے، وہ برضا ورغبت ایمان کے دائرے میں داخل ہوجائے اور جو ایمان نہ لانا چاہے، اسے کون دائرۂ ایمان میں داخل کرسکتا ہے؟
اگر یہود و نصاریٰ اور مشرکین اسلام قبول کر لیں تو اسلام کا دامن رحمت اور اس کی آغوش فطرت کی بے پناہ کشادگی اُن کے لئے کافی وشافی ہوجائے گی اور دین اسلام کے دائرے میں داخل ہوتے ہی وہ مسلمانوں کے بھائی بن کر ان کی ہمدردی اور بھائی چارگی کے مستحق قرار پاجائیں گے کیونکہ اسلام کے اندر تعصب اور عناد نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ اﷲتعالیٰ نے مسلمانوں کے درمیان تعصب اور قومیت کی جڑ کاٹتے ہوئے دوٹوک انداز میں اعلان فرمادیا ہے:
﴿ يٰاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰى وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا١ؕ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ١ؕ﴾ (سورة الحجرات: ١٣)
’’اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک (ہی) مرد وعورت سے پیدا کیا ہے اور تم کو اقوام اور قبائل میں اس لئے تقسیم کر دیا ہے کہ تم لوگ آپ میں ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ اﷲ کے نزدیک تم سب میں باعزت وہ ہے جو سب سے زیادہ ڈرنے والا ہو۔‘‘
تاریخ اسلام اس بات کی گواہ ہے کہ اسلام میں کسی قسم کا تعصّب اور تنگ نظری نہیں پائی جاتی اور جہاں تک تمام ادیان میں قربت اور ہم آہنگی کا معاملہ ہے تو یہ بات اسلام کے لئے کامل طور پر بعید از قیاس ہے کہ وہ یہودیت اور نصرانیت سے قربت اور نزدیکی کی بات کرے بلکہ اس بات کا تصور بھی محال ہے چہ جائیکہ وحدتِ ادیان کی بات کی جائے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَ مَا يَسْتَوِي الْاَعْمٰى وَ الْبَصِيْرُۙ - وَ لَا الظُّلُمٰتُ وَ لَا النُّوْرُۙ- وَ لَا الظِّلُّ وَ لَا الْحَرُوْرُۚ-۱ وَ مَا يَسْتَوِي الْاَحْيَآءُ وَ لَا الْاَمْوَاتُ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ يُسْمِعُ مَنْ يَّشَآءُ١ۚ وَ مَا اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِي الْقُبُوْرِ﴾ (سورة الفاطر : ١٩۔٢٣)
’’اندھا اور آنکھوں والا برابر نہیں اور نہ تاریکی اور روشنی ہی برابر ہو سکتی ہے اور نہ چھاؤں اور دھوپ میں کوئی تناسب ہے اور نہ ہی زندہ اور مردہ ایک جیسے ہو سکتے ہیں اور اﷲ تعالیٰ جسے چاہتا ہے سنا دیتا ہے مگر آپ ان لوگوں کو سنا نہیں سکتے جو قبروں میں ہیں۔‘‘
جہاں تک مسلمانوں کی یہودیوں اور نصرانیوں سے ہم آہنگی کی بات ہے، بایں طور کہ مسلمان اپنے بعض شعائر دینی اور کچھ احکاماتِ شرعی سے دستبردار ہوجائیں اور اپنے دین اسلام کی فرماں برداری میں تساہل سے کام لیں یا یہودیوں ونصرانیوں سے مودت و رحمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یا بعض احکاماتِ دینیہ کی فرمانبرداری اور اتباع سے گریز کرتے ہوئے چشم پوشی کی راہ اختیار کریں تو ہمارا دعویٰ ہے کہ ایک سچے اور پکے مسلمان کا ضمیر یہ بات گوارا کرنے کے لئے ہر گز ہرگز تیار نہ ہوگا اور ایسا شخص اس طرح کا اقدام کرنے سے پہلے اپنے نفس کی لعنت و ملامت کا شکار ہوجائے گا۔ ہاں ان تمام حقائق کے باوجود ایک مسلمان کو اس کا دین اس بات کی کسی صورت میں اجازت نہیں دیتا کہ وہ کسی دوسری قوم کے لوگوں پر ظلم روارکھے یا اُن پر بے جا زیادتی کرے بلکہ شریعتِ اسلامیہ غیر مسلموں کے ساتھ بھی عدل وانصاف سے پیش آنے کا درس دیتی ہے۔ دین اسلام کی طرف سے مسلمانوں کو اس بات کا مکلّف قرار دیا گیا ہے کہ وہ حق کی حمایت کریں اور اس کی مدافعت وحمایت میں سینہ سپر ہو جائیں اور باطل کے خلاف خم ٹھونک کرمیدان میں اُترپڑیں اور اس کا قلع قمع کرکے ہی دم لیں اور جب تک باطل پسپا نہ ہوجائے، اس وقت تک چین کا سانس نہ لیں۔
جہاں تک تمام کے تمام ادیان ومذاہب میں ہم آہنگی ویکسانیت کا معاملہ ہے اس سلسلہ میں ہم بحیثیتِ مسلمان یہ بات کہنے کے حقدار ہیں کہ اس قسم کی تحریک ، دین اسلام اور تعلیماتِ اسلامیہ کے منافی عمل ہے جس کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس قسم کی دعوت فتنہ وفساد اور انسانیت کے زوال کا پیش خیمہ ہے ۔ اس سے بہت بڑے فتنہ کی رونمائی کا اندیشہ ہے اور ایسا اقدام عقیدۂ اسلامی میں بگاڑپیدا کرنے اور ایمان کی جڑیں کھوکھلی کرنے کے مترادف ہے۔ اﷲ کے دشمنوں سے راہ ورسم ہموار کرنا اور ان کے لئے موالات ومساوات کی دعوت دینا ہے۔ حالانکہ اﷲ تعالیٰ نے مؤمنین کو اس بات کا حکم دیا ہے کہ وہ صرف آپس میں راہ ورسم اور اخوت ومحبت کا رشتہ بحال رکھیں۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِيَآءُ بَعْضٍ١ۘ﴾ (سورة التوبۃ:٧١)
’’مؤمن مرد اور مؤمن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے مددگار ومعاون اور دوست ہیں۔‘‘