• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اُمّ الحقوق

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اُمّ الحقوق

محمد عطاء اللہ صدیقی​
فرائض کے بغیر حقوق کا تصور غیر اسلامی ہے!
دور ِ حاضر کا انسان اپنی آئینی، سیاسی، سماجی اور اخلاقی ذمہ داریوں کو ’ حقوق‘ کی زبان میں سمجھنے کی کاوِش میں مصروف ہے۔ حقوق و فرائض باہم ناگزیر ہیں، ایک کا تصور دوسرے کے بغیر ممکن نہیں۔ گویا ہر ایک ’حق‘ کے ساتھ ، ایک فرض ، لازماً ملحق ہے۔ فرائض کے تعین کے بغیر مجرد حقوق کا تصور ایک بے معنی نظریہ یا علمی بحث سے زیادہ نہیں ہے!!
گذشتہ پچاس برسوں میں انسانی حقوق کے نظریہ کو جو پذیرائی ملی ہے، ماضی میں ا س کا تصور بھی محال تھاـ۔ فرد اور ریاست کا باہمی تعلق ہو، افراد کے مابین معاملات باہمی کی بات ہو، مرد و زن کے باہمی اِرتباط کا معاملہ یا پھر ایک ریاست کے اکثریتی و اقلیتی طبقات کے درمیان عدل و انصاف پر مبنی تعلقات کا مسئلہ ہو،ان سب معاملات کے متعلق حقوق کے مختلف دائرے قائم کئے جارہے ہیں۔ مثلا ً فرد کے آئینی حقوق، انسانی حقوق، عورتوں کے حقوق، بچوں کے حقوق، اقلیتوں کے حقوق وغیرہ۔
اسلام کا حقوق و فرائض کے متعلق ایک واضح اور متوازن نظام موجود ہے جس میں سیکولر حقوق جیسی افراط و تفریط نہیں پائی جاتی۔ اسلام نے حقوق ُاللہ اور حقوق ُالعباد کے دو وسیع دائروں میں حقوق و فرائض کے پورے نظام کو مقید کردیا ہے۔ یہ دونوں دائرے الگ وجود بھی رکھتے ہیں اور ناقابل انفکاک حد تک ایک دوسرے میں باہم پیوست بھی ہیں۔ حقوق اللہ کی تفہیم کے بغیر حقوق العباد کا اِدراک ممکن نہیں ہے۔
سیکولر اور اسلامی نظریہ میںاس مسئلہ کے متعلق ایک اُصولی فرق ہے۔ آج کل کے سیکولر نظریے میں حقوق کے غیر معمولی تذکرہ اور تشہیر کے ذریعہ فرائض کی نشاندہی کی جاتی ہے۔ گویا ان کے ہاں اصل زور’حقوق‘ پر ہی ہے، فرائض محض ان ’حقوق‘ کی پاسداری کا منطقی نتیجہ ہیں۔ مگر اسلامی نظریہ کی روح کو پیش نظر رکھا جائے تو یہاں فرائض کو اوّلیت کا مقام حاصل ہے۔ گویا فرائض کی انجام دہی درحقیقت ’حقوق‘ کی عادلانہ پاسداری کی صورت میں منتج ہوتی ہے۔ اسلام میں فرائض کا تذکرہ ، یہی وجہ ہے، بالعموم حقوق کے تذکرہ سے زیادہ ملتا ہے۔ مختصراً یہ کہ سیکولر نظام میں ’حقوق‘ ایسا معیار ہیں جن پر فرائض کو پرکھا جاتا ہے جبکہ اسلام میں اصلاً فرائض اَخلاقی معیار ہیں جن کی بنیاد پر حقوق کا تعین کیا جاتاہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ریاست کے حقوق اُمّ الحقوق ہیں یا رسالتؐ کے ؟
حقوق و فرائض کے دائروں میں اہم ترین دائرہ فرد اور ریاست کے درمیان تعلق کی نوعیت کے حوالہ سے تشکیل پاتا ہے۔ ایک فرد کے جو حقوق ہیں، وہ ریاست کے فرائض ہیں۔ مثلاً ایک فرد کا یہ حق ہے کہ ا س کے جان و مال کی حفاظت کی جائے، اس کو آئین کے تحت میسر آزادیوں کو یقینی بناتے ہوئے ان کا تحفظ کیا جائے، اس کی زندگی اور مال کو جہاں جہاں سے خطرات درپیش ہوں، ان کا قلع قمع کیا جائے، اس کے جائز حقوق کی پامالی کی صورت میں اس کی داد رَسی کی جائے او راسے انصاف مہیا کیا جائے۔ فرد کے یہی حقوق ریاست کے اہم ترین فرائض میں شامل ہیں۔ اس کے برعکس ریاست ایک مجرد سیاسی وجود (ادارہ) ہونے کے باوجود کچھ حقوق رکھتی ہے جن کا تحفظ فرد کی ذمہ داری یا قانونی فریضہ ہے۔ ریاست اپنے فرائض کی انجام دہی اَحسن طریقے سے نہیں کرسکتی، اگر اس کے حقوق کا تحفظ یقینی نہ بنایا جائے۔
ریاست کا اہم ترین حق یہ ہے کہ ا س کی سرحدوں کی حفاظت کی جائے، ا س کے قوانین پر عمل کیا جائے اور اس کی اندرونی حدود میں امن عامہ کا اتباع عمل میں لایا جائے۔ ریاست کے حقوق کا درجہ محض اَخلاقی سطح پر نہیں ہے، بلکہ قانونی ہے ۔
یہی وجہ ہے اس کے حقوق کی خلاف ورزی قانونی طور پر قابل سزا ہے۔ چونکہ ریاست لاکھوں کروڑوں افراد کی اجتماعیت کی نمائندہ ہے، اس کے وجود و بقا پر کروڑوں شہریوں کی زندگیوں کا انحصار ہوتا ہے لہٰذا کسی بھی فرد کی طرف سے ریاست کے وجود کے خلاف معمولی سی کارروائی کے لئے بھی سخت ترین سزا (موت) تجویز کی جاتی ہے۔ ریاست کے خلاف سرگرمی کو عظیم ترین غداری (High Treason) کا نام دیا جاتا ہے۔ اس جرم کی سزا دورِجدید کی ریاستوں میں بلااِستثناء موت ہی ہے۔ جدید سیکولر ریاست کے آئینی و قانون اسلوب میں بات کی جائے تو ریاست کے حقوق کو بلا شبہ ’اُمّ الحقوق‘ کا درجہ حاصل ہے۔
اسلامی نظام میں ریاست کی بجائے رسالتؐ کے حقوق ’اُمّ الحقوق‘ کا درجہ حاصل ہے۔ کیونکہ ریاست اسلام میں مقصود بالذات نہیں ہے بلکہ یہ رسالت کی طرف سے انسانیت کی فلاح کے لئے وضع کردہ ضابطوں کو عملی جامہ پہنانے کا ایک ذریعہ ہے۔ چونکہ Ends (نصب ُالعین) کو ہمیشہ Means (ذرائع) پر فوقیت حاصل ہوتی ہے، لہٰذا منطق کا تقاضا یہ ہے کہ ریاست کو رسالت کے مقابلے میں ثانوی یا کمتر حیثیت حاصل ہو۔ اگر ریاست اور رسالت کے تعلق پر غور کیا جائے تو یہ تعلق ’کل‘ اور ’جز‘ کے درمیان کا تعلق ہے۔ رسالت ’کل‘ او رریاست ’جز‘ ۔ رسالت ریاست کے بغیر بھی اپنا وجود قائم رکھ سکتی ہے جیسا کہ رسولِ اکرمﷺ کے مکی دور میں ہوا۔ مگر ایک اسلامی ریاست کا ’رسالت‘ کے بغیر تصور ناممکن ہے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے ، جیسا کہ دورِجدید کی سیکولر ریاست کا وجود اس کے آئین کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ آئین ہی اس کے مختلف اداروں کے فرائض منصبی کا تعین کرتا ہے۔ ’رسالت‘ ہی اسلامی ریاست کے آئین کا اصل سرچشمہ و مآخذ ہے۔ لہٰذا سرچشمہ کی عدم موجودگی میں ریاست کا قیام ممکن ہی نہیں۔ ریاست ایک ماورا اور برتر تصور ہے جس کے مقاصد کا دائرہ کسی خاص خطہ ٔ ارضی کی بجائے پوری انسانیت یا کائنات تک پھیلا ہوا ہے۔ اسلامی ریاست ایک خاص علاقے میں قائم ہونے کے باوجود پوری انسانیت کی فلاح کا عظیم نصب ُ العین کبھی بھی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہونے دیتی۔
اسلامی نظریہ کے مطابق رسالت کے حقوق کا حقیقی مظہر محسن انسانیت حضرت محمد مصطفیﷺ کی ذات ِاقدس ہے۔لہٰذا جناب رسالت ِ مآبؐ کے مسلمانوں پر جو حقوق ہیں، وہی درحقیقت ’اُمّ الحقوق، ہیں۔ یہ اُمّ الحقوق ا س بنا پر ہیں کہ باقی تمام ’حقوق‘ کا یہ نہ صرف سرچشمہ ہیں بلکہ ان کے تعین کا اصل معیار بھی ہیں۔ اسلامی ریاست چونکہ رسالت کے نصب ُالعین کے تابع ہے لہٰذا اس کے اہم ترین فرائض میں سے ’اُمّ الحقوق‘ کا تحفظ بھی ہے۔ ا گرریاست کے وجود کے خلاف کوئی کارروائی High Treason کا درجہ رکھتی ہے، تو رسالت کے خلاف کوئی توہین آمیز اقدام اس سے کہیں بڑھ کر سنگین اور قابل سزا ہے۔ اسلامی ریاست میں ’اُمّ الحقوق‘ کا تحفظ محض ریاست کی ذمہ داری ہی نہیںہے، افراد بھی اس ذمہ داری میں برابر کے شریک ہیں۔ یہی وجہ ہے خود رسالت ِمآبؐ کی حیاتِ اقدس کے دوران بعض صحابہ کرامؓ نے ان ’حقوق‘ کی بے حرمتی کے مرتکب افراد کو موت کے گھاٹ اُتار دیا، اگرچہ بعد میں انہیں تائید رسالتؐ ( یا ریاست) بھی میسر آگئی۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
انسانی حقوق کے حوالے سے مغرب کا فکری جبر
’اُمّ الحقوق‘ کے بارے میں معروضی رائے قائم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ان کو اسلامی ریاست کے وسیع تر سیاسی تصور اور غرض و غایت کی روشنی میں دیکھا جائے۔ مغربی ذہن کی سب سے بڑی خامی ہی یہ ہے کہ وہ اسلامی ریاست کے ’’اداروں ؍تصورات‘‘ کو مغربی سیکولر ریاست کے معیارات پر جانچنے کا عادی ہے۔ یہ ان کا علمی تکبر اور عقلی رعونت یا کوتاہ فکری ہے کہ وہ مغربی سانچوں سے باہر نظریات کے اِدراک و تفہیم سے قاصر و بے بس ہیں۔ انہوں نے فرض کر لیا ہے کہ مغرب کے ریاستی نظریہ کے علاوہ کوئی دوسرا تصور نہ تو قابل قبول ہے اور نہ ہی قابلِ عمل ۔ وہ اپنی اس فکری رعونت کے محل کے باہر جھانکنے کے لئے بھی تیار نہیں ہے، اس کی خواہش ہے کہ نوعِ انسانی اس کی اس آزاد خیالی کی غلامانہ اطاعت کے سامنے سرتسلیم خم کرے جو ان کی الحاد پرست عقل نے گذشتہ چند صدیوں کے دوران پروان چڑھائی ہے۔ ایک طرف مغرب آزادی ٔافکار، آزادیٔ ضمیر وغیرہ کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے مگر دوسری طرح دوسری اَقوام کو اپنی فکر سے اختلاف کا حق دینے کو بھی تیار نہیں ہے۔
اسلام اور مغرب کے سیاسی تصورات کا بنیادی اختلاف یہ ہے کہ اسلام کلیسا اور ریاست کی دوئی یا ثنویت کا قائل نہیں ہے۔ موجودہ سیکولر مغرب تک ہی یہ بات محدود نہیںہے خود عیسائیت کی بنیادی تعلیم میں دین و سیاست کی تفریق کا تصور موجود ہے۔ انجیل میں واضح طور پر یہ الفاظ ملتے ہیں ’’جو قیصر کا ہے وہ قیصر کو دو اور جو خدا کا ہے وہ خدا کو دو‘‘ یورپ کی موجودہ سلطنتیں اسی تصور پر قائم ہوئی ہیں۔ یہ تصور چونکہ عیسائیت اور سیکولر ازم دونوں میں مشترک ہے لہٰذا مغرب میں اسے جو والہانہ پذیرائی میسر آئی ہے وہ زیادہ تعجب انگیز نہیں ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ سلطنت اوردین کی تفریق کا یہ نظریہ جدید مغرب کا ’متفقہ مذہب ‘ ہے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ مگریہ تصورِ اسلام کے اساسی نظریات سے متصادم ہے۔ سید سلیمان ندوی صاحب کے الفاظ میں:
’’اسلام دین و دُنیا اور جنت ِ ارضی اور جنت ِ سماوی اور آسمانی بادشاہی اور زمین کی خلافت دونوں کی دعوت لے کر اوّل ہی روز سے پیدا ہوا۔ اس کے نزدیک عیسائیوں کی طرح خدا اور قیصر دو نہیں، ایک ہی شہنشاہ علیٰ الاطلاق ہے جس کی حدودِحکومت میں نہ کوئی قیصر ہے اور نہ کوئی کسریٰـ۔ اسی کا حکم عرش سے فرش تک اور آسمان سے زمین تک جاری ہے، وہی آسمان پر حکمران ہے، وہی زمین پر فرمانروا ہے‘‘ (سیرت النبیﷺ:جلد ہفتم، مقدمہ صفحہ نمبر ۴۵)
ایک اور مقام پر سیدسلیمان ندوی اس بات کو بے حد خوبصورت پیرائے میں بیان فرماتے ہیں:
’’اسلامی سلطنت ایسی سلطنت ہے جو ہمہ تن دین ہے یا ایسا دین ہے جو سرتاپا سلطنت ہے مگر سلطنت ِالٰہی، اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ اس سلطنت ِ الٰہی میں قیصر کا وجود نہیں۔ اس میں ایک ہی حاکم اعلیٰ و آمر مانا گیا ہے۔ وہ حاکم علیٰ الاطلاق اور شہنشاہ قادرِمطلق اللہ تعالیٰ ہے۔ آنحضرتؐ اس دین کے سب سے آخری نبیؐ اور پیغمبرؐ تھے اور وہی اس سلطنت کے سب سے پہلے امیر، حاکم اور فرماں روا تھے۔ آپؐ کے احکام کی بجاآوری عین احکامِ خداوندی کی بجا آوری ہے۔ ’’جس نے رسولؐ کی اطاعت کی، ا س نے خدا کی اطاعت کی‘‘ النسائ، آیت نمبر ۸… (ایضاً،صفحہ۱۱۰)
سلطنت ِالہیہ کوئی مافوق ُالفطرت یا مجرد تصور نہیں ہے جیسا کہ ناقدین اسلام کا خیال ہے۔ انبیائِ کرام کے ذریعے اس کا تعلق خالصتاً انسانی معاشرے یا زمین سے جوڑ دیا گیا ہے۔ رسالت بنیادی طور پر اللہ کی نمائندگیہے۔ مغرب کی جدید جمہوری ریاست بھی فکری اعتبار سے عوام کی حاکمیت ہے، اس کا اپنا وجود بذاتِ خود سرچشمہ ٔ اقتدار نہیں ہے۔ اگر عوامی نمائندگی پر مبنی ریاست کا تصور مجرد نہیں ہے تو ’خدائی نمائندگی‘ پر مبنی تصورِریاست کو مجرد کہنا منطقی طور پر درست نہیں ہے۔
ریاست اور رسالتؐ کے مابین اس بنیادی تعلق کوصحیح طور پر نہ سمجھنے کا نتیجہ ہی ہے کہ آج کا جدید سیکولر ذہن ریاست سے غداری کے جرم کے لئے سزائے موت کے اطلاق میں کوئی قباحت محسوس کرتا ہے نہ اسے غیر عقلی یا غیر انسانی سمجھتا ہے مگر یہی ذہن توہین رسالت کے جرم کے لئے موت کی سزا کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ سیکولر ذہن کا سب سے بڑا فکری مغالطہ ہی یہ ہے کہ وہ معاذ اللہ رسول (یا نبی) کو بھی عام فرد کی حیثیت سے دیکھتا ہے۔ اسی لئے وہ رسول کے لئے بھی انسانی حقوق کا وہی تصور رکھتا ہے جو کہ ریاست کے ایک عام شہری کو حاصل ہیں۔ مگر ایک اور پہلو سے بھی یہ بات تعجب انگیز ہے کہ یہی مغربی ذہن جو حقوق الانبیاء کی فوقیت تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے وہ ایک ملکہ یا بادشاہ کو ایک مافوق الفطرت ہستی سمجھتے ہوئے ان کے برتر حقوق کی فوقیت کا تہ دل سے قائل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برطانیہ کے قانون میں نظری طور پر آج بھی ملکہ یا بادشاہ کی توہین کے مرتکب کے لئے سزائے موت موجود ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ تاجِ برطانیہ کے تقدس کے بارے میں تو آگاہی رکھتا ہے مگر اس کی مذہب بیزار عقل ’تاجِ رسالت‘ کی عظمت کی قائل نہیں ہے۔ کیونکہ گذشتہ پانچ صدیوں میں مغرب کے عقلاء و سیاسی دانشوروں نے مذہب سے بیزاری بلکہ تحقیر کے جو جذبات و نظریات پروان چڑھائے ہیں، اس کے اثرات سے باہر نکلنا اس کے لئے بے حد مشکل ہے۔
عقل کی تمام خرافات کو ’منطقی و معروضی‘ سمجھنا اور الہامی تعلیمات کی صداقتوں کو توہمات قرار دینا جہاں روشن خیالی اور ترقی پسندی سمجھا جاتا ہو، وہاں حقوق ُالانبیاء کی معرفت کی توقع رکھنا عبث ہے۔ عالم اسلام کا جدید تعلیم یافتہ طبقہ فکر ِمغرب کے ان تضادات کا معروضی جائزہ لینے کی بجائے اُلٹا اسی اسلوب میں ا سلامی فکر کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے۔ درحقیقت وہ مغرب کی فکری محکومی میں اس قدر جکڑا ہوا ہے کہ مغربی معیارات کو مسترد کرنا ا س کے بس کی بات نہیںہے۔ وہ بظاہر جس آزادی ٔ اظہار پر نازاں ہے وہ آزادی مغربی فکر کی غلامی ہی کا دوسرا نام ہے کیونکہ اس کے نزدیک آزادی محض یہی ہے کہ اسلام یا مشرق کے روایتی تصورات پر کھل کر تنقید کی جائے۔ اگر کوئی مغربی تصورات کو تنقید کا نشانہ بنانا چاہے تو یکطرفہ آزادی پر یقین رکھنے والا یہ طبقہ اسے رِجعت پسند اور دقیانوسی خیال کرتا ہے۔ عالم اسلام کے معروف دانشور واشنگٹن یونیورسٹی کے پروفیسر سید حسین نصر امت ِ مسلمہ کے اس المیے کی نشاندہی فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:
"One of the worst tragedies today is that there has appeared recently in the Muslim World a newtype of person who tries consciously to imitate the obvious maladies of the west. Such people are not, for example, really in a state of depresion but try to put themselves into such in order to look modern." (The westersn world and its challenges to Islam P.3)
’’بدترین المیوں میں سے ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اسلامی دنیا میں حالیہ برسوں میں ایک ایسا جدید فرد (طبقہ) پیدا ہوگیا ہے جو شعوری طور پرمغرب کی خرابیوں کی نقالی کی کوشش کرتا ہے۔ یہ لوگ حقیقت میں کسی مایوسی کا شکار نہیں ہے مگر وہ ایسا محض اس لئے کرتے ہیں تاکہ ماڈرن (جدید) نظر آئیں‘‘
اسلام میں حقوق کا تصور دو واضح دائروں میں منقسم ہیں: حقوق اللہ اور حقوق العباد۔ حقوق اللہ کا تعلق عبادات سے ہے، ایک بندہ ہونے کے حوالے سے خالق کائنات کے سامنے اپنی عاجزی اور بندگی کا اظہار، حقوق اللہ کے دائرے میں شامل ہے۔ خالق کے مخلوق پر جو حقوق ہیں، اسلام ان کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے۔ خدائی احکامات پر عملدرآمد بھی انہیں حقوق میں شامل ہے۔ ایک فرد کے دوسرے فرد کے مقابلے میں حقوق کو، حقوق العباد کا نام دیا گیا ہے۔ وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو حقوق العباد کا دائرہ فرد اور فرد، فرد اور خاندان، فرد اور معاشرے اور فرد اور ریاست کے مابین تمام تعلقات و معاملات پر محیط ہے۔ یہی حقوق العباد ہے جو اسلام میں انسانی حقوق کی اصل اساس ہیں۔
اُمّ الحقوق یا حقوق الرسول، حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوںپر محیط ہیں۔ جس طرح اطاعت ُاللہ اور اطاعت ِرسول میںفرق نہیںہے، حقوق اللہ اور حقوق الرسول بھی ایک حقیقت کے دو نام ہیں۔ قرآن و سنت میں واضح طور پر رسول اللہﷺ کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت اور آپؐ کی نافرمانی کو اللہ کی نافرمانی قرار دیا گیا ہے۔ کعب بن اشرف یہودی کی گستاخی پر آپؐ نے فرمایا:
’’کون ہے جو کعب بن اشرف کو قتل کرے کیونکہ اس نے اللہ اور اس کے رسولؐ کو اذیت پہنچائی ہے، عربی کے الفاظ ہیں :’’فإنہ أذی اللّٰہ و رسولہٗ‘‘
رسول اللہﷺ کو اذیت پہنچانا اللہ کو اذیت پہنچانا اس لئے ہے کہ رسول ؐ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے ہیں۔ وہ اپنی بات نہیں کہتے بلکہ صرف وہی کچھ کہتے ہیں جس کا انہیں اللہ کی طرف سے حکم دیا جاتا ہے۔ اللہ کی بات کہنے پر جب انہیں اذیت دی جائے تو اس کا بالواسطہ مطلب یہی ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی گئی ہے۔ رسول اللہﷺ کی دوسری حیثیت یہ ہے کہ و ہ ایک انسان بلکہ خیر البشر ہیں۔ اس اعتبار سے بھی ان کے حقوق کی پاسداری اور تحفظ ضروری ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
انسانی حقوق کی درجہ بندی
انسانی حقوق کے بھی مختلف درجات ہیں۔ ایک ماں اور بیٹا اپنی نوع کے اعتبار سے دونوں انسان ہی ہیں مگر ماں کے حقوق کی اوّلیت اور فوقیت مسلمہ ہے۔ کوئی بھی مہذب معاشرہ والدین کے حقوق اور اولاد کے حقوق کو مساوی مرتبہ نہیں دے گا۔ اسی طرح استاد اور شاگرد کے حقوق میں واضح فرق ہے۔ والدین اور اساتذہ کے حقوق کے فائق ہونے کی اصل وجہ ان کی وہ خدمات ہیں جو وہ اپنے بچوں یا شاگردوں کے لئے انجام دیتے ہیں۔ انسانوں یا انسانیت کے لئے خدمات کی بنا پر حقوق کے ادنیٰ یا اعلیٰ ہونے کا تصور وابستہ ہے۔ ایک انسان کی حیثیت سے سب سے مقدم فرض اور سب سے مقدس خدمت کیا ہے؟ سید سلیمان ندوی کے الفاظ میں:
’’عالم کائنات کا سب سے بڑا مقدم فرض اور سب سے زیادہ مقدس خدمت یہ ہے کہ نفوسِ انسانی کے اَخلاق و تربیت کی اصلاح و تکمیل کی جائے‘‘ (سیرت النبیؐ، جلد اوّل، صفحہ ۱)
انسانی معراج و برتری کے اس آفاقی اصول کو پیش نظر رکھا جائے تو انبیاء اور رُسل کا مقام و مرتبہ بلاشبہ بلند ترین ہے کیونکہ اس پہلو سے ان کی خدمات کا موازنہ عام انسانوں سے نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ان نفوسِ قدسیہ کا ایک ایک لمحہ نوعِ انسانی کے اخلاق و تربیت کی اصلاح کے لئے جدوجہد کرتے گزرا ہے۔ جب انہوں نے انسانیت کے لئے مقدس ترین خدمات انجام دیں تو ان پر یہ احسان نہیں بلکہ ان کا استحقاق ہے کہ ان کے حقوق کا درجہ بھی عام انسانوںکے حقوق سے برتر ہو۔ وہ صحیح معنوں میں محسن انسانیت ہیں۔ انسانی معاشرے میںجو خیر، عافیت، نیکی، امن اور دیگر مثبت اَوصاف آج نظر آتے ہیں، یہ انہی مقدس ہستیوں کا صدقہ جاریہ ہے۔ انسانی معاشرہ آج بھی اِلحاد و مادیت کے باوجود، انسان دوستی، یا انسانی خدمات کو اعلیٰ ترین قدر کے طور پر پہچانتا ہے۔ آج بھی کسی فرد کے کارناموں کو انسانیت کی خدمت کے میزان میں تولا جاتا ہے۔ نوبل انعام دینے کے لئے بنیادی اصول ہی یہی ہے۔ نوبل انعام یافتہ سائنس دانوں یا علم وفن کے ماہرین کو ملنے والا اعزاز ان کی انسانیت کے لئے کی جانے والی خدمات کا ایک اعتراف بھی ہوتا ہے۔
اکیسویں صدی کے’ مہذب‘ انسان کے لئے ایک لمحہ ٔفکریہ ہے کہ وہ ان ماہرین کی انسانیت کے لئے خدمات کو خراج ِعقیدت پیش کرنا باعث ِ فخر سمجھتا ہے، مگر وہ انسانیت کے اصل محسنوں کی خدمات کا ان کے مقام و مرتبہ کے لحاظ سے اعتراف کرنے میں بخل سے کام لیتا ہے۔ آج کا انسان’انسانی حقوق‘ کو انسانی تہذیب کی معراج کا نام دیتا ہے۔ معمولی معمولی باتوں پر ’انسانی حقوق‘ کی خلاف ورزی کے الزامات عائد کئے جاتے ہیں۔ جدید مغرب کے وضع کردہ انسانی حقوق کی معمولی سی خلاف ورزی ہی کسی قوم کو وحشی اور غیر مہذب قرار دینے کے لئے کافی قرار پاتی ہے مگر انسانیت کے محسنوں کی تحقیر و توہین کو ’انسانی حقوق‘ کی خلاف ورزی ہی نہیں سمجھا جاتا۔ یہ تضاد آج کے انسان کے ضمیر کے لئے لمحہ ٔفکریہ ہے۔ انسانی خدمت کے جدید معیارات یا کسوٹی کو بھی پیش نظر رکھا جائے تو بلامبالغہ حضورِ اکرمﷺ محسن انسانیت ہیں۔ اس بات کا اعتراف بعض مغربی دانشوروں مثلاً کارلائل، مائیکل ہارٹ، برنارڈ شا وغیرہ نے بھی کھلے دل سے کیا ہے۔
انسانی حقوق کے محض اعلان و اعتراف سے ہی ان کا تحفظ ممکن نہیں ہے جب تک کہ ان کی خلاف ورزی کی مؤثر روک تھام نہ کی جائے۔ ضرورت پڑے تو انسانی حقوق کی خلاف ورزی پرسزا بذاتِ ِخود انسانی حقوق کے تحفظ کا ذریعہ ہے۔ جدید سیاسی فکر میں حق زندگی اہم ترین انسانی حق ہے۔ کسی فرد کو اس کی زندگی سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ اگر کوئی اس جرم کا مرتکب ہوتا ہے تو اسے قرارِ واقعی سزا دینا معاشرے میں عدل و انصاف اور سکون و آشتی کے قیام کا اوّلین تقاضا ہے۔ ایک عام آدمی کی بلاجواز توہین و تحقیر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتی ہے۔ آج کی جدید ریاستیں Defamationاور Libel یا اِزالہ ٔ حیثیت ِعر ُفی کے قوانین کے نفاذ کی سخت پابندی پر یقین رکھتی ہیں۔ انسان تو اپنی جگہ ، جدید مغرب حیوانات کے حقوق کے متعلق بھی بے حدحساس ہوچکا ہے۔ مٔورخہ ۷ جنوری ۲۰۰۰ء کے ’’نوائے وقت‘‘ میں یہ خبر شائع ہوئی کہ انگلینڈ میں ایک شخص کو محض اس جرم کی پاداش میں تین سال سزا سنائی گئی ہے کہ اس نے اپنی ساس کی بلی کو غصہ میںکھڑکی سے باہر پھینک دیا تھا۔ یورپ کے بعض ملکوں میں اپنی منکوحہ سے جماع بالجبر (Marital rape) کے لئے عمر قید کی سزا تک موجود ہے۔ مگر یہی یورپ انبیاء کی توہین کے لئے کسی قسم کی سزا کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔ حالانکہ جب ایک نبی کو محسن انسانیت تسلیم کیا جاتاہے تو اس کی توہین کو انسانیت کے خلاف جرم تصور کیا جانا ضروری ہے۔ ’انسانیت کے خلاف جرم‘ کے لئے اگر موت کی سزا دی جائے، تو یہ عین انصاف کا تقاضا اور جرم کی سنگینی کے عین مطابق ہے۔ اگر ہم رسول اکرمﷺ کو محسن انسانیت سمجھتے ہیں تو اس کا منطقی نتیجہ صرف یہی ہے کہ آپؐ کی توہین و تنقیص کو انسانیت کے خلاف جرم تصور کیا جائے۔ ورنہ ہماری عقیدت محض ایک لفاظی اور زبانی جمع خرچ سے زیادہ نہیں ہوگی۔ اُمّ الحقوق کے تحفظ کے لئے سخت ترین سزا بھی کم ہے۔ انسانیت کا اگر اجتماعی ضمیر زندہ ہے تو اُمّ الحقوق کی خلاف ورزی کے لئے موت کی سزا کو عین انصاف قرار دیا جانا چاہئے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
انسانی حقوق کا سرچشمہ کیا ہے؟
انسانی حقوق کا سرچشمہ (Source) کیا ہے؟ انسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹنے والے مغربی دانشوروں کے خیالات کا مطالعہ کریں تو اس اہم سوال پر بھانت بھانت کی بولیاں جواب میں ملتی ہیں۔ انسانی حقوق کے علمبردار قدیم ترین فلاسفرز اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ انسانی حقوق کا سرچشمہ ’’انسانیت‘‘ یا انسانی فطرت (Human Nature) ہے۔ ان کے خیال میںجس طرح قانونی حقوق کا سرچشمہ ’قانون‘ ہے اور معاہداتی حقوق معاہدوں سے جنم لیتے ہیں، اس طرح انسانی حقوق بھی ’انسانی فطرت‘ سے اَخذ شدہ ہیں۔ مگر یہ ’انسانی فطرت‘ بذات ِخود کیا ہے؟ اس کی حدود کیا ہیں؟ ان سوالات کا جواب کہیں نہیں ملتا…!!
انسانی حقوق کا ایک جدید دانشور جیک ڈنلے Jack Donnelly اسی پریشانی کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’کلاسیک نظریات اور لٹریچر میںاس مسئلے پر بہت کم روشنی ملتی ہے‘‘ جان لاک جولبرل یورپ کے اہم ترین سیاسی فلسفیوں میںسے ایک ہے، وہ انسانی حقوق کے ذرائع کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’خدا اپنی لامحدود حکمت اور رحمت کے باوصف ہمیں فطری حقوق عطاکرتا ہے ۔ وہ اس مفہوم میں’فطری‘ ہیں کہ وہ خدا کی طرف سے ہمیں عطا کردہ فطرت کا حصہ ہیں‘‘ـ۔ ایک اور معروف مفکر پین Paine کہتا ہے کہ ’’فطری حقوق کے لئے ثبوت کی ضرورت نہیں وہ اظہر من الشمس Self Evident ہیں‘‘۔فرانسیسی انقلاب کے نتیجے میںجو اعلامیہ (ڈکلریشن) پیش کیا گیا اس میں یہ مجرد جملے ملتے ہیں۔ ’’انسان اپنے حقوق کے اعتبار سے آزاد اور برابر پیدا ہوئے ہیں، اور وہ آزاد اور مساوی رہیں گے‘‘ ظاہر ہے ان تعلیمات سے انسانی حقوق کے سرچشمہ کا تعین نہیں کیا جاسکتا۔ انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کا میثاق Covenantدعویٰ کرتا ہے کہ ’’یہ حقوق عظمت ِ انسانی کی پیدائشی حیثیتسے اخذ ہوتے ہیں‘‘
حال ہی میں انسانی حقوق کے علمبردار بعض مغربی مفکرین نے اس فکری اُلجھائو کو سلجھانے کے لئے اس بات پر زور دینا شروع کیا ہے کہ ’’انسانی حقوق کی بنیاد انسانی احتیاجات Needs ہیں‘‘ غرضیکہ انسانی حقوق کے سرچشمہ کے بارے میں مغربی لٹریچر سے کوئی متفق علیہ یاشافی جواب تلاش کرنا بے حد مشکل ہے۔ انسانی عقل پر اندھا اعتماد کرنے والا مذہب بیزار مغرب اگر اس اہم مسئلے پر اتفاقِ رائے نہیں کرسکا تو یہ معاملہ حیرت انگیز نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ’’انسانی فطرت کیا ہے؟‘‘ اس سوال کا جواب انسانی عقل کے دائرئہ کار سے ہی باہر ہے۔ اس سوال کا صحیح علم تو اس فطرت کے ’خالق‘ ہی کو ہے۔ مغربی ’روشن خیال‘ عقل نے انسانی فطرت کے متعلق جو تازہ ترین فتویٰ جات صادر کئے ہیں، ان پر یقین کیا جائے تو انسانیت او رحیوانیت میں کوئی فرق قائم کرنا مشکل ہوجائے گا۔ کل تک ہم جنس پرستی کو غیر فطری بہیمانہ فعل سمجھنے والا مغرب آج اسے عین ’فطری‘ قرار دے چکا ہے۔ Gay اور Lesbian حقوق کی بنیاد پر ایک مرد کی مرد سے شادی اور ایک عورت کی عورت سے شادی کو برطانیہ ، سکنڈے نیویا اور دیگر یورپی ممالک میں باقاعدہ قانونی تحفظ عطا کیا جاچکا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اسلام کی نظر میں انسانی حقوق کا سرچشمہ قرآن و سنت ہیں!
خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا۔ اصل سوال یہ ہے کہ انسانی حقوق کا تعین کیسے کیا جائے؟ مغرب کے برعکس اسلام نے اس اہم سوال کا جواب ’انسانی عقل‘ کے سپرد نہیں کیا۔ اسلام کے نزدیک انسانی حقوق کا اصل سرچشمہ قرآن و سنت ہیں۔ اسلام کے نزدیک ’انسانی حقوق‘ وہ ہیں جن کا تعین اللہ اور اس کے رسولﷺ نے کردیا ہے، ا س کے علاوہ سب گمراہی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ انسانی حقوق کی محکم اَساس اللہ تعالیٰ کی حاکمیت و ربوبیتـ، شرف و تکریم انسانیت اور اولاد ِ آدم کی فطری مساوات کے اسلامی تصور پر ہی قائم ہوسکتی ہے۔ اسلام نے انبیاء علیہم السلام کو اولاد ِ آدم میں فضیلت عطا کی ہے، لہٰذا ان کے حقوق بھی افضل ہیں۔ انبیاء میں سے حضرت محمدﷺ کو ’خیر البشر و خیر الانامؐ‘ کا مرتبہ عطا کیا گیا ہے۔ لہٰذا یہ بات اسلام کے اساسی عقائد میں سے ہے کہ آپؐ کے حقوق ہی درحقیقت ’اُمّ الحقوق‘ یا ’خیر الحقوق‘ ہیں۔ رسول اللہﷺ کے جو حقوق مسلمانوں پر ہیں ان میں سے اہم ترین حق، اطاعت ِرسولؐ ہے۔اس حوالہ سے حقوقِ رسولؐ ہی گویا اسلام میں انسانی بنیادی حقوق کا اصل مآخذ و مصدر اور عظیم سرچشمہ ہیں۔
انسانی حقوق کا لہلہاتا چمن ریگزار میں بدل جائے گا اگر اس کے سرچشمہ سے مسلسل اسے آبیاری کا عمل جاری نہ رہے۔ کوئی بھی نظام اپنی اساس کی بقا و استحکام کے بغیر باقی نہیں رہ سکتا۔ مغرب کے نزدیک اگر انسانی حقوق کا سرچشمہ ’انسانی فطرت‘ ہے، تو حقوق کا یہ تصور باقی نہیں رہے گا اگر ’انسانی فطرت‘ کے مخصوص تصور کومحفوظ نہ کیا جائے۔ بالکل اسی طرح اسلام کی رو سے انسانی حقوق کا سرچشمہ قرآن و سنت ہیں۔ اگر ہم انسانی حقوق کو مستقل انسانی قدروں کا درجہ دینے میںکس قدر سنجیدہ ہیں تو ہمیں اعتراف کر لینا چاہئے کہ اس نصب ُالعین کو ہم اس وقت حاصل نہیںکرسکتے جب تک کہ ان کے اصل سرچشمہ کو محفوظ و مامون نہ کرلیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
محسن انسانیت کی ناموس کے تحفظ کے بغیر انسانی حقوق کا نعرہ کھوکھلا ہے!
محسن انسانیتﷺ کی ناموس کے تحفظ کے بغیر کسی انسانی روح کے حقوق کا تحفظ ناممکنات میں سے ہے۔ پوری انسانیت کی خیر وفلاح اس امر میں مضمر ہے کہ انسانی حقوق کے اس سرچشمہ کو ہر اعتبار سے صاف و شفاف رکھا جائے تاکہ یہ انسانی شعور اور انسانی فکر کی مثبت انداز میں آبیاری کا فریضہ انجام دیتا رہے۔ اس کے تحفظ کے لئے ہر سخت سے سخت اقدام سے بھی گریز نہیں کرنا چاہئے۔ اس مقدس سرچشمہ کے تحفظ اور انسانیت کی مستقل فلاح کو یقینی بنانے کا احساس ہی تھا کہ اسلام نے بارگاہِ ِرسالتؐ کے خلاف زبان درازی کرنے والے بدبخت افراد کے لئے سزائے موت بیان کی ہے۔ توہین رسالت دراصل کسی ایک فرد کی شخصی توہین کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ ایک انسانیت کش فتنہ ہے۔ یہ ایک شیطانی عمل ہے جس کا مقصد انسانیت کو فوزوفلاح اور خیرو صلاح کے عظیم ترین سرچشمہ سے محروم کرنا ہے۔قرآن مجید میںان فتنہ پردازوں کو حرم کے اندر قتل کرنے کی بھی اجازت دی گئی ہے جنہوں نے فتنہ برپا کرکے مسلمانوں کومسجد الحرام میں خدا کی عبادت سے محروم کردیا تھا۔ شتم رسول ایک عظیم فتنہ ہے، اس کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ انسانوں کو انبیاء جیسے نفوسِ مقدسہ سے متنفر کردیاجائے۔ خالق کائنات کے متعلق نفرت کے جذبات کو فروغ دینے سے بڑھ کر آخر بڑا فتنہ اور کیا ہوسکتا ہے؟ ایسے عظیم فتنہ کی سرکوبی کے لئے اگر سزائے موت کو جائز قرار دیا گیاہے تواس پر یہ ہنگامہ اور احتجاج کیوں برپا ہے؟
مغربی انسانی حقوق کے دانشوروں نے ’تصور ِ حقوق‘ کے متعلق فلسفیانہ موشگافیاں کی ہیں۔ انہوں نے کسی چیز کے ’حق ہونے‘ Something Being Right اور کسی چیز کے حق رکھنے Something Having a Right کو مختلف اُمور قرار دیا ہے۔ ان کے خیال میںکسی بات کے ’حق ہونے‘ کا تعلق اخلاقی اعتبار سے اس کے درست ہونے سے ہے۔ ان کے نزدیک کسی بات کے ’حق ہونے‘ سے کسی کے استحقاق کا جواز نہیں نکلتا۔ وہ زیادہ تر کسی چیز کے ’حق رکھنے ‘ کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ کیونکہ ’حق رکھنے ‘ سے خود بخود استحقاق کا پہلو نکلتا ہے اور جہاں استحقاق ہوگا، وہیں قانونی تحفظ بھی حاصل ہوگا۔ لیکن اسلام میں اُمّ الحقو ق کے مرتبہ کو دیکھا جائے تو مندرجہ بالا دونوں باتیں صداقت پر مبنی ہیں۔ اُمّ الحقوق اس قدر ’حق ہیں‘ کہ ان سے زیادہ اخلاقی اعتبار سے ’حق پر مبنی ‘کوئی اور بات نہیں ہوسکتی۔ چونکہ رسول اللہﷺ محسن انسانیت ہیں، اس اعتبار سے وہ انسانوں پہ حق رکھتے ہیں کہ ان کے حقوق کا احترام کیا جائے۔ اُمّ الحقوق اخلاقی اور قانونی دونوں اعتبار سے مسلمہ ہیں۔ اخلاقی اعتبار سے ان کی خلاف ورزی دین و دنیا میں رسوائی اور ذلت کا باعث بنے گی اور قانونی اعتبار سے ان کی خلاف ورزی کا مرتکب موت کی سزا کا مستحق ہے۔ لہٰذا اُمّ الحقوق قابل انصاف Justiceable ہیں۔ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295-C کی رو سے توہین رسالت کی سزا موت ہے، یہ سزا جرم کی سنگینی کے لحاظ سے بالکل درست ہے!
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
حب ِ رسولؐ ایمان کی اساس ہے!
جیسا کہ مذکورہ بالا سطور میں واضح کیا گیا ہے کہ اسلام میں حقوق الرسول ہی اُمّ الحقوق (حقوق کی ماں) ہیں۔ سرور ِکونین حضرت محمد مصطفی ﷺ کا اپنے اُمتیوں پر سب سے بڑا حق یہ ہے کہ آپؐ کی اطاعت کی جائے۔ اسلام میں اطاعت الرسول کی بنیاد حب ِرسول ہے نہ کہ خوف ِ رسولـ۔ اطاعت ِ رسول درحقیقت نتیجہ ہے حب ِ رسول کا ۔ دیکھا جائے تو اصل مقصود اطاعت ِ رسول ہے۔ جس کی تکمیل حب ِ رسول کے بغیر ہو ہی نہیں سکتی۔چنانچہ متعدد احادیث اس بات پر روشنی ڈالتی ہیں کہ حب ِ رسول اساسیات ِایمان سے ہے مثلاً
1۔امام بخاریؒ حضرت عبداللہ بن ہشام ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: ’’ہم نبی کریمؐ کے ساتھ تھے، آپؐ نے حضرت عمر ؓبن خطاب کا ہاتھ تھام رکھا تھا، حضرت عمرؓ نے آپؐ سے عرض کیا:
’’اے اللہ کے رسولؐ ! یقینا آپؐ مجھے میری جان کے سوا ہر چیز سے زیادہ پیارے ہیں‘‘ آپ ؐ نے فرمایا: ’’نہیں ، قسم ہے اس ذات کی، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اس وقت تک ایمان نہیں جب تک کہ میں تجھے تیری جان سے بھی زیادہ پیارا نہ ہوجائوں‘‘
عمر ؓ نے عرض کی: ’’اللہ تعالیٰ کی قسم! یقینا آپؐ مجھے میری جان سے بھی زیادہ پیارے ہیں‘‘
نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’اے عمرؓ! اب بات بنی ہے!‘‘
2۔امام بخاریؒ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم میں کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں بن سکتا، جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والد اور بیٹے سے زیادہ پیارا نہ ہوجائوں‘‘
3۔امام مسلمؒ حضرت انسؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’کوئی بندہ اس وقت تک مؤمن نہیںہوسکتا، جب تک میں اس کے نزدیک اس کے اہل، مال اور سب لوگوں سے زیادہ پیارا نہ ہوجائوں‘‘
قرآنِ مجید میں ان لوگوں کے لئے اللہ نے وعید فرمائی ہے جو اپنے عزیز و اقارب اور مال و تجارت کو اللہ اور اس کے رسولؐ سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔ سورۃ التوبہ میں ارشاد ِ ربانی ہے:
’’کہہ دیجئے اگر تمہارے باپ، تمہارے بیٹے، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں، تمہاری برادری، تمہارا مال جو تم نے کمایا ہے، تمہاری تجارت جس کے مندا پڑ جانے سے ڈرتے ہو، تمہارے رہنے کے مکانات جو تمہیں پسند ہیں، اللہ تعالیٰ، ا س کے رسولؐ اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ عزیز ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا حکم لے آئے اور اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘ (آیت :۲۴)
نبی کریمﷺ سے محبت کی علامات اور تقاضے کیا ہیں؟ اس بارے میں قاضی عیاض فرماتے ہیں:
’’نبی کریمﷺ کی سنت کی نصرت و تائید کرنا، آپ ؐ پر نازل کردہ شریعت کا دفاع کرنا، اور آپؐ کی حیاتِ مبارکہ کے وقت آپؐ پراپنی جان و مال فدا کرنے کی غرض سے موجود ہونے کی تمنا کرنا آپؐ کی محبت میں سے ہے‘‘ (شرح نووی)
حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں:
’’آپ ؐکی محبت آپؐ کی زیارت کے حصول اور اس سے محروم ہونے تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس میں آپؐ کی سنت کی حمایت و تائید، آپؐ پر نازل کردہ شریعت کا دفاع، اور اس کے مخالفوں کی سرکوبی شامل ہے‘‘ (فتح الباری، ۵۹)
سعودی عرب کے معروف عالم دین محمد بن صالح عثیمین فرماتے ہیں:
’’نبی کریمﷺ کا مسلمانوں پر یہ حق ہے کہ وہ آپؐ کی ذات ِ اقدس کے خلاف کی گئی زبان درازیوں کا مؤثر دفاع کریں اور خلاف ِ اسلام پراپیگنڈہ کا منہ توڑ جواب دیں‘‘
جنابِ رسالت ِمآبﷺ کی ذات ِ اقدس و منزہ پر رذیل دشمنانِ اسلام کے سب و شتم ، اہانت و تنقیص اور گستاخیاں شدید گراں گزرتی تھیں۔ آپؐ کی روحِ مقدس لطیف ترین اور پاکیزہ ترین تھی جو آپؐ کی ذات پر دشمنوں کی معمولی سی لسانی غلاظتوں کو بھی برداشت نہ کرسکتی تھی۔ آپؐ اس معاملے میں بے حد حساس واقع ہوئے تھے اور آخر حساس کیوں نہ ہوتے، آپؐ لوگوں کو نیکی کی طرف بلاتے تھے اور وہ جواباً کمینگی کا مظاہرہ کرتے تھے۔ شرافت ،پاکیزگی اور روحانی لطافت کی علامتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ نفوسِ قدسیہ بازاری زبان کی متحمل نہیںہوسکتیں۔ بعض اوقات تو آپؐ ایسی گستاخیوں پر تڑپ اٹھتے تھے:
1۔ایک شخص حضورﷺ کوبرا بھلا کہا کرتا تھا۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: کون ہے جو میرے دشمن کا بدلہ لے؟ حضرت خالد بن ولیدؓ نے عرض کیا: یارسول اللہؐ! میںاس کام کے لئے تیار ہوں۔ چنانچہ حضورؐ نے انہیںا س کام کے لئے بھیجا۔ انہوں نے اس گستاخ کو قتل کردیا۔ (الشفائ، ۲:۹۵۱)
2۔ ایک آدمی نے حضورﷺ کو سب و شتم کیا۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: کون ہے جو میرے دشمن سے بدلہ لے؟ حضرت زبیرؓ کھڑے ہوئے عرض کیا، یارسول اللہﷺ! میں حاضر ہوں… آپؐ نے اس گستاخ سے مقابلہ کیا اور اسے قتل کردیا۔ (ایضا ً)
اس طرح کے متعدد واقعات احادیث میں مذکور ہیں جس میں آپؐ بے حد کرب کی حالت میںپکار اٹھتے تھے: ’’کون ہے جو میرے دشمن سے بدلہ لے؟‘‘ آپؐ کے صحابہؓ سے آپؐ کی بے چینی دیکھی نہ جاتی تھی اور سچی محبت کا تقاضا بھی یہی تھا کہ اپنی ذات اور دنیا و مافیہا سے زیادہ عزیز مقدس ہستی کے لئے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر گستاخِ رسول کی زبان ہمیشہ کے لئے بند کردی جاتی۔ حضورؐ کی پکار صحابہ کرامؓ کے لئے آزمائش بھی تھی کہ وہ حب ِ رسول میں کتنے سچے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے بارگاہ ِنبوتؐ کے یہ پروانے ہر آزمائش میں سرخرو و کامیاب نکلے۔ صحابہ کرامؓ کا انگ انگ حب ِ رسول سے سرشار تھا!!
صحابہ کرامؓ کی جان نثاری ، وارفتگی او رمحبت کے مظہر واقعات سے تاریخ اسلام کے اوراق منور ہیں۔ روئے زمین پر کسی نبی، کسی بادشاہ، کسی سپہ سالار کے ساتھیوں نے اپنے محبوب پر اپنی محبتوں کے نذرانے اس طرح پیش نہیں کئے۔ چند ایک واقعات ملاحظہ ہوں:
1۔غزوۂ اُحد برپا ہے، وقتی طور پر مسلمان کفار کی یلغار کا مقابلہ نہ کرتے ہوئے پسپا ہو رہیہیں۔ نبی کریمؐ دشمنوں کے نرغے میں ہیں۔ آپؐ کے ایک محب صحابی حضرت طلحہ ؓ یہ حالت دیکھ کر آگے بڑھتے ہیں۔ وہ آپؐ کے سینہ ٔ مبارک کے سامنے اپنے سینے کو بطور ڈھال آگے کرتے ہیں تاکہ دشمن کے تیر آنے پر وہ نشانہ بنیں اور آنحضرتؐ کو کوئی گزند نہ پہنچے۔ تیروں کی بارش جاری ہے۔حشر کا معرکہ برپا ہے۔ سردار ِ انبیائﷺ مشرکوں کا جائزہ لینے کے لئے اپنے سر مبارک کو اٹھاتے ہیں تو ابوطلحہ ؓ آپؐ سے عرض کرتے ہیں: یارسول اللہﷺ! میرے ماں باپ آپ ؐ پر قربان! سر مبارک کو نہ اٹھائیے، ایسا نہ ہو کہ مشرکوں کا کوئی تیر آپ ؐ کو لگ جائے۔ میری چھاتی آپؐ کے سینہ ٔ مبارک کے لئے ڈھال ہے!‘‘
2۔اسی معرکہ ٔ اُحد کے متعلق ابن اسحق روایت کرتے ہیں:
’’ابودجانہ انصاریؓ نے رسول اللہﷺ کے لئے اپنے آپؐ کو ڈھال بنا دیا۔ نیزے ان کی پشت میں پیوست ہوتے رہے لیکن وہ آنحضرتؐ پر برابر جھکے رہے۔ یہاں تک کہ بہت سے نیزے ان کی پشت میںپیوست ہوتے گئے۔ انہوں نے نیزوں کی بارش کے باوجود حرکت نہ کی‘‘
3۔ابن اسحق نے بیان کیا ہے کہ غزوہ ٔ اُحد میںجب مشرک آنحضرتؐ کے قریب پہنچ گئے تو آپؐ نے فرمایا : ’’ہمارے لئے اپنی جان کون بیچتا ہے؟‘‘
’’زیاد بن السکن سمیت پانچ انصاری ؓ آگے بڑھے۔ وہ پانچوں انصاری ایک ایک کرکے رسول اللہ ﷺ کا دفاع کرتے ہوئے اپنی جانوں کو نثار کرتے رہے۔ یہاں تک کہ زیادؓ رہ گئے۔ وہ لڑتے رہے یہاں تک کہ زخموں نے انہیں گرا دیا۔ آنحضرتؐ نے فرمایا: ’’انہیں میرے قریب کرو‘‘ پھر ان کی موت کا وقت آپہنچا اور ان کا رخسار رسول اللہﷺ کے قدمِ مبارک پر تھا‘‘
4۔حضرت خنسائؓ ایک صحابیہ ہیں۔ ایک غزوہ میں انہیں چار بیٹوں کی شہادت کی خبر ملتی ہے مگر وہ دریافت کرتی ہیں: یہ بتائو رسول اللہﷺ کیسے ہیں؟
یہ تو محض چند واقعات ہیں۔ سیرت و مغازی کی کتب ایسے واقعات سے مزین ہیں، جنہیں پڑھ کر حرارت ِ ایمانی بھڑک اٹھتی ہے۔
ذرا آج غور فرمائیے، اکیسویں صدی کے آغاز پر امت ِ مسلمہ کی غیرت ِ ایمانی کی کیا صورت ہے۔ دشمنانِ اسلام کی گستاخیاں اور زبان درازیاں کہاں پہنچی ہوئی ہیں۔ جدید دور کی تمام تر روشن خیالیاں اہل یورپ کے دلوں سیپیغمبر ِاسلام کے خلاف صلیبی بغض کی سیاہیوں کو دھو نہیں سکیں۔ تکریم آدم کے ڈھنڈروچی ایک ارب سے زیادہ مسلمانوں کی آنکھوں کے نو ُر اور دلوں کے سرور پیغمبر ِ اسلامؐ کے خلاف ہرزہ سرائی اور سب و شتم کے مرتکب ملعون سلمان رشدی کی حفاظت پر سالانہ کروڑوں روپے خرچ کر رہے ہیں۔ کہیں تسلیمہ نسرین جیسی گستاخ عورت کو انسانی حقوق کے نام پر پناہ دی جاتی ہے تو کہیں کسی اور شاتم رسول کی پیٹھ ٹھونکی جاتی ہے۔ کہیں سلامت مسیح، رحمت مسیح جیسے گستاخانِ رسول کو یورپ کی خوشنودی کے حصول کیلئے عدالتوں سے باعزت بری کروا کر فرار کرایا جاتا ہے۔
آج جناب رسالت ِمآب ؐ ہمارے درمیان میں نہیں ہیں کہ ہمیں آواز دیں ’’کون ہے جو میرے دشمن سے مجھے بچائے‘‘ مگر کیا ہماری روحیں بھی مردہ ہوچکی ہیں جو روحِ محمدؐ کی پکار کو محسوس نہیں کرسکتیں؟ نبی مکرم کے جن پروانوں کی روحیں ایمان کی تجلی سے اب بھی روشن ہیں وہ جناب رسالت ِ مآب ؐ کا پیغام سن رہے ہیں۔
مفکر ِاسلام سید ابوالحسن علی ندوی کا انتقال ۳۱ دسمبر ۱۹۹۹ء کو نئی صدی کے آغاز سے چند منٹ قبل ہوا۔ ان کے حوالے سے روزنامہ ’’جنگ‘‘ (۳ جنوری ۲۰۰۰ئ) میں معروف صحافی جناب ہارون الرشید نے کالم لکھا۔ یہ کالم سید ابوالحسن علی ندوی کی خواب میں جناب رسالت ِ مآبؐ کی زیارت کی تفصیل پرمبنی ہے۔ اس خواب میں آپؐ نے مولانا ندوی صاحب سے دریافت کیا تھاکہ ’’تم نے میری حفاظت کا کیا انتظام کیا؟‘‘ یہ واقعہ ہارون الرشید کو سپریم کورٹ کے شریعت بنچ کے جج ڈاکٹر محموداحمد غازی نے سنایا، انہیں اے کے بروہی مرحوم نے سنایا تھا۔ اس کالم کے چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیے:
’’یہ آٹھویں عشرے کا ذکر ہے جب مدینہ منورہ سے جنرل محمد ضیاء الحق کے رفیق کار جناب اے کے بروہی نے ان سے رابطہ کیا اور بتایا کہ مولانا ابوالحسن علی ندوی صاحب جدہ سے بھارت جاتے ہوئے نصف دن کے لئے کراچی میں قیام کریں گے۔ وہ ایک انتہائی پیغام لے کر آرہے ہیں لہٰذا صدر راولپنڈی سے کراچی پہنچ کر ان سے مل لیں… جنرل ضیاء الحق نے فورا ً ہی آمادگی ظاہر کی۔ حجاز سے اے کے بروہی بھی ان کے ساتھ آئے۔
مدینہ منورہ میں ا ے کے بروہی نے مولانا ابوالحسن علی ندوی صاحب کو یکایک اس حال میں دیکھا کہ اضطراب ان کے پورے پیکر سے پھوٹ رہا تھا… ابوالحسن علی ندوی صاحب ایسے لوگ اپنے اضطراب کا راز بیان نہیں کیا کرتے لیکن اے کے بروہی غالباً اسی لئے مدینہ منورہ بلائے گئے تھے کہ پیغام سنیں او رپہنچا دیں۔ ابوالحسن صاحب جنہیں محبت سے علی میاں کہا جاتا تھا، نے خواب میں سرکارِ دوعالمﷺ کی زیارت کی تھی اور عالی مرتبتؐ نے ان سے خواب میں یہ پوچھا کہ انہوںنے آپؐ کی حفاظت کا کیا انتظام کیا ہے؟ جیسا کہ بعد میں علی میاں نے بیان کیا، وہ مضطرب ہو کر اٹھ بیٹھے۔ لیکن کچھ دیر میں دوبارہ سوئے تو پھر سرکارؐ کی زیارت ہوئی اور آپؐ نے دوسری بار سوال کیا: تم نے میری حفاظت کا کیا انتظام کیا ہے؟
رسول اللہﷺ کے دونوں اُمتی اضطراب، حیرت، رنج اور تعمیل کی آرزو کے ساتھ بہت دیر تک اس سوال پر غور کرتے رہے کہ سرکارؐ کے ارشاد کا مفہوم کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ نور الدین زنگی کا سا معاملہ نہ تھا جب دو بدبخت یہودیوں نے مرقد مبارک میں نقب لگانے کی جسارت کی تھی۔ اب اس اشارے کا مفہوم کچھ اور تھا۔ آخر کار وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ اس معاملے کو عالم اسلام کی سب سے بڑی سپاہ کے سردار جنرل محمد ضیاء الحق کے سپرد کردیا جائے۔ ان کے نزدیک اس پیغام کا مطلب یہ تھاکہ سرکارؐ کی سرزمین بالخصوص اور عالم اسلام بالعموم خطرات سے دوچار ہے… ایک سادہ، سچے اور کھرے آدمی نے، سارا عرب جس کے حسن بیان کا مداح تھا، صاف اور آسان الفاظ میں اپنا خواب دہرایا۔ خواب بیان کرتے ہوئے ۷۳ سالہ عالم دین رو دیا۔ گداز اور درد کی شدت سے شاید اس کا پورا پیکر کانپ رہا ہوگا۔ بروہی روئے اور محمد ضیاء الحق بھی روئے کہ دونوں گریہ کرنے والے آدمی تھے۔ لیکن جنرل کے لئے یہ فیصلے کی ساعت تھی وہ زیادہ دیر رو نہ سکتا تھا۔ پانچ لاکھ فوج اور ایٹمی پاکستانی کے سربراہ نے اپنے آنسو پونچھے، پھر انکسار اور عاجزی لیکن محکم لہجے میں انہوں نے کہا کہ اگر آنجناب کو پھر حضورؐ کی زیارت نصیب ہو تو نہایت ادب سے عرض گزاریں کہ پاکستانی فوج کا آخری سپاہی تک کٹ مرے گا لیکن مدینہ ٔ منورہ اور حرمین شریفین پر آنچ نہ آنے دے گا‘‘ (روزنامہ ’’جنگ‘‘ ۳ ؍جنوری ۲۰۰۰ئ)
مولانا علی میاں اور جناب اے کے بروہی نے رسالت ِ مآبؐ کے ارشادِ مبارکہ کی جو تعبیر نکالی، ممکن ہے وہ درست ہو، لیکن راقم الحرو ف کا ذہن ایک دوسری تعبیر کا میلان رکھتا ہے۔ جناب ہارون الرشید کے بقول جب مولانا علی میاں نے خواب میں نبی کریمﷺ کی زیارت کی تو اس وقت ان کی عمر ۷۳ سال تھی۔ ۳۱ دسمبر ۱۹۹۹ء کو جب ان کا انتقال ہوا تو ان کا عمر ۸۴ برس کی تھی۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ خواب گیارہ سال قبل یعنی ۱۹۸۸ء کے دوران دیکھا گیا۔ ۱۹۸۸ء میں ملعون رشدی ’’شیطانی آیات‘‘ مکمل کرچکا تھا یاغالباً اس کا پہلا ایڈیشن مارکیٹ میں آچکا تھا۔
مولانا سید ابوالحسن علی ندوی قلمی میدان کے عظیم شہسوار تھے، حضور ِاکرمﷺ کا خواب میں ان سے یہ سوال! ’’تم نے میری حفاظت کا کیا انتظام کیا ہے؟‘‘ ا س بات کی طرف اشارہ تھا کہ مولانا علی میاں نے شاتم رسول ملعون رشدی کی ہرزہ سرائی اور زبان درازی سے آپؐ کی حفاظت کا کیا انتظام کیا‘‘ آپؐ کا مولانا علی میاں سے یہ تقاضا ان کے ادیب ہونے کی وجہ سے زیادہ قرین قیاس ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ کسی ملک کے حکمران نہیں تھے کہ جن سے سعودی عرب یا عالم اسلام کی حفاظت کا تقاضا کیا جاتا۔
لفظی اور معنوی اعتبار سے جناب رسالت ِ مآب کا یہ سوال حضرت حسان بن ثابتؓ کوکافروں کے ہجویہ اشعار کے مقابلے میں حضور اکرمﷺ کی مدح سرائی کے حکم سے خاصی مشابہت رکھتا ہے۔ حضرت ابوالحسن علی ندوی صاحب جیسے صاحب ِ قلم، محب ِ رسول سے یہ بجا طور پر توقع تھی کہ وہ ملعون رشدی کی خرافات کا جواب لکھیں۔ مزید برآں مذکورہ سوال کے الفاظ حضوراکرمﷺ کے ارشادات ’’کون ہے جو میرے دشمن سے مجھے بچائے؟‘‘ سے بھی خاصی مناسبت رکھتے ہیں او ریہ سوال بھی آپؐ اکثر کسی شاتم رسول سے تحفظ دلانے کے لئے صحابہ ؓ سے فرماتے تھے‘‘ (واللہ اعلم بالصواب)
راقم الحروف کا مولانا ابوالحسن علی ندوی کے خواب کی تعبیر کے متعلق میلانِ غالب یہی ہیـ۔ اگر اس خواب کی یہی تعبیر درست ہے تو راقم الحروف کو یقین کامل ہے کہ آج کے دور میں حب ِ رسول کا عظیم ترین تقاضا یہ ہے کہ حسان بن ثابتؓ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے سرور ِ کونین، خاتم الانبیاء حضور اکرمﷺ کی ذات ِ مقدسہ کے خلاف شیطانی ذرّیت ملعون رشدی اور دیگر شاتمانِ رسول کی مکروہ زبان درازیوں کا مقدور بھر جواب دیا جائے۔ اور سیرت ِ رسولؐ کی عالم کفر میں بھرپور اشاعت کی جائے تاکہ اسلام کے خلاف کی جانے والی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا مؤثر جواب دیا جاسکے۔ پیغمبر ِ اسلام ؐ کے خلاف کی جانے والی یہ سازشیں یہود و نصاریٰ کی بدحواسی کی غماز ہیں۔ اسلام یورپ اور دنیا کے دیگر ممالک میں بڑی تیزی سے مقبول ہو رہا ہے۔ اسلام کی اشاعت میں ایک بہت بڑی رکاوٹ متعصّب مسیحی و صہیونی مصنّفین کا جناب رسالت ِ مآب ؐکی ذات ِ برکات کے بارے میں غلط تاثر قائم کرنا بھی ہے۔ جونہی یہ تاثر ختم ہوگیا تو پھر یورپ اور امریکہ اسلام کی جھولی میں پکے پھل کی طرح آگریں گے اور قیامت سے پہلے پوری دنیا پر اسلام کے غلبہ کی پیشین گوئی عملی صورت بن کر سامنے آئے گی۔
اگرہم حقوق الرسول کو اُمّ الحقوق مانتے ہیں تو پھر اس فریضہ کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں کرنی چاہئے۔ آج سسکتی ہوئی انسانیت کو جس آفاقی منشور کی ضرورت ہے، اس کا سرچشمہ صرف ایک ہے اور وہ ہے سیرت ِ سرور ِ دو عالمﷺ …یعنی اُمّ الحقوق کی پاسداری!!
 
Top