حب ِ رسولؐ ایمان کی اساس ہے!
جیسا کہ مذکورہ بالا سطور میں واضح کیا گیا ہے کہ اسلام میں حقوق الرسول ہی اُمّ الحقوق (حقوق کی ماں) ہیں۔ سرور ِکونین حضرت محمد مصطفی ﷺ کا اپنے اُمتیوں پر سب سے بڑا حق یہ ہے کہ آپؐ کی اطاعت کی جائے۔ اسلام میں اطاعت الرسول کی بنیاد حب ِرسول ہے نہ کہ خوف ِ رسولـ۔ اطاعت ِ رسول درحقیقت نتیجہ ہے حب ِ رسول کا ۔ دیکھا جائے تو اصل مقصود اطاعت ِ رسول ہے۔ جس کی تکمیل حب ِ رسول کے بغیر ہو ہی نہیں سکتی۔چنانچہ متعدد احادیث اس بات پر روشنی ڈالتی ہیں کہ حب ِ رسول اساسیات ِایمان سے ہے مثلاً
1۔امام بخاریؒ حضرت عبداللہ بن ہشام ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: ’’ہم نبی کریمؐ کے ساتھ تھے، آپؐ نے حضرت عمر ؓبن خطاب کا ہاتھ تھام رکھا تھا، حضرت عمرؓ نے آپؐ سے عرض کیا:
’’اے اللہ کے رسولؐ ! یقینا آپؐ مجھے میری جان کے سوا ہر چیز سے زیادہ پیارے ہیں‘‘ آپ ؐ نے فرمایا: ’’نہیں ، قسم ہے اس ذات کی، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اس وقت تک ایمان نہیں جب تک کہ میں تجھے تیری جان سے بھی زیادہ پیارا نہ ہوجائوں‘‘
عمر ؓ نے عرض کی: ’’اللہ تعالیٰ کی قسم! یقینا آپؐ مجھے میری جان سے بھی زیادہ پیارے ہیں‘‘
نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’اے عمرؓ! اب بات بنی ہے!‘‘
2۔امام بخاریؒ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم میں کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں بن سکتا، جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والد اور بیٹے سے زیادہ پیارا نہ ہوجائوں‘‘
3۔امام مسلمؒ حضرت انسؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’کوئی بندہ اس وقت تک مؤمن نہیںہوسکتا، جب تک میں اس کے نزدیک اس کے اہل، مال اور سب لوگوں سے زیادہ پیارا نہ ہوجائوں‘‘
قرآنِ مجید میں ان لوگوں کے لئے اللہ نے وعید فرمائی ہے جو اپنے عزیز و اقارب اور مال و تجارت کو اللہ اور اس کے رسولؐ سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔ سورۃ التوبہ میں ارشاد ِ ربانی ہے:
’’کہہ دیجئے اگر تمہارے باپ، تمہارے بیٹے، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں، تمہاری برادری، تمہارا مال جو تم نے کمایا ہے، تمہاری تجارت جس کے مندا پڑ جانے سے ڈرتے ہو، تمہارے رہنے کے مکانات جو تمہیں پسند ہیں، اللہ تعالیٰ، ا س کے رسولؐ اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ عزیز ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا حکم لے آئے اور اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘ (آیت :۲۴)
نبی کریمﷺ سے محبت کی علامات اور تقاضے کیا ہیں؟ اس بارے میں قاضی عیاض فرماتے ہیں:
’’نبی کریمﷺ کی سنت کی نصرت و تائید کرنا، آپ ؐ پر نازل کردہ شریعت کا دفاع کرنا، اور آپؐ کی حیاتِ مبارکہ کے وقت آپؐ پراپنی جان و مال فدا کرنے کی غرض سے موجود ہونے کی تمنا کرنا آپؐ کی محبت میں سے ہے‘‘ (شرح نووی)
حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں:
’’آپ ؐکی محبت آپؐ کی زیارت کے حصول اور اس سے محروم ہونے تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس میں آپؐ کی سنت کی حمایت و تائید، آپؐ پر نازل کردہ شریعت کا دفاع، اور اس کے مخالفوں کی سرکوبی شامل ہے‘‘ (فتح الباری، ۵۹)
سعودی عرب کے معروف عالم دین محمد بن صالح عثیمین فرماتے ہیں:
’’نبی کریمﷺ کا مسلمانوں پر یہ حق ہے کہ وہ آپؐ کی ذات ِ اقدس کے خلاف کی گئی زبان درازیوں کا مؤثر دفاع کریں اور خلاف ِ اسلام پراپیگنڈہ کا منہ توڑ جواب دیں‘‘
جنابِ رسالت ِمآبﷺ کی ذات ِ اقدس و منزہ پر رذیل دشمنانِ اسلام کے سب و شتم ، اہانت و تنقیص اور گستاخیاں شدید گراں گزرتی تھیں۔ آپؐ کی روحِ مقدس لطیف ترین اور پاکیزہ ترین تھی جو آپؐ کی ذات پر دشمنوں کی معمولی سی لسانی غلاظتوں کو بھی برداشت نہ کرسکتی تھی۔ آپؐ اس معاملے میں بے حد حساس واقع ہوئے تھے اور آخر حساس کیوں نہ ہوتے، آپؐ لوگوں کو نیکی کی طرف بلاتے تھے اور وہ جواباً کمینگی کا مظاہرہ کرتے تھے۔ شرافت ،پاکیزگی اور روحانی لطافت کی علامتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ نفوسِ قدسیہ بازاری زبان کی متحمل نہیںہوسکتیں۔ بعض اوقات تو آپؐ ایسی گستاخیوں پر تڑپ اٹھتے تھے:
1۔ایک شخص حضورﷺ کوبرا بھلا کہا کرتا تھا۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: کون ہے جو میرے دشمن کا بدلہ لے؟ حضرت خالد بن ولیدؓ نے عرض کیا: یارسول اللہؐ! میںاس کام کے لئے تیار ہوں۔ چنانچہ حضورؐ نے انہیںا س کام کے لئے بھیجا۔ انہوں نے اس گستاخ کو قتل کردیا۔ (الشفائ، ۲:۹۵۱)
2۔ ایک آدمی نے حضورﷺ کو سب و شتم کیا۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: کون ہے جو میرے دشمن سے بدلہ لے؟ حضرت زبیرؓ کھڑے ہوئے عرض کیا، یارسول اللہﷺ! میں حاضر ہوں… آپؐ نے اس گستاخ سے مقابلہ کیا اور اسے قتل کردیا۔ (ایضا ً)
اس طرح کے متعدد واقعات احادیث میں مذکور ہیں جس میں آپؐ بے حد کرب کی حالت میںپکار اٹھتے تھے: ’’کون ہے جو میرے دشمن سے بدلہ لے؟‘‘ آپؐ کے صحابہؓ سے آپؐ کی بے چینی دیکھی نہ جاتی تھی اور سچی محبت کا تقاضا بھی یہی تھا کہ اپنی ذات اور دنیا و مافیہا سے زیادہ عزیز مقدس ہستی کے لئے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر گستاخِ رسول کی زبان ہمیشہ کے لئے بند کردی جاتی۔ حضورؐ کی پکار صحابہ کرامؓ کے لئے آزمائش بھی تھی کہ وہ حب ِ رسول میں کتنے سچے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے بارگاہ ِنبوتؐ کے یہ پروانے ہر آزمائش میں سرخرو و کامیاب نکلے۔ صحابہ کرامؓ کا انگ انگ حب ِ رسول سے سرشار تھا!!
صحابہ کرامؓ کی جان نثاری ، وارفتگی او رمحبت کے مظہر واقعات سے تاریخ اسلام کے اوراق منور ہیں۔ روئے زمین پر کسی نبی، کسی بادشاہ، کسی سپہ سالار کے ساتھیوں نے اپنے محبوب پر اپنی محبتوں کے نذرانے اس طرح پیش نہیں کئے۔ چند ایک واقعات ملاحظہ ہوں:
1۔غزوۂ اُحد برپا ہے، وقتی طور پر مسلمان کفار کی یلغار کا مقابلہ نہ کرتے ہوئے پسپا ہو رہیہیں۔ نبی کریمؐ دشمنوں کے نرغے میں ہیں۔ آپؐ کے ایک محب صحابی حضرت طلحہ ؓ یہ حالت دیکھ کر آگے بڑھتے ہیں۔ وہ آپؐ کے سینہ ٔ مبارک کے سامنے اپنے سینے کو بطور ڈھال آگے کرتے ہیں تاکہ دشمن کے تیر آنے پر وہ نشانہ بنیں اور آنحضرتؐ کو کوئی گزند نہ پہنچے۔ تیروں کی بارش جاری ہے۔حشر کا معرکہ برپا ہے۔ سردار ِ انبیائﷺ مشرکوں کا جائزہ لینے کے لئے اپنے سر مبارک کو اٹھاتے ہیں تو ابوطلحہ ؓ آپؐ سے عرض کرتے ہیں: یارسول اللہﷺ! میرے ماں باپ آپ ؐ پر قربان! سر مبارک کو نہ اٹھائیے، ایسا نہ ہو کہ مشرکوں کا کوئی تیر آپ ؐ کو لگ جائے۔ میری چھاتی آپؐ کے سینہ ٔ مبارک کے لئے ڈھال ہے!‘‘
2۔اسی معرکہ ٔ اُحد کے متعلق ابن اسحق روایت کرتے ہیں:
’’ابودجانہ انصاریؓ نے رسول اللہﷺ کے لئے اپنے آپؐ کو ڈھال بنا دیا۔ نیزے ان کی پشت میں پیوست ہوتے رہے لیکن وہ آنحضرتؐ پر برابر جھکے رہے۔ یہاں تک کہ بہت سے نیزے ان کی پشت میںپیوست ہوتے گئے۔ انہوں نے نیزوں کی بارش کے باوجود حرکت نہ کی‘‘
3۔ابن اسحق نے بیان کیا ہے کہ غزوہ ٔ اُحد میںجب مشرک آنحضرتؐ کے قریب پہنچ گئے تو آپؐ نے فرمایا : ’’ہمارے لئے اپنی جان کون بیچتا ہے؟‘‘
’’زیاد بن السکن سمیت پانچ انصاری ؓ آگے بڑھے۔ وہ پانچوں انصاری ایک ایک کرکے رسول اللہ ﷺ کا دفاع کرتے ہوئے اپنی جانوں کو نثار کرتے رہے۔ یہاں تک کہ زیادؓ رہ گئے۔ وہ لڑتے رہے یہاں تک کہ زخموں نے انہیں گرا دیا۔ آنحضرتؐ نے فرمایا: ’’انہیں میرے قریب کرو‘‘ پھر ان کی موت کا وقت آپہنچا اور ان کا رخسار رسول اللہﷺ کے قدمِ مبارک پر تھا‘‘
4۔حضرت خنسائؓ ایک صحابیہ ہیں۔ ایک غزوہ میں انہیں چار بیٹوں کی شہادت کی خبر ملتی ہے مگر وہ دریافت کرتی ہیں: یہ بتائو رسول اللہﷺ کیسے ہیں؟
یہ تو محض چند واقعات ہیں۔ سیرت و مغازی کی کتب ایسے واقعات سے مزین ہیں، جنہیں پڑھ کر حرارت ِ ایمانی بھڑک اٹھتی ہے۔
ذرا آج غور فرمائیے، اکیسویں صدی کے آغاز پر امت ِ مسلمہ کی غیرت ِ ایمانی کی کیا صورت ہے۔ دشمنانِ اسلام کی گستاخیاں اور زبان درازیاں کہاں پہنچی ہوئی ہیں۔ جدید دور کی تمام تر روشن خیالیاں اہل یورپ کے دلوں سیپیغمبر ِاسلام کے خلاف صلیبی بغض کی سیاہیوں کو دھو نہیں سکیں۔ تکریم آدم کے ڈھنڈروچی ایک ارب سے زیادہ مسلمانوں کی آنکھوں کے نو ُر اور دلوں کے سرور پیغمبر ِ اسلامؐ کے خلاف ہرزہ سرائی اور سب و شتم کے مرتکب ملعون سلمان رشدی کی حفاظت پر سالانہ کروڑوں روپے خرچ کر رہے ہیں۔ کہیں تسلیمہ نسرین جیسی گستاخ عورت کو انسانی حقوق کے نام پر پناہ دی جاتی ہے تو کہیں کسی اور شاتم رسول کی پیٹھ ٹھونکی جاتی ہے۔ کہیں سلامت مسیح، رحمت مسیح جیسے گستاخانِ رسول کو یورپ کی خوشنودی کے حصول کیلئے عدالتوں سے باعزت بری کروا کر فرار کرایا جاتا ہے۔
آج جناب رسالت ِمآب ؐ ہمارے درمیان میں نہیں ہیں کہ ہمیں آواز دیں ’’کون ہے جو میرے دشمن سے مجھے بچائے‘‘ مگر کیا ہماری روحیں بھی مردہ ہوچکی ہیں جو روحِ محمدؐ کی پکار کو محسوس نہیں کرسکتیں؟ نبی مکرم کے جن پروانوں کی روحیں ایمان کی تجلی سے اب بھی روشن ہیں وہ جناب رسالت ِ مآب ؐ کا پیغام سن رہے ہیں۔
مفکر ِاسلام سید ابوالحسن علی ندوی کا انتقال ۳۱ دسمبر ۱۹۹۹ء کو نئی صدی کے آغاز سے چند منٹ قبل ہوا۔ ان کے حوالے سے روزنامہ ’’جنگ‘‘ (۳ جنوری ۲۰۰۰ئ) میں معروف صحافی جناب ہارون الرشید نے کالم لکھا۔ یہ کالم سید ابوالحسن علی ندوی کی خواب میں جناب رسالت ِ مآبؐ کی زیارت کی تفصیل پرمبنی ہے۔ اس خواب میں آپؐ نے مولانا ندوی صاحب سے دریافت کیا تھاکہ ’’تم نے میری حفاظت کا کیا انتظام کیا؟‘‘ یہ واقعہ ہارون الرشید کو سپریم کورٹ کے شریعت بنچ کے جج ڈاکٹر محموداحمد غازی نے سنایا، انہیں اے کے بروہی مرحوم نے سنایا تھا۔ اس کالم کے چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیے:
’’یہ آٹھویں عشرے کا ذکر ہے جب مدینہ منورہ سے جنرل محمد ضیاء الحق کے رفیق کار جناب اے کے بروہی نے ان سے رابطہ کیا اور بتایا کہ مولانا ابوالحسن علی ندوی صاحب جدہ سے بھارت جاتے ہوئے نصف دن کے لئے کراچی میں قیام کریں گے۔ وہ ایک انتہائی پیغام لے کر آرہے ہیں لہٰذا صدر راولپنڈی سے کراچی پہنچ کر ان سے مل لیں… جنرل ضیاء الحق نے فورا ً ہی آمادگی ظاہر کی۔ حجاز سے اے کے بروہی بھی ان کے ساتھ آئے۔
مدینہ منورہ میں ا ے کے بروہی نے مولانا ابوالحسن علی ندوی صاحب کو یکایک اس حال میں دیکھا کہ اضطراب ان کے پورے پیکر سے پھوٹ رہا تھا… ابوالحسن علی ندوی صاحب ایسے لوگ اپنے اضطراب کا راز بیان نہیں کیا کرتے لیکن اے کے بروہی غالباً اسی لئے مدینہ منورہ بلائے گئے تھے کہ پیغام سنیں او رپہنچا دیں۔ ابوالحسن صاحب جنہیں محبت سے علی میاں کہا جاتا تھا، نے خواب میں سرکارِ دوعالمﷺ کی زیارت کی تھی اور عالی مرتبتؐ نے ان سے خواب میں یہ پوچھا کہ انہوںنے آپؐ کی حفاظت کا کیا انتظام کیا ہے؟ جیسا کہ بعد میں علی میاں نے بیان کیا، وہ مضطرب ہو کر اٹھ بیٹھے۔ لیکن کچھ دیر میں دوبارہ سوئے تو پھر سرکارؐ کی زیارت ہوئی اور آپؐ نے دوسری بار سوال کیا: تم نے میری حفاظت کا کیا انتظام کیا ہے؟
رسول اللہﷺ کے دونوں اُمتی اضطراب، حیرت، رنج اور تعمیل کی آرزو کے ساتھ بہت دیر تک اس سوال پر غور کرتے رہے کہ سرکارؐ کے ارشاد کا مفہوم کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ نور الدین زنگی کا سا معاملہ نہ تھا جب دو بدبخت یہودیوں نے مرقد مبارک میں نقب لگانے کی جسارت کی تھی۔ اب اس اشارے کا مفہوم کچھ اور تھا۔ آخر کار وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ اس معاملے کو عالم اسلام کی سب سے بڑی سپاہ کے سردار جنرل محمد ضیاء الحق کے سپرد کردیا جائے۔ ان کے نزدیک اس پیغام کا مطلب یہ تھاکہ سرکارؐ کی سرزمین بالخصوص اور عالم اسلام بالعموم خطرات سے دوچار ہے… ایک سادہ، سچے اور کھرے آدمی نے، سارا عرب جس کے حسن بیان کا مداح تھا، صاف اور آسان الفاظ میں اپنا خواب دہرایا۔ خواب بیان کرتے ہوئے ۷۳ سالہ عالم دین رو دیا۔ گداز اور درد کی شدت سے شاید اس کا پورا پیکر کانپ رہا ہوگا۔ بروہی روئے اور محمد ضیاء الحق بھی روئے کہ دونوں گریہ کرنے والے آدمی تھے۔ لیکن جنرل کے لئے یہ فیصلے کی ساعت تھی وہ زیادہ دیر رو نہ سکتا تھا۔ پانچ لاکھ فوج اور ایٹمی پاکستانی کے سربراہ نے اپنے آنسو پونچھے، پھر انکسار اور عاجزی لیکن محکم لہجے میں انہوں نے کہا کہ اگر آنجناب کو پھر حضورؐ کی زیارت نصیب ہو تو نہایت ادب سے عرض گزاریں کہ پاکستانی فوج کا آخری سپاہی تک کٹ مرے گا لیکن مدینہ ٔ منورہ اور حرمین شریفین پر آنچ نہ آنے دے گا‘‘ (روزنامہ ’’جنگ‘‘ ۳ ؍جنوری ۲۰۰۰ئ)
مولانا علی میاں اور جناب اے کے بروہی نے رسالت ِ مآبؐ کے ارشادِ مبارکہ کی جو تعبیر نکالی، ممکن ہے وہ درست ہو، لیکن راقم الحرو ف کا ذہن ایک دوسری تعبیر کا میلان رکھتا ہے۔ جناب ہارون الرشید کے بقول جب مولانا علی میاں نے خواب میں نبی کریمﷺ کی زیارت کی تو اس وقت ان کی عمر ۷۳ سال تھی۔ ۳۱ دسمبر ۱۹۹۹ء کو جب ان کا انتقال ہوا تو ان کا عمر ۸۴ برس کی تھی۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ خواب گیارہ سال قبل یعنی ۱۹۸۸ء کے دوران دیکھا گیا۔ ۱۹۸۸ء میں ملعون رشدی ’’شیطانی آیات‘‘ مکمل کرچکا تھا یاغالباً اس کا پہلا ایڈیشن مارکیٹ میں آچکا تھا۔
مولانا سید ابوالحسن علی ندوی قلمی میدان کے عظیم شہسوار تھے، حضور ِاکرمﷺ کا خواب میں ان سے یہ سوال! ’’تم نے میری حفاظت کا کیا انتظام کیا ہے؟‘‘ ا س بات کی طرف اشارہ تھا کہ مولانا علی میاں نے شاتم رسول ملعون رشدی کی ہرزہ سرائی اور زبان درازی سے آپؐ کی حفاظت کا کیا انتظام کیا‘‘ آپؐ کا مولانا علی میاں سے یہ تقاضا ان کے ادیب ہونے کی وجہ سے زیادہ قرین قیاس ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ کسی ملک کے حکمران نہیں تھے کہ جن سے سعودی عرب یا عالم اسلام کی حفاظت کا تقاضا کیا جاتا۔
لفظی اور معنوی اعتبار سے جناب رسالت ِ مآب کا یہ سوال حضرت حسان بن ثابتؓ کوکافروں کے ہجویہ اشعار کے مقابلے میں حضور اکرمﷺ کی مدح سرائی کے حکم سے خاصی مشابہت رکھتا ہے۔ حضرت ابوالحسن علی ندوی صاحب جیسے صاحب ِ قلم، محب ِ رسول سے یہ بجا طور پر توقع تھی کہ وہ ملعون رشدی کی خرافات کا جواب لکھیں۔ مزید برآں مذکورہ سوال کے الفاظ حضوراکرمﷺ کے ارشادات ’’کون ہے جو میرے دشمن سے مجھے بچائے؟‘‘ سے بھی خاصی مناسبت رکھتے ہیں او ریہ سوال بھی آپؐ اکثر کسی شاتم رسول سے تحفظ دلانے کے لئے صحابہ ؓ سے فرماتے تھے‘‘ (واللہ اعلم بالصواب)
راقم الحروف کا مولانا ابوالحسن علی ندوی کے خواب کی تعبیر کے متعلق میلانِ غالب یہی ہیـ۔ اگر اس خواب کی یہی تعبیر درست ہے تو راقم الحروف کو یقین کامل ہے کہ آج کے دور میں حب ِ رسول کا عظیم ترین تقاضا یہ ہے کہ حسان بن ثابتؓ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے سرور ِ کونین، خاتم الانبیاء حضور اکرمﷺ کی ذات ِ مقدسہ کے خلاف شیطانی ذرّیت ملعون رشدی اور دیگر شاتمانِ رسول کی مکروہ زبان درازیوں کا مقدور بھر جواب دیا جائے۔ اور سیرت ِ رسولؐ کی عالم کفر میں بھرپور اشاعت کی جائے تاکہ اسلام کے خلاف کی جانے والی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا مؤثر جواب دیا جاسکے۔ پیغمبر ِ اسلام ؐ کے خلاف کی جانے والی یہ سازشیں یہود و نصاریٰ کی بدحواسی کی غماز ہیں۔ اسلام یورپ اور دنیا کے دیگر ممالک میں بڑی تیزی سے مقبول ہو رہا ہے۔ اسلام کی اشاعت میں ایک بہت بڑی رکاوٹ متعصّب مسیحی و صہیونی مصنّفین کا جناب رسالت ِ مآب ؐکی ذات ِ برکات کے بارے میں غلط تاثر قائم کرنا بھی ہے۔ جونہی یہ تاثر ختم ہوگیا تو پھر یورپ اور امریکہ اسلام کی جھولی میں پکے پھل کی طرح آگریں گے اور قیامت سے پہلے پوری دنیا پر اسلام کے غلبہ کی پیشین گوئی عملی صورت بن کر سامنے آئے گی۔
اگرہم حقوق الرسول کو اُمّ الحقوق مانتے ہیں تو پھر اس فریضہ کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں کرنی چاہئے۔ آج سسکتی ہوئی انسانیت کو جس آفاقی منشور کی ضرورت ہے، اس کا سرچشمہ صرف ایک ہے اور وہ ہے سیرت ِ سرور ِ دو عالمﷺ …یعنی اُمّ الحقوق کی پاسداری!!