• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اِسلامی ریاست کے اختیارات کامسئلہ

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
11۔ جو چیز قانون ہے، اُس کا نفاذ کیوں نہ ہو؟
غامدی صاحب اپنی کتاب ’میزان‘ طبع سوم، مئی ۲۰۰۸ء میں ’قانونِ عبادات‘ کے عنوان کے تحت روزے،قربانی سمیت تمام اسلامی عبادات کو ’قانون‘ قرار دیتے ہیں، چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ
1۔ ’’روزے کا یہ قانون مسلمانوں کے اِجماع اور تواتر عملی سے ثابت ہے۔‘‘ (ص:۳۶۹)
2۔ ’’قربانی کا جو قانون مسلمانوں کے اجماع اور تواتر عملی سے ہم تک پہنچا ہے ، وہ یہ ہے…‘‘ (ص:۴۰۵)
مزید
’’قربانی کا قانون یہی ہے‘‘ (ص:۴۰۶)
3۔ ’’قانونِ عبادت میں نماز، زکوٰۃ، قربانی، عمرہ، حج، روزہ اور اعتکاف شامل ہیں۔‘‘ (ص:۲۶۳ تا۴۰۵)
4۔’’زکوٰۃ کا قانون مسلمانوں کے اجماع اور تواتر عملی سے ہم تک پہنچا ہے۔‘‘ (ص:۳۵۰)
اب سوال یہ ہے کہ جب روزہ قانون ہے، حج قانون ہے اور قربانی قانون ہے تو ایک اسلامی حکومت اپنے ان ’قوانین‘ کو نافذ کیوں نہیں کرسکتی۔ سب جانتے ہیں کہ قانون چیز ہی ایسی ہوتی ہے جسے ہرریاست طاقت کے زور سے نافذ کرتی ہے۔ پھر کیا اسلامی ریاست اپاہج اور اتنی بے بس ہوتی ہے کہ وہ اللہ کے احکام و قوانین کی تنفیذ نہیںکرسکتی اور اس کے لیے طاقت استعمال نہیں کرسکتی۔
پھر اگر غامدی صاحب کی منطق درست مان لی جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہر اسلامی حکومت منافق ہوتی ہے یا اُسے منافق ہونا چاہئے کہ وہ اپنے ملکی قوانین میں سے جس قانون کو چاہے، طاقت سے نافذ کردے اور جس قانون کو چاہے ردّی کی ٹوکری میں پھینک دے اور اس کے لیے نہ وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہ ہو اور نہ بندوں کے سامنے۔ غور کیجئے یہ کتنا بھیانک تصور ہے اسلامی ریاست کے بارے میں جو غامدی صاحب کی کھوپڑی سے برآمد ہوا ہے۔
حاصل کلام یہ کہ غامدی صاحب کا یہ دعویٰ بے اصل اور خلافِ اسلام ہے کہ ایک اسلامی ریاست نمازاور زکوٰۃ کے سوا کسی شرعی کام یا دین کے کسی ایجابی تقاضے کا حکم نہیں دے سکتی۔ البتہ اسلامی حکومت امر بالمعروف اور نہی عن المنکردونوں کے معاملے میں پہلے مرحلے میں تعلیم و تبلیغ اور ترغیب و تلقین سے کام لے گی لیکن جو لوگ اس سے اِصلاح پذیر نہ ہوں، اُن کی اصلاح کے لیے قانون کی طاقت استعمال کرے گی اور جس طرح کسی منکر کو مٹانے کے لیے وہ وسیع انتظامی اور صوابدیدی اختیارات رکھتی ہے، اُسی طرح معروف کا حکم دینے میں بھی اُسے وسیع اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔ اس معاملے میں وہ آج کے مہذب معاشروں کی حکومتوں کے مقابلے میں کم اختیارات کی حامل نہیں ہوتی۔
 
Top