:::::: اِن شاء اللہ ، میں یہ کر سکتا ہوں :::::::
بِسّمِ اللہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم
بِسّم اللہِ و الحَمدُ لِلَّہِ وحدہُ و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلٰی مَن لا نَبی بَعدَہُ والذی لَم یَتکلم مِن تِلقاء نَفسہِ و لَم یَکن کَلامُہ اِلَّا مِن وَحی رَبہُ
اللہ کے نام سے آغاز ہے اور تمام سچی تعریف صرف اللہ کے لیے ہے اور اللہ کی رحمت اور سلامتی ہو اُس پر جس کے بعد کوئی نبی نہیں اور جس نے نفس کی خواہش کے مطابق بات نہیں کی اور جس کی بات سوائے اُس کے رب کی وحی کے اور کچھ نہ ہوتی تھی
اللہ کے نام سے آغاز ہے اور تمام سچی تعریف صرف اللہ کے لیے ہے اور اللہ کی رحمت اور سلامتی ہو اُس پر جس کے بعد کوئی نبی نہیں اور جس نے نفس کی خواہش کے مطابق بات نہیں کی اور جس کی بات سوائے اُس کے رب کی وحی کے اور کچھ نہ ہوتی تھی
ہم لوگ عموماً اُن طاقتوں اور صِفات کو جان نہیں پاتے جو ہمیں ہمارے اکلیے لا شریک خلاق اور مالک اللہ جلّ جلالہ ُ نے دی ہوتی ہیں ، اور اپنی اس لاعلمی کی وجہ سے اکثر خود کو ہی مایوسی کی طرف دھکلیلتے رہتے ہیں اور ناکامی کی طرف بڑھتے رہتے ہیں ،
اپنے ہی اندر کی سوچوں سے کہیں زیادہ خطرناک منفی اثرات مرتب کرنے والی اسی قِسم کی حوصلہ شکن باتیں وہ ہوتی ہیں جو ہم لوگوں کو اپنے بڑوں یعنی والدین ، اساتذہ اور دیگربزرگوں کی طرف سے سننے کو ملتی ہیں کہ ایسی باتیں ہمارے اندر کچھ کرنے کی کوشش کرنے کا حوصلہ ہی پیدا نہیں ہونے دیتیں ،
ہمیں چاہیے کہ ہم ایسی باتوں پر اعتماد کرنے کی بجائے صِرف انہیں ایک نصیحت کی طرح سمجھنے کی کوشش کریں اور جس کام کو بھی کرنا چاہتے ہیں اس کے بارے میں ہر پہلو سے غور کریں ،
کہا جاتا ہے کہ کسی نے فرانس کے بادشاہ اور ایک بڑے فاتح نپیولین بونا پارٹ سے پوچھا کہ ‘‘‘ تُم نے اپنے فوجیوں میں کس طرح اتنا اعتماد پیدا کیا کہ وہ ایک بڑی فاتح فوج بن جائیں ’’’ تو اُس نے جواب دِیا ‘‘‘ میں نے تین باتوں کا جواب تین باتوں سے دِیا کرتا تھا ، اگر میرے سامنے کوئی یہ کہتا کہ ، میں یہ کام نہیں کر سکتا ، تو میں اُسے جواب دیتا ، کوشش تو کرو ، اور اگر کوئی یہ کہتا کہ میں جانتا ہی نہیں ، تو میں جواب دیتا کہ ، سیکھو ، اور اگر کوئی کہتا کہ یہ ناممکن ہے تو میں کہتا ، تجربہ کر کے دیکھو ’’’،
نیپولین کی یہ بات کافی سبق آموز ہے ، اور کوئی بھی ایسی اچھی اور سبق آموز بات جو ہمارے دِین کے احکام کے منافی نہ ہو اسے آزمانے اور اُس پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں ،اِن شاء اللہ ،
لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اندر اور باہر سے سنائی دینے والی ایسی باتوں کی طرف توجہ نہ دیں جو باتیں ہمارے حوصلے کو پست کرنے والی ہوتی ہیں ، بلکہ ہم اپنی ہمت کو قوی رکھنا چاہیے ،
پس سچی بات کرنے کے لیے یہ کبھی مت سوچیے کہ ’’’میری بات کون سنے گا ؟ ‘‘‘، اپنے اللہ پر توکل کیجیے اور سچی بات کہیے ،
کسی برائی کو روکنے اور اسے اچھائی سے تبدیل کرنے کی کوشش کرنے کے لیے ایسا مت خیال کیجیے کہ ’’’ میں اسے روک نہیں سکتا ، یا اسےبدل نہیں سکتا‘‘‘، بلکہ اپنے اللہ پر توکل کرتے ہوئے اپنی کوشش کرتے چلیے ،
اور نہ یہ سوچیے کہ آپ کی طاقت بہت محدود ہے ، یاد رکھیے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہمیں بہت سے قوتیں عطاء فرمائی ہیں ، جن کی پہچان کر کے انہیں اللہ کی تابع فرمانی میں رہتے ہوئے استعمال کیا جائے تو ہم اُن لوگوں سے کہیں زیادہ اچھے کام کر سکتے ہیں جِن کے دِلوں میں اِیمان نہیں ہیں ،
آج میں اور آپ اور تقریباً سارے ہی انسان جن گھروں میں رہتے ہیں اور جو آسائشیں استعمال کرتے ہیں کہ ایسے گھر اور یہ آسائشی سامان کچھ عرصہ پہلے تک چند انسانوں کے دماغوں کے تخلیات تھے ، ان لوگوں نے ہمت نہیں ہاری اور یہ سب کچھ بنا کر سامنے لے آئے ، بالکل اسی طرح میں اور آپ بھی بہت کچھ ایسا کر سکتے ہیں جسے کرلینا ہم آج نا ممکن یا انتہائی مشکل سمجھتے ہیں ، اورجیسا کہ میں نے ابھی کہا کہ اگر ہم لوگ اللہ کی رضا کے حصول کی نیت کے ساتھ ایسے کام کریں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مقرر کردہ حدود سے خارج ہونے یا کرنے والے نہ ہوں تو بلا شک و شبہ ہمارے لیے توسب سے زیادہ قوی اور قادر مطلق اور مسبب الاسباب ہمارے اللہ کی مدد بھی میسر ہے ،
کیا ہمارے اللہ نے ہمیں یہ خوش خبری نہیں دی (((((وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَهُوَ حَسْبُهُ:::اور جو کوئی بھی اللہ پر توکل کرتا ہے تو اللہ اُس کے لیے کافی ہوتا ہے)))))سُورت الطلاق (65)/آیت 3،
جس کے لیے اللہ کافی ہو جائے اُسے اپنے اچھے اور نیک کاموں کی تکمیل سے بھلا کون روک سکتا ہے ،
آیے ، اپنے دِلوں میں یہ عہد جماتے ہیں کہ اب ہم کسی اچھے اور نیک کام کے بارے میں یہ نہیں سوچیں گے کہ میں ایسا نہیں کر سکتا ، بلکہ اپنے آپ کو ، اپنے اھل خانہ وخاندان کو ، اپنے کام کاج کے ساتھیوں کو اور اپنے سارے ہی مسلمان بھائیوں اور بہنوں کو بھی یہ سکھائیں گے کہ ’’’ اِن شاء اللہ ، میں یہ کر سکتا ہوں ‘‘‘۔